مولانا زاہد الراشدی
گزشتہ اتوار کو مجلس احرار اسلام پاکستان کے مرکزی دفتر لاہور میں شہدائے ختم نبوت کی یاد میں حضرت مولانا سید عطاء المہیمن شاہ بخاری کی زیر صدارت منعقد ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی، اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج کی یہ نشست دو حوالوں سے ہے۔ شہدائے ختم نبوت کی یاد میں ہے اور ۹؍ اپریل کو ایوان اقبالؒ لاہور میں مجلس احرار اسلام کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ’’امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کانفرنس‘‘ کی تیاری کے سلسلہ میں بھی ہے اور میں ان دونوں امور کے بارے میں چند مختصر گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ شہدائے ختم نبوت کا تذکرہ ان کی جدوجہد کو تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ نسبت و محبت کے اظہار اور ان کے مشن کے ساتھ وابستگی کا احساس بیدار رکھنے کے لیے بھی ہے اور زندہ قومیں اپنے شہیدوں کو یاد رکھا کرتی ہیں۔ اس ضمن میں ایک تاریخی واقعہ کی طرف توجہ دلاؤں گا کہ جناب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دور میں جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ان میں بنو اسد کے ایک صاحب طلیحہ بن خویلد بھی تھے۔ ان صاحب کا دو دفعہ مسلم فوجوں سے مقابلہ ہوا۔ ایک بار حضرت ضرار بن ازور رضی اﷲ عنہ کے ہاتھوں شکست کھائی اور دوسری بار حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ نے اسے شکست فاش دی، اس معرکے میں معروف صحابی حضرت عکاشہ بن محصن فزاری رضی اﷲ عنہ اس مدعی نبوت کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ طلیحہ حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کے ہاتھوں شکست کے بعد علاقہ چھوڑ گیا لیکن حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے دورِ خلافت میں توبہ اور واپسی کا خیال آیا اور وہ حضرت عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہ کو سفارشی بنا کر امیر المؤمنین کی خدمت میں پیش ہوا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اسے پہچاننے کے بعد فرمایا کہ یہ تو مسلمان ہو جائے گا مگر میں عکاشہ رضی اﷲ عنہ کو کیسے بھول سکوں گا جو اس کے ہاتھوں شہید ہوگیا تھا؟ اس پر طلیحہ نے کہا کہ حضرت! کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ عکاشہ رضی اﷲ عنہ میرے ہاتھوں جنت چلا گیا ہے اور میں اس کے ہاتھوں جہنم جانے سے بچ گیا ہوں۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ ذرا مسکرائے تو اس نے دوسری بات کی کہ امیر المؤمنین! کل قیامت کے دن میں اور عکاشہ رضی اﷲ عنہ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اکٹھے جنت میں جا رہے ہوں گے تو یہ منظر آپ کو کیسا لگے گا؟ اس پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس کے رجوع اور توبہ کو قبول کر لیا اور پھر بعد میں طلیحہ جہاد کے ایک معرکہ میں لڑتے ہوئے شہید ہوگیا۔
محدثین کرام نے طلیحہ کو صحابہ کرام اور شہداء میں شمار کیا ہے اور میں اس کے حوالہ سے دو باتیں عام طور پر کہا کرتا ہوں۔ ایک یہ کہ حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ اپنے شہداء کو یاد رکھنا چاہیے، جبکہ دوسری بات میں قادیانیوں سے کہا کرتا ہوں کہ انہیں مسیلمہ کذاب کے راستے پر چلنے کی بجائے طلیحہ رضی اﷲ عنہ کا راستہ اختیار کر لینا چاہیے، اگر وہ اس راستہ پر آئیں گے تو ان کا بھرپور خیرمقدم کیا جائے گا اور ان کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی۔
’’امیر شریعتؒ کانفرنس‘‘ کے حوالہ سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اپنے بزرگوں کو یاد رکھنا اور ان کی خدمات و تعلیمات کا تذکرہ کرتے رہنا ان کے ساتھ محبت و عقیدت کا اظہار بھی ہے اور ہماری دینی ضرورت بھی ہے کہ اس سے ایمان و حمیت کو تقویت ملتی ہے اور ان کی جدوجہد کو جاری رکھنے کا حوصلہ تازہ رہتا ہے۔ امیر شریعت حضرت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کے بارے میں اس موقع پر سردست یہ گزارش کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کی جدوجہد کو بنیادی طور پر چار دائروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
(۱) پہلا دائرہ یہ کہ انہوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز ’’تحریک خلافت‘‘ سے کیا تھا جس کا مقصد اس وقت موجود خلافتِ اسلامیہ کا تحفظ اور اس کے خلاف استعماری سازشوں کا مقابلہ کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ’’حکومتِ الٰہیہ‘‘ کے قیام کو اپنا مقصد قرار دیا۔ آج بھی یہ مسئلہ درپیش ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی مرکزیت و وحدت کے لیے خلافت کا قیام ہماری ناگزیر ملی ضرورت ہے۔ جبکہ ملک کے اندر حکومتِ الٰہیہ، نفاذ اسلام، نفاذ شریعت، نظام مصطفٰیؐ یا کسی بھی عنوان سے اسلامی قوانین و نظام کی عملداری ضروری ہے جو قیام پاکستان کا بنیادی مقصد ہے۔
(۲) دوسرا دائرہ فرنگی استعمار سے آزادی کا تھا کہ ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو۔ یہ آزادی صرف انگریزوں کی حکومت سے نہیں تھی بلکہ انگریزی نظام سے نجات حاصل کرنا بھی امیر شریعت کی جدوجہد کا ہدف تھا۔ یہ جدوجہد آج بھی جاری ہے اور امیر شریعتؒ کی یاد ہم سے اس میں سرگرم کردار کا تقاضا کر رہی ہے۔ آج جس طرح ہم فرنگی نظام کے ساتھ ساتھ عالمی استعمار کی مسلسل سازشوں اور سامراجی یلغار کا سامنا کر رہے ہیں اس میں امیر شریعتؒ کے جذبۂ حریت اور عزیمت و حوصلہ کو راہنما بنا کر ہی ہم قومی استحکام اور ملی خودمختاری کی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔ آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ قومی آزادی اور خودمختاری کی بحالی کا ہے اور اس کے لیے تحریک آزادی کے جذبہ کے ساتھ آگے بڑھنا دین و ملت کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔
(۳) حضرت شاہ جیؒ کی جدوجہد کا تیسرا دائرہ عقیدۂ ختم نبوت کا تحفظ اور قادیانیت کا تعاقب تھا جس میں انہوں نے پوری زندگی صرف کر دی۔ قادیانیت اپنے عالمی آقاؤں اور مقامی پشت پناہوں کے تعاون سے ہمارے قومی اداروں اور پالیسیوں میں جس طرح مسلسل نقب لگا رہی ہے اور اسے درپردہ سازشوں کے ذریعے ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کا مقابلہ امیر شریعتؒ جیسے حوصلہ و عزم اور ایثار و قربانی کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔
(۴) جبکہ امیر شریعتؒ کی محنت و کاوش کا چوتھا دائرہ یہ تھا کہ انہوں نے امت کے تمام مکاتب فکر اور طبقات کو ساتھ لے کر اس تحریک کو منظم کیا اور پاکستان بننے کے بعد ۱۹۵۳ء میں تمام مذہبی مکاتب فکر کو جمع کر کے دینی جدوجہد کی ایسی شاہراہ متعین کر دی جو آج تک بدستور قائم ہے اور عالمی استعمار اس سے بے حد پریشان ہے کہ پاکستان کے مذہبی مکاتب فکر اپنے تمام تر اختلافات و تنازعات کے باوجود ختم نبوت اور ناموس رسالتؐ کے نام پر متحد ہو جاتے ہیں کیونکہ اس بین المسالک وحدت و ہم آہنگی نے استعماری ایجنڈے کی راہ میں ناقابل شکست دیوار کھڑی کر رکھی ہے۔ چنانچہ اب استعماری سازشوں کا رخ اس طرف دکھائی دے رہے ہے کہ پاکستان کے مختلف مذہبی مکاتب فکر کو دینی مقاصد و اہداف کے لیے الگ الگ مسلکی فورم منظم کرنے کی طرف لگا دیا جائے تاکہ اس متحدہ قوت کو سبوتاژ کیا جا سکے جو ختم نبوت اور ناموس رسالتؐ کے نام پر مجتمع ہو کر ہر قسم کی استعماری سازشوں کے سامنے سدسکندری بن جایا کرتی ہے۔ اس لیے آج امیر شریعت کی روح ہم سے تقاضا کر رہی ہے کہ کسی بھی مشترکہ دینی جدوجہد کے عنوان سے مسلکی دائروں کی الگ الگ ڈفلی نہ خود بجائی جائے اور نہ کسی کو بجانے دی جائے۔ ہماری اصل قوت وحدت و یکجہتی ہے اور اسے ہر حالت میں قائم رکھنا ہماری سب سے بڑی قومی ضرورت ہے۔ (۷؍ مارچ ۲۰۱۸ء )