محمد عرفان الحق
آپؓ کا نام عبداﷲ، لقب صدیق اور عتیق ہیں۔ دونوں لقب جناب نبی کریم علیہ السلام نے عطا فرمائے۔ آپؓ کانسب آٹھویں پشت پر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ آپؓ نہایت رقیق القلب اور بردبار تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نبی علیہ السلام کے پہلے صحابی ، پہلے امتی، پہلے خلیفہ، نبی علیہ السلام کے انتہائی قریبی ساتھی اور آپ ﷺ کے سسر بھی تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہ کا یو م وصال ۲۲ جمادی الثانی کو ہوا۔ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ قریش کے ایک بااثر اور ممتاز فرد تھے۔ آپؓ کی اس قدر عزت کی جاتی تھی کہ دیت و تاوان کے تنازعات کا فیصلہ آپؓ ہی سے کروایا جاتا تھا۔ اور جب آپؓ کسی کی ضمانت دے دیتے تو اس پر اعتبار کیا جاتا۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی آپؓ نے شراب کو چھوا تک نہیں۔ صغر سنی سے ہی آپؓ کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے والہانہ محبت و مودت تھی۔ بعثت نبوت کے بعد فوراً بغیر کوئی معجزہ طلب کی ایمان لائے۔ مشرف بہ اسلام ہو نے کے بعد سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اسلام کی وہ خدمت کی کہ اس کی مثال نہیں دی جاسکتی۔ یہ وہ وقت تھا کہ دعوت اسلام کا زبان پر لانا ایسے تھا کہ جیسے جلتا ہوا انگارہ ہاتھ میں لینا۔ مگر آپؓ نے اس دور میں بھی دامن نبوت نہ چھوڑا اور نبیﷺ کے کام کو اپنا کام سمجھ کر اپنایا اور ایسا اپنایا کہ اس راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہ کی اور اسی رستے میں ہر طرح کی تکالیف اور مصائب و آلام خندہ پیشانی سے برداشت کیے۔ اشراف قریش کی ایک جماعت سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی تبلیغ سے ہی حلقہ بگوش اسلام ہوئی۔ عشرہ مبشرہؓ میں سے سیدنا عثمان، سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، سیدنا سعد بن ابی وقاص(فاتح ایران)، سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہم اجمعین انہیؓ کے وعظ و ترغیب سے مسلمان ہوئے۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ کی محبت و مودت، اقتداء وپیروی میں اس قدر رنگ لیا تھا کہ لوگ بعض اوقات حضرت سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ پر نبی علیہ السلا م ہونے کا گمان کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ ہجرت مدینہ کے موقع پر جب نبی علیہ السلام اور سیدنا ابوبکررضی اﷲ عنہ مدینہ پہنچے تو ایک جگہ تشریف فرما ہوئے۔ اہل مدینہ کو جب آمد نبوت کی خبر ملی تو وہ زیارت کے لیے آنا شروع ہوئے تو چونکہ حضور نبی کریم ﷺ اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ایک ہی جگہ رونق افروز تھے اور اکثر اہل مدینہ نے نبی علیہ السلام کو اس سے پہلے نہیں دیکھا ہوا تھا، تو کئی لوگ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ کو حضوراکرم ﷺ سمجھ کر پہلے ملتے اور بعد میں نبی علیہ السلام کو ، مگر جب سورج ذرا بلند ہوا اور دھوپ کی حدت میں اضافہ ہوا اور نبی کریم ﷺ کو دھوپ لگنے لگی تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اپنی چادر تان کر نبی علیہ السلام پر سایہ کرنے لگے۔ اس وقت اہل مدینہ کو معلوم ہوا کہ نبی علیہ السلام تو وہ ہیں جن پر چادر کا سایہ کیا جا رہا ہے۔
اعلان نبوت کو تیرہ سال گزر چکے تھے کہ بارگاہ ایزدی سے خاتم المعصومین حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کو اذن ہجرت ہوتا ہے تو آپﷺ اپنے دیرینہ دوست سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے گھر کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ سیدنا ابوبکررضی اﷲ عنہ نبی علیہ السلام کی معیت میں مدینہ منورہ کی طرف رخت سفر باندھتے ہیں۔ ادھر ابوجہل اور اس کے آلہ کار سر جوڑکر بیٹھتے ہیں اور نبی علیہ السلام اور سیدنا ابوبکررضی اﷲ عنہ کی تلاش میں مختلف لوگوں کو بھیجتے ہیں۔ ابو جہل خود بھی چند ساتھیوں کے ساتھ کھوجی لے کر سیدالانبیاء علیہ السلام اور سیدالصحابہ رضی اﷲ عنہ کی تلاش میں نکلتا ہے۔کھوجی قدموں کی نشانات دیکھتے دیکھتے پتھریلی زمین پر پہنچ کر رک جاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہا ں تک تو وہ دونوں آئے ہیں مگر اس کے بعد آگے ایک ہی شخص گیا ہے۔ ابو جہل یکدم چیخ اٹھا کہ کیا تمہیں رستہ نہیں نظر آرہا؟ دیکھتے نہیں کہ راستہ پتھریلا ہے، ضرور ابوبکر(رضی اﷲ عنہ) نے اپنے ساتھی محمد(ﷺ) کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا ہوگا۔
ہجرت مدینہ کے سفر میں غار ثور میں نبی علیہ السلا م اور سیدنا ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ نے تین دن تک قیام فرمایا۔ ایک موقع پر ابوجہل اور اس کے ساتھی ہر دو حضرات کو تلاش کرتے کرتے غار کے منہ پر آ کھڑے ہوئے کہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ کو ان کے قدم نظر آنے لگے۔ تو سیدناابو بکر رضی اﷲ عنہ غمگین و پر ملال ہوئے کہ کہیں یہ کافر نبی علیہ السلام کی ذات گرامی قدر کو کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔ نبی اکرم ﷺ اپنے دوست کی اس پریشانی کو بھانپ گئے اور فرمایا کہ غم نہ کرو اﷲ ہمارے ساتھ ہے۔ اﷲ رب العزت کی قدرت تھی کہ جناب نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے غار میں داخل ہونے کے بعد حکم ربانی کے تحت ایک کبوتری نے غار میں داخل ہونے والے جگہ پر گھونسلہ بنا کر اس میں انڈے دیے اور ایک مکڑی نے غار کے منہ پر جالا بن ڈالا۔ یہ دیکھ کر ابو جہل اور اس کے چیلے نبی ﷺ اور سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی تلاش سے مایوس ہو کر لوٹ گئے۔ ہجرت مدینہ کے اس جان لیوا اور دشوار گزار و پرخطر سفر کی طرف قرآن پاک میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔اس موقع پر اﷲ تعالیٰ نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو حضور نبی کریم ﷺ کا صحابی فرمایا ہے۔ اسی لیے عالم اسلام کا یہ متفقہ عقیدہ و مسئلہ ہے کہ چونکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی صحابیت پر قرآن کریم کی نص قطعی موجود ہے ، اس لیے آں موصوفؓ کی صحابیت کا انکار منافی اسلام ہے۔
حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے نبی علیہ السلام کی معیت میں ساری زندگی گزاری ۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے اپنی پوری زندگی کوئی ایسا فعل نہیں سرانجام دیا جو نبی کریم ﷺ نے نہیں انجام دیا۔ نبی علیہ السلام کے اعلان نبوت اور دعوت اسلام پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے سیدنا ابوبکررضی اﷲ عنہ ہی تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے اسلام کے ابتدائی عرصہ میں انتہائی سخت حالات کو بڑی جاں فشانی سے برداشت کیا اور اپنا سب کچھ آقاﷺ کے قدموں میں ڈھیر کردیا۔ نبی علیہ السلام کے سفر و حضر، قیام و طعام، جہاد و حج حتیٰ کہ قبر مبارک کے ساتھی بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ہیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ ہر غزوہ میں نبی علیہ السلام کے ہم قدم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نبی علیہ السلام سے براہ راست روایت فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ میرے نزدیک میرے صحابہؓ میں اور میرا تعاون کرنے میں ابو قحافہؓ کے بیٹے (حضرت ابو بکر صدیقؓ) سب سے افضل ہیں۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ وہ واحد صحابی رسول ہیں کہ جن کی چار نسلیں خلعت صحبت رسول سے آراستہ تھیں، والد، والدہ، خود، اولاد، پوتوں، نواسوں، سب نے آنحضرت ﷺ کے دست اقدس پر اسلام قبول کیا۔ تھیں۔ حضور نبی کریم ﷺ کو اپنے اس جاں نثار صحابیؓ پر اتنا اعتماد تھا کہ آپﷺ نے متعدد مرتبہ اشارے کنایے میں فرمایا کہ میرے بعد ابوبکرؓ خلیفہ ہوں گے۔ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ راوی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنے مرض وفات میں فرمایا کہ مسجد کی طرف راستوں پر جو دروازے ہیں، ان کی طرف دیکھو ! حضرت ابوبکرؓ کے دروازہ کے علاوہ باقی سب دروازے بند کر دو، مجھے ان کے دروازہ پر نور نظر آرہا ہے۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اور نبی کریم ﷺ کے حالات زندگی پر اگر نظر ڈالی جائے تو واضح ہو گا کہ نبی علیہ السلام اورجناب ابوبکررضی اﷲ عنہ میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ نبی ﷺ اور سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ دونوں کی عمر مبارک تریسٹھ سال تھی۔ اسی طرح ہر دو حضرات کی بیماری کا عرصہ بھی ایک ہی تھا۔ہر دو حضرات کے وصال کے بعد ان کے بعد سب سے بہتر شخصیت نے ان کی جگہ سنبھالی یعنی نبی ﷺ کے بعد سیدنا ابوبکررضی اﷲ عنہ اورسیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے بعد سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ مسند خلافت پر رونق افروز ہوئے۔ نبیﷺ و سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ ہر دو حضرات کی تدفین بھی اس جگہ ہوئی جسے جنت کا ٹکڑا قرار دیا گیا۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نیک کام کرنے میں ہمیشہ پہل کیا کرتے تھے ۔ ایک موقع پر نبی علیہ السلام نے اﷲ کی راہ میں مال قربان کرنے کا حکم فرمایا تو سیدنا عمررضی اﷲ عنہ نے سوچا کہ آج میں حضرت ابوبکررضی اﷲ عنہ سے زیادہ مال دے کر ان سے نیکی میں سبقت لے جاؤں گا، لہٰذا سیدنا عمررضی اﷲ عنہ اپنے گھر کا آدھا مال بارگاہ نبوت میں لا کر پیش کرتے ہیں تو نبی علیہ السلام استفسار فرماتے ہیں کہ کتنا لائے؟ تو جناب عمررضی اﷲ عنہ جواباً گویا ہوئے کہ آدھا مال لے آیا ہوں اور آدھا گھر چھوڑ آیا ہوں۔اسی اثناء میں سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ اپنے گھر کا سارا مال لا کر آقاﷺ کے قدموں پر نچھاور کرتے ہیں تو نبی علیہ السلام انؓ سے دریافت فرماتے ہیں کہ گھر کے لیے کیا چھوڑا تو سیدنا ابو بکر رضی اﷲ عنہ جواب ارشاد فرماتے ہیں کہ گھر کے لیے تو اﷲ اور اس کا رسولﷺ چھوڑ آیا ہوں۔ اس موقع پر سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ میں کبھی نیکی میں ابوبکر سے بڑھ نہیں سکتا۔
وصال نبوت کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ خلیفہ بنائے گئے تو انہیں ’’خلیفہ رسول‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ لقب امت میں صرف سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو حاصل ہے۔ جبکہ دیگر خلفاءؓ کے لیے ’امیرالمؤمنین‘ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ اپنی خلافت کے دور میں منکرین زکوٰۃ، مرتدین، منکرین ختم نبوت کے خلاف انتہائی جواں مردی اور جرأت سے علم جہاد بلند کیا اورہر محاذ پر فتح حاصل کی۔ علماء رقم طراز ہیں کہ صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے وصال نبوت کے بعد مرتدین کی سرکوبی کے لیے ایسے اقدامات کیے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوبکرؓ مرتدین کے معاملہ میں انبیاء کی جگہ کھڑے ہو گئے۔ کئی قرآنی وعدے بھی خلافت صدیقی میں پورے ہوئے۔ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ جب سریر آرائے خلافت ہوئے تو چونکہ آپ رضی اﷲ عنہ کپڑے کے تاجر تھے، تو اگلے دن کپڑے کے تھان اٹھا کر بازار کو نکلے۔ یہ دیکھ کر سیدنا عمر رضی اﷲ نے فرمایا کہ اب تو آپ کو صرف کار خلافت پر ہی اپنی توجہ رکھنا ہوگی اور حوائج ضروریہ کے لیے بیت المال سے آپ کو رقم دی جا یا کرے گی۔ اس پر یہ بات زیر موضوع بنی کہ بیت المال سے کتنی رقم دی جایا کرے گی تو سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ مدینہ کے ایک مزدور کو جتنی رقم مزدوری میں ملا کرتی ہے، مجھے بھی اتنی ہی رقم دی جائے۔ اگر اس میں میرا گزارہ نہ ہوا تو میں مزدور کی مزدوری بڑھا دوں گا۔
سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ منصب خلافت پر متمکن ہوئے تو حریص ہوئے کہ اتباع ابی بکرؓ پر کاربند رہنا چاہیے۔ اسی اتباع میں ایک نا بینا ضعیف تک جا پہنچے کہ ابوبکر رضی اﷲ عنہ اس ضعیف کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے تھے۔ سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ بھی خاموشی سے گئے اور اس کے منہ میں نوالہ رکھا کہ وہ گویا ہوا کہ کیا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کا وصال ہو گیا؟ جواباً سیدناعمر رضی اﷲ عنہ بولے میں نے تو خاموشی سے آپ کو کھانا کھلانا شروع کیا مگر آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ ابوبکر رضی اﷲ عنہ وفات پاگئے؟ ضعیف شخص نے جواب دیا کہ میرے دانت نہیں آپ نے براہ راست نوالہ میرے دہن میں رکھ دیا جبکہ ابوبکر رضی اﷲ عنہ نوالہ اپنے منہ میں چباکر نرم کر کہ مجھے کھلاتے تھے۔الغرض کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے معیت نبوت اور اپنی خلافت میں اسلام کی وہ خدمت کی کہ امت مسلمہ تا قیام قیامت ان کے اس احسان سے سبکدوش نہیں ہو سکتی ۔ مرض وفات میں فرمایا کہ جن کپڑوں میں میرا انتقال ہو رہا ہے مجھے انہی کپڑوں میں کفن دینا۔ تجہیز و تکفین کے بعد ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کے حجرہ (جو کہ روضۂ نبوی کہلاتا ہے) میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تدفین کی گئی۔ دعا ہے کہ اﷲ پاک ہمیں صحابہ کرامؓ کی طرح نبی علیہ السلام کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔