اویس حفیظ
ایک سال گزر گیا، سوچا بھی نہ تھا کہ یہ سال اس قدر ہنگامہ خیز ہو گا کہ آج، کل، آج، کل کرتے پورے ایک سال بعد محمد شفیق مرزا صاحب کی شخصیت پر کچھ لکھنے کی نوبت آئے گی۔اس ایک سال میں وہ کچھ دیکھنے کو ملا کہ مرزا صاحب حیات ہوتے تو اپنی آنکھوں پر یقین نہ کرتے۔مثلاً ’’ریاض صحافی‘‘ کی یہ خبرہی کیا کم صدمہ تھی کہ ’’کالم نگاروں کے گرو‘ شفیق مرزا کی رسمِ قل میں 21لوگوں کی شرکت‘‘۔ یہ شفیق مرزا کوئی عام شخص نہ تھا کہ ہارون الرشید صاحب نے’’وفاتِ حسرتِ آیات‘‘ لکھتے ہوئے کہا کہ’’آدمیوں کی طرح شہر بھی مر جاتے ہیں، رفتہ رفتہ، دھیرے دھیرے، کسی کو خبر نہیں ہوتی۔ مرزا صاحب کی وفات کے بعد لاہور کچھ اور مفلس ہو گیا‘‘۔ ایسے شخص کی اس قدر ناقدری…… الامان!
میں جب بھی ان کا تصور ذہن میں لایا ان کا وہی ہنستا مسکراتا چہرہ میری نظروں کے سامنے آیا جو ہرروز آفس میں داخل ہونے کے بعد مجھے نظر آتا تھا۔ انہیں سات دن تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا دیکھ کر مجھے اذیت ہوتی تھی کہ جس شخص نے ہمیشہ پانی بھی خود اٹھ کر پیا ہو اور جو کسی سے کوئی کام کہنے کا روادار نہ ہو، اگر وہ اس طرح خود کو وینٹی لیٹر پر دیکھے گا تو اس پر کیا بیتے گی؟ مگر وہ شفیق مرزا ہی تھے، خوداری کا پیکر، اسی لیے اس نے کسی پر زیادہ بوجھ بننا گوارا نہیں کیا اور اس فانی زندگی کی قید سے رہا ہو کر ابدیت کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ میرا ان سے تعلق ایک ایسا سرمایہ ہے جس پر فخر کرنے میں مَیں حق بجانب ہوں۔اور اسے میں اپنی خوش قسمتی ہی کہوں گا کہ مجھے عملی صحافت کے ابتدائی دنوں میں ہی اس میدان کے بڑے ناموں کے زیرِ سایہ کام کرنے کا موقع میسر آیا اوراگر میرے کام میں کوئی رمق یا کوئی نکھار موجود ہے تو اس کا تمام تر کریڈٹ انہی اساتذہ کو جاتا ہے جنہوں نے اپنی ذات سے نکل کر، قدم کے ساتھ قدم ملا کر مجھے دشوار گزار راستوں پر چلنا سکھایا۔
اگر شفیق مرزا صاحب کی شخصیت کی بات کی جائے تو اس حوالے سے بہت سے پہلو نامی گرامی قلمکاروں کی بدولت منظر عام پر آ چکے ہیں۔ حامد میر، عطاء الحق قاسمی، حسن نثار، ہارون الرشید، عابد تہامی اور ارشاد احمد عارف سمیت بے شمار لوگوں نے مرزا صاحب سے اپنے تعلق کی لاج رکھی اور ان کے کام اور شخصیت کو اجاگر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ان کی وفات کے بعد ہر شخص نے اپنے اپنے انداز میں انہیں خراجِ تحسین پیش کیا لیکن مرزا صاحب کے حوالے سے ایک جامع تعزیتی ریفرنس نہ ہوسکنے کے باعث ایک تشنگی رہ گئی تھی۔ حالانکہ اس میں کوئی شخصی قصور نہ تھا۔ یہ بھی کل کی بات محسوس ہوتی ہے کہ استاذی جناب تاثیر مصطفیٰ صاحب اور مرحوم و مغفور انور قدوائی صاحب نے تعزیتی ریفرنس کا بیڑہ اٹھایا۔ اس حوالے سے مرزا صاحب کے جاننے والے تمام افراد کی ایک لسٹ بھی بنائی گئی مگر انور قدوائی صاحب کی اچانک رحلت کے بعد ایک دوسرے صدمے نے آن لیا اور مرزا صاحب کا تعزیتی ریفرنس پیچھے رہ گیا۔ اسی لیے یہ مجھ پر بھی ایک بہت بڑا قرض تھا اور میں نے محض اپنا فرض و قرض ادا کرنے کی غرض سے قلم اٹھایا ہے وگرنہ مرزا صاحب سے تعلق کے باب میں‘ میں کیا، میری مجال کیا؟
اگرچہ مرزا صاحب کے شخصی پہلوؤں پر بہت سوں نے بات کی اسی لیے میں چاہتا تھا کہ میں مرزا صاحب کی ذات کا وہ پہلو سامنے لاؤں جس پر سب سے کم بات کی گئی یا ’’پیشہ ورانہ مجبوریوں‘‘ کے سبب جس پہلو سے جان بوجھ کر پہلو تہی کی گئی اوروہ پہلو مرزا صاحب کا قادیانیت کے خلاف محاذ ہے۔
مرزا صاحب کے جاننے والے بہت سے لوگوں کے لیے یہ سوال کسی معمے سے کم نہیں کہ محمد شفیق مرزا کون تھے؟ وہ سرخ جھنڈا تھامنے والا شخص جس سے ایک زمانہ واقف تھا یا وہ شخص جس نے نظر نہ آنے والا ایک سبز چوغا پہن رکھا تھا اور جو مذہب کے معاملے میں ازحد حساس واقع ہوا تھا۔
میں نے لوگوں کی ایک قسم سن رکھی تھی جنہیں سمجھانے کی غرض سے ’’ناریل یا کوکونٹ‘‘ کہتے تھے، بالخصوص برٹش انڈیا میں ایسے لوگوں کی بھرمار تھی جو باہر سے براؤن تھے مگر ان کے اندر سے ’’گورا صاحب‘‘ برآمد ہوتا تھا۔ پھر اسی قسم کی ایک اور قوم سامنے آئی جسے ’’تربوز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ باہر سے تو سبز ہوتے ہیں بڑا مذہب‘ مذہب کرتے ہیں مگر اندر سے یہ پورے سرخ ہوتے ہیں اور جیسے ہی انہیں کوئی موقع ملتا ہے تو سب سے پہلے مذہب کو گلے سے اتارتے ہیں اور پھر مذہب کے خلاف ہی محاذ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں مگر محمد شفیق مرزا کی صورت میں، میں نے وہ شخصیت دیکھی جو ان دونوں کے بالکل برعکس تھی۔ سوشلزم اور لبرل ازم پر جتنا مرزا صاحب کو عبور تھا، کسی کو کیا ہو گا مگر آپ ظاہراً لال اور اندر سے پورے سبز تھے!
میں نے اکثر نوٹ کیا کہ جہاں کہیں مرزا صاحب کا نام لکھا ہوتا، وہ اپنے نام کے ساتھ ’’محمد‘‘ لازمی لکھتے تھے حالانکہ میرے ساتھ بالکل برعکس معاملہ ہے مگر مرزا صاحب کی شخصیت میں جو چند پہلو بہت نمایاں تھے اُن میں ان کا مذہبی رحجان بھی تھا۔اگرچہ اس جملے پر بہت سے لوگوں کو اعتراض ہو گا کہ مرزا صاحب تو ’’سرخے‘‘ تھے اور ماضی میں وہ سوشلزم و کمیونزم کے داعی بھی رہ چکے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ بیک وقت مذہب پسند بھی ہوں تو اس حوالے سے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مذہب کے بغیر کوئی بھی چیز اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی اور سوشلزم اور اسلام کے تعلق کے حوالے سے بھی وہ ایک خط (غالباً لینن کا خط جو اس نے انٹرنیشنل سوشلسٹ کونسل کو لکھا تھا) کا حوالہ دیا کرتے تھے جس میں اسلام کو سوشلزم کے قریب تر مذہب کہا گیا تھا۔ پھر اسی حوالے سے ایک اور واقعہ مجھے یادہے کہ وفات سے چند ہفتے قبل انہوں نے ’’دہشت گردوں کو سزائے موت کی توثیق‘‘ کے عنوان سے ایک شذرہ لکھا۔ اگرچہ اخبارات کے اداریے میں اداریہ نویس کا نام نہیں لکھا ہوتا مگر مرزا صاحب کے اسلوب و اندازِ تحریر سے یہ پتہ لگانا چنداں مشکل نہ ہوتا تھا کہ کون سا اداریہ یا شذرہ انہوں نے لکھا ہے۔ مذکورہ شذرے میں انہوں نے ایک جملہ یہ بھی لکھا کہ: قرآن حکیم قصاص کو قومی زندگی کی بقا قرار دیتا ہے، لہٰذا دہشت گردوں کو قصاص کے طور پر لازمی قتل کیا جائے۔ اگلے دن ہم معمول کے مطابق آفس میں بیٹھے تھے، ایک فون آیا، مرزا صاحب ہیں، میں نے یہ سنا تو فون مرزا صاحب کو پکڑا دیا۔ مرزا صاحب نے فون سنا اور کچھ سخت باتیں بھی کیں، فون بند ہو گیا تو میں نے پوچھا کون تھا؟ کہنے لگے ’’تھا کوئی‘‘۔ پھر کچھ توقف کے بعد کہا کہ ایک شخص ادارتی نوٹ کے حوالے سے اعتراض کر رہا تھا کہ آپ تو اچھے خاصے ’’لبرل‘‘ آدمی ہیں، آپ نے یہ جملہ کیوں لکھا ہے؟ ارے بھئی میں لبرل ضرور ہوں مگر مسلمان بھی ہوں اور مسلمان کے لیے قرآن سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔
اس سے قبل ایک شذرے میں انہوں نے ’’مخالف اطراف کے ہاتھ پاؤں کاٹنے‘‘ کی قرآنی سزا کا بھی ذکر کیا تھا جس پر کچھ لوگ بہت سیخ پا ہوئے تھے مگر اس وقت بھی ان کا یہی جواب تھا کہ انسانی عقل کی اس قدر استعداد ہی نہیں کہ قرآن کے احکامات کی حکمت جان سکے، جس نے انسان کو، اس دنیا بلکہ پوری کائنات کو خلق کیا ہے وہ بہتر جانتا ہے کہ انسان کے لیے کیا بہتر ہے اور ویسے بھی جہاں حکم آ جائے وہاں کیسی تاویل اور کیسے سوالات؟
ان سے میری آخری ملاقات میں بھی یعنی اتوار 13نومبر 2016ء کو بھی، جس دن اُن کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا، ایک معروف کالم نگار کے کالم کے حوالے سے بات ہو رہی تھی کہ انہوں نے یہ، یہ لکھا ہے توانہوں نے اپنا ایک جملہ‘ جو وہ پہلے بھی کئی بار کہہ چکے تھے، دہرایا کہ ’’لوگوں کو سمجھ نہیں آتی کہ مسائل وہی رہتے ہیں اور ان کا حل بھی وہی ہوتا ہے۔ بس ذرا سمجھنا پڑتا ہے۔ خدائے کائنات، جس نے پوری دنیا خلق کی، کیا اسے علم نہیں تھا کہ لوگوں کو کیا کیا مسائل پیش آ سکتے ہیں؟ اسی لیے اس نے تمام مسائل کا حل قرآن کی صورت میں دے کر بھیجا ہے‘‘
چونکہ آپ مرزائیت سے تائب ہو کر مسلمان ہوئے تھے،اور قادیانیوں کے مرکز میں رہنے کا بھی آپ کو اتفاق ہوا تھا اسی باعث آپ قادیانی فتنے کی گہرائی اور گیرائی سے خوب واقف تھے۔ ایک بار مرحوم و مغفور جناب انور قدوائی نے مرزا صاحب کے سامنے مجھے کہا کہ آپ کو پتا ہے کہ مرزا صاحب پہلے قادیانی تھے؟ میں اگرچہ اس حوالے سے ایک دو اُڑتی اُڑتی باتیں سن چکا تھا مگر اس کے باوجود میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ اگلے روز مرزا صاحب نے اپنے قادیانیت سے اسلام تک کے سفرکی کہانی مجھے خود سنائی۔اس کے بعد میں نے ان کی کتاب ’’شہرِ سُدوم‘‘ کا بھی مطالعہ کیا جس کے چند واقعات مجھے مرزا صاحب وقتاً فوقتاً سنا چکے تھے۔ چونکہ مذہب کے حوالے سے ہماری گفتگو ہمیشہ اجتماعیت اور تشریحات تک محدود ہوتی تھی اس وجہ سے میں نے کبھی بھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی۔ البتہ انہوں نے ایک بار مجھے یہ بتایا تھا کہ’’میں نے ردِ قادیانیت میں فلاں فلاں کتابیں (انہوں نے چھ یا سات کتابوں کے نام لیے) لکھی ہیں، البتہ لٹریچر کافی لکھا اور ختم نبوت تحریک میں عملی حصہ بھی لیا‘‘۔
جب مشہور ناول نگار اشتیاق احمد کی وفات پر ان کے حوالے سے بات چیت ہو رہی تھی تو مرزا صاحب کہنے لگے وہ میرا جاننے والا تھا۔ میں نے کہا: میں نے بچپن میں اشتیاق احمد کے بہت ناول پڑھے ہیں، انہوں نے بھی قادیانیوں کے حوالے سے ایک، دو ناول لکھے ہیں۔مرزا صاحب نے فوری تصحیح کی ’’وادیٔ مرجان، ایک ہی ناول ہے اُس کا، جو قادیانیوں کے بارے میں ہے اور یہ بھی اس نے میرے کہنے پر ہی لکھا تھا‘‘ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ کیا واقعی ’’ربوہ‘‘ ایسی ہی جگہ ہے جیسی اس ناول میں بتائی گئی ہے؟ کیا وہ جگہ پاکستان سے باہر محسوس ہوتی ہے؟ جواباً آپ نے بتایا کہ وہاں ان کے فلاں، فلاں خلیفہ کی قبر پر یہ تختی لگی ہے کہ ہم یہاں پر امانتاً دفن ہیں، جب ہندوستان اور پاکستان دوبارہ ایک ہو جائیں گے (خاکم بدہن) تو ہمیں واپس قادیان جا کر دفنایا جائے۔ پھر کہا کہ: میں نے یہ قبریں اور تختیاں خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں، اب وہاں اسی لیے تو جانے نہیں دیتے۔ پاکستان کی جس قدر مخالفت یہ لوگ کرتے ہیں، شاید ہی کوئی کرتا ہو اور ویسے یہ عقائد کا نہیں محض معاش کا مذہب ہے۔ ان کا مسئلہ صرف پیسہ ہے۔ یورپ کی طرف سے ان لوگوں کی فنڈنگ ہوتی ہے جس وجہ سے یہ مذہب آج تک چل رہا ہے۔ آپ جرمنی، برطانیہ اور چند ملکوں میں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دو اور صرف اتنا کہہ دو کہ میں قادیانی ہوں، میری جان کو پاکستان میں خطرہ ہے پھر باقی کا تماشا خود دیکھ لو۔
آپ نے قادیانیت کے ساتھ ساتھ اپنی سابقہ زندگی، رشتے داروں، دوست احباب کو بھی خیر باد کہہ دیا تھا حد تو یہ ہے کہ قادیانیت چھوڑنے پر آپ کو گھر سے نکال دیا گیا اور بقول آپ کے صرف آپ ہی نہیں، آپ جیسے سینکڑوں ہزاروں افراد ایسے ہیں جو قادیانیت سے تائب ہوئے تو صفر پر آ گئے مگر اس کی وجہ سے کہیں پر انسانی حقوق کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچی، کوئی جماعت، کوئی تنظیم اس پر احتجاج کے لیے راضی نہیں۔ اسی وجہ سے آپ نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی نالاں نظر آتے تھے۔
قادیانیوں کے سارے خلفاء، ان کی آل اولاد، آباء و اجداد، کچا چھٹا، اگلا پچھلا سب آپ کو زبانی یاد تھا اور ختم نبوت کے آپ ایسے سچے سپاہی تھے کہ اگر کہیں پر ذرا سا شبہ بھی ہوتا تو آپ آستینیں چڑھا کر فوری جوابی اقدام کے لیے تیار ہو جاتے۔ ان کی وفات سے کچھ عرصہ قبل قدوائی صاحب نے ذکر کیاکہ فلاں’’نظریاتی شخص‘‘ کے انگریزی اخبار میں فلاں کالم نگار نے قادیانیوں کو ’’احمدی مسلمان‘‘ لکھا ہے تو آپ نے فوراً کہا کہ آئینِ پاکستان کے تحت نہ صرف یہ جرم ہے بلکہ ایسے شخص پر مقدمہ بھی درج ہو سکتا ہے، میں فوری طور پر اس کا کچھ بندوبست کرتا ہوں مگر قدرت نے آپ کو اس کی مہلت نہ دی۔ خدا آپ کو آپ کی نیت کا بہترین اجر دے، آپ کی قبر کو کشادہ کرے اور اسے جنت کے باغات میں سے ایک باغ بنائے، آمین!