منصوراصغرراجہ
مختلف دینی جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی لا کالج کو عاصمہ جہانگیر سے منسوب کرنا دراصل مذکورہ تعلیمی ادارے کو متنازع کرنے کے مترادف ہو گا۔ایسے کسی بھی حکومتی اقدام کی سخت مزاحمت کی جائے گی ۔واضح رہے کہ 14فروری کو مسلم لیگ (ن)رکن پنجاب اسمبلی حنا پرویز بٹ نے صوبائی اسمبلی میں قرارداد جمع کرائی کہ عاصمہ جہانگیر کی انسانی حقوق اور جمہوریت کی بحالی کے لئے خدمات کے اعتراف میں پنجاب یونیورسٹی کے لا، ڈِپارٹمنٹ کو اُن کے نام سے منسوب کیا جائے ۔
اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے مرکزی رہنماڈاکٹر فرید پراچہ کا ’’امت ‘‘سے بات کرتے ہوئے کہنا تھاکہ عاصمہ جہانگیر کی ملک وقوم ،انسانی حقوق اور جمہوریت کے لئے ایسی کوئی قابل ذکر خدمات نہیں ہیں کہ جن کی وجہ سے پنجاب یونیورسٹی لا کالج جیسے موقر تعلیمی ادارے کا نام ان سے منسوب کیا جائے ۔ایسی کوئی بھی حرکت پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں پڑھنے والے طلبا و طالبات کی توہین کے مترادف ہو گی ۔ پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے بڑے نامور ماہرین قانون وابستہ رہے ہیں جن کی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے ۔انہیں چھوڑ کرعاصمہ جہانگیر جیسی متنازعہ شخصیت کے نام سے پنجاب یونیورسٹی لاکالج کو منسوب کرنا اس وقیع تعلیمی ادارے کو متنازع بنانے کے مترادف ہو گا ۔تعلیمی اداروں کو اس طرح کی شخصیات سے منسوب کرنا ایک غلط روایت ہے ۔تعلیمی اداروں کو چراگاہ نہ سمجھا جائے ۔اس لئے حکومت کی طرف سے ایسی کوئی بھی کوشش قابل قبول ہو گی نہ کامیاب ہونے دی جائے گی ۔
مجلس احرار اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ نے ’’امت‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن)کی طرف سے پنجاب اسمبلی میں پنجاب یونیورسٹی لاکالج کو عاصمہ جہانگیر کے نام سے منسوب کرنے کے سلسلے میں جو قرارداد جمع کرائی گئی ،یہ درحقیقت اس عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے ،جس کے تحت پاکستانی قوم بالخصوص نوجوان نسل کے اذہان کو اِسلامی نظریات و اَفکار سے دُور ہٹا کر انہیں بے دینی اور بے حمیتی کے سپرد کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔عاصمہ جہانگیر دنیا سے رخصت ہو گئیں، لیکن ان کا کردار و افکار زیر بحث رہیں گے،کیونکہ انہوں نے اسلامی اقدار ،کلچر اور تہذیب کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔انسانی حقوق کی آڑ میں دین دشمن قوتوں خاص طور پر قادیانیت کو پروموٹ کرنے کے لئے انہوں نے جو کردار ادا کیا،وہ ریکارڈ پر موجود ہے ۔ان کی آزاد خیالی فکری ارتداد کا سبب بنی، کیونکہ انہوں نے علی الاعلان ایک قادیانی سے بیاہ رچایا اور عمر بھر توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کی پشتی بان بنی رہیں۔والدین کی عزت کو مٹی میں ملا کر گھروں سے بھاگنے والی آوارہ و سرکش لڑکیوں کو پناہ دے کر حرام کاری کو فروغ دیتی رہیں۔ملک و قوم کے لئے ان کی ’’خدمات‘‘ یہ تھیں کہ جب بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا تو عاصمہ جہانگیر نے چُپ سادھ لی ،لیکن اس کے جواب میں پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تواُسی عاصمہ جہانگیر نے اُس وقت کی پاکستانی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ہر دین دشمن اور ملک دشمن قوت کو اُن کی ہمدردیاں حاصل رہیں۔پنجاب یونیورسٹی لاکالج جیسے موقر تعلیمی ادارے کا نام ایسی خاتون سے منسوب کرنا نہ صر ف دینی غیرت و حمیت کے خلاف ہو گا،بلکہ آئین کی روگردانی بھی ہو گی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مسلم لیگی ایم پی اے کی طرف سے پنجاب اسمبلی میں ایسی قرارداد جمع کرائے جانے کے بعد متحدہ تحریک ختم نبوت رابطہ کمیٹی کے مشترکہ پلیٹ فارم سے مختلف مکاتب فکر سے رابطے شروع کردیے گئے ہیں۔اگر حکومت نے ایسا کوئی اقدام کیا تواس کے خلاف سخت مزاحمت کی جائے گی ۔
وفاق المدارس العربیہ پنجاب کے ناظم مولانا قاضی عبد الرشید نے کہا کہ توہین رسالت کے سلسلے میں عاصمہ جہانگیر کا کردار ہمیشہ مشکوک اور متنازع رہا ہے ۔ان کی زندگی انسانی حقوق اور جمہوریت کی بحالی کے لئے نہیں بلکہ قادیانیت نوازی میں گزری ۔ان کے بیانات و کردار ہمیشہ دین سے متصادم رہے۔اس لئے کسی بھی تعلیمی ادارے کواُن کے نام سے منسوب کرنا مذکورہ ادارے کو متنازعہ بنانے اور اُس کا مقام گرانے کی کوشش ہو گی۔ جس پر شدید ردعمل ہو گا ۔لہٰذا حکومت ایسے کسی بھی اقدام سے باز رہے ۔
وفاق المدارس السلفیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا ڈاکٹر یٰسین ظفر نے کہا کہ کسی تعلیمی ادارے ،شاہراہ یا مقام کو کسی سے منسوب کرنے کے لئے قومی اتفاق رائے ضروری ہوتا ہے ،جبکہ عاصمہ جہانگیر عمر بھر صرف دینی حلقوں کے نزدیک ہی نہیں بلکہ کئی دیگر حلقوں میں بھی بے حد متنازعہ رہی ہیں۔جمہوریت اور انسانی حقوق کے لئے ان کی خدمات کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو خبر ہو نی چاہئے کہ ان کی گفتگو اور کردار ہمیشہ متنازعہ رہی تھی۔وہ بڑی بے باکی سے شعائر اسلام کی توہین کرتی تھیں ۔توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کو ہمیشہ ان کی قانونی معاونت حاصل رہی ۔صرف چند لوگوں کو خوش کرنے کے لئے کسی ایسی خاتون کے نام سے ایک وقیع تعلیمی ادارے کا نام منسوب کرنا پوری قوم کی دل آزاری کے مترادف ہو گا ۔ایسی کسی بھی حرکت سے ملک میں ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو سکتا ہے ۔ہم اس سلسلے میں ایک حکومتی خاتون ایم پی اے کی طرف سے پنجاب اسمبلی میں قرارداد جمع کرانے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اسے مسترد کرتے ہیں۔ایسی کسی بھی اقدام کی سخت مخالفت کی جائے گی ۔
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنما متین خالد نے کہا کہ مسلم لیگ (ن)کی اس خاتون ایم پی اے سے پوچھنا چاہئے کہ کیا پنجاب یونیورسٹی لا کالج کو اِس لئے عاصمہ جہانگیر سے منسوب کیا جائے کہ انہوں نے 1986ء میں اسلام آباد میں ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ کے بارے میں انتہائی نازیبا زبان استعمال کی تھی۔اس پر آپا نثار فاطمہؒ نے پارلیمنٹ میں آواز اٹھائی۔ جس کے نتیجے میں 295Cکا قانون بنا۔یہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے پاکستان میں توہین رسالت کا دروازہ کھولا ۔ان سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ۔پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا گستاخ ہو، جس کا انہوں نے کیس نہ لڑا ہو ۔پاکستان ،نظریہ پاکستان ،شعائر اسلامی ،قوانینِ اسلامی،عائلی قوانین اور اسلامی سزاؤں کے خلاف ہرزہ سرائی اُن کا شیوہ تھا۔اُن کے ڈانڈے اُن بین الاقوامی طاقتوں سے ملتے تھے جو پاکستان کو سیکولر ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔ہم نے شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کا مطالبہ کیا تویہ خاتون اقلیتوں کو ساتھ لے کر مال روڈ پر آ گئیں۔قانون کااِتنا احترام کرتیں کہ اگر کوئی آنریبل جج قادیانیوں کے خلاف کوئی فیصلہ دیتا تو یہ خاتون عدالت پر چڑھ دوڑتیں!ساری زندگی فیڈرل شریعت کورٹ ،جداگانہ طرزاِنتخاب اوراِمتناع قادیانیت ایکٹ کو ختم کرانے کی جدوجہد کرتی رہیں۔کیا عاصمہ جہانگیر کی ان ’’خدمات‘‘ کی وجہ سے ایک موقر تعلیمی ادارے کو اُن سے منسوب درست اقدام ہو گا !اُن کامزیدکہناتھا کہ دینی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس معاملے کا فوری نوٹس لیں۔
جامعہ نعیمیہ لاہور کے خطیب مفتی حسیب قادری کاکہناتھاکہ جن لوگوں نے کسی قوم ،ملک اور معاشرے کے لئے گراں قدر خدمات انجام دی ہوں ،تعلیمی اداروں کی نسبت اُن کی طرف کرنا ایک اچھی روایت ہے ،لیکن عاصمہ جہانگیر جیسی خاتون جن کی ساری زندگی ،کرداراور گفتگو ہمیشہ متنازعہ رہی ۔انہوں نے عمر بھر اسلامی شعائر کی اہانت کی ۔ توہین رسالت کے حوالے سے ان کا کردار بھی پوری قوم کے سامنے ہے ۔عاصمہ جہانگیر کا شمار ان لوگوں میں ہوتاہے جن کے نظریات و کردار پر ہمیشہ انگلی اٹھتی رہی ۔وہ ببانگ دہل کہا کرتی تھیں کہ ان کا کوئی مذہب نہیں ہے لیکن انسانی حقوق کی آڑ میں توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کوہمیشہ ان کا تعاون حاصل رہا ۔پنجاب یونیورسٹی لا کالج جیسی تعلیمی درسگاہ کواُن سے منسوب کرنا ملک میں ایک نیا انتشار پیدا کرنے کی کوشش ہوگی۔اس لئے ارکان پنجاب اسمبلی کو مذکورہ قرارداد مسترد کردینی چاہئے ۔
(روزنامہ’’امت‘‘،کراچی۔20فروری2018)