سید محمد کفیل بخاری
بالآخر سیاسی بلّا تھیلے سے باہر آ گیا، سینیٹ انتخابات مکمل ہو گئے اور صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ منتخب ہو گئے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ ’’یہ صادق سنجرانی کون ہوتا ہے؟ پہلے کہا مجھے کیوں نکالا؟‘‘ انھیں بتایا گیا کہ یہ چیئرمین سینیٹ ہوتا ہے اور انھیں اسی لیے نکالا گیا تھا کہ
’’دن گنے جاتے تھے اسی دن کے لیے‘‘
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے الزام عائد کیا ہے کہ ’’سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی خرید و فروخت ہوئی ہے‘‘ اس وجہ سے انھوں نے نو منتخب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے ساتھ ملاقات سے انکار بھی کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پارلیمانی خرید و فروخت کیا پہلی مرتبہ ہوئی ہے؟ ماضی میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے اس کلچر کو ’’بریف کیس‘‘ اور ’’چمک‘‘ کے نام سے خود متعاف کرایا تھا۔ یہ جمہوریت کا ’’حسن‘‘ ہے جو ’’چھانگا مانگا‘‘ جھیل اور ’’اسلام آباد‘‘ کے جنگلوں میں گم نہیں ہوا بلکہ اپنی پوری عریانی کے ساتھ پارلیمنٹ میں جلوہ افروز ہے۔ پی ٹی آئی نے کوئلوں کی دلّالی میں منہ کالا کیا اور پی پی پی کے مایہ ناز بروکر نے مقتدر قوتوں کے مطلوبہ ہدف کو کامیابی کے ساتھ حاصل کیا۔ نیا عالمی نظام یہی ہے کہ اب حکومت ’’بادشاہ نہیں‘‘ ’’بادشاہ گر‘‘ ہی کریں گے۔
گزشتہ دنوں کراچی میں متحدہ مجلس عمل کی بحالی کا اعلان کر دیا گیا۔ جمعیت علماءِ اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن مرکزی صدر، جماعتِ اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ سیکرٹری جنرل اور جمعیت علماء پاکستان کے رہنما اویس نورانی سیکرٹری اطلاعات مقرر ہوئے۔ مولانا فضل الرحمن نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ:
’’متحدہ مجلس عمل ۲۰۱۸ء کے عام انتخابات میں سیکولر قوتوں کے مقابلے میں ایک مؤثر اور توانا آواز بن کر ابھرے گی۔ ہم اپنے نئے سیاسی سفر کا آغاز کر رہے ہیں۔ ملک میں قیامِ امن، معاشی بدحالی کا خاتمہ، سود کی لعنت سے نجات اور بلا امتیاز تمام پاکستانیوں کے مسائل کا حل ہماری ترجیحات اور ایجنڈہ ہے‘‘۔
۲۰۰۲ء میں متحدہ مجلس عمل کی تشکیل ہوئی تھی، تب قاضی حسین احمد مرحوم صدر اور مولانا فضل الرحمن سیکرٹری جنرل تھے۔ مجلس عمل نے انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کی اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت بھی قائم کی۔ عوام کو مجلس عمل سے بڑی توقعات تھی لیکن…… اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ عالمی قوتوں اور اُن کے مہرے پرویز مشرف کی اپنی ترجیحات اور ایجنڈہ تھا، خصوصاً افغانستان اور طالبان کے مسئلے میں وہ اپنے مفادات اور ایجنڈے کی تکمیل چاہتے تھے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی کس حد تک کامیاب ہوئے یا ناکام، موجودہ صورتِ حال سے الم نشرح ہے۔ مجلس عمل اختلافات کا شکار ہو کر تحلیل ہو گئی اور عوام کے اعتماد و توقعات کو گہرا دھچکا لگا۔
اس وقت جمعیت علماءِ اسلام مرکزی حکومت میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی حلیف اور جماعت اسلامی خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حلیف ہے۔ شنید ہے کہ عام انتخابات سے قبل دونوں جماعتیں اپنے اپنے حلیفوں کو الوداع کہہ کر متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑیں گی۔
بادشاہ گروں کی ڈاکٹرائن اور مستقبل کا سیاسی منظر کیا ہے؟ اس پر مختلف آراء، تجزیروں اور پیشگوئیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم سینیٹ الیکشن کے طے شدہ مطلوبہ نتائج کے حصول کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ آئندہ حکومت بھاری مینڈیٹ والی نہیں ہو گی۔ مخلوط، کمزور اور فرماں بردار حکومت کے قیام کے امکانات زیادہ روشن ہیں۔ متحدہ مسلم لیگ، ملّی مسلم لیگ اور دیگر جڑی بوٹیوں کی افزائش سے ملک و قوم کے مفاد میں ’’بہترین مطلوبہ نتائج‘‘ حاصل کرنے کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔
متحدہ مجلس عمل کا دائرہ عمل زیادہ تر کے پی کے اور بلوچستان میں ہی نظر آئے گا۔ یہاں بھی ففٹی ففٹی کے چانسز ہیں۔ شاید سندھ میں جمعیت علماءِ اسلام ایک سیٹ حاصل کر لے، لیکن پنجاب کی صورتِ حال مایوس کن ہے۔ پی پی پی اور پی ٹی آئی کے رابطوں میں تیزی اور مسلم لیگ ن کی مخالف مذہبی و سیاسی قوتوں کی یکجائی کسی نئے منظر کی چغلی کھا رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کو حلف ختمِ نبوّت، دینی مدارس کے گرد گھیرا تنگ کرنے، مذہبی جماعتوں کے کارکنوں پر مظالم، جعلی پولیس مقابلوں میں اُن کے ماورائے عدالت قتل اور مذہب دشمن پالیسیوں کے باعث خاصی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جامعہ نعیمیہ میں قائد ن لیگ نواز شریف کو جوتا لگنے کے بعد اس رجحان کو تقویت ملتی ہے کہ اب انھیں مذہبی ووٹ نہیں ملے گا۔
مولانا فضل الرحمن کے بقول متحدہ مجلس عمل، سیکولر قوتوں کے خلاف بھرپور مزاحمت کا کردار ادا کرے گی جبکہ اُن کے حلیف نواز شریف لبرل پاکستان کا نعرہ لگا کر اب انقلابی ہونے کے دعوے بھی کر رہے ہیں۔ اِن دنوں مولانا کا لب و لہجہ تلخ بھی ہے اور سخت بھی، مولانا کی اپنی سیاسی ڈاکٹرائن ہے، وہی جانتے ہیں کہ اس صورتِ حال سے وہ کیا کامیابی حاصل کر سکیں گے۔ فی الحال تو بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آرہی۔
ہر کوئی اپنے کیے کی سزا بھگت رہا ہے اور مزید بھگتے گا۔ ہماری رائے میں انتخابات بروقت اور ضرور ہونے چاہئیں۔ صاف اور شفاف ہونے چاہئیں۔ سسٹم کو چلنے دینا چاہیے۔ احتساب ضرور ہو لیکن سب کا۔ احتساب کی وجہ سے انتخاب متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ انتخاب تو پانچ سال بعد ہوتا ہے لیکن احتساب کا عمل مستقل چلنا چاہیے۔ اداروں کا تصادم اور مداخلت بہرحال سسٹم کو تباہی کی طرف لے جائے گا۔ اس سے احتراز ضروری ہے۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کو قائم رکھے اور اچھے حکمران نصیب فرمائے۔
٭……٭……٭