مو لانا شفیق احمد اعظمی
صحابی کی تعر یف
علما متقد مین ومتا خر ین نے صحا بی کی تعر یف میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلا صہ یہ ہے کہ ہر اس صا حب ایما ن شخص کو صحا بی کہا جا ئے گا جس نے ایما ن کی حا لت میں خا تم النّبیین محمد عر بیﷺ سے شر ف ملا قا ت حا صل کیا اوراسی ایما ن کے سا تھ وفات پائی،اورظاہرہے کہ وہ نا بینا حضرات یاصحابہ کے نو مو لود بچے جو آنحضرتﷺ کی خد مت مبارکہ میں لا ئے گئے ان سب کو ملا قات حا صل ہے لہٰذ ابلا تر ددجما عت صحابہ میں ان کاشما رہو گا۔
اس طر ح کم و بیش ایک لاکھ چو بیس ہز ارصحا بہ کر ام ر ضو ان ﷲ عنہم کاپا کیزہ گر وہ اس زمرہ میں شما رکیا جا تاہے جس کے بارے میں علما اہل سنت وا لجما عت اور ائمہ سلف کابالاتفاق قو ل ہے کہ سب کے سب نجو م ہد ایت ہیں کیونکہ رسو ل اﷲﷺ کاارشادہے:
اَصْحَابی کالنُّجو م بأیّہم اقتد یتم اہتد یتم (ترمذی )گر وہ صحا بہ کا وجود،رسول اﷲﷺکے معجز ات میں سے ایک عظیم الشا ن معجز ہ ہے جن کے ذ ر یعہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب ومحبو ب ﷺکے عا لمگیر پیغا م رسا لت کوخطۂ ارضی کے ہر گو شہ تک اس کی حقیقی روح کے سا تھ پھیلا یااوراس طرح آنحضو ر ﷺکا رحمتہ للعا لمین ہو نا بھی ثا بت کر دیا اور وما ارسلنا ک الاکافّۃ للنّاس(سو رہ فاطر:۲۴) کی تفسیربھی دنیا کے سامنے پیش کردی گئی۔
حضرات صحا بہ کر ام رضی اﷲ عنہم کی پاکیز ہ بر گز یدہ جما عت کے ذریعہ اسلام کاتعارف بھی کر اد یاگیا اوررسول عربی ﷺکی سیر ت ِطیبہ اورسنت کو عام کیا گیااگررسول اﷲ ﷺ سے صحا بہ کر ام رضی اﷲ عنہم کو الگ رکھ کران کوعا م انسانوں کی طر ح خا طی وعا صی تصورکر کے غیر معتبر قر اردیاجائے گاتو اسلا م کی پو ری عما رت ہی منہدم ہوجائے گی نہ رسول اﷲ ﷺکی ر سا لت معتبر رہے گی نہ قر آن اوراس کی تفسیر اورحد یث کا اعتبا ربا قی رہے گا۔کیو نکہ اﷲ کے رسول اﷲ ﷺنے جوکچھ من جا نب اﷲ ہم کو عطا کیا ہے وہ ہم تک صحا بہ کر ام ضی اﷲ عنہم ہی کی معر فت پہنچاہے۔ خودمعلم انسانیت محمدعر بی نے اپنے جا ں نثاراطاعت شعارصحابہ کی تربیت فر مائی تھی۔صحا بہ کرام نے اوّل اوّل، زبان رسالت سے آیا ت اﷲ کو اداہو تے سناتھا اورکلام رسول کی سما عت کی تھی پھر دونو ں کو دیا نت وامانت کے ساتھ اسی لب ولہجہ اورمفہو م و معانی کے سا تھ محفو ظ ر کھا اور بحکم رسو ل عر بی ﷺاس کو دو سر وں تک پہنچایا کیو نکہ حجتہ الوداع کے موقع پر آنحضو ر ﷺنے ان کو تبلیغ کا مکلف بنایا تھا بَلَّغُوُ عَنِّی وَلَوْ آیَۃ (بخا ری و مسلم )میر ی جا نب سے لو گو ں کو پہنچادواگرچہ ایک آیت ہی ہو ۔
صحا بہ کر ام رضی اﷲ عنہم کو در سگاہ نبو ت میں حا ضر ی کامکلف ایک خا ص حکم کے ذریعہ بنایاتھاکہ ہر وقت ایک معتدّ بہ جما عت اﷲ کے رسو ل کی خدمت میں اسلا م سیکھنے کیلئے حاضرر ہے اس لئے کہ کب کو ئی آ سما نی حکم اورشر یعت کاکو ئی قا نون عطا کیا جائے ،لہٰذ اایک جما عت کی آپ کی خدمت میں حا ضری لاز می تھی اوران کو بھی حکم تھاکہ جو حضر ات خدمت رسالت میں موجو دنہیں ہیں ان تک ان نئے احکام اورآیات کو پہنچا ئیں۔
وَ مَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ (سورۃ تو بہ ۱۲۲)
تر جمہ :اور مسلما نو ں کو نہیں چا ہئے کہ سب کے سب چلے جا ئیں ۔تو کیو ں نہ ہر فر قہ میں سے نکلی ایک جما عت جو مہا ر ت و رسو خ حا صل کر تی د ین میں اور تا کہ ڈ رائیں اپنی قو م کو جب کہ وہ لو ٹ کر آ ئیں ان کے پاس ہو سکتا ہے کہ وہ ڈریں ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ صحا بہ کر ام سے مجت و عقید ت کے بغیر رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سچی مجت نہیں ہو سکتی اور صحابہ کر ام کی پیر وی کئے بغیر آ نحضور ﷺکی پیر وی کاتصورمحال ہے ۔کیو نکہ صحا بہ کر ام نے جس اند ازمیں زند گی گز اری ہے وہ عین اسلا م اوراتباع سنت ہے اوران کے ایما ن کے کما ل وجما ل،عقید ہ کی پختگی ،اعما ل کی صحت وا چھا ئی اورصلا ح وتقو یٰ کی عمدگی کی سند خو درب العا لمین نے ان کو عطاکی ہے اورمعلم انسا نیت ﷺنے اپنے قو لِ پا ک سے اپنے جاں نثاروں کی تعر یف و تو صیف اوران کی پیر وی کوہدایت و سعادت قر اردیا ہے ۔صحا بہ کر ام رضی اﷲ عنہم بھی انسا ن تھے، ان سے بھی بہت سے مو اقع پر بشر ی تقا ضو ں کے تحت لغز شیں ہو ئی ہیں لیکن لغز شو ں، خطا ؤ ں،گنا ہو ں کو معا ف کر نے والی ذات اﷲ کی ہے۔ اس نے صحابہ کر ام کی اضطر اری ،اجتہا دی خطا ؤ ں کو صرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ اس معا فی نا مہ کو قرآن کر یم کی آیا ت میں نا زل فر ماکر قیا مت تک کیلئے ان نفو س قد سیہ پر تنقید و تبصرہ اور جرح و تعدیل کا دروازہ بند کردیا۔ اسی پر اکتفانہیں کیا بلکہ ان کے ایما ن کی صداقت اوراپنی پسند ید گی کی سند بھی بخشی ہے اس کے بعد بھی اگر کوئی فر دیاجماعت صحا بہ کرام پرنقد وتبصر ہ کی مرتکب ہو تی ہے تو اس کو علما حق نے نفس پر ست اور گمر اہ قر اردیاہے۔ ایسے افر اداورجما عت سے قطع تعلق ہی میں خیر اورایما ن کی حفا ظت ہے صحا بہ کر ام رضی اﷲ عنہم کی پو ری جما عت (خو اہ کبا رصحا بہ ہو ں یا صغا رصحا بہ )عدول ہے اس پر ہما رے ائمہ سلف اورعلمائے خلف کایقین وایما ن ہے ۔قر آن کر یم میں صحا بہ کرام رضی اﷲ عنہم سے متعلق آیات پر ایک نظر ڈالئے پھر ان کے مقام ومرتبہ کی بلندیوں کااندازہ لگایئے اس کے بعد بھی اگر کسی نے صحابہ کر ام رضی اﷲ عنہم کی تنقیص کی جر أت کی ہے تو اس کی بد بختی پر کف افسوس ملئے۔
صحا بہ سر اپا ادب اورپیکر تقو یٰ تھے
اِِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ (سو رہ الحجر ات :۳)
تر جمہ بیشک جو لو گ اپنی آوازوں کورسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے پست رکھتے ہیں یہ وہ لو گ ہیں جن کے قلو ب کو اﷲ تعالیٰ نے تقو یٰ کیلئے خالص کر دیاہے ان لوگوں کیلئے مغفر ت اوراجرعظیم ہے ۔
کفروفسق سے محفو ظ تھے
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِِلَیْکُمُ الْاِِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُوْنَ (سورۃالحجرات:۷)
تر جمہ اورجان ر کھو کہ تم میں رسول اﷲ ﷺہیں اگر بہت سے کامو ں میں تمہاری بات مان لیاکر یں تو تم پر مشکل پڈے لیکن اﷲ تعا لیٰ نے تم کو ایما ن کی مجت دی اوراس کی (تحصیل)کو تمہا رے دلو ں میں مر غو ب کردیااورکفر وفسق اورعصیان سے تم کونفرت دیدی ایسے ہی لو گ اﷲ کے فضل اورانعام سے راہ راست پر ہیں۔
عبا دت کے خو گر اورر حمد ل تھے
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ تَرٰہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ (سورہ فتح :۲۹)
تر جمہ محمد اﷲ کے رسو ل ہیں اور جو لو گ ان کے ساتھ ہیں وہ کا فر وں کے مقا بلہ میں تیزہیں اورآ پس میں مہر بان ہیں اے مخا طب تو ان کو د یکھے گا کہ کبھی رکوع کر رہے ہیں کبھی سجد ہ کرر ہے ہیں اوراﷲ کے فضل اورر ضا مند ی کی جستجو میں لگے ہو ئے ہیں ان کی (عبد یت )کے آ ثا رسجد وں کی تا ثیر سے ان کے چہر وں پرنمایاں ہیں ۔
مفتی اعظم پا کستا ن مفتی محمد شفیع صا حب سو رہ فتح کی تفسیر کر تے ہو ئے معا رف القرآن جلد۸میں تحر یر کر تے ہیں :
قر آن مجید کی بہت سی آ یتو ں میں اس کی تصر یحات ہیں جن میں چند آیات اسی سو رۃمیں آچکی ہیں: لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِین، اور اَلْزَ مَہُم کَلِمَۃَ التَقویٰ وَکَانُوا اَحَقَّ بِہا وَاَہلَہا، انکے علا وہ بہت سی آیات میں یہ مضمون مذکور ہے، یَومَ لَا یُخزِی اللّٰـہُ النَّبِیَ وَ الَّذِینَ اٰمَنُوا مَعَہٗ۔ وَالسَّابِقُونَ الاَ وَّلُونَ مِنَ المُہاجِرینَ وَالاَنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُم بِاِحسَانٍ رَضِیَ اللّٰہ عَنہُم وَرَضُوا عَنہُ وَاَعَّدَ لَہُم جَنّٰتٍ تَجرِی تَحتَہَا الاَنہٰرُاورسورہ حد ید میں اﷲ تعا لیٰ نے صحا بہ کر ام کے بارے میں فر مایا ہے : وَکُلَّاً وَعَدَاللّٰہُ الحُسنٰی یعنی ان سب سے اﷲ تعا لیٰ نے حسنیٰ کا وعدہ کیاہے پھرسو رہ انبیا میں حسنیٰ کے متعلق فر مایا إنَّ الَّذِینَ سَبَقَت لَہُم مِنا الحُسنیٰ اولٰئک عَنہَا مُبعَدُوْنَ یعنی جن لو گو ں کیلئے ہما ری طر ف سے حسنیٰ کا فیصلہ پہلے ہو چکا ہے و ہ جہنم کی آگ سے دوررکھے جائیں گے ۔
صحا بہ پر طعنہ زنی جائزنہیں
امام المفسر ین علامہ قر طبی اپنی مشہو رومعر وف تفسیر قر طبی جلد نمبر ۱۶،ص :۳۲۲پررقم طراز ہیں:یہ جا ئز نہیں کہ کسی بھی صحا بی کی طرف قطعی اوریقینی طو رپر غلطی منسوب کی جائے اس لئے کہ ان سب حضرات نے اپنے اپنے طرز عمل میں اجتہادسے کام لیاتھااوران سب کامقصداﷲ کی خو شنو دی تھی یہ سب حضر ات ہمارے پیشو اہیں اورہمیں حکم ہے ان کے باہمی اختلافات میں کف لسا ن کر یں اور ہمیشہ ا ن کاذ کر بہتر طر یقہ پر کر یں،کیو نکہ صحا بیت بڑ ی حر مت (وعظمت)کی چیز ہے اورنبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو براکہنے سے منع فر مایاہے اوریہ خبر دی ہے کہ اﷲ نے انہیں معاف کر رکھا ہے اوران سے راضی ہے ۔بحو الہ معارف القرآن ،ج:۸۔
ہرمشکل کاحل اتباع صحابہ:
آج ہم مسلما نو ں کو عا لمگیر سطح پر مشکلا ت کا سا منا ہے ہر محا ذپر ناکامی اورپسپائی ہے دشمنان اسلا م متحد اوراسلام کو مٹا نے پر متفق ہیں مسلمانوں پر طرح طرح سے الزامات اوربہتا ن تر اشی ہو رہی ،پو ری د نیا میں اسلا م کی شبیہ کو خر اب کرنے اور مسلما نو ں کو بدنا م کرنے میں میڈ یاسر گر م ہے یو رپ میں مسلما نو ں کے خلا ف نفر ت کی لہر چل رہی ہے۔ ہم ایک خطر ناک اورنازک دور سے گز ررہے ہیں ان حا لات میں صحا بہ کر ام کی مثا لی زند گی ہما رے لئے مشعل راہ ہے۔ ان پاکیز ہ نفو س کو بھی ان حا لا ت کا سا منا تھا بلکہ بعض اعتبا رسے آج کے حا لات سے زیادہ خطر نا ک صو رتِ حا ل تھی۔ مکہ میں ابتلا ؤآز ما ئش کے شد ید دورسے گذ ر تے تھے، تعد اد بھی کم تھی اور وسا ئل بھی نہیں،حد یبیہ میں یہو د یو ں اور منا فقو ں کی فتنہ انگیز یا ں اورساز شیں تھیں ، مشر کین مکہ کے حملے اور یہو دی قبا ئل سے لڑ ائیا ں تھیں، پھر دائر ہ و سیع ہو اتو قیصر روم اورکسر یٰ کے خطر ناک عز ائم تھے…… ان سب حا لات کا مقا بلہ صحا بہ کر ام نے جس حکمت عملی اور صبر او ستقا مت سے کیا وہی تا ریخ ہم کودہر انی پڑے گی۔اس لئے ضر وری ہے کہ ہم سیر تِ صحا بہ کامطا لعہ کر یں ان کو اپنا رہنما ومقتداجان کر اِس محبت وعقید ت سے ان کی پیر وی کر یں کہ ان کا ہر عمل اﷲ اوراس کے رسول ﷺکے نزدیک پسند ید ہ ہے۔ صحا بہ ہما رے لئے معیا رحق اور مشعل راہ ہیں ان کی شا ن میں کسی قسم کی گستا خی گو ارا نہیں۔ ان کی عظمت شان کی بلند یو ں تک کسی کی رسائی نہیں۔ عصر حاضر میں ان حضر ات کی پیر وی گذ شتہ صد یو ں کے مقا بلہ میں زیاد ہ ضر وری اوراہم ہے اورکامیا بی کاتصو راس کے بغیر ممکن نہیں۔میں نے چند آیا ت کے ذ کر پر اکتفا کیا ہے ورنہ ان کے علا وہ اور بہت سی آیات میں ان کے فضا ئل ومنا قب بیا ن کئے گئے ہیں جبکہ کتب احا دیث میں مناقب صحا بہ ایک مستقل با ب ہو تا ہے جس میں انفر ادی طو رپر کبارصحابہ کے مناقب بھی ہیں اورمحمو عی طور پر تمام اصحاب رسول کی عظمت وجلا لت کاذ کر بھی ہے۔ (مطبوعہ: ماہنامہ دارالعلوم، دیوبند، مارچ 2010)