غلام نبی مدنی(مدینہ منورہ)
چند دن پہلے سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کی طرف سے ایک بار پھر قانون توہین رسالت 295سی میں تبدیلی کی کوششیں سامنے آئیں۔ کمیشن برائے انسانی حقوق کی خواتین سنیٹرز نے توہین رسالت کے جرم کو قابل ضمانت بنانے ،گستاخ رسول کی طرف سے ندامت کے اظہار کے بعد معاف کرنے اور گستاخ رسول کی سزا موت سے تبدیل کرکے عمرقید کرنے کی سفارشات کی گئیں۔ہیومن رائٹس کمیٹی کے رکن سنیٹر مولانا عبدالستاراِن سفارشات پر پوری کمیٹی کے سامنے ڈٹ گئے اور انہوں نے کمیٹی کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ قانون توہین رسالت میں ایک نقطے کی تبدیلی بھی برداشت نہیں کی جائے گی۔کمیٹی نے اصرار کیا تو مفتی عبدالستار نے کہا کہ میڈیا کے ذریعے پوری قوم کے سامنے اس سازش کو بے نقاب کیا جائے گا۔جس کے بعدکمیٹی ان سفارشات کو اسلامی نظریاتی کونسل بھیجنے پر رضامند ہوگئی۔سنیٹرمفتی عبدالستار نے کہا کہ سینیٹ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کی طرف سے چوتھی بار توہین رسالت قانون میں تبدیلی کی کوشش کی گئی۔
قانون توہین رسالت 295سی کی بنیاد17مئی 1986ء میں اُس وقت رکھی گئی، جب عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کی طرف سے رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں نازیباکلمات سامنے آئے۔پاکستان کے موجودہ وزیر داخلہ احسن اقبال کی والدہ آپانثار فاطمہ اور سپریم کورٹ کے وکیل محمد اسماعیل قریشی نے مل کر اس قانون کی راہ ہموار کی۔بعدازاں 2جون 1990 کو قومی اسمبلی اور 8جولائی 1992کو سینیٹ نے متفقہ طور پر 295 سی کو منظور کیا ۔جس کے مطابق توہین رسالت کے جرم میں مجرم کو پھانسی کی سزادی جائے گی۔اس قانون کے بننے کے بعدمغرب اور مغرب نواز لابیاں متحرک ہوگئیں اور انہوں نے اس قانون کو اِنسانی حقوق کے منافی قراردے کر ختم کرنے اور غیر مؤثر بنانے کے لیے سازشیں شروع کردیں۔ چنانچہ امریکا، برطانیہ اور جرمنی سمیت کئی ملکوں نے پاکستان پر زور ڈالا کہ وہ اس قانون کو ختم کردے ۔جس کا اندازہ 13نومبر 2017کوجنیوا کمیشن کی رپورٹ اور یورپی یونین کے ممبر کی پاکستان آمدسے لگایاجاسکتاہے ۔جس کا مقصد پاکستان سے توہین رسالت قانون کے خاتمے کا مطالبہ تھا۔پاکستان میں بھی کئی بار بعض سیاست دان اور دیگر سیکولرطبقے امریکا کی خوشنودی کی خاطراس قانون میں تبدیلی کی کوششیں کرچکے ہیں۔جس کے نتیجے میں فسادات نے جنم لیا،ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہوئے،حتیٰ کہ لوگوں نے قانون ہاتھ میں لے کرتوہین رسالت قانون کو ختم کرنے والوں کو خود ختم کردیا۔جس کااندازہ3جنوری 2011میں پنجاب کے گورنر کے قتل سے لگایا جاسکتاہے ،جنہوں نے قانون توہین رسالت کو’’کالا‘‘قانون قراردے کر ختم کرنے کی بات کی تھی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قانون توہین رسالت بننے کے بعد اب تک دودرجن سے زائد کیس توہین رسالت کے سامنے آچکے ہیں،مگر آج تک توہین رسالت کے کسی مجرم کو اس قانون کے تحت پھانسی کی سزا نہیں دی گئی۔جس پر قانون توہین رسالت کے مخالفین کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
توہین رسالت کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ قانون انسانی حقوق کے منافی ہے اوراس قانون کی وجہ سے بیرونی دنیا میں پاکستان کا امیج متاثر ہورہاہے۔ حالاں کہ اگر اس قانون کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بنیادی طور پر 157سال پہلے ہندوستان میں برطانوی سامراج نے اس قانون کی بنیاد ڈالی، چنانچہ 1860 میں تعزیرات ہندکے باب 15میں برطانوی حکومت نے مذہبی جذبات مشتعل کرنے کوجرم قراردے کر295سے 298تک دفعات بنائیں، جن کے مطابق مقدس شخصیات اور مقدس شعائر کی توہین پر سزائیں مقرر کی گئیں۔ان قوانین کو مزید سخت کرنے کے لیے 1927ء میں 295 کی دفعہ (الف) کا اضافہ کیا گیا۔بعدازاں 1920 سے 1930 تک ہندوؤں کی شُدھی اور سنگھٹن نامی شدت پسند تحریکوں کے وقت توہین رسالت کے واقعات سامنے آئے ۔جس میں لاہور کے اندر توہین رسالت پرمبنی کتاب کے ناشر راجپال کو غازی علم الدین نے قتل کردیا۔جس پر برٹش حکومت نے انہیں پھانسی کی سزا دی۔غازی علم الدین شہید کے مقدمے کی پیروی میں قائد اعظم محمد علی جناح پیش ہوئے ۔جنہوں نے پھانسی کی سزا معاف کرنے کی اپیل کی،مگر جج نے اپیل کو مسترد کردیا۔حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒنے غازی علم الدین کے جرأت مندانہ اقدام پر کہاتھاکہ’’ہم باتیں کرتے رہ گئے اور ترکھان کا بیٹا(غازی علم الدین )بازی جیت گیا۔ ‘‘’1934 میں عبدالقیوم نامی ایک مسلمان نے کراچی میں ایک گستاخ کو موت کی گھاٹ اتاردیا۔غازی عبدالقیوم کو پھانسی ہوئی تو لوگوں نے علامہ اقبال کو کہا کہ وائسرئے ہند سے رحم کی اپیل کریں،مگر اقبالؒ نے کہا کہ:
اُن شہید وں کی دِیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدروقیمت میں ہے خوں جن کا حرم سے بڑھ کے
قانون توہین رسالت کی اس حقیقت کو سامنے رکھنے کے بعد یہ نتائج سامنے آتے ہیں کہ مقدس شخصیات اور مقدس شعائر کا معاملہ اس قدر حساس ہے کہ جس کا اقرار 157سال پہلے انسانی حقوق کے علمبردار ملک برطانیہ نے خود کیا اور اُس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی۔اگر آج بھی دنیا میں قوانین توہین رسالت کامطالعہ کیا جائے تو دنیا میں تقریبا ً71ملک ایسے ہیں۔جہاں مقدس شخصیات اور مقدس شعائر کی توہین سخت ترین جرم ہے ، چنانچہ انسانی حقوق کے علمبردار یورپ کے سات سے زائد ممالک ایسے ہیں کہ جہاں اب بھی مقدس شخصیات کی توہین پر سزائیں دی جاتی ہیں۔ان ممالک میں روس،آئرلینڈ،پولینڈ،ڈنمارک،اٹلی،روم جیسے ممالک شامل ہیں۔امریکا،برطانیہ،کینیڈا،نیوزی لینڈ، اسرائیل اوربھارت سمیت دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں ،جہاں پر کسی نہ کسی حدتک مقدس شخصیات اور مقدس شعائر کے بارے میں توہین آمیزبات کرنا جرم ہے ۔اگر 250 سال پہلے کی دنیا کا مطالعہ کیاجائے تو دنیا کے ہر ملک ،ہرمذہب اور ہر علاقے میں مقدس شخصیات اور مقدس شعائر کی توہین متفقہ طور پرجرم تھا۔آج بھی بھارت جیسے جمہوری ملک میں پدومات نامی فلم پر اِسی لیے مظاہرے ہورہے ہیں کہ بھارتی انتہاپسند ہندؤں کے بقول اس میں ان کی مقدس شخصیت کی توہین کی گئی ہے ۔روس اور آئرلینڈ میں عیسائی اس لیے سڑکوں پر نکل کراحتجاج کررہے ہیں کہ اُن کے چرچ اور چرچ سے منسلک مقدس شخصیات کا مذاق اڑایا گیا۔ہرسال ہولوکاسٹ کے مخالفین کے خلاف دنیا بھر کے یہودی اس لیے سراپا احتجاج ہوتے ہیں کہ وہ یہودیوں کی توہین کرتے ہیں۔امریکا میں قانون اور امریکی پرچم کے خلاف بات کرنے پر ہرسال لوگوں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔برطانیہ میں ملکہ کی توہین کو آج بھی جرم گردانا جاتاہے ۔
توہین رسالت قانون کو انسانی حقوق کے منافی کہنے والوں کو انسانی حقوق کے علمبردار یورپین پارلیمنٹ کی سابقہ نائب صدر مرے یڈمیگنس کے اس بیان پر غورکرنا چاہیے جس میں انہوں نے کہا کہ “ان کے ملکوں میں قانون توہین رسالت موجودہے ۔اگرچہ کمزور ہے اور کم استعمال ہوتاہے ۔ یورپ نے دوسرے ملکوں کے ساتھ اپنے رویوں کی وجہ سے اسے مزید کمزور کردیاہے ،کیوں کہ یورپ پاکستان،سوڈان،انڈونیشیا جیسے ملکوں میں توہین مذہب کے قوانین پر تنقید کرتاہے ،مگرخود اِن قوانین کو استعمال کرتاہے ۔اس لیے ہمیں خود پہلے اس قانون کو ختم کرنا ہوگا۔
ان حقائق کے بعد قانو ن توہین رسالت میں تبدیلی کا خواب دیکھنے والوں کو عبر ت پکڑنی چاہیے ،کیوں کہ رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ اس قدرعظیم ہے جس پر ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان بھی اپنی جان قربان کرنے کو اپنے لیے فخر اور اعزاز سمجھاتاہے ۔مسلمانوں کے نزدیک سب سے بڑھ کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات ہے ۔جس پر کبھی انہوں نے کوئی سمجھوتہ کیا ہے ،نہ آئندہ اس قسم کا تصور کیا جاسکتاہے
َ …… َ …… َ