محرک قرارداد ختم نبوت میجر (ر) محمد ایوب خان شہید ؒ سے وزیر اعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان تک کا پس منظر
محمد مقصود کشمیری
ریاست کی مقامی جماعت تحریک تحفظ ختم نبوت آزادکشمیر کی جانب سے پوری امت مسلمہ کے لیے باعث خوشی ہے کہ تحریک آزادی کے بیس کیمپ کی قانون ساز اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں ۶ فروری ۲۰۱۸کو ۳ بجکر ۵۲ منٹ ۵۷ سیکنڈ پر ایک بل متفقہ طور پر اراکین کی جانب سے منظور کیا گیا، جسے ختم نبوت بل کہا جاتا ہے، ۶ فروری کا دن آزادکشمیر کی تاریخ میں پوری امت مسلمہ کے لیے ایک اعزاز اور یاد گار کے طور پر محفوظ ہو گیا کہ اس دن آزادکشمیر کی اسمبلی سے منکرین ختم نبوت قادیانیوں ( احمدی، لاہوری) کے تمام گروپوں کو قانونی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا اور اس ضمن میں قانون سازی بھی کی جائے گی، (ان شاء اﷲ ) اس سارے عمل کے پیچھے ایک طویل داستان اور ایک ایسی ریاستی جماعت کی محنت اور کردار شامل ہے جسے تاریخ میں تحریک تحفظ ختم نبوت آزادکشمیر کے نام سے لکھا جائے گا۔ ۲۰۰۳ء سے تحریک تحفظ ختم نبوت آزادکشمیر نے بیس کیمپ کے اندر قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے قادیانیوں کی کفریہ سرگرمیوں کی روک تھام کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے، یقینی طور پر یہ ایک تاریخی جدو جہد تھی جسے اﷲ پاک نے کامیابی سے ہمکنار فرمایا اور موجودہ حکومت کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ آزاد کشمیر میں میجر (ر) محمد ایوب مرحوم کی ۲۹ اپریل ۱۹۷۳ کوپیش کردہ قرارداد ختم نبوت جس پر راجہ فاروق حیدر خان کی والدہ محترمہ اور چچا لطیف خان کے بھی دستخط شامل تھے، آج ۴۵ سال بعد منگل کے روز آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی میں قانون سازی کے لیے بل کی صورت میں متفقہ طور پر پاس ہونے والی بارہویں ترمیم سے آزادکشمیر کی تاریخ میں پہلی بار مسلم اور غیر مسلم کی تعریف کرد ی گئی جسے آئینی حیثیت بھی حاصل ہوگئی۔دی آزادجموں وکشمیر انٹرکانسٹیٹیوشن ایکٹ ۲۰۱۸ء کے نام سے موسوم اس بل میں قادیانیوں سمیت تمام غیر مسلم ادیان اور مذاہب کی تعریف کے ساتھ مسلمان کی بھی تعریف کردی گئی ہے، اس بل کی منظوری کے بعد قادیانی خود کو مسلمان ظاہر نہیں کر سکتے۔ مسجدطرز پر اپنا گرجہ تعمیر کرنے، اذان دینے اور تبلیغ کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی جبکہ جملہ شعائر اسلام جن میں مسجد کے مینار،اپنی عبادت گاہ پر کلمہ اسلام لکھنے سمیت تمام اسلامی رسومات اور عبادات سرعام کرنے پر پابندی عائدہوگی، ضلعی سطح پر انتظامیہ اور پولیس کو پابند بھی کیا جائے گا۔ جبکہ اس بل کے ذریعے آزادکشمیر کی ۷۰سالہ تاریخ میں پہلی بار عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ مت، پارسی، احمدی، لاہوری، مرزائی اوربہائی بھی قانون سازی میں غیر مسلم کی تعریف میں شامل کردیئے گئے۔وفاقی قانون کے تحت مندرجہ بالا تمام مذاہب اور فرقے غیر مسلم قراردیئے گئے ہیں جسے آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی نے من وعن ریاست کے لیے منظور کرلیا ہے۔
اس خبر سے دنیا بھر کے مسلمانوں میں ایک طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی ہر طرف سے مبارکباد کے پیغامات موصول ہونا شرو ع ہوئے بالخصوص حرمین شریفین میں مقیم احباب نے بارگاہ رسالت میں ہدیہ سلام پیش کیا اور اراکین اسمبلی کے لیے دعائیں کی گئیں، دوسری طرف کچھ احباب کو یہ تشویش لاحق تھی کہ آزادکشمیر میں قادیانیوں کو پاکستان کی قومی اسمبلی سے پہلے غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا تو اب 6 فروری 2018 کو ختم نبوت بل کی منظوری کا کیا مطلب؟
ایسے تمام دوست و احباب کی معلومات میں اضافے اور ریکارڈ کی درستگی کے لیے ’’ ختم نبوت بل ‘‘ کا پس منظر اور اس صورت حال سے قارئین کے لیے چند سطور ضبط تحریر لانے کی کوشش کروں گا کہ تاکہ حقائق سب کے سامنے رہیں، پاکستان میں 1953 اور پھر 1973 میں منکرین ختم نبوت اور فتنہ مرزائیت کے خلاف بھرپور تحریکیں چل رہی تھیں ہزاروں جانثاران آقا علیہ السلام کی عزت و حرمت اور ختم نبوت کی حفاظت کے لیے جان نچھاور کر چکے تھے، قادیانیت اس قدر ملک میں مضبوط تھی کہ ہر طرف ملک بھر میں ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے اور ہزاروں شہداء کی قربانیوں کے باوجود اس کے نتائج سامنے نہیں آرہے تھے ، ان حالات میں آزاد کشمیر کے ضلع باغ سے تعلق رکھنے والے عظیم انسان میجر(ر) محمد ایوب خان مرحوم نے سفر حرمین شریفین کے دوران ہی ان منکرین ختم نبوت کے خلاف آئینی راستہ اختیار کر نے کا فیصلہ کیا، اپریل 1973 کو مسلم کانفرنس کی ورکنگ کمیٹی کااجلاس میرپورمیں منعقدہوا جس کی صدارت غازی ملت سردارمحمدابراہیم خان کی اوراس وقت کے صدرمجاہداول سردارمحمدعبدالقیوم خان نے بھی اجلاس میں خصوصی طورپرشرکت کی، قرارداد ختم نبوت کے محرک میجر(ر) محمد ایوب خان مرحوم نے سفر حرمین سے وطن واپسی پر 22مارچ 1973ء کو آزاد جموں و کشمیراسمبلی میں مندرجہ ذیل قرارداد جمع کرائی تھی:
(۱) مرزائیوں کوغیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
(ب) آزاد کشمیر میں مقیم مرزائیوں کورجسٹرڈ کیا جائے اور اقلیت کی بنیاد پر ہرسطح پر نمائندگی دی جائے۔
(ج) ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کے فیصلے تک ریاست میں مرزائیوں کا داخلہ بند کیاجائے۔
(د) آزاد کشمیر میں مرزائیت کی تبلیغ کو قانوناً جرم قرار دیا جائے۔
آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی نے قانون سازی کا مندرجہ ذیل طریقہ اپنایا۔ 29اپریل 1973ء کو قرارداد پر بحث ہوئی ۔ ممبران کی اکثریت نے اس پر اتفاق رائے دیا، اس قرار داد پر جن ممبران نے دستخط کیے تھے ان میں موجودہ وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی والدہ محترمہ سعید ہ خانم، اور چچا لطیف خان کے دستخط بھی شامل تھے، اس وقت کے ممبران کی اکثریت آج اس دنیا میں نہیں تاہم ان میں سے دو ممبران سردار سکندر حیات اور خان بہادر خان ابھی تک زندہ ہیں،1973 کی اسمبلی نے میجر (ر) محمد ایوب کی پیش کردہ قرار داد سے جو شقیں پاس کی اُس کے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں :
(ا) مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔
(ب) آزاد کشمیر میں مقیم مرزائیوں کو رجسٹرڈ کیا جائے ۔
(ج) آزاد کشمیر میں مرزائیت کی تبلیغ کو قانوناً جرم قرار دیا جائے۔
انتہائی مخدوش حالات میں میجر (ر) محمد ایوب ؒ کی جانب سے اس قرارداد کا پیش کیا جانا یقینا بڑا کارنامہ تھا، جس کے بعد پوری دنیا کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے بھی اس مسئلے کو اسمبلی کے فورم پر لے جانے کی تیاری کی، آزادکشمیراسمبلی کی قرارداد کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کی قومی اسمبلی سے 7 ستمبر 1974ء کو طویل بحث کے بعد متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے بعد قانون سازی کر کے قادیانیوں کے لیے حدود و قیود کا تعین کیا گیا، پاکستان میں عقید ہ ختم نبوت کو تحفظ دیتے ہوئے صدراوروزیراعظم کے حلف ناموں اورشناختی کارڈ کے فارموں میں ختم نبوت پر حلف کا کالم شامل کیا گیا، مگراِس کے باوجودقادیانی اِسلامی شعائر کا بے دھڑک استعمال کرتے رہے،یہاں تک کہ 26اپریل 1984 کو صدرمحمد ضیا الحق نے امتناع قادیانیت آرڈی نینس جاری کرکے قادیانیوں کی طرف سے اِسلامی شناخت کے استعمال کا راستہ روک دیا۔
آزاد کشمیرکی قانون سازاسمبلی نے اگرچہ 1973 میں ایک قرارداد کے زریعے قادیانیوں کی غیرمسلم حیثیت کا تعین کردیاتھا،مگر بعض خفیہ عناصر اورقادیانی نوازوں کے مفاداتی ہتھکنڈوں کی بدولت اسمبلی کی یہ قرار داد ختم نبوت آزادکشمیرکے آئین کا حصہ نہ بن سکی، قادیانی اِس دستوری سقم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آزاد کشمیر میں اسلامی شعائرکے استعمال اوراپنی اِرتدادی سرگرمیوں میں آزادی سے مصروف رہے۔
آزادکشمیر کے ضلع کوٹلی میں قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور ضلع میں 18کفریہ مراکز کی تعمیر کے بعد بڑالی کے مقام پر جنگلات کی 8 کنال اراضی پر قبضہ اور مرکزی ہیڈ کواٹر کی تعمیر کی کوشش کو الحمد ﷲ ناکام بنانے کے بعد کوٹلی میں مقامی ساتھیوں نے اس کفر کا راستہ روکنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 2003 میں تحریک تحفظ ختم نبوت کی بنیاد رکھی اس وقت تحریک کا دائرہ کار صرف ضلع کوٹلی تک ہی تھا جسے کے بانیوں میں حاجی محمد عارف مغل مرحوم اور معروف سماجی کارکن جمیل احمد مغل کا نام سر فہرست رہا، تاہم تحریک کے موجودہ صدر قاری عبد الوحید قاسمی مدظلہ کی معاونت اس وقت بھی شامل حال تھی، اس وقت انٹر نیشنل ختم نبوت مومومنٹ پاکستان کے صدر مولانا محمد الیاس چینوٹی تحریک کی دعوت پر تین دن کے لیے کوٹلی تشریف لائے اور پہلی مرتبہ کوٹلی میں ردقادیانیت کورس پڑھایا، گاہے بگاہے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے حضرات آزادکشمیر میں تشریف لاتے رہے تاہم مستقل بنیادوں پر پاکستان کی جماعتوں کی جانب سے آزادکشمیر میں ختم نبوت کا نہ تو دفتر قائم تھا اور نہ ہی فتنہ قادیانیت سے بچانے کے لیے کوئی لائحہ عمل……
2007 ء میں معروف بزرگ ولی کامل پیر طریقت رہبر شریعت حضرت مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی مدظلہ خلیفہ مجاز شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ کی زیر سرپرستی اور قاری عبد الوحید قاسمی کی زیر صدارت تحریک کا دائرہ پورے آزادکشمیر میں پھیلا دیا گیا اور محرک قرار داد ختم نبوت میجر (ر) محمد ایوب ؒ کے داماد کرنل (ر) عبد القیوم خان کی زیر سرپرستی نوجوان علمائے کرام پر ایک مجلس شوری تشکیل دی گی جس میں مولانا عبد اﷲ شاہ مظہر، مولانا عتیق الرحمن دانش، مولانا رضوان حیدر، ڈاکٹر ابرار احمد مغل، قاری عبد القیوم فاروقی، عبد الخالق نقشبندی، کے نام شامل تھے۔
2008ء میں، تحریک تحفظ ختم نبوت آزادکشمیرکے میڈیا سیل نے قادیانیوں کی آزاد کشمیر میں سرگرمیوں پر تفصیلی رپورٹ شائع کی جس میں قادیانیوں کے ارتدادی مراکز، سرکاری ملازمت بالخصوص شعبہ تعلیم میں ان کی سرگرمیاں منظر عام پر آئیں تو تحریک کے راہنماؤں نے باہمی مشاورت سے دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کو قانونی طور پر بھی نکیل ڈالنے کا فیصلہ کیا، جب آزاد کشمیر کے آئین اور قانون کی طرف غور کیا گیا تو یہ حیرانگی کے طور پر یہ بات سامنے آئی کہ آزاد کشمیر کے آئین میں عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے سُقم ہے، اور 29 اپریل 1973ء کو میجر (ر) محمد ایوب مرحوم کی قرار داد پر بھی کوئی قانون سازی نہیں ہو سکی، جس پر تحریک کے راہنماؤں نے اس قرار داد کو آئین کا حصہ بنوانے کے لیے جدوجہد شروع کرتے ہوئے ایک طرف ریاست بھر میں تبلیغی اور دعوتی میدان میں عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت اور قادیانیت کے کفریہ عقائد ونظریات سے عوام الناس میں بیداری مہم شروع کی گئی، مختلف علاقوں میں کانفرنسیں شروع کیں، قادیانی جماعت کے موجودہ سربراہ مرزا مسرور کے رضاعی بھتیجے نو مسلم بھائی حاجی شمس الدین کو خصوصی طور پر قادیانیت سے متاثرہ علاقہ کوٹلی اور گوئی میں ان کے بیانات کرائے گئے، جب کہ 2009ء سے شبان ختم نبوت پاکستان کے نوجوان علمائے کرام مولانا سید انیس شاہ، مولانا منیر احمد علوی، مولانا شفیع الرحمن، مولانا مبشر تنویر اور ان کی ٹیم نے تحریک تحفظ ختم نبوت آزادکشمیر کے دوستوں کے ساتھ مل کر دور حاضر کے جدید تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ملٹی میڈیا پروجیکٹر کے زریعے مختلف موضوعات پر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، ان کورسزز کی وجہ سے لٹریچر، دعوتی اور تبلیغی میدان میں الحمد ﷲ ہزاروں افرادکو عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت سے آگاہ کیا گیا اور صرف ضلع کوٹلی میں سینکڑوں قادیانیوں کو قادیانیت کے کفر سے تائب ہو کر قبول اسلام کی توفیق نصیب ہوئی، اس وقت تحریک کے ناظم شعبہ تبلیغ مولانا جمیل احمد شب و روز آزادکشمیر کے مختلف علاقوں میں ’’ختم نبوت کورس‘‘ پڑھاتے ہیں جب کہ مظفرآباد اور کوٹلی میں ہر ماہ کو یہ کورس مستقل بنیادوں پر شروع کیا جا چکا ہے۔ (الحمد ﷲ )
اس طرح 29 اپریل 1973 کی قرارداد ختم نبوت کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ہر سال 29 اپریل کو تاریخی دن کے نام سے ’’ یوم قرارداد ختم نبوت ‘‘ کا عنوان دیا گیا اور ریاست بھر میں 2008ء سے’’ یوم قرارداد ختم نبوت ‘‘ اجتماعات کا سلسلہ شروع کیا گیا، اس سلسلہ میں کشمیری اخبارات کے چیف ایڈیٹر اور ایڈیٹر صاحبان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام اسلام آباد میں کیا گیا اور انہیں آزاد کشمیر کے آئین میں ختم نبوت کے سقم اور قادیانیت کی سرگرمیوں کی ساری صورتحال سے آگاہ کیا گیا میڈیا سے وابستہ دوستوں بالخصوص راجہ کفیل، خواجہ متین، شاہد راٹھور، عمر فاروق، عبد الواجد خان، شہزاد راٹھور کا اس عرصہ میں تحریک کے ساتھ خصوصی تعاون شامل رہا، اور کشمیری اخبارات تحریک کے مطالبات کو موثر انداز میں حکومت تک پہنچانے میں ایک طرف مدد گار ثابت ہوئے اور دوسری طرف حکومتی اور ممبران اسمبلی سے ملاقاتوں میں ان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے آزاد کشمیر میں بڑھتی ہوئی قادیانیوں کی سرگرمیوں کو قانونی طور پر روکنے کے لیے حکومت کو تحریری طور پر ایک درخواست دی گئی کہ ختم نبوت ؐ کے متعلق قرارداد کو لاگو کیا جائے اور قادیانیوں کی سر گرمیوں وغیرہ کو روکاجائے، جس پر محکمہ قانون کی جانب سے بحوالہ لیٹر نمبر 224/2009مورخہ 20-03-2009کو جواب دیا گیا کہ ’’آزاد کشمیر پینل کوڈ میں ایک ترمیم کے ذریعے سیکشن 298-Cکا اضافہ کیا گیا ہے جس کے تحت کوئی شخص جو قادیانی یا لاہوری گروہ سے (جو اپنے آپ کو احمد ی یا کسی اور نام سے پکارتے ہیں) وہ بالواسطہ یا بلا واسطہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں یا اپنے عقیدے کو اسلام کہتے ہیں یا اپنے عقیدے کی تبلیغ و اشاعت کرتے ہیں یا دوسروں کو اپنا عقیدہ ماننے پر اکساتے ہیں (بطور اسلام) یا الفاظی یا بول چال یا تحریری یا بصری حرکات یا کسی بھی طرز سے جس سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچے تو اسے تین سال تک کی قید اور جرمانہ کی سزا ہو گی۔
لیکن اس کے باوجود آزاد کشمیر میں قادیانی شعائر اسلام کا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اعلانیہ مسلمانوں کو مرتد بنانے میں مصروف رہے صرف ضلع کوٹلی میں قادیانیوں کے 18 ارتدادی مراکز جن کی شکل و صورت مساجد کی طرح ہے وہاں پر کفریہ سرگرمیوں سے مسلمانوں کے ایمان کو لوٹا جاتا رہا، تحریک تحفظ ختم نبوت آزادکشمیر کی جانب سے منعقد ہونے والے اجتماعات جس میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام، مشائخ عظام اور صدر ریاست، حکومت وقت کے وزیر اعظم، دیگر ممبران اسمبلی کو مدعو کیا جاتا رہا اور ان کے سامنے ساری صورتحال رکھی جاتی رہی، اور تحریک کے ذمہ داران کی جانب سے اپنی کانفرنسوں میں حکومت وقت سے درج ذیل مطالبات کیے جاتے رہے،
٭ ۲۹؍اپریل کی قرار داد کو ختم نبوت پر قانون سازی کی جائے،
٭ ۱۹۸۴ء میں پاس ہونے والے ا متنازع قادیانیت آرڈیننس کو قانون کا حصہ بنا کر قادیانیوں کو اس کا پابند بنایاجائے
٭ قادیانیوں کے ارتدادی مراکز جن کی شکل و صورت مساجد کی طرح ہے انہیں تبدیل کیا جائے اور قادیانیوں کے اخبار روزنامہ الفضل MTA ٹی وی چینلزو دیگر لٹریچر پر آزاد کشمیر میں پابندی لگائی جائے۔
٭ قادیانی اور مسلمان کے نکاح کو قانوناً جرم قرار دیا جائے جہاں جہاں ایسے نکاح موجود ہیں انہیں سرکاری طورپر منسوخ کیا جائے۔
٭ آزاد کشمیر میں مرتد کی شرعی سزا نافذ کی جائے اور ۲۹؍ اپریل کو سرکاری طورپریوم ختم نبوت منایا جائے اور اسی دن عام تعطیل کا اعلان بھی کیا جائے۔
٭ آزاد کشمیر کے تمام سرکاری و نجی سکولوں کے تعلیمی نصاب میں عقیدہ ختم نبوت ؐ کی اہمیت پر کتاب شامل کی جائے
پاکستان کی قومی اسمبلی کی طرح آزاد کشمیر اسمبلی کی قرار داد ختم نبوت کو بھی شائع کیا جائے اور آئین میں پائے جانے والے ُسقم کو دور کر کے آزادکشمیر کے آئین میں ختم نبوت اور قادیانیت کے حوالے سے اسی طرح الفاظ شامل کیے جائیں جس طرح پاکستان کے آئین میں وضاحت ہے۔
۱۴؍اپریل سنہ ۲۰۲۱ء کو تحریک کے صدر قاری عبد الوحید قاسمی نے محکمہ قانون کو درخواست دی کہ میجر محمد ایوب خان کی قرارداد (مؤرخہ ۲۲ مارچ سنہ ۷۳ء) بمعہ تمام متعلقہ ریکارڈ دیا جائے جس پر محکمہ قانون نے 24-04-2012کو درخواست پر موقف لکھ کر بھجوا یا کہ یہ تمام ریکارڈ آزاد جموں و کشمیر اسمبلی سیکریٹریٹ کا حصہ ہیں لیکن حکومت کی جانب سے وہ ریکارڈ نہیں دیا گیا، 25اپریل 2012کویہ انکشاف ہواکہ آزادکشمیراسمبلی سے مندرجہ بالاقراردادکااصل مسودہ غائب کردیاگیاہے۔اس خبرکے منظرعام پرآتے ہی آزادکشمیراورپاکستان میں ایک بھونچال آگیا,جس پر مورخہ 02-05-2012کو پھر تحریک کے صدر نے درخواست دی کہ پاس شدہ قرارداد کی مصدقہ کاپی بمعہ جملہ مواد دی جائے مگر حکومت کی طرف سے وہ نہ دی گئی۔۲۶؍اپریل ۲۰۱۲ء کومظفرآبادمیں تحریک کی طرف سے مقامی ہوٹل میں ختم نبوت کانفرنس منعقدہوئی جس میں اس وقت کے ممبران اسمبلی سردارمیراکبراورسردارسیاب خالدنے شرکت کی اوروعدہ کیا کہ وہ یہ معاملہ اسمبلی میں اٹھائیں گے ۲۸؍اپریل۲۰۱۲ء کوممبران اسمبلی سردارمیراکبرجواس وقت وزیرجنگلات بھی ہیں اورسردارسیاب خالدنے تحریک التواء جمع کروائی اورمطالبہ کیا کہ اسمبلی اجلاس کی کاروائی روک کراس اہم معاملے پربحث کی جائے اورحقائق ایوان میں پیش کیے جائیں اس وقت کے اپوزیشن لیڈرراجہ فاروق حیدرنے کہاکہ حکومت اسمبلی ریکارڈ کوآڈیواورویڈیو شکل میں محفوظ کرے۔ جس پرقائدایوان چوہدری عبدالمجیدنے اسمبلی سیکرٹریٹ کوحکم دیاکہ وہ اسمبلی کاجملہ ریکارڈ محفوظ بنائے، اس حوالے سے ممبران اسمبلی اورعلما ء کرام حکومت کوباربارتوجہ دلاتے رہے کہ قادیانیوں کے خلاف پاس کی گئی قراردادمنظرعام پرلائی جائے مگرقراردادنہ لائی جاسکی، اس دوران سابق وزیر اوقاف صاحبزاد ہ پیر عتیق الرحمن نے بھی اسمبلی میں ختم نبوت پر قرارداد پیش کی، لیکن بیور کریسی اور سابقہ حکومتوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ’’قرار داد ختم نبوت‘‘ کا معاملہ سرد خانے میں ہی پڑا رہا، آزاد کشمیر کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کی اس اہم معاملہ پر عدم دلچسپی کی صورت حال یہ ہے کہ آج تک آزاد کشمیر میں مسلم و غیر مسلم کے ووٹ کا اندراج الگ الگ نہ ہو سکا۔
۲۹؍اپریل۲۰۱۳ء میں باغ میں یوم قراردادختم نبوت کانفرنس میں اپوزیشن لیڈرراجہ فاروق حیدراورممبراسمبلی سردارمیراکبرودیگرنے اعلان کیاکہ وہ برسراقتدارآکر اس قراردادکونہ صرف منظرعام پرلائیں گے بلکہ اس حوالے سے قانون سازی بھی کریں گے جولائی، 2016آزاد کشمیر میں ہونے والے جنرل الیکشن سے قبل جب ووٹر لسٹوں کی تیاری کا معاملہ سامنے آیا تو تحریک کے صدر نے مورخہ 29-03-2016کوچیف الیکشن کمیشن کو درخواست دی کہ آزاد کشمیر میں پاکستان کی طرح قادیانیوں اور دوسری اقلیتوں کے لئے الگ ووٹر لسٹ تشکیل دیں، مگرالیکشن کمیشن نے انکار کرتے ہوئے بحوالہ لیٹر نمبر الیکشن 2016/801/s/مورخہ 29-09-2016اور ایک سادہ فارم جاری کرکے بغیر مذہب یا عقیدہ کے ووٹ درج کئے، اور مکتوب کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آزادکشمیر کے آئین و قانون میں مذہبی بنیادوں پر ووٹرز کی علیحدگی کا کوئی پرویژن (جواز) نہیں ہے، حکومت کی جانب سے عدم دلچسپی اور کوئی شنوائی نہ ہو نے پر تحریک تحفظ ختم نبوت آزادکشمیر کے صدر قاری عبد الوحید قاسمی کی مدعیت میں5 اکتوبر 2016 کو حکومت اور تمام محکموں کے خلاف آزاد کشمیر ہائی کورٹ میں رِٹ دائر کر دی، ہائی کورٹ نے تمام فریقین کو بذریعہ نوٹس طلب کیا اور ان سے جواب مانگا، تین تاریخوں کے باوجود حکومت کوئی جواب داخل نہ کرا سکی، تاہم صرف محکمہ امور دینیہ نے ہائی کورٹ میں جو جواب داخل کرایا وہ تحریک کے موقف کی حمایت ہے، اور آزادکشمیر کے آئین میں عقیدہ ختم نبوت کی وضاحت اور حلف نامے کو شامل کرنے پر محکمہ امور دینیہ نے بھی اتفاق کر لیا، دسمبر 2017 میں ہائیکورٹ نے رٹ کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے باقاعدہ اشتہار جاری کیا۔
ہائی کورٹ میں رٹ دائر ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک تحفظ ختم نبوت آزادکشمیرکے صدر نے وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان کو خط لکھ کر قادیانیوں کو آئین وقانون کے دائرے میں لانے کے لیے توجہ دلائی اور وزیر اعظم نے تحریک کے خط پر محکمہ قانون اور امور دینیہ سے فوری رائے طلب کر کے معاملے کو یکسو کرنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ جس پر محکمہ امور دینیہ نے آزادکشمیر کے تمام ضلعی مفتیان کرام کو اس خط کی کاپی ارسال کرکے ان سے تجاویز طلب کیں، تمام مفتیان کرام نے تحریک کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے حکومت کو رائے دی کہ اس خط کے مطابق آزادکشمیر میں قانون ساز ی کی ضرورت ہے۔ راجہ فاروق حیدر خان وزیر اعظم بننے سے قبل متعدد بار تحریک کے جلسوں اور کانفرنسوں میں ہمارے موقف کو سمجھ چکے تھے اور و برملا اس کا اظہار کرتے رہے کہ اگر اﷲ نے مجھے موقع دیا تو میں یہ کام ضرور کروں گا، اور مجھے اس عظیم کام کے بدلے میں جو بھی قربانی دینی پڑی میں وہ قبول کر لوں گا لیکن حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی عزت و ناموس کا قانونی تحفظ کروں گا، چونکہ پہلی قرارداد ختم نبوت میں بھی اس خاندان کے دو افراد کا نام شامل ہے جنہیں یہ سعادت نصیب ہوئی ہے، گزشتہ سال ۹؍ فروری۲۰۱۷ء کو اِسلامی نظریاتی کونسل آزادکشمیر کے اجلاس میں ممبر اِسلامی نظریاتی کونسل مولانا عتیق الرحمن دانش کے توجہ دلانے پراِس اجلاس کے مہمان خصوصی وزیراعظم آزادکشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان نے قراردادِ ختم نبوت کو آئین کا حصہ بنانے کا اعلان کیا، جس پر تحریک تحفظ ختم نبوت آزاد کشمیر کے راہنماؤں نے اپنے سالانہ اجلاس میں وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کے اعلان پر خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں تحریری طور پر بھی خراج تحسین پیش کیا۔
اسی اثناء میں ممبر اسمبلی راجہ صدیق خان نے مہتمم جامعہ اسلامیہ چھتر مولانا قاضی محمود الحسن اشرف کی مشاورت سے قرارداد ختم نبوت کا ایک نیا ڈراف تیار کر کے اسمبلی میں جمع کرایا، وزیر اعظم کی خصوصی دلچسپی سے اس معاملہ پر پیش رفت جاری رہی ۲۲؍ مارچ۲۰۱۷ ء کو سیکرٹری قانون نے پاکستان کی قومی اسمبلی کو ایک لیٹر نمبر 1676 جاری کر کے پاکستان کی قومی اسمبلی سے قادیانیت کے متعلق کی گئی قانون سازی کی تفصیلات طلب کیں، اس ساری حوصلہ افزاء پیش رفت کے باوجود وزیر اعظم نے میجر محمد ایوب ؒ کی قرار داد کا تسلسل جاری رکھنے کے لیے نئے عزم اور نئے جذبے کے ساتھ اپنے ممبران کے زریعے ایک قرارداد سپیکر اسمبلی شاہ غلام قادر کے پاس جمع کرائی، چنانچہ۱۸؍اپریل ۲۰۱۷ء کو آزادکشمیرکی اسمبلی کے رکن پیر سیدعلی رضا بخاری، اور راجہ صدیق خان نے’’ قراردادِختم نبوت ‘‘پر قانون سازی کی قرارداداسمبلی میں سپیکر شاہ غلام قادر کو پیش کردی۔جسے ۲۶؍اپریل کو وزیراعظم آزادکشمیر،سپیکر،سینئر وزیر اور کابینہ کے جملہ اراکین سمیت ممبران اسمبلی نے ہاتھ اٹھا کرمنظور کرتے ہوئے خاتم النبیین جنابِ محمدِ کریمﷺ سے والہانہ محبت وعقیدت اور ختم نبوت سے ایمانی وابستگی کا والہانہ ظہار کیا، قرارداد کے پاس ہونے کے ۱۰ دن بعد اور وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے اسمبلی فورم اور باغ میں ۲۹؍ اپریل ۲۰۱۷ء کو ہونے والی سالانہ ’’یوم قرارداد ختم نبوت کانفرنس‘‘ میں دو ٹوک اور واضح اعلان کیا کہ آزادکشمیر میں قادیانیوں کے حوالے سے آئین میں اسی طرح قانون سازی کی جائے گی جس طرح پاکستان کے آئین میں کی گئی ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہائیکورٹ میں دائر رٹ پر بھی تاریخ پر پیشی ہوتی رہی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل تاریخ پر حاضر ہوتے رہے۔ چنانچہ ۱۲؍ دسمبر۲۰۱۷ء کو حکومت کی جانب سے ختم نبوت بل پر قانون سازی کے لیے پانچ رکنی کمیٹی وزیر قانون راجہ نثار خان کی سربراہی میں قائم کی گئی جس میں راجہ صدیق خان، پیر علی رضا بخاری، سیکرٹری قانون، اور ایڈووکیٹ جنرل کو شامل کیا گیا۔ ایک ماہ تک حکومتی کمیٹی نے کوئی اجلاس تک نہ کیا۔ جس پر ۱۴؍ جنوری ۲۰۱۸ء کو اسلام آباد میں تحریک تحفظ ختم نبوت کی مرکزی مجلس شوری کا اجلاس مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی مدظلہ کی سرپرستی میں ہوا اور آزادکشمیر بھر سے علمائے کرام نے شرکت کی اس موقع پر ہائیکورٹ کی رٹ اور حکومتی کمیٹی کے قیام پر تفصیلی گفتگو کے بعد تحریک کی جانب سے پیر ظاہر بکوٹی کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی کا وفد حکومتی کمیٹی سے ملاقات کے لیے تشکیل دیاگیاتاکہ مسودہ ختم نبوت کے حوالے سے پیش رفت اور حکومتی کمیٹی کا موقف سامنے آسکے اس کے بعد اگلے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے، ۱۷؍ جنوری ۲۰۱۸ء کو تحریک کے چھ رکنی وفد پیر ظاہر بکوٹی، کرنل (ر) عبد القیوم خان، قاری عبدالوحید قاسمی، مولانا شبیر احمد کاشمیری، راجہ آصف خان، قاری عبد القیوم نے حکومتی کمیٹی کے چیئرمین وزیر قانون راجہ نثار خان سے ملاقات کی اور مسودہ ختم نبوت پر قانون سازی اور آزادکشمیر کے آئین میں پائے جانے والے سقم پر تفصیلی گفتگو کی ۔ تحریک کی جانب سے حکومتی کمیٹی کو مسودہ ختم نبوت کا تحریری مسودہ بھی پیش کیا گیا، جس پر ۲۴؍ جنوری ۲۰۱۸ء کو حکومتی کمیٹی نے مسودہ ختم نبوت کو اپنی کابینہ میں پیش کیا جہاں حکومتی کابینہ کی منظور کے بعد ۲ فروری ۲۰۱۸ء کووزیر قانون راجہ نثار خان نے مسودہ ختم نبوت کوایک بل کی صورت میں اسمبلی کے فورم پر پیش کیا جسے تمام اراکین نے منظور کرتے ہوئے مذید قانونی کاروائی کے لیے جوائنٹ سیکشن اجلاس تک موخر کر دیا، ۳؍ فروری ۲۰۱۸ء کو وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان نے اس بل پر تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام سے طویل نشست کی جس میں تحریک کی طرف سے صدر قاری عبد الوحید قاسمی، نائن صدر علامہ قاضی شبیر احمد، راجہ آصف خان اور نومسلم بھائی محمد آصف شیدائی شریک ہوئے، ۶؍ فروری ۲۰۱۸ء کوقانون ساز اسمبلی اور کشمیر کونسل کا مشترکہ اجلاس ہوا جس میں اس بل پر تمام ممبران نے اظہار خیال کرتے ہوئے ۳بجکر ۵۲ منٹ اور ۵۷ سیکنڈ پر اسے منظور کر کے عقیدہ ختم نبوت کو قانونی اور آئینی تحفظ فراہم کر دیا، وزیراعظم آزادکشمیر،سپیکر،سینئر وزیر اور کابینہ کے جملہ اراکین سمیت ممبران اسمبلی نے ہاتھ اٹھا کرمنظورکیااور خاتم النبیین جنابِ محمدِ کریمﷺ سے والہانہ محبت وعقیدت اور ختم نبوت سے ایمانی وابستگی کا والہانہ ظہار کیااس طرح ایک طویل جدو جہد اور ۴۵ سال کے بعد آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی میں ’’قرارداد ختم نبوت‘‘ پر قانون سازی کے لیے بل منظوری کے مراحل سے گزرا، اس ساری جدوجہد میں جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا سعید یوسف خان، اور دیگر علمائے کرام سیاسی و سماجی حضرات بھی کسی نہ کسی طرح اس تحریک میں شامل رہے، تاہم تحریک تحفظ ختم نبوت آزادکشمیر اس سارے عمل میں مسلسل جدوجہد کے ساتھ شامل رہی اس کے ساتھ اس بل کی منظوری میں وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی ذاتی دلچسپی اور کاوش کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا راجہ فاروق حیدر خان نے اپنی والد ہ مرحومہ سعیدہ خانم کے دودھ کی لاج رکھتے ہوئے اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی حرمت پر کوئی سودے بازی نہیں کی، یقینی طور پر یہ ایک مشکل مرحلہ تھا۴۵ سال میں کئی حکومتیں تبدیل ہوئیں کسی کو اس حساس نوعیت پر قانون سازی کی توفیق نہیں ملی، ۶ فروری کادن آزادکشمیر کی تاریخ میں عظیم تاریخی اہمیت کا حامل ہے اسمبلی سے ختم نبوت بل کی منظوری پر تحریک تحفظ ختم نبوت آزادکشمیر سمیت دیگر دینی جماعتوں نے ۹ فروری جمعہ کو ملک بھر یوم تشکر منانے کی اپیل کر دی جب کہ تحریک تحفظ ختم نبوت کی مرکزی مجلس شوری نے ۸ فروری کو اسلام آباد میں ہنگامی اجلاس منعقد کر کے حکومت آزادکشمیر اور وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کے اعزاز میں انٹر نیشنل’’ یوم تشکر ‘‘ بھی ۲۶؍ اپریل کو سرپرست تحریک مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی دامت فیوضہم کی زیر سرپرستی مظفرآباد میں منعقد کرنے کا فیصلہ کر دیا اور ۱۱؍ فروری کو تحریک کے ۱۰ رکنی وفد نے کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں وزیر اعظم آزادکشمیر سے خصوصی ملاقات کر کے انہیں ختم نبوت بل کی منظوری پر مبارکباد دی، اور ’’یوم تشکر ‘‘ کے سلسلے میں منعقدہ اجتماع پر خصوصی مشاورت کی۔ جب کہ تحریک کی جانب سے قادیانیوں کو راہ حق کی طرف بلانے کے لیے ۲۵مارچ کو کوٹلی میں ’’ دعوت اسلام ‘‘ کانفرنس میں بھی وزیر اعظم نے شرکت کی دعوت قبول کر لی، تحریک تحفظ ختم نبوت آزاد کشمیر اس کامیابی پر رب کے حضور سر بسجود ہے، اﷲ پاک کی خصوصی توفیق سے یہ عظیم کام پایہ تکمیل تک پہنچا، اس قانون سازی کے بعد بھی تحریک کی جانب سے آزادکشمیر میں دعوتی اور تبلیغی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کو دعوت اسلام دینے کی کوشش جاری رہے گی ۔