(قسط: ۳)
علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ
نماز میں سر کا ڈھانپنا:
خطبہ نمبر ۱۰ کے بعد جو سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو اس دوران ایک سوال یہ پوچھا گیا تھا کہ نماز میں سر پر کپڑا لینا ضروری ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے جناب ڈاکٹر صاحب نے مردوں اور عورتوں کا حکم الگ الگ بیان فرمایا۔ جہاں تک فقہی لحاظ سے جواب کا تعلق ہے تو انھوں نے درست ارشاد فرمایا، مگر ہم چند اور نکات کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا:
’’مرد کے متعلق سر ڈھانپنا ضروری نہیں ہے…… کپڑے پہنے تو بہت اچھا ہے، نہ پہنے تو کسی کو کافر کہنے کا حق نہیں ہے۔ چنانچہ اس قسم کا ایک واقعہ صحیح بخاری میں آیا ہے۔ ایک صحابی تھے غالباً سعد بن معاذ یا کوئی اور، نام اس وقت یاد نہیں۔ ان کا ذکر ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بہت بعد، خلافت کے زمانے میں ایک دن ان کو کچھ لوگوں نے بہت ادب سے اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی۔ کھانے کے بعد لوگوں نے درخواست کی کہ آپ ہی نماز پڑھائیے، ہم آپ کے پیچھے نماز پڑھنے کا شرف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ غالباً اس سے پہلے اسی قسم کی گفتگو ہوئی تھی۔ بہرحال ان صحابی نے نماز پڑھانا قبول کیا۔ نماز سے قبل انھوں نے سجادہ کی طرف جاتے ہوئے پہلے عمامہ اتارا، پھر کوٹ اتار پھینکا اور پھر قمیص بھی اتار دی۔ صرف تہہ بند کے ساتھ آگے آئے اور آگے بڑھ کر نماز شروع کی۔ لوگ حیران ہوئے۔ اس پر انھوں نے جو کچھ فرمایا وہ بخاری میں ان الفاظ میں آیا ہے کہ: ’’تجھ جیسے احمق کو بتانے کے لیے میں نے عمداً ایسا کیا ہے۔ کیا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں تمھارے خیال میں ہمارے پاس دو دو کپڑے ہوتے تھے؟ اس وقت ہم ننگے سر ہی نماز پڑھتے تھے‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سر ڈھانپنا بے شک اچھا ہے، ادب کا تقاضا ہے اور اس آیت شریف کے مطابق ہے کہ جب نماز کے لیے جاؤ تو زینت کے ساتھ جاؤ۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ یہ واجب ہے‘‘۔ (خطبات، ص: ۳۲۴)
اب ہماری چند گزارشات سنیے:
۱۔ سوال سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سائل نے کیسی گستاخی کا ارتکاب کیا تھا، پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ ڈاکٹر صاحب میں اس قدر ہلکا پن کیوں آ گیا کہ ان کے منہ سے ایک ایسا جملہ نکلا جو ان کی بزرگ عمری اور علمی سنجیدگی کو زیب نہیں دیتا۔ کس نابکار نے کبھی یہ کہا ہے کہ جو شخص نماز میں سر نہ ڈھانپے، وہ کافر ہو جاتا ہے؟ آخر اس ’’طنز شریف‘‘ کا مقصد اور موجب کیا ہے؟
۲۔ ڈاکٹر صاحب میں جو ہیجانی کیفیت نظر آ رہی ہے، غالباً اسی کا اثر ہے کہ وہ صاحبِ واقعہ صحابی کا نام بھول گئے۔ انھیں یاد نہ رہا، مگر تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ عنہ تو ۵ھ میں غزوۂ خندق میں زخمی ہو کر اﷲ کو پیارے ہو گئے تھے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ ان کی وفات پر اﷲ کا عرش ہل گیا ہے، جب کہ مذکورۃ الصدر واقعہ عہد نبوت کے بعد کا ہے۔
قارئین کی اطلاع کے لیے ہم عرض کیے دیتے ہیں کہ یہ واقعہ حضرت جابر رضی اﷲ عنہ کا ہے۔
۳۔ ڈاکٹر صاحب نے دعوت کا تذکرہ کیا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی وہ بخاری شریف سے نقل کر رہے ہیں۔ حالانکہ صحیح بخاری میں اس بات کا صریحاً تذکرہ تو کجا، کہیں اشارہ تک اس طرف نہیں پایا جاتا۔ معلوم نہیں ڈاکٹر صاحب نے کہاں سے لیا ہے۔
۴۔ اوپر نقل کی گئی عبارت میں چوتھا خط کشیدہ اقتباس پھر پڑھئے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے الفاظ کی عجیب و غریب ملمع سازی فرمائی ہے۔ روایت میں کہیں بھی اس قسم کے الفاظ موجود نہیں ہیں، بلکہ قارئین کو سن کر حیرت ہو گی کہ بخاری کی روایت میں صرف ایک رداء (اوڑھنے کی چادر) کا تذکرہ ہے۔ حضرت جابر رضی اﷲ عنہ کا یہ واقعہ بخاری کی کتاب الصلوٰۃ میں دو مرتبہ آیا ہے۔ باب نمبر ۳ اور باب نمبر ۱۱ میں۔ باب نمبر ۱۱ کا عنوان ہے:’’ الصلوٰۃ بغیر رداء‘‘اور نیچے روایت میں ورداۂ موضوع(یعنی ان کی اوپر کی چادر رکھی رہی) کے کلمات درج ہیں۔
محدثین حضرات کی احتیاط کا تو یہ عالم ہے کہ اگر انھیں کسی روایت کے الفاظ میں کہیں شک پیدا ہو گیا تو انھوں نے اپنا شک بیان کر دیا۔ مثال کے طور پر وضو کی فضیلت میں مسلم شریف (ج:۱، ص: ۱۲۵) میں ایک روایت آئی ہے، اس میں ایک جگہ تو آیا ہے: ’’العبد المسلم او المؤمن‘‘ راوی کو تردد ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان میں المسلم کا لفظ ہے یا المؤمن کا۔ اسی حدیث میں آگے ہے:’’ مع الماء او مع آخر قطر الماء‘‘ (پانی کے ساتھ، یا پانی کے آخری قطرے کے ساتھ) یہاں بھی راوی نے تردد اور شک کا اظہار کیا ہے۔ پھر مسلسل آگے کتابوں میں جہاں بھی یہ روایت نقل کی گئی، اسی طرح کی گئی…… ایک طرف ان حضرات کی یہ احتیاط اور دوسری طرف ڈاکٹر صاحب کے اضافے۔ مقامِ حیرت ہے رداء کو عمامہ، کوٹ اور قمیص میں تبدیل فرما دیا۔
ڈارون کا نظریۂ ارتقاء:
خطبات بہاول پور میں چھٹا خطبہ ’’دین (عقائد، عبادات و تصوف)‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں جب سوالات کا سلسلہ شروع ہوا تو کسی نے یہ سوال کیا:
’’ڈارون کا نظریۂ ارتقاء اگر سائنسی نقطۂ نظر سے صحیح ہے تو اسلام اور سائنس میں تضاد ہے۔ آپ اس تضاد کو حل کرنے کے بارے میں ارشاد فرمائیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کا جواب ڈیڑھ صفحے تک چلا گیا ہے۔ پوری عبارت کا نقل کرنا غیر ضروری ہے۔ چند اقتباسات ہم یہاں نقل کرتے ہیں اور پھر ان کے بارے میں اپنی طرف سے چند معروضات پیش کریں گے۔
۱۔ ’’یہ پہلے ہی فرض کر لیا گیا ہے کہ ڈارون کے نظریے کو اسلام نے رد کر دیا ہے۔ اس کو ثابت کرنا آپ پر واجب ہے۔ بعد میں دیکھیں گے کہ یہ چیز اسلام کے موافق ہے یا مخالف۔‘‘
۲۔ ’’یہاں (کیمبرج یونیورسٹی میں) ڈارون نے اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے عربی زبان بھی پڑھی۔ اس کے خطوط کا جو مجموعہ شائع ہوا ہے، اس میں کئی خط اس نے اپنے عربی کے استاد کے نام لکھے ہیں اور بے حد ادب و احترام سے اس کا نام لیا ہے۔‘‘
۳۔ ’’میں سمجھتا ہوں کہ اس زمانے میں کیمبرج یونیورسٹی میں عربی کی جو کتابیں پڑھائی جاتی تھیں ان میں یا تو ’’اخوان الصفا‘‘ کے اقتباسات ہوں گے یا ابن مسکویہ کی ’’الفوز الاصغر‘‘ کے انتخابات۔ ان دونوں کتابوں میں ارتقاء کا نظریہ بیان کیا گیا ہے اور آپ کو معلوم کر کے حیرت ہو گی کہ ان مسلمان مؤلفوں کی زندگی میں کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ کبھی انھیں کافر قرار نہیں دیا گیا۔‘‘
۴۔ ’’ان کتابوں میں لکھا ہے کہ خدا پہلے مادہ کو پیدا کرتا ہے اور اس مادہ میں ترقی کی قوت عطا کرتا ہے۔ لہٰذا مادہ اوّلاً بخار یا دھویں کی صورت اختیار کرتا ہے۔ پھر ترقی کرتے ہوئے پانی کی صورت اختیار کرتا ہے۔ جمادات ترقی کرتے ہوئے مختلف قسم کے پتھر بنتے ہیں اور بالآخر وہ مرجان کی صورت اختیار کرتے ہیں جو ہوتے تو پتھر ہیں لیکن ان میں درخت کی سی شاخیں ہوتی ہیں۔‘‘
۵۔ ’’پھر جمادات کے بعد نباتات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے…… پھر اس کے بعد ادنیٰ ترین قسم کا حیوان پیدا ہوتا ہے۔ وہ ترقی کرتے کرتے کیا بنتا ہے؟ ابن مسکویہ بیان کرتا ہے، اخوان الصفا میں بھی وہی بیان کیا گیا ہے کہ وہ بندر کی شکل اختیار کر لیتا ہے…… یہ ڈارون کا بیان نہیں ہے۔ مسلمان حکماء کا بیان ہے۔‘‘
۶۔ ’’پھر اس کے بعد ترقی کرتا ہے تو ادنیٰ قسم کا انسان بنتا ہے…… وہ ترقی کرتے کرتے اعلیٰ ترین انسان بنتا ہے۔ یہ بشر، ولی اور پیغمبر ہوتا ہے۔‘‘
۷۔ ’’پھر اس سے بھی ترقی کر کے فرشتہ بنتا ہے۔‘‘
۸۔ ’’پھر فرشتوں کے بعد ذات باری تعالیٰ خدا ہی کی ذات ہوتی ہے۔ ہر چیز خدا سے شروع ہو کر پھر خدا ہی کی طرف جاتی ہے۔ و الیہ المرجع والمآب۔‘‘
۹۔ ’’ہمارا تصور یہ ہے کہ اﷲ ایک کمہار کی طرح مٹی کو لیتا ہے اور اس کے اندر مورت بناتا ہے۔ اس کے اندر روح پھونکتا ہے اور حضرت آدم علیہ السلام بن جاتے ہیں۔ ممکن ہے ایسا ہوا ہو، میں انکار نہیں کرتا۔ لیکن آپ ان آیتوں کا کیا کریں گے جن میں یہ کہا گیا ہے کہ اﷲ نے انسان کو مٹی اور پھر نطفے سے پیدا کیا۔‘‘
۱۰۔ ’’ایک اور آیت کو لیجیے: ’’خلقکم اطوارا‘‘ خدا نے انسان کو طور بہ طور پیدا کیا۔ ’’طور‘‘ وہی لفظ ہے جس تطوّر (Evolution) بنایا گیا ہے۔ خدا نے انسان کو طور بہ طور پیدا کیا، اس کے معنیٰ یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ خدا نے انسان کو اوّلاً جمادات کی شکل میں بنایا، پھر وہ جمادات ترقی کرتے ہوئے نباتات بنتے ہیں، پھر حیوان بنتے ہیں۔‘‘ (یہ اقتباسات خطبات (چوتھا ایڈیشن) کے صفحہ ۲۱۶ تا ۲۱۸ سے لیے گئے ہیں)
ایک ضروری گزارش:
محترم قارئین! ذرا رک جائیے، آگے بڑھنے سے پہلے حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا واقعہ دہرا کر اپنا ایمان تازہ کر لیجیے۔ خلافتِ عباسیہ کا آفتاب عروج پر ہے۔ معتزلی علماء دربارِ خلافت پر چھائے ہوئے ہیں۔ ایک من گھڑت مسئلہ، بزور علماءِ حق سے منوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حضرت امام احمد رحمہ اﷲ وقت کے سب سے بڑے محدث اور دینی رہنما ہیں۔ آپؒ باطل کے سامنے سر جھکانے سے انکاری ہیں۔ ادھر کرۂ ارض کی سب سے بڑی سلطنت، جبر و تشدد پر اتر آتی ہے۔ نرم و نازک بدن پر کوڑوں کی بارش ہو رہی ہے، مگر امام عالی مقام کی زبان سے ایک ہی جملہ نکل رہا ہے:
’’ایتونی بشیء من کتاب اللّٰہ او سنۃ رسولہ حتیٰ اقول بہ۔‘‘
ترجمہ: ’’اﷲ کی کتاب یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث سے کوئی دلیل لے آؤ تو میں مان سکتا ہے۔‘‘
اور ایسا کیوں نہ ہوتا؟ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اُمت کو یہ وصیت فرما گئے تھے:
’’ترکت فیکم امرین لن تضلوا بعدی ما تمسکتم بہما، کتاب اللّٰہ و سنتی۔‘‘
(مشکوٰۃ، ص: ۳۱)
ترجمہ: ’’میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ جب تک تم ان کو تھامے رہو گے تم گمراہ نہیں ہو گے۔ ایک اﷲ کی کتاب اور دوسری میری سنت۔‘‘
اگر ایسے کٹھن وقت میں امام احمد بن حنبلؒ، فرمان رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی لاج نہ رکھتے تو اور کون رکھتا؟ اور ہاں …… قارئین کو وہ بھی یاد ہو گا کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ تورات کے کچھ اوراق، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے لے آئے تھے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم یہ دیکھ کر خاموش رہے تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے انھیں پڑھنا شروع کر دیا۔ ادھر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہونے لگا تو حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو سختی سے ٹوکتے ہوئے کہا: تم دیکھتے نہیں ہو کہ چہرۂ انور پر کیا گزر رہی ہے؟ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے رخِ انور کی طرف دیکھا تو فوراً کہا:
’’اعوذ باللّٰہ من غضب اللّٰہ و غضب رسولہ رضینا باللّٰہ ربا و بالاسلام دینا و بمحمد نبیا‘‘
ترجمہ: ’’میں اﷲ کی پناہ چاہتا ہوں اﷲ کے غضب اور اس کے رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے غضب سے۔ ہم اﷲ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں۔‘‘
اس پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سن لو! جس ذات کے قبضہ میں محمد کی جان ہے، اس کی قسم اگر (بالفرض حضرت) موسی سامنے آ جائیں اور تم ان کے پیچھے لگ کر مجھے چھوڑ دو تو تم سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے اور اگر (حضرت) موسیٰ زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پا لیتے تو وہ ضرور میرا ہی اتباع کرتے۔ (اس حدیث کے تحت شاع مشکوٰۃ شریف حضرت ملّا علی قاری رحمہ اﷲ فرماتے ہیں: ’’ و فی الحدیث نہی بلیغ عن العدول من الکتاب والسنۃ الی غیرھما من کتب الحکماء والفلاسفۃ‘‘(مرقاۃ، ج:۱، ص: ۲۶۲)
سطور بالا سے یہ بات قارئین پر واضح ہو گی کہ ہر وہ مسئلہ جس کے ڈانڈے اسلامی عقائد و نظریات سے ملتے ہوں، ان میں اندھا دھند کسی کے پیچھے چل پڑنے کا کوئی جواز نہیں۔ کتاب و سنت کا سہارا لینا ضروری ہے۔ آئندہ سطور میں ہم اسی کی زحمت اپنے قارئین کو دیں گے۔ وباﷲ التوفیق
ڈارون کون تھا؟
ڈارون، انگلستان کا رہنے والا ایک سائنس دان تھا۔ اس کی پیدائش ۱۸۰۹ء میں ہوئی۔ کیمبرج یونیورسٹی و غیرہ میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔ اس نے مطالعۂ کائنات کو اپنا مشن بنایا۔ بیس برس کے مسلسل تجربات اور مشاہدات کے بعد اس نے اپنا مشہور نظریہ پیش کیا Origin Of The Species (انواع مخلوق کی اصل) کے نام سے اس نے اپنی کتاب شائع کی جس نے لکھی پڑھی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ یہ کتاب ۱۸۵۹ء میں پہلی مرتبہ لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچی۔ اب اس کو ڈیڑھ صدی ہونے کو ہے کہ اس نظریہ کے بارے میں نفیاً اثباتاً قلم کاروں کی مساعی سامنے آ رہی ہیں۔
ڈارونی نظریہ کا پس منظر:
تاریخ کے طالب علموں کو معلوم ہو گا کہ مسیحیت کی علم دشمنی، تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ غالباً چوتھی صدی عیسوی کے اوائل میں رومی بادشاہ، قسطنطین اوّل نے عیسائیت کو قبول کیا، جس کے بعد عیسائیت نے یورپ میں زور پکڑ لیا۔ رومی سلطنت پرانی دنیا کے تین بر اعظموں (یورپ، ایشیا اور افریقہ) کے بیشتر ممالک پر چھائی ہوئی تھی۔ کلیسا (Church) کی تنگ نظری اور علم دشمنی کی داستان طویل بھی ہے اور انتہائی وحشت ناک بھی۔ پاپائے روم کے حکم سے ایک محکمۂ احتساب قائم ہوا۔ جس کے فیصلوں سے تین سال کے عرصہ میں تین لاکھ چالیس ہزار آدمیوں کو مختلف سزائیں سنائی گئیں، ان میں ۳۲ ہزار انسانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ ظلم و ستم اور جبر و قہر کا سب سے بڑا نشانہ یہودی تھے، اس لیے کہ وہ رائج الوقت علوم و فنون کے سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔
زمانہ کروٹ بدلتا ہے اور تاریخ، ورق الٹتی ہے۔ دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن کا نظام ہزاروں، لاکھوں سال سے چلا آ رہا ہے۔ عقیدۂ ولدیت (کہ حضرت عیسی علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں) کے ماننے والوں کا زور ٹوٹا۔ صنعتی انقلاب کے بعد دنیا کو جدید سائنس کا لوہا ماننا پڑا۔ اب قرآن پاک کی اس پیش گوئی کے مطابق عقیدۂ ولدیت کے نتائج اتنے بھیانک اور روح فرسا ہیں کہ نبی آخر الزمان صلی اﷲ علیہ وسلم انھیں سوچ سوچ کر لرز جاتے تھے: ’’فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلَی آثَارہِمْ‘‘ (سورۂ کہف: ۶) ڈارونی…… اور …… مارکسی نظریات ہی نہیں اور بھی متعدد علمی افکار(Scientific Theories) کی شکلوں میں نمودار ہونے لگے۔ مذہبی انارکی نے عالمگیر وبا کی صورت اختیار کر لی۔
ڈارونیت کا استقبال کیونکر ہوا؟
ڈارون کا نظریۂ ارتقاء کیا ہے؟ یہاں تفصیل سے بتانا بڑا مشکل ہے، البتہ آگے چل کر ہم جناب ڈاکٹرحمید اﷲ صاحب کے اوپر دیے گئے اقتباسات پر گفتگو کریں گے تو اس ضمن میں اس کا ذکر آ جائے گا۔ یہاں پر اتنا بتا دینا مناسب ہو گا کہ خود سائنسی دنیا کے بہت سے نامور فضلاء اس نظریہ کو مضحکہ خیز اور مغالطہ انگیز قرار دے چکے ہیں۔ آکسفورڈ سے ایک کتاب The Encyclopedia Of Ignorance کے نام سے شائع ہوئی جو ۶۰ مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس میں ایک مقالہ :
The Fallacies Of Evolution Theory
کے عنوان سے شامل ہے جس کے لفظی معنی ہیں ’’نظریۂ ارتقاء کے مغالطے‘‘۔
اس سے قطع نظر ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بنیادی طور پر نظریۂ ارتقاء مذہب پر کس حد تک اثر انداز ہوا۔ یہودیوں کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے:
Protocols Of The Learned Elders Of Zion
یعنی ’’اکابر علماء صہیون کے معاہدات‘‘۔ اس کا عربی ترجمہ ’’بروتوکولات صھیون‘‘ کے نام سے بیس سال پیشتر مکہ مکرمہ سے شائع ہوا تھا۔ اس کتاب کے دو اقتباس یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔
۱۔ ’’اذکروا نجاح دارون و مارکس و نتشہ، فنحن الذین او جدناھم و تعلمون جمیعا ما کان لسموم ہذہ المذاھب من اثر فی اخلاق الأقوام و عقولھم…… یجب ان ندرس بدقۃ و عنایۃ آراء الشعوب و اخلاقہا و میولھا‘‘۔
ترجمہ: ’’تم لوگ یاد رکھو کہ ڈارون، مارکس اور نیٹشے کس طرح کامیاب ہوئے۔ ہم ہی تو ان کو وجود میں لائے اور تم سب یہ بھی جانتے ہو کہ ان افکار کے زہر کس طرح مخالفین کے اخلاق اور ان کی عقلوں پر اثر انداز ہوئے…… ضروری ہے کہ ہم بڑی دقّتِ نظر اور انہماک سے قوموں کے نظریات، ان کے اخلاق اور رجحانات کا مطالعہ کریں۔‘‘
۲۔’’ان دارون لیس یہودیا، و لکننا عرفنا کیف ننشر آراۂ علی نطاق واسع و نستغلہا فی تحطیم الدین‘‘۔
ترجمہ: ’’ڈارون یہودی تو نہیں ہے، لیکن ہم خوب جانتے ہیں کہ ہم اس کے نظریات کو ایک بڑے پیمانہ پر کس طرح پھیلا سکتے ہیں اور دین کو پاش پاش کرنے میں کیونکر اس سے امداد لے سکتے ہیں۔‘‘
ایک عبارت کا ملخص ترجمہ کچھ اس طرح ہے:
’’ہمارے مخالفین اس حد تک عاجز ہو چکے ہیں کہ وہ ہمارے علمی افکار سے باہر سوچ ہی نہیں سکتے۔ اسی چیز کا ہم پورا پورا اہتمام کرتے ہیں اور یہی وہ تعلیم ہے جو درس گاہوں میں دینا ضروری ہے۔ انسانی زندگی اور اس کے اجتماعی اصول کا علم۔‘‘ (جاری ہے)