نام : نعم الوجیز فی إعجاز القرآن العزیز (عربی) تالیف: حضرت مولانا عبد العزیز پرہاروی
تحقیق و تعلیق: مولانا مفتی محمد عبد اﷲ شارق ضخامت: ۱۷۶ صفحات قیمت: درج نہیں
تقسیم کار: کتب خانہ مجیدیہ، اردو بازار بیرون بوہڑ گیٹ، ملتان03007309593
مبصر: صبیح ہمدانی
حضرت مولانا عبد العزیز پرہاروی قدس سرّہ‘ علمائے دین کی جماعت میں اس درجے کے بزرگ تھے جن کو آیۃ من آیات اﷲ کہا جاسکتا ہے۔ ان کی ذات میں اﷲ تعالی نے اپنی صفت علم کی ایسی تجلی فرمائی تھی کہ زمانے کو کم کم ہی ویسی تجلی یکجا نصیب ہوئی ہے۔حضرت قدس سرہ نے روایتی و غیر روایتی علوم و فنون میں بیش بہا تصانیف وتالیفات سے امت کے علمی خزانے کے اعتبار کا اضافہ کیا۔ تفسیر، حدیث، عقائد، بلاغت، طب، فلسفہ، منطق اور طبیعیات سے لے کر کیمیا و سیمیا و تمائم و تعویذات تک ان کی تصانیف کے موضوعات مختلف اور متعدد ہیں، اور ان کے قاری کو ان موضوعات پر ان کی غیر معمولی مہارت اور دسترس دیکھ کر اﷲ تعالیٰ کے عجائب قدرت پر بے ساختہ ایمان بڑھ جاتا ہے۔ معجزہ گر نیست کرامات ہست!حضرت مولانا رحمہ اﷲ کی تصانیف کچھ شائع بھی ہوئیں مگر ان کی ایک بڑی تعداد ابھی مخطوط حالت میں ہے، اور جو شائع ہوئیں وہ بھی مضبوط علمی خدمت کی طلبگار ہیں۔
زیرِ نظر کتاب اعجاز القرآن کے موضوع پر مولانا پرہاروی رحمہ اﷲ کی ایک نسبتا مختصر تالیف ہے۔ جس میں بلاغت کے اصولوں کے اعتبار سے نظمِ قرآنی کا ایک شاندار مطالعہ کیا گیا ہے۔ جسے ہمارے محترم دوست اور معروف عالم دین جناب مفتی محمد عبد اﷲ شارق صاحب زید مجدہ نے اپنی تحقیق و تدوین سے آراستہ کیا ہے۔ حضرت مولانا پرہاروی رحمہ اﷲ کی آراء اور ان کی علمیت کے تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ مفتی صاحب نے متنِ کتاب کے شایانِ شان علمی خدمت کا حق ادا کیا ہے۔ راقم الحروف کو حضرت مولانا رحمہ اﷲ کی کچھ تصنیفات کے محقق ایڈیشن دیکھنے کا اتّفاق ہوا ہے مگر ایسی سنجیدہ اور عمیق عالمانہ تحقیقی تعلیقات پڑھنے کی سعادت پہلی بار ملی ہے۔ میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ حضرت مولانا پرہاروی کے علوم کی خدمت مکرّمِ بندہ مفتی عبد اﷲ شارق صاحب ہی عمدہ طور پر سر انجام دے سکتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ ان کے جدّ امجد حضرت خواجہ عبید اﷲ ملتانی کو حضرت خواجہ خدابخش خیر پوری اور حضرت خواجہ حافظ جمال اﷲ ملتانی رحمہما اﷲ کے جس مرکز علم و عرفان سے فیض ملا حضرت مولانا پرہاروی رحمہ اﷲ بھی اسی بارگاہ کے مستفیدوں میں سے تھے۔
مولانا مفتی عبد اﷲ شارق صاحب کی تعلیقات دیکھ کر ان کے مطالعے کی وسعت و گہرائی پر ایک بار پھر رشک آیا۔ کتاب میں کئی مقامات پر ان کی تعلیقات مختلف علمی مباحث میں ان کی آراء کی مضبوطی اور ان کے علم کی گہرائی کا دلیلِ محکم ہیں، مثلاً صفحہ ۷۴-۷۵ پر بدل اور عطفِ بیان کے درمیان فرق کی نحوی بحث سے متعلق، صفحہ ۸۷ پر غیر اﷲ کے نام کی قسم کھانا اور قرآن مجید میں وارد ہونے والی وہ قسمیں جہاں ما سوا اﷲ کی قسم کھائی گئی ہے ، ان سے متعلق ، صفحہ: ۹۷ پر قرآنِ مجید میں تکرارِ موضوعات و مفاہیم کے فوائد سے متعلق اور خاص طور پر کتاب کے تقریباً اختتام میں صفحہ ۱۶۶ پر آیات و سور کے باہمی ربط و تعلق کے مبحث میں ان کی محققانہ و مومنانہ تعلیقات قابلِ مطالعہ و استفادہ ہیں۔
مولانا عبد اﷲ شارق صاحب کے قابلِ رشک علمی مواقف میں سے ان کا قرآنِ مجید کے مقصدِ نزول سمجھنے اور اپنے علمی ذوق کو اسی کے مطابق تراشنے پر اصرار ہے۔ وہ اپنی کئی تحریرات اور زبانی گفتگوؤں میں اس بات پر توجہ دلاتے ہیں کہ قرآن مجید پر اپنی پسند نا پسند اور اپنے ذوق (خواہ وہ سیاسی ہو یا علمی) کو تھونپنا اﷲ تعالیٰ کے مطلوبہ احوال سے پہلو تہی کرنا ہے۔ اس حوالے سے اس کتاب میں ہی شامل ایک مختصر تعلیق کا ترجمہ قارئین کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔مصنف نے فرمایا: آزر حضرت ابراہیم کا والد نہیں بلکہ چچا تھا۔ مولانا عبد اﷲ شارق اس پر تعلیق لکھتے ہیں:
’’یہ سیوطی کا مذہب ہے جو انھوں نے انبیا ء کے والدین کے مؤمن ہونے کے مسئلے میں اختیار کیا ہے، جیسا کہ مصنف اپنی ہی دوسری کتاب [السلسبیل فی تفسیر کتاب العزیز۔ مخطوط] میں بصراحت اس مذہب کو سیوطی کی طرف منسوب کر چکے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس مسئلے میں صحیح بات یہی ہے کہ ظاہرِ آیت سے انحراف نہ کیا جائے جیسا کہ اکثر مفسرین کی رائے بھی ہے۔ البتہ جو مذہب بعضوں نے اختیار کیا ہم اسے نا ممکن بھی قرار نہیں دیتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اپنی توجہ کو مکمل طور پر اس بات کی طرف پھیرنا چاہیے جو اﷲ تعالیٰ ان آیات میں ہم پر در اصل کھولنا چاہتے ہیں۔ یعنی یہ بات کہ آدمی کو اپنی کوشش کا بدلہ ہی ملے گا، اور اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کا کوئی زور نہیں ہے، نیز یہ کہ دربارِ الہی میں معافی حاصل کرنا صرف نسب کے ساتھ بندھا ہوا نہیں۔ ہم سے یہ مطلوب نہیں ہے کہ ہم اپنے دلوں کو اسی بحث و مباحثے میں لگائے رکھیں کہ آزر کو جو ابراہیم علیہ السلام کا والد کہا گیا تو اس سے مراد نسبی باپ ہونا ہے کہ پرورش کے اعتبار سے باپ ہونا۔ اس لیے کہ قرآن ایسے جھگڑوں کے فیصلے یا ان باتوں کے بیان کے لیے نازل ہی نہیں ہوا۔ اور اس لیے بھی کہ اس طرح کی بحثوں میں لگنے سے (فہم قرآن کا) اصل مقصد فوت ہونے کا اندیشہ بھی ہے۔ ہمارے ذمے یہ ہے کہ جب ہم اس طرح کی آیات پڑھیں تو اﷲ تعالیٰ کے مقصد و مطلوب میں تدبر کریں (کہ یہ آیت نازل فرمانے سے ان کا ارادہ کیا ہے) اور اپنی نظر کو اسی مقصد سے جوڑ کر اپنے دل کی توجہ بس اسی میں رکھیں، جو باتیں غیر متعلق ہیں ان کو چھوڑ دیں‘‘۔
ایک بہت اہم نکتہ جو قارئین کی توجہ کا مستحق ہے وہ یہ کہ مدارس اسلامیہ میں علمِ بلاغت پڑھانے کی علّت یہی ہے کہ قرآن کریم کے اعجازِ بلاغی کا ادراک نصیب ہو، مگر جتنی کتابیں عام طور پر اس فن میں متداول ہیں ان میں قرآنی کلمات کو بطور مثال پیش کرنے کا چلن بالکل نہیں ہے۔ جب کہ یہ کتاب اگر چہ بذات خود بلاغت کے فن کی درسی کتاب نہیں ہے مگر ایک عمدہ ترتیب کے ساتھ فنون بلاغت کا بیان ضرور کرتی ہے، او ر مثال میں ہر مقام پر قرآنِ مجید کی آیات کو ہی پیش کیا گیا ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ اس کتاب کو ہمارے درسی نصاب و نظام میں رواج ملے اور طالبعلموں کو علمِ بلاغت کا صحیح فہم حاصل ہو سکے۔
کتاب کا ٹائٹل خطّاطِ شہر استاد محترم اعجاز شاہد مد ظلہ نے لکھا ہے۔ اگر چہ اشاعتِ کتاب میں مزید تحسین کی گنجائش تھی (بالخصوص ورق کی عمدگی اور طباعت کی لطافت کے باب میں) مگر یہی کیا کم غنیمت ہے کہ اس طرح کی عمدہ کتابیں نہ صرف شائع ہوتی ہیں بلکہ ملتان جیسے شہر میں بھی ان کے سر ورق پر ثلث، نسخ، رقعہ اور دیوانی جیسے خطوط میں خطاطی کی جاتی ہے، اور وہ بھی اس زمانے میں۔ اﷲ تعالیٰ اس کتاب کے مؤلف و محقق اور قاری کو اپنی مرضیات سے نوازیں۔