مولانا محمد مغیرہ ٭
پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے کہ اس میں اکثر آبادی مسلمان قوم کی ہے اگرچہ اس مملکت کا طرز حکومت اسلامی نہیں جمہوری ہے۔ گو کہ اس مملکت کو معرضِ وجود میں آئے تقریباً ستر (۷۰) سال بیت چکے ہیں تاہم ابھی تک بجا طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ زمین پر ایک نئی مملکت وجود میں آئی ہے۔
مملکت کو چلانے والے اداروں میں ایک اہم ادارہ مقنّنہ ہے جس میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے دو ایوان ہیں۔ان ایوانوں کے ممبران انتخابی عمل سے گزر کر ان کے رکن بنتے ہیں۔
انھی ایوانوں کے ممبران کی اکثریت (دو تہائی) جو قانون اسمبلی میں پاس کر دے وہ ملک کا قانون کہلاتا ہے اور پورے ملک کو اسی کے مطابق چلایا جاتا ہے۔
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی اسمبلی سے پہلے مملکت پاکستان میں شراب پینا قانوناً جائز تھا اور اس کی خریدوفروخت کھلم کھلا ہوا کرتی تھی۔ (گوکہ پینے والے ہی پیتے تھے)۔ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی اسمبلی نے قانون سازی کی تو شراب سے متعلق بھی غور و خوض کیا گیا اور ارکانِ اسمبلی نے متفقہ طور پر مملکت پاکستان میں شراب پینا اور خریدنا بیچنا قانوناً جرم قرار دیا، جب کہ غیر مسلم اقوام کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔پھر بعد میں شراب یا کسی قسم کا نشہ کرنے والے کے لیے سزا بھی مقرر کر دی گئی۔
جب تک قانون ساز ادارے قومی اسمبلی نے شراب کی خرید و فروخت اور پینے پلانے کو ممنوع قرار نہیں دیا تھا اس وقت تک مملکت پاکستان میں نہ اس کی خرید و فروخت منع تھی ، نہ اس کا پینا پلانا جرم تھا اور نہ ہی شراب پینے والے پر کوئی سزا تھی، مگر جب قومی اسمبلی کے ممبران نے اس کو ممنوع قرار دیا تو پھر قانون بن گیا کہ اب مملکت پاکستان کے کسی حصہ میں اگر کوئی مسلمان شراب پیتے ہوئے پکڑا گیا توحوالہ پولیس ہو گا۔لیکن اس بات کو بھی ملحوظ رکھیں کہ شریعتِ اسلامیہ میں مسلمانوں کے لیے چودہ صدی پہلے سے ہی اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا حکم چلا آ رہا ہے کہ شراب کی خرید و فروخت اور اس کا پینا حرام ہے۔ شراب پینے والے کے لیے شریعت اسلامیہ میں سزا اور حد بھی مقرر ہے اگر قانون پاکستان میں شراب پیناجرم نہ بھی ہوتا تو بھی شراب مسلمانوں کے لیے حرام ہی تھی۔ اب اگر پاکستان کے قانون ساز ادارہ قومی اسمبلی نے باضابطہ شراب کے ممنوع ہونے، اس کی خرید و فروخت اور پینے پلانے کو جرم قرار دیا ہے تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ قومی اسمبلی کے ممبران کو کیا حق ہے کہ وہ کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دے۔ کیونکہ شراب کا حرام ہونا اﷲ و رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ہے اور قومی اسمبلی کے ممبران نے اﷲ و رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کو ہی مملکت پاکستان کے قانون کا حصہ قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ذہن میں رہے کہ سودی لین دین شریعتِ اسلامیہ میں نہ صرف حرام ہے بلکہ
سودی لین دین کرنااﷲ تعالیٰ سے جنگ کرنے کے مترادف ہے، مگر مملکت پاکستان میں ابھی تک سودی کاروبار برابر جاری ہے۔ سودی کاروبار کرنے والے کو کوئی سزا دینا تو درکنار، حکومت پاکستان بذاتِ خود سودخواری کے اڈّوں کو تحفّظ فراہم کرتی ہے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ چونکہ مملکت پاکستان کا قانون اسلامی نہیں بلکہ جمہوری اور پارلیمانی ہے اور پارلیمان نے ابھی تک اس کو ممنوع قرار نہیں دیا اس لیے سودی کاروبار برابر جاری ہے اگرچہ شریعت اسلامیہ میں سودی لین دین حرام ہے ۔ چونکہ قومی اسمبلی نے سودی کاروبار کو ممنوع قرار نہیں دیا اس کا مطلب یہ نہیں لیا جا سکتا ہے کہ سود حرام نہیں ہے بلکہ جو شخص بھی مسلمان ہے اس کو سود لینا، دینا حرام ہے۔ کیونکہ کسی چیز کے حرام یا حلال ہونے کا تعلق اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکامات کے ساتھ ہے۔ اسی طرح کسی شخص کا مسلمان ہونا یا کافر ہونا اس کا تعلق بھی کسی ملک کے قانون کے ساتھ نہیں بلکہ ہر وہ شخص جو دینِ اسلام کو قبول کرے اور پھر ضروریاتِ دین میں سے کسی بات کا انکار نہ کرے وہ مسلمان ہے اور اگر کوئی تمام ضروریاتِ اسلام یا ضروریاتِ اسلام میں سے کسی ایک کا انکار کرتا ہے تو وہ کافر ہے، دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ کسی ملک کا قانون اسے کافر کہے یا نہ کہے۔ جیسے عیسائی، یہودی، ہندو وغیرہ۔ یہ قومیں تقریباً تمام ضروریاتِ اسلام کی انکاری ہیں تو مسلمانوں کے ہاں یہ قومیں کافر ٹھہریں گی۔
اور اگر کوئی شخص اسلام کا کلمہ پڑھتا ہے، اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا ہے مگر ضروریاتِ اسلام میں سے کسی ایک کا انکار کرتا ہے تو وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ جیسے اﷲ تعالیٰ کی صفات میں سے کسی ایک صفت کا انکار، اگر باقی سارے دین کو مانتا ہے مگر مسلمانوں کے ہاں وہ کافر ہی ہو گا۔ ایسے ہی اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی و رسول حضرت نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ کا نبی و رسول مانتا ہے مگر کسی ایک صفت کا انکاری ہے تو وہ بھی اہلِ اسلام کے ہاں کافر ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم جیسے اﷲ تعالیٰ کے نبی و رسول ہیں ایسے ہی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بعثت کے اعتبار سے اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی و رسول ہیں۔ اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے آخری نبی و رسول ہونے پر قرآن مجید کی ایک سو آیات بینات اور دو سو احادیث رسول پر مشتمل دلائل و براہین قاطعہ کا ذخیرہ مسلمانوں کے پاس موجود ہے، جس کی روشنی میں مسلمانوں کایہ واضح عقیدہ ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ کے آخری نبی و رسول ہیں اور آپ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی و رسول مبعوث نہیں ہو گا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا صریح کفر ہے اور اس کفر کی تائید کرنے والا یعنی اس کی نبوت کو سچا مان کر اس کی پیروی کرنے والا بھی کافر ہے اور یہ اتنا بڑا کفر ہے کہ اس کے جواب میں امّت مسلمہ کے ردِّ عمل کا شدید ہونا نہایت فطری ہے۔
چنانچہ ہم تاریخ میں دیکھـے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی دو شخصوں نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ ایک اسود عنسی، دوسرا مسیلمہ کذاب۔ اسود عنسی کو دعویٰ نبوت کرنے کی پاداش میں خود آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے باوجود رحمۃ للعالمین ہونے کے اپنے ایک صحابی فیروز دیلمی رضی اﷲ عنہ کو چند صحابہ رضی اﷲ عنہم کی معیت میں اس کے قتل کرنے کا حکم تفویض کیا، جو اس کے قتل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اسود عنسی کے قتل کی خبر (ایک روایت کے مطابق) آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے رخصت ہونے سے ایک دن قبل آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی پہنچ گئی جب کہ مسیلمہ کذاب کو دعویٰ نبوت کرنے پر ایک بڑی جنگ کے ذریعہ کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کا بھاری نقصان بھی ہوا (تقریباً بارہ سوصحابہ شہید ہوئے جن میں سات سو حفاظ تھے)، مگر جب تک مسیلمہ فی النار نہیں ہوا اہلِ اسلام نے سکون نہیں لیا حالانکہ مسیلمہ کذاب اپنی نبوت کے دعوے کے ساتھ حضور علیہ اسلام کی نبوت و رسالت کی تصدیق بھی کرتا تھا، صرف حضور علیہ السلام کی نبوت و رسالت کی تصدیق کو کافی نہ سمجھا گیا بلکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد دعویٰ نبوت کرنے کے باعث صرف کافر ہی نہیں بلکہ مرتد سمجھ کر قتل کر دیا گیا۔ اور اسی مؤقف پر دور نبوی سے تا امروز مسلمانوں کے تمام طبقات صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین، مفسرین، محدثین، اولیاء، صوفیاء، علماء و مفتیانِ اُمّت سب متفق چلے آ رہے ہیں۔
ہر زمانہ کے علماء اپنے بعد آنے والے اُمّتِ محمدیہ کے افراد تک تسلسل اور تواتر کے ساتھ اس مؤقف اور عقیدہ کو پہنچانے کا فریضہ کمالِ احتیاط کے ساتھ سرانجام دیتے رہے۔ اسی تسلسل اور تواتر کی ایک کڑی ہے جس کو فتاویٰ عالمگیری جلد ۳، ص: ۲۶۳پر مسلمانوں کے مؤقف اور عقیدہ کا اظہار کرتے ہوئے بڑے واضح اور کھلے لفظوں میں ذکر کیا گیا ہے کہ :
’’اذ لم یعرف الرجل ان محمدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم آخر الانبیاء فلیس بمسلم و لو قال انا رسول اللّٰہ او قال بالفارسیۃ من پیغبرم بر ید من پیغام می برم یکفر‘‘
ترجمہ: اگر کوئی کہے میں اﷲ کا رسول ہوں یا فارسی میں کہے میں پیغمبر ہوں اور مراد ہو کے میں پیغام پہنچاتا ہوں (تب بھی) وہ کافر ہو جاتا ہے۔
اور اسی طرح اُمّتِ محمدیہ کے معروف عالم اور محدث ملا علی قاریؒ اُمّتِ محمدیہ کے اس عقیدہ اور مؤقف کے تواتر کی ترجمانی کرتے ہوئے شرح فقہ اکبر کے صفحہ ۲۰۲ پر یوں تحریر فرماتے ہیں:
’’دعوی النبوۃ بعد نبینا ﷺ کفر بالإجماع‘‘
ترجمہ: ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا بالاجماع کفر ہے۔
قرآن و حدیث کے دیے ہوئے اس مؤقف کو آج تک مسلمان اپنائے ہوئے اور سنبھالے ہوئے ہیں اگر کوئی طالبِ علم فکرِ آخرت کو سامنے رکھ کر اس مسئلہ کی سیر حاصل معلومات سے آنکھیں ٹھنڈی کرنا چاہتا ہو ، تو اسے کم از کم مفتی محمد شفیع رحمہ اﷲ کی کتاب ختمِ نبوّت کامل کو پڑھنا چاہیے۔ اس کتابِ لاجواب میں قرآن مجید کی ایک سو آیات، دو سو احادیثِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے فرامین، تابعین، تبع تابعین، مفسرین و محدثین، ائمہ مجتہدین، متکلمین، صوفیاءِ دین کے تمام طبقات کے فرامین و فتاویٰ جات جمع کیے گئے ہیں کہ ہمارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ کے آخری نبی و رسول ہیں اور آپ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی و رسول مبعوث نہیں ہو گا اور جو بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد دعویٰ نبوت کرے گا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہو گا۔ (خبردار) مسلمانوں کے ہاں دعویٰ نبوت تو بہت دور کی بات ہے اگر کسی نے دعویٰ نبوت کرنے والے سے اس کی نبوت کی دلیل مانگی وہ بھی کفر کی وادی میں جا گراکہ اس شخص میں اتنی ایمانی کمزوری کیسے آئی کہ وہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی مدعیٔ نبوت سے دلیل مانگ رہا ہے۔
ختم نبوّت اور قادیانی پارٹی:
دعویٰ نبوت کرنے سے پہلے مرزا قادیانی بھی اس مسئلہ میں یہی عقیدہ رکھتا تھا۔
مثلاً: مرزا قادیانی کی تحریر ہے:
(۱)میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے، ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن و حدیث کی رُو سے مُسَلَّمُ الثبوت ہیں اور سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ختم المرسلین کے بعد دوسرے مدعی نبوت و رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں اور میرا یقین ہے کہ وحی رسالت حضرت آدم صفی اﷲ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر ختم ہوئی۔ (مجموعہ اشتہارات، جلد اوَّل، ص: ۲۳۰۔ ۲۳۱)
(۲) خدا تعالیٰ جانتا ہے میں مسلمان ہوں اور ان سب عقائد پر ایمان رکھتا ہوں جو اہل سنت والجماعت مانتے ہیں اور کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اﷲ کا قائل ہوں اور قبلہ کی طرف نماز پڑھتا ہوں اور میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔ (روحانی خزائن، جلد:۴، ص: ۳۱۳)
ان مذکورہ دونوں عبارتوں کو ایک بار پھر پڑھیں۔ پہلی عبارت میں مرزا قادیانی نے لکھا کہ ’’حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ختم المرسلین کے بعد دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں‘‘۔ جب کہ دوسری عبارت میں مرزا قادیانی نے اس بات کا اظہار کیا کہ ’’میں نبوّت کا مدعی نہیں بلکہ مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں‘‘۔
یہی وہ مؤقف اور عقیدہ ہے جس پر تمام اُمّتِ مسلمہ متفق اور متحد چلی آ رہی ہے کہ حضور علیہ السلام اﷲ کے آخری نبی و رسول ہیں اور آپ کے بعد کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرنے والا کاذب، کافر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اور جب تک مرزا قادیانی بھی مسلمانوں کی صفوں میں رہا وہ بھی اس کا اقراری رہا۔ اس سے کم از کم یہ بات ثابت ہوئی کہ ختم نبوّت کا جو عقیدہ اور مؤقف اُمّتِ محمدیہ کے تواتر کے ساتھ چلا آ رہا ہے یہ عقیدہ اور مؤقف آج کی اختراع نہیں ہے۔ چنانچہ اسی عقیدہ اور مؤقف پر آج بھی مسلمان ثابت قدم ہیں کہ جو بھی دعویٰ نبوت کرے گا اس کے بارے میں لازمی طور پر یہی یقین رکھا جائے گا کہ وہ کاذب اور کافر و دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
اب رہی یہ بات کہ آیا مرزا قادیانی نے نبوّت کا دعویٰ کیا تھا؟ اور اگر مرزا قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو کیا نبوت کا دعویٰ کرنے کے بعد بھی وہ مسلمان رہا یا کافر ٹھہرا۔ قارئین محترم مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت اس کی کتابوں سے ہم پیش کر دیتے ہیں کہ وہ کیسے دینِ اسلام کی واضح اور صریح تعلیمات سے انحراف کرتا اور اپنے آپ کو مسلمانوں کی صفوں سے نکال باہر کرتا نظر آ رہا ہے۔ مرزا قادیانی کی اپنی تحریریں پڑھیں اور پڑھنے کے بعد اگر یقین نہ آئے تو کسی عالم کے پاس جائیں جس کے پاس مرزا قادیانی کی کتب ہوں، ورق الٹیں۔ مندرجہ صفحات پر آپ کو یہ عبارتیں ملیں گی۔
(۱) میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے۔ (روحانی خزائن، ج: ۲۲، ص: ۵۰۳)
(۲) میرے پاس آئیل آیا اور اس نے مجھے چن لیا اور اپنی انگلی کو گردش دی اور یہ اشارہ کیا کہ خدا کا وعدہ آ گیا (پھر حاشیہ میں آئیل کی وضاحت اس طرح کی کہ) اس جگہ آئیل خدا تعالیٰ نے جبریل کا نام رکھا ہے، اس لیے بار بار رجوع کرتا ہے۔ (روحانی خزائن، ج: ۲۲، ص: ۱۰۶)
(۳) مگر بعد میں جو خدا تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا مگر اس طرح سے کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے اُمتی۔ (روحانی خزائن، ج: ۲۲، ص: ۱۵۳۔ ۱۵۴)
(۴) سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں رسول بھیجا۔(روحانی خزائن، ج: ۱۸، ص: ۲۳۱)
(۵) محمد رسول اللّٰہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینہم۔ اس وحی الٰہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔ (روحانی خزائن، ج: ۱۸، ص: ۲۰۷)
(۶) ہماری جماعت میں سے بعض صاحب جو ہمارے دعویٰ اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ وہ ایک معقول مدت تک صحبت میں رہ کر اپنی معلومات کی تکمیل کر سکے، وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراض پر ایسا جواب دیتے ہے کہ جو سراسر واقعہ کے خلاف ہوتا ہے، اس لیے باوجود اہلِ حق ہونے کے ان کو ندامت اٹھانی پڑتی ہے۔ چنانچہ چند روز ہوئے ہیں کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا، حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں۔ حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے اس میں ایسے الفاظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں، نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہو سکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں بلکہ اس وقت تو پہلے زمانہ کی نسبت بہت تصریح اور توضیح کے ساتھ یہ الفاظ موجود ہیں۔ (روحانی خزائن، ج: ۱۸، ص: ۲۰۶)
قارئین محترم! ان مذکورہ حوالہ جات میں مرزا قادیانی نے اپنے پاس جبریل کے آنے اور وحی لانے، صریح طور پر نبی کا خطاب ملنے، محمد نام رکھے جانے اور رسول ہونے، رسول نام سے پکارے جانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کس قسم کی نبوت و رسالت کا دعویٰ ہے، اس بات کی وضاحت کے لیے قارئین مرزا قادیانی کے بیٹے اور مرزائیت کے پہلے فرقے (قادیانی گروہ )کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کی تحریر ملاحظہ کریں جس میں مرزا قادیانی کی نبوت و رسالت کا مقام و مرتبہ یوں پیش کیا گیا ہے کہ:
’’ہر ایک شخص جو موسیٰ کو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا یا محمد کو مانتا ہے پر مسیح موعود (مرزا) کو نہیں مانتاوہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے‘‘۔ (کلمۃ الفصل، ص: ۱۱۰)
قارئین محترم! مرزا بشیر الدین محمود احمد کی مندرجہ بالا تحریر سے یہ واضح ہوا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت کسی چھوٹی یا کم درجہ کی نبوت و رسالت کا دعویٰ نہیں بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوّت و رسالت کے ہم پلہ نبوت و رسالت کا دعویٰ ہے، کیونکہ مرزا محمود کے بقول ان محترم بزرگ انبیاء علیہم السلام کا انکار کفر ہے ایسے ہی مرزا غلام احمد قادیانی کا انکار کفر ہے۔
قارئین محترم! دونوں باتیں آپ کے سامنے واضح طور پر آ گئیں کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کا عقیدہ اور مؤقف ہے کہ حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی و رسول مبعوث نہیں ہوگااور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد جو بھی دعویٰ نبوّت و رسالت کرے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ جبکہ مرزا قادیانی کا دعویٰ نبوت و رسالت آپ کے سامنے باحوالہ پیش کر دیا گیا۔ اب اس کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کی اعتقادی حیثیت کے بارے میں امت مسلمہ کے اجماعی موقف کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہ جاتا۔ دعوائے نبوّت کی وجہ سے مسیلمہ کذاب، اسود عنسی جیسے مدّعیان نبوت کا جو مقام ہماری تاریخ کے ڈیڑھ ہزار برس میں رہا ہے، مرزا قادیانی کی حیثیت بھی من و عن وہی ہو گی ۔
جب تک اسلامی حکومتیں رہیں یا یہ کہ شعائرِ اسلام کے تقدس کی حفاظت ملکی قانون کا فریضہ رہا، ہر ایسا شخص جو دعوائے نبوّت کرے، خدا و رسول کے حکم کے مطابق اس کو کافر و مرتد قرار دیا جاتا تھا اور حکومت اس پر ارتداد کی شرعی حیثیت نافذ کر دیتی تھی۔ جہاں اسلامی حکومتیں نہیں یا شعائرِ اسلام کے تقدس کا کوئی ملکی قانون نہیں، ایسے ماحول میں کسی بھی مدعی نبوّت کو کم از کم علی الاعلان کافر قرار دیا جاتا رہا تاکہ عام آدمی کسی دھوکہ میں نہ آئے اور ’’الدین النصیحہ‘‘ کے تناظر میں ایسے شخص کے کفر کو پوری سرگرمی کے ساتھ اس قدروضاحت سے بیان جاتا رہا ہے کہ ہر عامی و خاص تک آوازِ حق پہنچ جائے۔
مرزا قادیانی نے نبوّت کا دعویٰ کیا تو ہندوستان میں انگریز کی حکومت تھی، جو ہر اعتبار سے مرزا قادیانی کی سرپرستی کرتی رہی۔ جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو جب تک شعائرِ اسلام کے تقدس کی حفاظت کا قانون ملک کے قانون ساز ادارہ قومی اسمبلی نے منظور نہیں کیا تب تک علماءِ اسلام نے اپنی طاقت کے مطابق عوام کے سامنے مرزا قادیانی کا کفر آشکارا کرتے رہے۔ صعوبتیں برداشت کیں، ہتھکڑیاں پہنیں، جیلیں کاٹیں، شہادتیں پیش کیں مگر مرزا قادیانی کی حیثیت بیان کرنے میں کمزوری نہیں دکھائی۔ حق کی یہ آواز روز بروز بلند تر ہوتی گئی کہ مرزا قادیانی دعویٰ نبوت کی وجہ سے کافر اور اس کے ماننے والے بھی دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ بالآخر حالات نے ایوانوں میں محوِ خواب حکمرانوں کو کروٹ دلائی اور ان کو مجبور کر دیا کہ وہ پاکستان کے عوام مسلمانوں کے مطالبہ کی طرف توجہ کریں۔ بالآخر پاکستان کے قانون ساز ادارہ قومی اسمبلی میں مسلمانوں کے مطالبہ کو زیرِ بحث لایا گیا اور مرزا قادیانی کو ماننے والے دونوں فرقوں (قادیانی، لاہوری) کے سربراہان کو مدعو کیا گیا۔ جس میں قادیانی فرقے کے سربراہ مرزا ناصر احمد اور لاہوری فرقے کے سربراہ صدر الدین کو قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر اپنا مؤقف پیش کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ ارکانِ اسمبلی نے مسلمانوں کے اسلامی مؤقف اور قادیانی و لاہوری عقائد کو بغور سماعت کیا کہ مسلمانوں کا واضح اور کھلم کھلا مؤقف ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے نبی و رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی نیا نبی و رسول نہیں آئے گا۔ جب کہ مرزا قادیانی خود کو نبوت و رسالت کے منصب پر فائز سمجھتا ہے۔ اوراس کا اور اس کی جماعت کا عقیدہ ہے کہ مرزا قادیانی کو نہ ماننے والا ایسا کافر ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان سے محروم ہونے والا شخص کافر ہے۔
جب ارکانِ اسمبلی نے مرزائیوں کے مؤقف کو سنا تو ان کے سامنے مرزائیوں کی حقیقت کھل گئی، جس پر وہ حیرت زدہ ہوئے اور متّفقہ فیصلہ صادر کیا کہ مرزائیوں کا اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں اور مرزائیوں کے مؤقف کو کفر کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ مرزائیوں کی حقیقت کھل جانے کے بعد اراکین قومی اسمبلی نے اپنا فرضِ منصبی پورا کیا اور تمام اراکین اسمبلی نے اسلامی نقطۂ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات مملکت پاکستان کے قانون کا حصہ بنا دی کہ جیسے اﷲ و رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرامین (قرآن و حدیث) کی روشنی میں یہ فیصلہ ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے آخری نبی و رسول ہیں اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرنے والا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اور یوں مملکت پاکستان کے قانون کی روشنی میں بھی مرزائیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قادیانیوں نے اس کے بعد اس فیصلہ کو عدالت میں چیلنج کیا، عدالتوں نے بھی باضابطہ عدالتی کارروائی مکمل کرتے ہوئے مسلمانوں اور مرزائیوں کے مؤقف کو تفصیل سے سنا مگر عدالت نے بھی اپنے فیصلے میں ارکانِ اسمبلی کی طرح غلام احمد قادیانی کے ماننے والے دونوں فرقوں (قادیانی و لاہوری) کو کافر ہی ٹھہرایا۔
ہم قارئین کو ایک بار پھر متوجّہ کرنا چاہیں گے کہ آئینِ پاکستان کا حصہ بننے سے پہلے شراب کی حرمت کی طرح مرزائیوں کا فر ہونا بھی ایک اسلامی اور قرآن و حدیث سے ثابت شدہ فیصلہ تھا جس کو مملکت پاکستان کے قانون کا حصہ بنا دیا گیا۔ اگر مملکت پاکستان کی قومی اسمبلی میں یہ مسئلہ زیر بحث نہ لایا جاتا اور مرزائیوں کو قانونِ پاکستان میں غیر مسلم اور کافر نہ قرار دیا جاتا تو کیا مرزائیوں کا کوئی تعلق اسلام کے ساتھ تسلیم کر لیا جاتا؟ ایسا ہر گز نہیں ہے، پاکستان کے قانون و آئین نے ایک پہلے سے ثابت شدہ اسلامی عقیدے کو اپنا حصہ بنانے کا شرف حاصل کیا، اس عقیدے کے استناد اور درستی میں آئین کا حصہ بننے سے کوئی زیادتی نہیں آئی۔
مرزائی گروہ کے دونوں فرقے ۷۴ء کی ترمیم سے پہلے بھی کافر ہی تھے جیسے سودی کاروبار پاکستانی قانون میں ممنوع نہیں مگر شریعتِ اسلامیہ میں وہ حرام ہے اور حرام ہی رہے گا۔ ایسے ہی اگر مرزائیوں، قادیانیوں کو قانونِ پاکستان میں غیر مسلم نہ بھی قرار دیا جاتا یہ تب بھی کافر ہی تھے۔
اس ترمیم کے تناظر میں مرزائیوں قادیانیوں کا واویلا کرنا کہ ارکانِ اسمبلی کو کیا حق ہے کہ وہ کسی کے مسلمان یا کافر ہونے کا فیصلہ کریں؟ ایسے ہی ہے جیسے کوئی جج عدالت میں گواہی مکمل ہونے پر کسی کو چور قرار دے کر اسے چوری کی سزا سنائے۔ اور اس چور کے لواحقین یہ کہنے لگیں کہ عدالت میں بیٹھے جج کو کیا حق ہے کہ صرف دو آدمیوں کی گواہی پر کسی کو چور قرار دے۔ جب کہ مرزائیوں کی چوری (کفر) کو تو ہر شخص دیکھ سکتا ہے، تھوڑی سی توجہ کر کے مرزا قادیانی کی کتب کا مطالعہ کرے تو مرزا قادیانی کی چوری (کفر) اظہر من الشمس ہے۔
٭ مرکزی مبلغ مجلس احرار اسلام پاکستان، خطیب جامع مسجد احرار چناب نگر (ربوہ)