مولانا محمد یوسف شیخوپوری
دینی مدارس کے خلاف آج کل مختلف سمتوں بڑی ناروا باتیں سننے میں آ رہی ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مدارسِ اسلامیہ جن میں قلب و نگاہ اور فکر و ذہن کو خالصتاً اسلامی سانچے میں ڈھالا جاتا ہے۔ یہ وہ کارخانے ہیں جہاں آدم گری اور مردم سازی کے ساتھ ساتھ داعیانِ اسلام، محب وطن اور امن و اتحاد کے متوالے تیار ہوتے ہیں۔ یہ وہ پاور ہاؤسز ہیں جن سے اسلامی آبادی بلکہ انسانی آبادی میں انسانیت کی بجلی تقسیم ہوتی ہے اور حیاتِ نَو کا روشنی کا سراغ ملتا ہے۔
اس کی واضح و روشن دلیل مدارسِ اسلامیہ میں دی جانے والی تعلیم اور پڑھایا جانے والا نصاب ہے۔ آئیے آپ بھی اس کی ایک جھلک کا مشاہدہ کریں اور پھر دوسرے تعلیمی اداروں سے تقابل کر کے دیکھیں اور انصاف سے فیصلہ کریں کہ مدارس سے کس قدر امن و امان کا درس دیا جاتا ہے۔ جہاں مسند پر بیٹھ کر باصلاحیت و لیاقت اساتذہ اپنے شاگروں کو یہ پڑھاتے ہیں: مَنْ قَتَل نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ‘‘ (سورۃ المائدہ) یعنی انسانی جان ہر حال میں محترم ہے کسی صورت میں بھی بغیر حق کہ یعنی قصاص، یا فساد فی الارض کے علاوہ اس کا قتل جائز نہیں ہے۔ جو شخص کسی کی ناحق جان لیتا ہے اس کا دل حیات انسانی کے احترام سے خالی ہے اور وہ ایک انسان کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا دشمن ہے۔ اس کے برعکس جو شخص کسی انسان کی جان بچاتا ہے وہ پوری انسانیت کا احترام کرتا ہے۔
انسانیت کو امن و سلامتی اور صلح و آشتی کی نعمتیں انھی مدارس کی تعلیمات سے ہی مل سکتی ہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کے معاً بعد حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ کے مکان میں مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ کروایا، جس میں کل نوّے آدمی تھے۔ جس کی بنیاد ہی غم خواری، ہمدردی اور اخوّت و ایثار کا جذبہ تھی، جس کا مقصود یہ تھا کہ جاہلی عصبیتیں تحلیل ہو جائیں۔ حمیت و غیرت صرف اسلام کے لیے ہو رنگ و نسل اور ذات و وطن کے سارے امتیازات مٹ جائیں۔ بلندی و پستی کا معیار احترامِ انسانیت اور تقویٰ کے علاوہ اور کچھ نہ ہو۔
جی ہاں دینی مدارس میں عملی طور پر دیکھا جاتا ہے کہ یہ تعلیم محض کھوکھلے الفاظ کی صورت میں کتابوں کی زینت ہی نہیں ہے بلکہ نافذ العمل عہد و پیماں کی صورت میں محسوس اور مشاہدہ کے قابل ہے۔ یہ خالی خولی سلامی اور مبارکبادی نہیں بلکہ ایثار و غمگساری اور مُوانَسَتْ کے جذبات سے مخلوط ہے، جس سے اسلامی معاشرہ وجود میں آیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ کا وہ دور یاد کروایا جاتا ہے کہ انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کے لیے اپنے مال کے باغات کے جائیداد کے نصف نصف حصے کر دیے، حتیٰ کہ حضرت سعد بن ربیع رضی اﷲ عنہ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ سے کہا میری دو بیویاں ہیں، آپ دیکھ لیں جو زیادہ پسند ہو میں اُسے طلاق دے دوں اور عدت گزارنے کے بعد آپ اُس سے شادی کر لیں۔
الحمد ﷲ دینی مدارس میں جو تعلیم دی جاتی ہے اور جو سکھایا، سمجھایا اور پڑھایا جاتا ہے اور عملی طور پر جس کی مشق کروائی جاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ کسی انسان کا قتل اور جان کشی تو کجا خود اپنی جان کو ختم کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ یہ شریعت ِ اسلامی میں حرام ہے۔ ایسا کرنے والے شخص کے لیے بڑی سخت وعیدات ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسلام میں سب سے بہتر عمل یہ ہے کہ تم دوسروں کو کھانا کھلاؤ اور شناسا اور غیر شناسا سبھی کو سلام کرو‘‘۔ (بخاری)
حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ، میں مدینہ میں آپ کی خدت میں حاضر ہوا، جب میں نے آپ کا چہرہ دیکھا ’’ عَرَفْتُ اَنَّ لَیْسَ بِوِجْہِ کَذَّاب‘‘۔ یعنی میں نے پہچان لیا یہ سچے ہیں کیونکہ جھوٹے آدمی کا چہرہ ایسا نہیں ہوتا اور پھر آپ نے پہلی بات جو ارشاد فرمائی وہ یہ تھی ’’ اَفْشُو السَّلامَ وَاطْعِمُوا الطَّعَامَ وَصِلُوْا الْاَرْحامَ وَ صَلُّوْا بِالَّیْلِ والنَّاس نیامٌ اُدْخُلْوا الْجَنَّۃَ بالسَّلَامِ‘‘ یعنی اے لوگو! سلام پھیلاؤ، لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو اور رات میں جب لوگ سو رہے ہیں نماز پڑھو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے (مشکوٰۃ)۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں اور تباہ کاریوں سے مامون و محفوظ نہ رہے (مسلم، مشکوٰۃ) ۔ کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ پاؤں سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں (بخاری)۔ تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا یہاں تک کے اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند کرے جو خود اپنے لیے پسند کرتا ہے (بخاری)۔ سارے مؤمنین ایک جسد کی طرح ہیں اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہو تو سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے (مشکوٰۃ)۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے ایک عمارت کی طرح جس کا بعض بعض کو قوت پہنچاتا ہے، حتیٰ کہ فرمایا کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں ہے کہ اپنے بھائی کو تین دن سے اوپر چھوڑے رکھے (بخاری)۔
جی ہاں! مدارس میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرنا بھی جائز نہیں ہے قرآنِ کریم میں کفر و شرک کے بعد سخت ترین سزا اُس شخص کی ہے جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر ڈالے بلکہ ظاہری مفہوم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص دائمی طور پر جہنم میں رہے گا۔ اور پھر نہ صرف مسلم معاشرے کے لیے غیر مسلموں اور ذمیوں کے حقوق بھی سکھائے جاتے ہیں کہ ذمی کی جان و مال اور آبرو بالکل مسلمان کی جان و مال اور آبرو کی طرح محترم ہے۔ فوجداری اور دیوانی قوانین مسلم اور ذمی کے درمیان برابر ہیں، کوئی غیر مسلم اپنی مسلم رعایا پر چاہے کتنے ہی ظلم توڑے ایک اسلامی ریاست کے لیے اس کے جواب میں اپنی غیر مسلم رعایا پر ذرا سی زیادتی کرنا بھی جائز نہیں۔ رسولِ اکرم صلی اﷲ عیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’جس نے کسی معاہد (ذمی) کو قتل کیا وہ جنت کی بو سے بھی محروم رہے گا‘‘۔ ہمارے پڑوس میں مسلمانوں پر کس حد تک ظلم رہا ہے لیکن اس کے جواب میں کبھی کسی مدرسہ سے یہ فتویٰ جاری نہیں ہوا کہ تم بھی پاکستان میں موجود اقلیتوں پر ظلم کرو بلکہ مدارس کا اعلان ہے کہ ریاست اپنے باشندوں کی جان و مال اور آبرو کا تحفظ مسلم اور غیر مسلم کا تفریق کے بغیر کرے۔
مدارس کے اندر ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی طرح نظریاتی حدود کی حفاظت ہے۔ آج کے دور تک اگر کوئی طبقہ نظریۂ پاکستان کا تحفظ کر رہا ہے، وطن کے باسیوں کے عقیدہ و عمل کی پاسبانی کر رہا ہے، اسلامی ثقافت اور خالصتاً دینی تہذیب و تمدّن کی بات کرتا ہے تو یہی چٹائیوں پر بیٹھ کر قال اﷲ و قال الرسول کی صدائیں بلند کرنے والے اہلِ مدارس ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی نظریاتی جنگ کا میدان سجا تو دشمن کی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لیے لبرل ازم کا خواب جھوٹا ثابت کرنے والے انھی مدارس کے بوریا نشین تھے۔ ایوانِ اقتدار کا محاذ ہو یا میڈیا کی اسلام فروشی اور مغربی ترجمانی کی وجہ سے عوام الناس میں پایا جانے والا خلجان ہو یہ مدارس کے درویش ہی دلائل اور براہین کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں اور باطل کے نشیمن پر برہان و دلیل کی بجلیاں گرا کر واضح کرتے ہیں کہ کسی صورت بھی نظریہ پاکستان کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح نظریۂ پاکستان کے تحفظ کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو چلانے والے شرعی عدالتوں میں وراثت، طلاق اور عائلی مسائل کے حل کے لیے تمام خدمات اہلِ مدارس کی ہیں۔ یہ کچی عمارتوں اور سادہ درسگاہوں میں پڑھنے پڑھانے والے عام سے کپڑے، خالی جیب اور بوریا نشین، اخلاص و تقویٰ سے بھرپور لوگ جن کے مدارس میں تعلیم کی ذمہ داری صرف ۶ یا گھنٹے تک نہیں بلکہ بلا مبالغہ ۲۴ گھنٹے تعلیم جاری رکھنے والے ہیں، جن کو کبھی آپس میں جھگڑنے، تنظیم بازیوں کے نتیجے میں چھڑانے کے لیے کبھی پولیس اور رینجرز کو نہیں آنا پڑا۔ جن کے طلباء کبھی روڈوں اور سڑکوں پر آئے روز ہڑتال کر کے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، جلوس نکال کر حکمرانوں سے اپنے روزگار کا مطالبہ کرنے اور مدرسے میں آتے جاتے ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں سے دست و گریباں ہونے سے قطعاً دور اور پاک ہیں۔ جن میں قلیل قلیل تنخواہوں پر گزر بسر کرنے والے اساتذہ کبھی سٹرائیک نہیں کرتے۔ آئیے اسلامی اور پاکستانی نظریے کے محافظ بن کر ان مدارس کے ساتھ محبت و تعاون کر کے دینی غیرت کا اظہار کرنے والی جماعت میں شمار ہوں!