ترجمہ:مولوی محمد نعمان سنجرانی
َ َ ابو نعیم نے کہا: ہمیں حدیث بیان کی ابو احمد الحاکم نے، ان کو ابن خزیمہ نے، ان کو عمران بن موسی نے، ان کو عبد الوارث نے، ان کو محمد بن جحادہ نے، وہ نعیم بن ابی ہند سے روایت کرتے ہیں، وہ ابو حازم سے اور وہ حسین بن خارجہ أشجعی سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: ’’جب حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو شہید کیا گیا تو مجھے صورت حال کچھ سمجھ میں نہ آتی تھی (کہ متحارب جماعتوں میں سے کس کا ساتھ دوں) میں نے دعا کی کہ یا اﷲ مجھے حق کا معاملہ اس طرح دکھا دے کہ میں اس پر جم سکوں۔ تبھی میں نے نیند میں دیکھا کہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک دیوار ہے، پھر وہ گر جاتی ہے اور وہاں کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں ہم فرشتے ہیں۔ میں نے پوچھا شہدا کہاں ہیں؟ انھوں نے کہا درجات پر چڑھتے جاؤ۔ میں ایک کے بعد دوسرے درجے پر چڑھتا گیا یہاں تک کہ حضرت ابراہیم اور حضرت محمد صلی اﷲ علیہما و سلم کی بارگاہ میں جا پہنچا۔ دیکھا کہ حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہہ رہے ہیں: میری امت کے لیے دعائے مغفرت فرما دیجیے۔ حضرت ابراہیم کہتے ہیں: تم جانتے نہیں کہ انھوں نے تمھارے بعد کیا کیا نئی باتیں نکال لیں؟ انھوں نے آپس میں ایک دوسرے کا خون بہایا اور اپنے امام کو (نا حق) قتل کیا۔ انھوں نے ویسا کیوں نہ کیا جیسا کہ میرے خلیل سعد نے کیا؟ حسین بن خارجہ کہتے ہیں: (جب میں جاگاتو) میں نے کہا میں نے (واضح) خواب دیکھ لیا ہے، لہذا میں حضرت سعد بن ابی وقاص کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کو سارا قصہ سنایا۔ وہ [اس پر] بے تحاشا خوش ہوئے اور کہنے لگے: ناکام ہوئے وہ لوگ جن کو ابراہیم علیہ السلام جیسے خلیل نہ ملے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کس پارٹی کے ساتھ ہیں؟ فرمانے لگے: میں کسی کے ساتھ نہیں ہوں۔ میں نے عرض کیا: مجھے کیا حکم فرمائیں گے؟ فرمایا: تمھارے پاس بکریاں ہیں؟ میں نے کہا: نہیں۔ فرمایا: بکریاں خرید لو او ر(جنگل میں) ان کے ساتھ رہو یہاں تک کہ معاملات واضح ہو جائیں۔(۱)
َ ابو معاویہ روایت کرتے ہیں امام اعمش سے اور وہ زید بن وہب سے کہ جب حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے حضرت عبد اﷲ بن مسعود کو پیغام بھیج کر (کوفہ سے) مدینہ منورہ آنے کا حکم دیا تو (کوفہ کے) لوگ آپ کے پاس اکٹھے ہو کر آئے اور کہنے لگے: آپ یہیں ٹھہرے رہیے اور مت جائیے، اگر دار الخلافت سے آپ کے خلاف کوئی عتاب ہوا تو ہم آپ کا دفاع کریں گے۔ سیدنا عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: ان کو (یعنی حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو) مجھ پر حقِ اطاعت حاصل ہے۔ (آئندہ زمانوں میں) عنقریب بہت سے (نا پسندیدہ) معاملات اور فتنے ہوں گے میں ان کا افتتاح کرنے والا نہیں بننا چاہتا۔ اس پر لوگ واپس چلے گئے اور حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ مدینہ چلے آئے۔(۲)
َ عبد اﷲ بن عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو شہید کیا گیا، میرے والد (حضرت عامر بن ربیعہ رضی اﷲ عنہ) نے رات کو نفل نماز پڑھی اور دعا میں کہنے لگے: ’’اے اﷲ مجھے اس فتنے سے ایسے ہی بچا لیجیے جیسے آپ نے ہمیشہ اپنے نیک بندوں کو بچایا ہے‘‘۔ اس کے بعد وہ گھر سے نہیں نکلے، اور صبح کو ان کا جنازہ ہی باہر آیا۔(۳)
َ سفیان بن عیینہ نے عمر بن نافع سے،انھوں نے اپنے والد امام نافع سے اور انھوں نے اپنے مولا حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت کی، فرمایا: حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے مجھے پیغام بھیجا کہ: اے ابو عبد الرحمن! اہل شام آپ کی بات مانتے ہیں، آپ ان کی طرف جائیے میں آپ کو ان کا امیر بناتا ہوں۔ میں نے عرض کیا: میں آپ کو اﷲ کا واسطہ دیتا ہوں، اور رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے میری رشتہ داری اور ان کے ساتھ گذرے ہوئے وقت کو ہی یاد فرما کر مجھے معزول رکھیے۔ سیدنا علی نے قبول نہ کیا۔میں نے حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا سے سفارش کرائی، حضرت علی پھر بھی نہ مانے۔ میں ایک رات چپکے سے مکہ مکرمہ کی طرف نکل گیا۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے کہا گیا کہ وہ شام کی طرف گئے ہیں۔ حضرت نے میرے پیچھے (میرا ساتھی بنا کر) لوگوں کو بھیجا۔ وہ لوگ مربد تک پہنچ گئے (مگر جب مجھے نہ پا سکے تو تیز رفتاری کے لیے) اپنے اونٹوں کو عمامے کی لگام ڈالی کہ مجھے کسی طرح پا لیں۔ کہتے ہیں کہ تب سیّدہ حفصہ رضی اﷲ عنہا نے پیغام بھیجا کہ وہ شام نہیں گئے بلکہ مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کر گئے ہیں۔ اس پر سیدنا علی خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔(۴)
َ عبد اﷲ بن عبید بن عمیر حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: (قتل عثمان کے بعد) اس فتنے میں ہماری مثال اس قوم جیسی ہے جو ایک جانے پہچانے راستے پر گامزن تھی کہ اچانک ان پر ایک گہرا بادل ایسا آیا کہ سب اندھیرا کر دیا۔ پھر کچھ لوگ دائیں گئے اور کچھ بائیں پس سب راستہ کھو بیٹھے، ہم وہیں رکے رہے جہاں ہم پر اندھیرا چھایا تھا، یہاں تک کہ اﷲ کے حکم سے وہ بادل چھَٹ گیا، تب ہم نے اپنے اسی پہلے راستے کو دیکھا اور اس کو پہچان لیا۔ یہ جو قریش کے نوجوان لڑکے اس حکومت اور اس دنیا کی خاطر آپس میں لڑتے جھگڑتے پھرتے ہیں، مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میری ان دو پرانی جوتیوں کے بدلے میں ہی وہ کچھ مجھے مل جائے جس کی خاطر یہ ایک دوسرے کا خون کرنے پر آمادہ ہیں۔ (۵)
ََ سلّام بن مسکین سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت حسن بصری رحمہ اﷲ کو فرماتے ہوئے سنا: جب حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی شہادت ہوئی تو لوگوں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے کہا: آپ لوگوں کے سردار ہیں اور سردار کے صاحبزادے ہیں، آپ باہر نکلیے لوگ آپ کی بیعت کریں گے۔ حضرت نے فرمایا: اگر میرے بس میں ہو تو میں اپنے آپ کی خاطر ایک چُلو خون بھی نہیں بہانا چاہتا۔ لوگوں نے کہا: آپ کو باہر نکلنا ہی پڑے گا ورنہ آپ کو آپ کے بستر میں بھی قتل کیا جا سکتا ہے۔ (یعنی حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی طرح فتنہ پرور لوگ آپ کو گھر میں بھی تو چین نہ لینے دیں گے) حضرت نے اپنی وہی بات دوبارہ دہرا دی۔ حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ لوگوں نے انھیں لالچ بھی دلائے اور خوف بھی، مگر ان سے اپنی مرضی کی کوئی بات نہ کروا سکے۔(۶)
َ امام ذہبی حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اﷲ عنہما کے حالات زندگی میں لکھتے ہیں: حضرت معاویہ نے اپنے پیچھے ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی چھوڑی جو ان سے شدید محبت کرتے تھے اور انھیں باقی صحابہ سے افضل مانتے تھے۔ یا تو حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ نے اپنی شرافت، اپنے تحمّل و برداشت اور اپنے عطایا سے انھیں اپنا بنا لیا تھا، یا پھر وہ شام میں حضرت کی محبت (کے ماحول) میں ہی پیدا ہوئے تھے اور پھر ان کی اولادوں نے اسی پر پرورش پائی، اس قسم کے لوگوں میں صحابہ کی ایک معمولی جماعت، اور تابعین و فضلاء کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ انھی میں وہ لوگ بھی تھے جو ان کے ساتھ مل کر اہلِ عراق کے خلاف مصروفِ قتال ہوئے اور ’’ناصبیت‘‘ تک بھی جا پہنچے۔ ہم اﷲ تعالیٰ سے خواہش پرستی سے پناہ مانگتے ہیں۔ اسی طرح حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے لشکر اور آپ کی رعایا میں بھی –خوارج کے سوا – آپ کی محبت، آپ کا ساتھ دینے اور آپ کے مخالفین سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کرنے کے نظریے پر بھی ایک بڑی تعدادمیں لوگ موجود تھے۔ انھی میں سے جنھوں نے غلو کیا وہ ’’تشیّع‘‘ تک جا پہنچے۔
اب خدا لگتی کہییے کہ اس شخص کا کیا قصور ہے جو ایسے خطے میں پیدا ہوا جہاں اسے صرف وہی لوگ نظر آئے جو یا تو محبّت میں غالی تھے یا نفرت میں حد سے بڑھے ہوئے؟ اب ایسے شخص کو انصاف و اعتدال کی نظر کہاں سے ملتی؟ ہم اﷲ تعالی کی حمد کرتے ہیں اس بات پر کہ اس نے ہمیں اس زمانے میں پیدا کیا جب حق بذات خود واضح ہے۔ دونوں جماعتوں کا موقف اور اس کی مضبوطی سامنے آ چکی ہے، اور ہم دونوں گروہوں کی دلیل کی بنیاد سے آگاہ ہو کر غور فکر کرتے ہیں، پس ہم دونوں کو معذور جانتے ہیں، دونوں کے درجات کی بلندی کی دعا کرتے ہیں، دونوں سے غلو اور افراط تفریط کے بغیر محبت کرتے ہیں۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کے مخالفین کے لیے ہم دعائے رحمت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آپ کے مخالفین کے پاس یا تو ایسی اجتہادی تاویل تھی جو کسی نہ کسی درجے میں بہر حال قابلِ قبول تھی یا پھر ان میں کچھ لوگوں سے ایسی ہی خطا ہوئی جس کی مغفرت ان شاء اﷲ ہو جائے گی۔ اور ہم وہی کہتے ہیں جو ہمیں اﷲ تعالیٰ نے سکھایا: ربّنا اغفر لنا ولإخواننا الذین سبقونا بالإیمان، ولا تجعل فی قلوبنا غلًّا للَّذین آمنوا۔ (اے ہمارے رب ہماری مغفرت فرما اور ہمارے ان بھائیوں کی جو ایمان کے ساتھ ہم سے پہلے چلے گئے، اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لیے کوئی چھپی ہوئی نا راضی نہ رکھ [سورۃ الحشر:آیت10])۔ اسی طرح ہم ان لوگوں کے لیے بھی اﷲ کی رضا کی دعا کرتے ہیں جو دونوں جماعتوں سے علیحدہ ہوگئے، جیسا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبد اﷲ بن عمر، حضرت محمد بن مسلمہ اور حضرت سعید بن زید رضی اﷲ عنہم اجمعین۔
مگر ہم خوارج سے اپنے آپ کو علیحدہ سمجھتے اور ان سے اعلانِ برأت کرتے ہیں، جنھوں نے سیدنا علی رضی اﷲ عنہ سے محاربہ کیا، دونوں جماعتوں کو کافر ٹھہرایا اور دین سے نکل گئے۔ پس یہ خوارج آگ کے کتے ہیں جن کا دین سے کچھ تعلق نہیں۔ گو ہم ان کے ہمیشہ ہمیشہ کے جہنمی ہونے کو بھی بالیقین نہیں کہتے جیسا کہ ہمیں اس بات کا بت پرستوں اور صلیب پوجنے والوں کے لیے یقین ہے ۔(۷)
َ عمرو بن مرّہ امام شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام مسروق رحمہ اﷲ سے جب کبھی پوچھا جاتا تھا: کہ آپ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ (سے اتنی محبّت کے باوجود) ان کی جنگوں میں ان کا ساتھ کیوں نہ دیا؟ تو وہ فرماتے: تمھاری کیا رائے ہے کہ اگر تم لوگ آپس میں جنگ کرنے کے لیے صفیں باندھے کھڑے ہو اور اسی اثنا میں ایک فرشتہ نازل ہو کر تم سے یہ کہے: ’’ولا تقتلوا أنفسکم، إنّ اﷲ کان بکم رحیما‘‘ ([آپس میں جنگ کر کے] اپنے آپ کو قتل مت کرو، اﷲ تعالیٰ تم پر رحم فرمائیں گے[سورۃ النساء:آیت22]) تو کیا اس فرشتے کی بات سن کر تم لوگ جنگ سے رک جاؤگے؟ لوگ کہتے کہ جی ہاں۔ امام مسروق رحمہ اﷲ فرماتے: اﷲ کی قسم ایک معزز فرشتہ یہی آیت لے کر تمھارے نبی علیہ الصلاۃ والسلام پر نازل ہو چکا ہے، اور یہ آیت محکم ہے اس میں سے کچھ منسوخ نہیں ہوا۔(۸)
َ ابو عقیل بشیر بن عقبہ کہتے ہیں میں نے یزید بن شخیر سے کہا: جس وقت لوگوں نے جنگ کی اس وقت حضرت امام مطرِّف رحمہ اﷲ (کبار تابعین میں سے ایک) نے کیا کِیا؟ یزید نے کہا: وہ اپنے گھر کے سب سے اندر والے کمرے میں بیٹھے رہے، اور فتنے کے ایام میں جمعہ جماعت بھی ترک کر دی یہاں تک کہ معاملات واضح ہو گئے۔(۹)
َ امام ایوب سختیانی فرماتے ہیں حضرت مطرّف رحمہ اﷲ نے فرمایا: اگر میں اعتماد اور بھروسے کے ساتھ اپنے گھر میں بیٹھا رہوں تو یہ مجھے زیادہ پسند ہے اس بات سے کہ مجھے دھوکے میں آ کر جہاد کا ثواب ڈھونڈتا پھروں۔(۱۰)
َ حمید بن ہلال کہتے ہیں کہ حروریہ (خوارج) حضرت مطرّف بن عبد اﷲ بن الشخیر رحمہ اﷲ کے پاس آئے اور انھیں اپنی رائے اختیار کرنے کی دعوت دی تو حضرت نے فرمایا:صاحبو! اگر میری دو جانیں ہوتیں تو میں ایک سے تمھاری بیعت کر لیتا اور ایک بچا لیتا۔ اگر جو تم کہتے ہو وہی ہدایت نکلتی تو دوسری جان بھی اس کے پیچھے چلی آتی، اور اگر تمھاری بات آگے چل کر گمراہی ثابت ہوتی تو چلو میری ایک جان ہلاک ہوتی اور ایک میرے پاس بچ جاتی۔ مگر اب میری ایک ہی جان ہے میں اس کو جوئے پر نہیں لگانا چاہتا۔(۱۱)
﴿ حواشی ﴾
(۱) سیر اعلام النبلاء:ج:۱، ص: ۱۲۰۔ (۲) سیر اعلام النبلاء: ج:۱، ص: ۴۸۹۔ (۳) سیر اعلام النبلاء، ج: ۲، ص: ۳۳۵۔ (۴) ایضاً۔ (۵) سیر اعلام النبلاء، ج: ۳، ص: ۲۳۷۔ (۶) سیر اعلام النبلاء،ج: ۳، ص: ۲۳۹۔ (۷) سیر اعلام النبلاء، ج:۳، ص: ۱۲۸۔ امام ذہبی کا یہ کلام سنہری لفظوں سے لکھنے کے قابل ہے اور اس میں ہر دور کے مسلمانوں کے مابین واقع ہونے والے اختلافات میں صحیح طرزِ عمل اختیار کرنے کے لیے واضح اور درست رہنمائی موجود ہے۔ (۸) سیر اعلام النبلاء، ج: ۴، ص: ۶۸۔ (۹) سیر اعلام النبلاء، ج: ۴، ص: ۱۹۱۔ (۱۰) ایضاً۔ (۱۱) سیر اعلام النبلاء، ج: ۴، ص: ۱۹۵۔
٭……٭……٭