شاہنواز فاروقی
قصور میں سات سالہ زینب کے ساتھ جنسی درندگی اور المناک قتل نے پورے ملک میں کہرام برپا کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں پورے معاشرے کا ردِّ عمل فطری ہے۔ بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کسی بھی معاشرے کے لیے شرمناک ہے، لیکن ایک ایسے معاشرے کے لیے اس کی شرمناکی اور بڑھ جاتی ہے جو خود کو مسلم معاشرہ کہتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو زینب کے ساتھ ہونے والی واردات کی المناکی اور بڑھ جاتی ہے۔ البتہ اس سلسلے میں معاشرے کے ’’فطری رد عمل‘‘ کا یہ پہلو بجائے خود شرمناک اور ہولناک ہے کہ ہمارے معاشرے کا ہر طبقہ صرف اس چیز کو اپنے شعور میں رجسٹر کر رہا ہے جو ذرائع ابلاغ میں موجود ہو۔ زینب سے قبل قصور ہی میں دس بچیوں پر جنسی حملے ہو چکے ہیں مگر کسی بھی وجہ سے چونکہ یہ حملے ذرائع ابلاغ بالخصوص ٹیلی وژن کی اسکرین پر جگہ نہ پا سکے اس لیے ان کا ہونا اور نہ ہونا برابر تھا۔ لیکن چونکہ معصوم اور مظلوم زینب کا واقعہ کسی بھی باعث ٹیلی وژن کی اسکرین پر آ گیا اس لیے اس حوالے سے ملک میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اس صورت حال کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ پوری قوم کے حافظے، شعور، عمل اور رد عمل کی ہر صورت ’’ٹی وی مرکز‘‘ ہو گئی ہے۔ جو کچھ ٹی وی پر ہے وہ حاضر و موجود بھی ہے، اور اہم اور بڑا بھی…… لیکن جو ٹی وی پر موجود نہیں اس کا ’’ہونا‘‘ بھی مشتبہ ہے خواہ وہ کوئی خبر ہو، یا کوئی واقعہ…… خواہ وہ کوئی شخص ہو یا فکر و عمل کی کوئی صورت۔ اس صورت حال نے معاشرے کی ذہنی و نفسیاتی اور علمی و اخلاقی حالت کے بارے میں بنیادی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ مغرب میں ٹیلی وژن کو بچوں کے تناظر میں Electronic Parent کہا جاتا تھا، مگر بدقسمتی سے اب ٹیلی وژن پوری دنیا میں بڑی عمر کے لوگوں کا بھی باپ یا Parent بن گیا ہے۔ یہ ’’باپ‘‘ اب بتاتا ہے کہ معاشرے میں کیا موجود ہے اور کیا موجود نہیں؟ معاشرے کو کیا سوچنا ہے اور کیا نہیں سوچنا ہے، کیا کہنا ہے، کیا نہیں کہنا ہے؟ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے؟ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ٹیلی وژن باپ کے مرتبے سے بھی بڑھ گیا ہے۔ اسے ’’الیکٹرانک پیر‘‘ یا ’’الیکٹرانک شیخ‘‘ کہا جائے تو زیاد مناسب ہو گا۔ زینب کی المناک کہانی کا دوسرا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ زینب کے واقعے کے عام ہوتے ہی ’’مغرب زدگان‘‘ کی ایک بڑی تعداد اپنے اپنے بلوں سے نکل آئی اور اس نے یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ اسکولوں میں جنسی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنائے بغیر ایسے سانحات کو رونما ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اطلاعات کی وزیر مملکت مریم اونگ زیب نے فرمایا کہ جب بھی جنسی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اُس پر مذہبی تناظر میں اعتراضات کیے جانے لگتے ہیں۔ جیو کے شاہ زیب خانزادہ نے اس سلسلے میں ایک پورا پروگرام کر ڈالا اور انھوں نے بھارتی اداکار عامر خان کے ایک پروگرام کو نمونے طور پر پیش کیا۔ اداکارہ ماہرہ خان، اداکار فیصل قریشی اور بالخصوص گلوکار شہزاد رائے نے اس ضمن میں کئی ٹی وی چینلز پر خاصا شور مچایا اور کہا کہ جنسی تعلیم اسکولوں کے نصاب کا حصہ نہیں ہو گی تو یہی ہو گا۔ پوری مسلم دنیا جانتی ہے کہ جنسی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنانا امریکہ اور یورپ کا ایجنڈا ہے۔ سیکولر اور لبرل عناصر مذہبی لوگوں پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ مذہب کے نام پر سیاست کرتے ہیں۔ مگر دیکھا جائے تو مغرب زدگان اس وقت پاکستان میں جنسی درندگی اور المناک قتل کے ایک واقعے پر پاکستان میں مغرب کے سیکولر اور لبرل ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں پر کیا، سپریم کورٹ تک پر اثرانداز ہونے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں جیو سمیت کئی چینل متحرک کردار ادا کر رہے ہیں۔ جنسی درندگی کی طرح یہ ’’ابلاغی درندگی‘‘ کی ایک مثال ہے۔
مسلم معاشرے میں جنسی درندگی کا ایک واقعہ بھی دل دہلا دینے والا ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اور اس کی روک تھام کے لیے اسلام کی روشنی میں جو کچھ ممکن ہو، کیا جانا چاہیے اور اس سلسلے میں پورے معاشرے کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے ’’مغرب زدگان‘‘ کا گروہ زینب کے واقعے کو جس طرح پیش کر رہا ہے اور اس سلسلے میں مغرب کی جنسی تعلیم کو جس طرح اس مسئلے کا ’’علاج‘‘ باور کرا رہا ہے اُس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ مغرب کے سیکولر اور لبرل ممالک نہ صرف یہ کہ جنسی درندگی سے پاک ہیں بلکہ انھوں نے جنسی تعلیم وغیرہ کے ذریعے اس حوالے سے خود کو ’’جنت‘‘ بنا لیا ہے، اس کے برعکس تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان جیسا مذہبی ملک جنسی جرائم کی ’’آماجگاہ‘‘ بنا ہوا ہے، اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان مغربی ممالک کی طرح ’’سیکولر اور لبرل‘‘ نہیں۔ لیکن کیا واقعتا مغرب کے سیکولر اور لبرل ممالک خواتین اور بچوں کے تحفظ کے ’’قلعے‘‘ اور ان کی ’’جنت‘‘ ہیں؟ اور کیا یہ ممالک جنسی درندوں کا ’’جہنم‘‘ بنے ہوئے ہیں؟ اور ’’جنسی تعلیم‘‘ نے ان ممالک میں ’’انقلاب‘‘ برپا کیا ہوا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
امریکہ، سیکولر ازم اور لبرل ازم کی ایک جنت ہے۔ امریکہ کو دنیا کی سب سے ’’مضبوط جمہوریت‘‘ کہا جاتا ہے۔ امریکہ دنیا میں ’’انسانی حقوق‘‘ کا سب سے بڑا علم بردار ہے۔ امریکی ’’عدالتی نظام‘‘ بے مثال ہے۔ امریکہ کی ’’پولیس‘‘ کا کوئی جواب ہی نہیں۔ امریکہ کے ذرائع ابلاغ امریکی عوام کی آزادی اور ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کے ’’محافظ‘‘ ہیں، تاہم امریکہ کے National Network Rape for Abuse, and Incest (NNIR) کی ایک روپورٹ کے مطابق امریکہ میں 1998ء سے اب تک ’’Rape‘‘ کے ’’صرف‘‘ ایک کروڑ 77لاکھ واقعات رپوٹ ہوئے ہیں۔ ان میں سے 99فیصد واقعات کے ذمے داروں کو سزا نہیں دی جا سکی۔ عصمت دری کا نشانہ بننے والی خواتین میں 13فیصد نے خود کشی کر لی۔
Rape Victims(درندگی کا شکار افراد) میں 90فیصد نوجوان خواتین ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر سال Rape کے 3 لاکھ 21ہزار 500واقعات ہوتے ہیں۔ واقعات میں 10میں سے 7افراد کو معلوم ہوتا ہے کہ انھیں Rape کرنے والا کون ہے۔
امریکہ کی ایک ’’لبرل‘‘ اخباری و تجزیاتی ویب سائٹ کا نام Huff Postہے۔ اس ویب سائٹ کی خواتین امور سے متعلق ایڈیٹر Alanna Vagianosکے ایک مضمون
”30 Alarming statistics that show the reality of sexual violence”
کے مطابق امریکہ میں ہر 98سیکنڈ میں کسی نہ کسی پر ایک ’’جنسی حملہ‘‘ ہوتا ہے۔ مضمون کے مطابق اس طرح امریکہ میں ’’روزانہ‘‘ 570افراد جنسی حملوں کا شکار ہوتے ہیں۔ مذکورہ مضمون 5مئی 2017ء کو ویب سائٹ پر پوسٹ ہوا۔ یہ ویب سائٹ نیویارک سٹی سے تعلق رکھتی ہے۔
سیکولر ازم اور لبرل از م کی جنت امریکہ میں بچوں پر جنسی حملوں کی صورت حال کیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ امریکہ کے محکمۂ انصاف کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2012ء کے دوران امریکہ میں 62ہزار 939بچے جنسی حملوں کا نشانہ بنے۔ ان میں سے 85فیصد بچوں نے حملوں کو رپورٹ ہی نہیں کیا۔ ان میں سے تیس سے چالیس فیصد بچوں کو خاندان کے کسی فرد نے Abuseکیا ہے۔ امریکہ کے محکمۂ انصاف کی رپورٹ کے مطابق 1998ء سے اب تک امریکہ میں 18لاکھ ’’نوعمر‘‘ جنسی حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔
امریکی فوج امریکہ کی اصل قوت ہے۔ امریکی فوج کی تعلیم و تربیت مثالی ہے۔ اس کے نظم و ضبط کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ 28مئی 2014ء کے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی رپورٹ میں امریکہ کے محکمہ دفاع پنٹا گون کے ایک سروے کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ صرف 2012ء میں امریکی فوج میں 26ہزار ’’خواتین و حضرات‘‘ پر جنسی حملے ہوئے۔ ان میں سے صرف 3374رپورٹ ہوئے۔ 2013ء کی پنٹا گون کی رپورٹ کے مطابق صرف 5061فوجیوں کے جنسی حملے رپورٹ کیے گئے۔ ان میں سے صرف 484حملوں کے سلسلے میں مقدمات قائم ہوئے اور صرف 376افراد کو سزائیں ہوئیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی 2016ء کی رپورٹ کے مطابق جن فوجیوں نے جنسی حملوں کے سلسلے میں شکایات درج کرائیں انھیں بعد ازاں Personality Disorderاور اسی طرح کے الزامات کے تحت ملازمیوں سے فارغ کر دیا گیا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ جنسی درندوں کی جنت اور جنسی درندگی کا شکار ہونے والی خواتین اور بچوں کا جہنم نظر آتا ہے۔ پاکستان کے ’’مغرب زدگان‘‘ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ امریکہ کے اسکولوں میں 1920ء سے کسی نہ کسی قسم کی اُس ’’جنسی تعلیم‘‘ کا اہتمام کیا جا رہا ہے جسے پاکستان کے کئی ٹیلی ویژن چینلز کے مالکان، اینکرز، اداکار اور اداکارائیں پاکستان کے تعلیمی اداروں پر مسلط کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ یہاں کہنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ امریکہ ایک مثالی سیکولر اور لبرل ریاست ہے۔ اس کا تعلیمی نظام بہترین ہے، اس کی معیشت شاندار ہے، اس کی سماجیات پر ساری دنیا کی رال ٹپک رہی ہے، اس کی پولیس اور نظامِ انصاف کی مثالیں دی جاتی ہیں، مگر اس کے باوجود امریکہ میں جنسی حملوں کا سیلاب آیا ہوا ہے اور ہر 98سیکنڈ میں وہاں کوئی نہ کوئی عورت، بچہ یا مرد جنسی حملوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ کے ذرائع ابلاغ پر ہر وقت جنسی حملے زیر بحث ہونے چاہئیں، مگر امریکہ میں ان کا ’’ذکر‘‘ تک نہیں ہوتا، مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جہاں 60فیصد آبادی کی مذہبی یا عام تعلیم کا سرے سے کوئی بندوبست ہی نہیں، جہاں کا تعلیمی نظام فرسودہ ہے، جہاں درجنوں بڑے معاشی اور سماجی مسائل اور محرومی کی ہولناک نفسیات موجود ہے، وہاں مغرب زدگان چاہ رہے ہیں کہ ایک یا چند واقعات چوبیس گھنٹے ذرائع ابلاغ پر چھائے رہیں، یہاں تک کہ ایک واقعے کی آڑ میں وہ جنسی تعلیم اسلامی جمہوریہ پاکستان پر مسلط کر دی جائے جو 1920ء سے امریکہ میں غیر مؤثر بلکہ بچوں میں جنسی انحرافات کو بڑھانے اور معاشرے کو ’’جنسی سیلاب‘‘ میں ’’غرق‘‘ کرنے کے حوالے سے ’’معاونت‘‘ کر رہی ہے۔ امریکہ کی National Research Councilکی 2013ء کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں جنسی درندگی کے سیلاب کو دیکھتے ہوئے Rape کے واقعات Under Reporting کا شکار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ lowa Law Reviewمیں شائع ہونے والے C.R Young کے ایک مضمون کے مطابق امریکہ میں ’’عصمت دری‘‘ کے واقعات کے حوالے سے دروغ گوئی کا مقصد یہ ’’دھوکا‘‘ تخلیق کرنا ہے کہ امریکہ میں تشدد آمیز جرائم پر قابو پانے میں کامیابی ہو رہی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کے تمام مغرب زدگان سے عرض ہے کہ وہ اس بات پر اﷲ تعالیٰ کا شکر کریں کہ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے اور ان کا بچپن اور جوانی پاکستان میں گزری۔ ان کا بچپن اور جوانی خدانخواستہ امریکہ میں بسر ہوئی ہوتی تو امریکہ میں جنسی درندگی کے سیلاب کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے مغرب زدگان امریکہ میں یا تو اب تک جنسی اعتبار سے ’’Abused‘‘ ہوتے یا ’’Abuser‘‘۔ امریکہ میں 1920ء سے کسی نہ کسی صورت میں موجود جنسی تعلیم بھی انھیں تحفظ مہیا نہ کر پاتی۔
لیکن آپ امریکہ کے ’’ذکرِ خیر‘‘ سے یہ نہ سمجھیں کہ جنسی درندگی کا سیلاب صرف’’امریکہ مرکز‘‘ یا America Centricہے۔ ایسا نہیں ہے۔ فرانس یورپ کا سب سے سیکولر اور لبرل ملک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف ساڑھے چھے کروڑ آبادی والے ملک فرانس میں ہر سال 75ہزار Rape Casesہوتے ہیں۔ تاہم 2012ء کی رپورٹ کے مطابق 2012ء میں ان میں سے صرف 1293کیس رپورٹ ہوئے ۔2014ء کی ایک رپورٹ کے مطابق فرانس میں عصمت دری کے واقعات میں سے 5سے 7ہزار واقعات وہ ہوتے ہیں جنہیں Gang Rapeکہا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایسے ہولناک واقعات کو فرانس میں ’’Pass arounds‘‘ کہا جاتا ہے۔ مغرب زدگان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ فرانس میں 1973ء سے جنسی تعلیم اسکولوں کے نصاب کا حصہ ہے۔
آیے ’’برطانیہ بہادر‘‘ پر بھی ایک ’’سرسری نظر‘‘ ڈال لیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے صرف دو علاقوں یعنی Englandاور Walesمیں ہر سال عصمت دری کے 97ہزار واقعات ہوتے ہیں۔ ان میں سے 75ہزار خواتین اور 12ہزار مرد ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ کے صرف دو علاقوں میں ہر گھنٹے میں عصمت دری کے 11واقعات رونما ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق عصمت دری کے صرف 15فیصد واقعات پولیس ریکارڈ کا حصہ بنتے ہیں۔ برطانیہ میں مارچ 2015ء سے جنسی تعلیم کا اہتمام ہو رہا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو صرف امریکہ نہیں، مغرب کے تمام سیکولر اور لبرل ممالک جنسی درندگی کے سیلاب کی زد میں ہیں۔ کہتے ہیں کہ دنیا Globalizeہو گئی ہے، چنانچہ کیا ہی اچھا ہو کہ پاکستان کے نیوز چینلز اور شاہ زیب خانزادہ جیسے اینکر مغرب میں پیش آنے والے ایسے لرزہ خیز دو چار درجن نہیں تو دو چار واقعات ہی کا تذکرہ کر دیتے۔
ہمارے مغرب زدہ ٹی وی چینلز اور مغرب زدہ اینکرز اور اداکار وغیرہ معاشرے میں جنسی درندگی پر بڑے ’’پریشان‘‘ ہیں۔ ہونا بھی چاہیے۔ یہ لوگ بھی آخر معاشرے کا حصہ ہیں۔ یہ عناصر معاشرے میں ہونے والے جنسی درندگی کو تو دیکھ رہے ہیں مگر خود نام نہاد Entertainment Industry اور نام نہاد Fashion Industryمیں جو ہولناک جنسی درندگی ہو رہی ہے ہمارے ذرائع ابلاغ، ہمارے ٹی وی چینلز، ہمارے اینکرز اور ہمارے اداکار اور اداکارائیں اس کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ ڈیلی ڈان کراچی نے 4نومبر 2017ء کی اشاعت میں ہالی ووڈکی Me Tooمہم سے متاثر ہو کر ایک سطحی مگر ہولناک رپورٹ شائع کی ہے۔ ملک کی معروف اداکارہ بشریٰ انصاری نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسے اداکاروں اور اداکاراؤں کو جانتی ہیں جو چند سال میں ’’امیر‘‘ ہو گئے۔ بشریٰ انصاری کے بقول ایسی ’’امارت‘‘ صرف اداکاری سے ہونے والی ’’آمدنی‘‘ کا نتیجہ نہیں ہو سکتی۔ پی ٹی وی کی معروف ڈائریکٹر اور اداکارہ ساحرہ کاظمی نے کہا کہ وہ دیکھتی تھیں کہ نئی نوجوان اداکارائیں گھنٹوں ٹی وی کے ڈائریکٹرز او رمعروف اداکاروں کے ساتھ کمروں میں بیٹھی ہوئی ہیں اور پھر اچانک وہ لڑکیا ں ڈراموں میں اہم کردار ادا کرتی نظر آتی تھیں۔ ساحرہ کاظمی نے کا کہ یہ ماضی میں بھی ہوتا تھا اور اب بھی ہو رہا ہے۔ مشہور فلم ڈائریکٹر سید نور نے کہا کہ وہ ایسے بہت سے اداکاروں کو جانتے ہیں جو کسی کا بستر گرم کرنے یا ان کے الفاظ میں Casting Couchکا برا نہیں مانتے۔ ان کے بقول کچھ لوگ ایک رات میں امیر اور مشہور ہو جاتے ہیں اور آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی آمدنی کے ’’کچھ‘‘ اور ذرائع ہیں۔ Event Organizerفریحہ الطاف نے بتایا کہ انھیں اچانک Establish Designerسے کال موصول ہوتی ہے اور وہ کسی ’’ماڈل‘‘ کو شو کا حصہ بنانے کی فرمائش کر دیتے ہیں۔ ان کے بقول اس دائرے میں Male Modelsکو خواتین سے زیادہ ’’ہراسگی‘‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ Stylistصائم راشد نے کہا کہ ’’ماڈلنگ‘‘ میں اہلیت و صلاحیت یا Telentکی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ اہمیت ہے تو اس بات کی کہ آپ کسی کو ’’خوش‘‘ کر سکتے ہیں یا نہیں۔ صائم کے بقول کئی اچھے گھرانوں کے مرد ماڈلز محض اس لیے یہ پیشہ چھوڑ کر چلے گئے کہ وہ، وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے جو اُن سے کہا جا رہا تھا۔ ڈیزائنر ماہین خان نے کہا کہ شو بزنس میں Career,Sponsorshipاور Award Ceremoniesوغیرہ کسی نہ کسی ’’توہین آمیزی‘‘ پر کھڑی ہوتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ نہیں چاہیں گی کہ ان کی اولاد میں سے کوئی فیشن انڈسٹری میں آئے۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام شہادتیں ’’ملفوف الفاظ‘‘ میں انٹرٹینمنٹ اور فیشن انڈسٹری میں جاری ’’جنسی درندگی‘‘ کے واقعات کا بیان ہیں۔ ڈان کی رپورٹ کو شائع ہوئے دو ماہ سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے مگر کسی جیو، کسی اے آر وائے، کسی آج، کسی ڈان ٹی وی، کسی شاہ زیب خانزادہ، کسی ماہرہ خان، کسی فیصل قریشی، یہاں تک کہ کسی شہزاد رائے کو اس سلسلے میں ’’احتجاج‘‘ یا ’’مظاہرے‘‘ یا ’’ڈسکشن پروگرام‘‘ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ فیشن انڈسٹری اور انٹرٹینمنٹ ـ انڈسٹری ’’سیکولر‘‘، ’’لبرل‘‘ اور ’’روشن خیال‘‘ لوگوں کے مراکز ہیں۔ یعنی یہ ادارے خود مغرب زدگی کی علامت ہیں۔ ظاہر ہے کہ مغرب زدگان خود اپنی جیسی مخلوق کے چہرے سے کیوں پردہ اٹھانے لگے؟ اس سے معلوم ہوا کہ مغرب زدگان معصوم اور مظلوم زینب کے سلسلے میں جو ماتم کر رہے ہیں اس میں کوئی اخلاص نہیں، اس میں کوئی جذبہ نہیں، اس میں کوئی پاکستانیت نہیں۔ یہ ماتم صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان پر گندگی اچھالنے کے لیے ہے، صرف مغرب کا ایجنڈا آگے بڑھانے کے لیے ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان میں جنسی درندگی کے واقعات کیوں ہو رہے ہیں؟
بلاشبہ پاکستان میں جنسی درندگی کے سلسلے میں امریکہ اور یورپ میں برپا جنسی درندگی کے سیلاب سے ہزاروں میل دور کھڑا ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستانی معاشرے کی اخلاقی حالت خراب ہے اور مزید خراب ہو رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری آبادی کا 60سے 70فیصد حصہ کسی بھی مذہبی اور اخلاقی تعلیم و تربیت سے محروم ہے۔ جن لوگوں کو کسی نہ کسی قسم کی مذہبی، اخلاقی یا عام تعلیم میسر ہے وہ جزوی ہے۔ اس سلسلے کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری مذہبیت ظاہر پر تو اثر انداز ہے مگر ’’باطن‘‘ پر اثر انداز نہیں۔ تہذیبِ نفس و تزکیہ نفس کا خیال تک اکثر لوگوں کے دل سے نکل گیا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری تعلیم و تربیت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی ہے جنھیں خود تعلیم و تربیت اور تزکیے کی ضرورت ہے۔ ہم خواہ کچھ کہیں، ہمارا تصورِ انسان بدل گیا ہے۔ ہمارا مطلوب اب ’’اچھا انسان‘‘ نہیں، دنیاوی معنوں میں ’’کامیاب انسان‘‘ ہے۔ کامیاب انسان اپنی اصل میں ایک مغربی یا سیکولر تصور ہے۔ رہی سہی کسر ذرائع ابلاغ نے پوری کر دی ہے۔ انھوں نے معاشرے میں عورت کو صرف جنس کی علامت یا Sex Symbolکے طور پر پیش کیا ہوا ہے۔ ہمارے فلمیں، ہمارے ڈرامے، ہمارے اشتہارات، ہماری موسیقی غرضیکہ ہر چیز پر Sex Symbolکا غلبہ ہے۔ اس صورت حال نے ایسے کروڑوں مردوں کی جنسی بھوک کو بہت بڑھا دیا ہے جو روحانی، اخلاقی، تہذیبی، نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی طور پر کمزور ہیں۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ معاشرے میں دولت کا جنون پیدا کر کے اور معاشرے کو دولت کے مظاہر سے بھر کر غریبوں اور مفلسوں سے یہ توقع کی جائے کہ وہ پیسہ کمانے کے لیے چوری نہیں کریں گے، ڈاکے نہیں ڈالیں گے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ملاحظہ کیجیے کہ ذرائع ابلاغ میں کئی دن تک معصوم اور مظلوم زینب کے ساتھ ہونے والی جنسی درندگی اور اس کا سفاکانہ قتل زیرِ بحث رہا مگر کسی سیاسی رہنما، کسی اخبار، کسی ٹیلی وژن اور کسی دانش ور نے یہ نہ کہا کہ اس صورت حال کا ذمے دار ہمارا حکمران طبقہ ہے جس نے معاشرے کی مذہبی، اخلاقی، تہذیبی اور تعلیمی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے گزشتہ 70سال سے کچھ نہ کیا۔ کسی نے یہ نہ کہا کہ ہماری مذہبیت صرف ظاہر کو کیوں مذہبی بنا رہی ہے؟ وہ ہمارے باطن کو کیوں نہیں بدل رہی؟ کسی نے یہ نہ کہا کہ فلموں، انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن چینلز نے پورے معاشرے میں جنسی انارکی پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’’نفسِ امّارہ‘‘ سے اٹے ہوئے معاشرے میں ’’نفسِ لوّامہ‘‘ اور ’’نفسِ مطمئنہ‘‘ کے مظاہر کیسے نمودار ہوں گے؟ آخر کیکر کے درخت سے انگور توڑنے کی آرزو کہاں کی صحیح الدماغی ہے؟ بلاشبہ انسانوں کی ایک قسم ایسی ہے جو صرف ’’خوف کی زبان‘‘ سمجھتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے معاشرے کے ’’نظامِ انصاف‘‘ کو درست کرنے اور مجرموں کو بروقت سخت سزائیں دینے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاست دانوں، ہمارے دانشوروں اور ہمارے ذرائع ابلاغ میں سے کسی نے ان معاملات پر غور کر کے نہیں دیا۔ غور نہیں کیا تو ان نکات کا تذکرہ کون کرتا! ہوا صرف یہ ہے کہ ٹیلی ویژن چینلز نے رائے سازوں کے ذہن، ان کے تجزیے کی صلاحیت اور رائے کو اغوا کر لیا اور پورا معاشرہ مغرب زدگان کی زبان بولتا ہوا نظر آیا۔
بدقسمتی سے اس سلسلے میں معاشرے کے اہم طبقات کو یہ خیال ہی نہ آیا کہ اصل کھیل کیا چل رہا ہے؟ اس سلسلے میں بعض چیزیں مریم اورنگ زیب، شہزاد رائے، شاہ زیب خانزادہ اور کئی چینلز کی ’’خصوصی نشریات‘‘ کے حوالے سے طشت از بام ہو چکی ہیں، لیکن اس سلسلے میں سابق سوشلسٹ دانشور اور میاں نواز شریف کے غیر اعلانیہ مشیر وجاہت مسعود نے 13جنوری 2018ء کے جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں اصل بات کہہ دی ہے۔ وجاہت مسعود نے کیا لکھا، انھی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے:
’’یہ پہلی نسل ہے جسے پوسٹ پل (Post Pill)اور پوسٹ پورن (Post Porn)نسل کہنا چاہیے۔ یہ سوچنا خام خیالی ہے کہ ہمارے نوجوان آج کی دنیا کے ’’حقائق‘‘ سے بے خبر ہیں۔ موبائل فون نے ہمارے نچلے طبقے کی ’’مفروضہ اقدار‘‘ کی قبا تار تار کر ڈالی ہے…… ہمیں اپنی جنسی اقدار پر ٹھنڈے دل سے غور و فکر کر کے نئی حدود متعین کرنے کی ضرورت ہے…… تقدیسِ مشرق کا افسانہ پامال ہو چکا ہے۔ اس افسانے کے ثنا خواں طبقے سے معاشرتی ویٹو کا حق واپس لینا آج کے پاکستان کا تقاضا ہے، اس سے ہمارے بچے زیادہ محفوظ ہو سکیں گے۔‘‘
جس طرح زلزلے یا سیلاب آنے سے ہمارے حکمران طبقوں کے افراد یہ سوچ کر خوش ہوتے ہیں کہ اب بیرونی امداد آئے گی اور مال بٹورنے کے امکانات پیدا ہوں گے، اسی طرح وجاہت مسعود اس بات پر جھوم رہے ہیں کہ پاکستان میں بھی جنسی انحرافات کا سیلاب آ گیا ہے یا آنے والا ہے، اب دیکھیں گے کہ مذہب اور اس کی اقدار کیسے زندہ رہیں گی۔ جو قارئین وجاہت مسعود کی اصطلاحوں Post Pill اور Post Porn کا مطلب نہ سمجھے ہوں ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ Post Pillمعاشرے سے مراد وہ معاشرہ ہے جس میں جنسی تعلقات اس لیے آسان ہو گئے ہیں کہ مانعِ حمل گولیاں ’’ایجاد‘‘ ہو چکی ہیں اور اب زنا کے نتیجے میں حمل رہنے کے امکانات ختم یا بہت کم ہو گئے ہیں، چنانچہ نوجوان پورے بے خوفی کے ساتھ زنا کر سکتے ہیں۔ Post Pornکا مطلب یہ ہے کہ عریاں فلموں یا Pornographyکو عام ہوئے عرصہ ہو گیا ہے اور ان فلموں کو دیکھ کر ایک ایسی نسل ہمارے سامنے آ کھڑی ہوئی ہے جو جنس کے سلسلے میں مذہبی اخلاقیات کی قائل ہی نہیں رہی۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ہولناک سانحہ ہے مگر وجاہت مسعود اس سانحے پر مسرور ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ اب ہمیں جنسی اقدار کے سلسلے میں نئی حدود مقرر کرنی ہوں گی، مطلب یہ کہ اب ہمیں آزاد جنسی تعلقات کو قبول کرنا ہو گا، بالکل اسی طرح جس طرح ’’ترقی یافتہ‘‘ اہلِ مغرب نے کیا۔ اس سے اگلے مرحلے پر ہمیں ہم جنس پرستی کو بھی قبول کرنا ہو گا، وغیرہ وغیرہ۔ مظلوم زینب کی آڑ میں برپا ہونے والی مغرب زدگان کی ’’آہ و بکا‘‘ کا اصل ایجنڈا یہ ہے۔ دیکھا جائے تو وجاہت مسعود اور ان جیسے اسلام بیزار لوگ کہہ رہے ہیں کہ اب اسلام کی ’’مطلق اخلاقیات‘‘ یا Absolute Moralityنہیں چلے گی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جو اخلاقیات مطلق نہ ہو وہ اخلاقیات کی پیروڈی ہے۔ دوسری بات یہ کہ وجاہت مسعود کہہ رہے ہیں کہ اگر معاشرے کو ’’سرطان‘‘ کا مرض لاحق ہو گیا ہے تو اس کے علاج کی ضرورت نہیں۔ ’’سرطان زدہ‘‘ یعنی Post Pillاور Post Pornمعاشرہ ایک ’’حقیقت‘‘ ہے، بس اس کو مانو، قبول کرو، اپناؤ، بلکہ اس معاشرے کے ظہور کی خوشی مناؤ، اس سرطان کے علاج کی کوشش نہ کرو۔ ارے صاحب! آدمی سرطان کے آخری اسٹیج پر بھی ہوتا ہے تو اس سے محبت کرنے والے تب بھی سرطان سے جنگ کرتے ہیں، اس کے آگے ہتھیار نہیں ڈالتے۔ وجاہت مسعود کے اصول کو تسلیم کر لیا جائے تو ہمارے معاشرے کو چوری، ڈاکے، قتل، اغواء، منشیات کی لت، یہاں تک کہ طاقتور کے ظلم، جبر اور غلامی کو بھی قبول کر لینا چاہیے، اس لیے کہ یہ تمام چیزیں بھی ’’حقائق‘‘ کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہاں کہنے کی بات یہ بھی ہے کہ وجاہت مسعود نے اسلام کو سوشلزم سمجھ لیا ہے جو بے چارہ 70سال سے زیادہ نہ جی سکا۔ اسلام ایک ابدی حقیقت ہے۔ مسلمانوں کی روحانی، اخلاقی اور تہذیبی قوت کمزور تو پڑتی رہی ہے مگر فنا کبھی نہیں ہوئی۔ کیا وجاہت مسعود نہیں دیکھ رہے کہ اسلام مغرب کے جنس کے سیلاب میں ڈوبے ہوئے Post Pillاور Post Pornمعاشروں میں لاکھوں مقامی امریکیوں اور یورپی باشندوں کو مسلمان کر چکا ہے۔ یہ ’’کمال‘‘ اس وقت ہو رہا ہے جب مسلمانوں کے حقیقی نمائندوں کے پاس نہ سیاسی اقتدار ہے، نہ معاشی طاقت ہے، نہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی قوت ہے، نہ ابلاغی ذرائع کا سرمایا ہے۔ چنانچہ اسلام اور اس کے پیروکار وجاہت مسعود اور ان جیسی ذہنیت کے حامل لوگوں کے سینوں پر مونگ دلتے رہیں گے۔ ہمیں حیرت ہے کہ معاشرے کے مذہبی طبقات نہ مغرب کے مقامی آلۂ کاروں کے ایجنڈے کو سمجھ رہے اور نہ وہ معاشرے میں جنسی انحرافات کے سیلاب کو روکنے کے لیے کچھ کر رہے ہیں۔ مذہبی طبقات سب کو خدا اور اس کے عذاب سے ڈراتے ہیں۔ ہم مذہبی طبقات اور نمائندوں کو خبردار کرتے ہیں کہ آپ مذہب کے بڑے بڑے دعوے لے کر کھڑے ہیں، آپ ان دعووں کے مطابق عمل نہیں کریں گے تو آپ پر خدا دنیا میں ہی نہیں آخرت میں بھی ایسی ذلت مسلط کر دے گا جو عام لوگوں پر مسلط کی جانے والی ذلت سے کہیں زیادہ ہو گی۔ (مطبوعہ: فرائیڈے سپیشل، کراچی ۱۹تا ۲۵ جنوری ۲۰۱۸ء)