مکتوب نمبر: ۶
ڈاکٹر محمد آصف
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
عزیز احمدی دوستو!
اس بات پر تبصرے کرکے خوش ہوتے رہنا اور اسے اپنی صداقت کی دلیل بنانا خود فریبی کہ جو علماء ہم پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں وہ خود آپس میں ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے آئے ہیں لہٰذا ان کے فتوؤں کا اعتبار اٹھ گیا ہے۔ اس دلیل کی مثال بالکل ایسی ہے۔ جیسے کوئی شخص یہ کہنے لگے کہ چونکہ بعض عطائیوں اور ڈاکٹروں نے کچھ لوگوں کا غلط علاج کیا ہے اس لیے اب کوئی ڈاکٹر مستند نہیں رہا اب پوری میڈیکل سائنس ہی ناکارہ ہوگئی ہے اور وہ طبی آراء بھی قابل اعتبار نہیں ہیں جن پر تمام دنیا کے ڈاکٹر متفق ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ فتوے اپنے اپنے مکاتب فکر کی مکمل نمائندگی نہیں کرتے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ جن مکاتب فکر سے وہ تعلق رکھتے ہیں وہ پورا مکتب فکر ان فتووں سے متفق ہو اس کے بجائے ہر مسلمان مکتب فکر میں محقق اور اعتدال پسند علماء نے ہمیشہ اس بے احتیاطی اور عجلت پسندی سے شدید اختلاف کیا ہے۔ جو اس قسم کے فتووں میں روا رکھی گئی ہے لہٰذا ان چند فتاویٰ کو پیش کرکے یہ تاثر دینا بالکل غلط بے بنیاد اور گمراہ کن ہے کہ یہ سارے مکتب فکر ایک دوسرے کو کافر قرار دیتے ہیں۔ اس کے بجائے حقیقت یہ ہے کہ ہر مکتب فکر میں چند لوگ دوسرے کی مخالفت میں اتنی شدت دکھا جاتے کے وہ کفر کی حد تک پہنچ جائے لیکن اسی مکتب فکر میں بڑی تعداد ایسے علماء کی ہے جنہوں نے فروعی اختلافات کو ہمیشہ اپنی حدود میں رکھا اور ان حدود سے نہ صرف یہ کہ تجاوز نہیں کیا بلکہ اس کی مذمت کی ہے اور عملاً یہی محتاط اور اعتدال پسند طبقہ ہی علماء کے اصل نمائندے ہیں۔ جس کی واضح مثال یہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں کا کوئی مشترک مسئلہ پیدا ہوا ہے ان تمام مکاتب فکر کے مل بیٹھنے میں بعض حضرات کے فتوے کبھی رکاوٹ نہیں بنتے۔
جب بھی اسلام اور مسلمانوں کا کوئی مشترکہ مذہبی مسئلہ سامنے آیا تو ان کے باہمی اختلافات اجتماعی موقف اختیار کرنے میں کبھی رکاوٹ ثابت نہیں ہوئے اس طرز عمل پر غور کرنے سے چند باتیں کھل کر سامنے آ جاتی ہیں۔ اول یہ کہ باہم ایک دوسرے کی تکفیر کے فتوے انفرادی حیثیت رکھتے ہیں کسی مکتب فکر کی نمائندہ حیثیت نہیں ورنہ یہ مکاتب فکر کبھی بحیثیت مسلمان جمع نہ ہوتے۔ دوسرے یہ کہ ہر مکتب فکر میں غالب عنصر وہی ہے جو فروعات کو فروعات ہی کے دائرے میں رکھتا ہے اور آپس کے اختلافات کو تکفیر کا ذریعہ نہیں بناتا۔
تیسرے یہ کہ اسلام کے بنیادی عقائد جو واقعتا ایمان اور کفر میں حد فاصل کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں یہ سب لوگ متفق ہیں۔لہٰذا اگر کچھ حضرات نے تکفیر کے سلسلہ میں غلو اور تشدد کی روش اختیار کی ہے تو اس سے یہ نتیجہ کیسے نکالا جاسکتا ہے کہ اب دنیا میں کوئی شخص کافر ہو ہی نہیں سکتا اور اگر یہ سب لوگ مل کر بھی کسی کو کافر کہیں تو وہ کافر نہیں ہوگا۔
کیا دنیا میں عطائی قسم کے لوگ علاج کرکے انسانوں پر مشق ستم نہیں کرتے؟ بلکہ کیا ماہر سے ماہر ڈاکٹر سے بھی غلطی نہیں ہوتی؟ لیکن کبھی کوئی انسان جو عقل سے بالکل ہی معذور نہ ہو یہ کہہ سکتا ہے کہ ان انفرادی غلطیوں کی سزا کے طور پر ڈاکٹروں کے طبقے کی کوئی بات قابل تسلیم نہیں ہونی چاہیے۔ کیا عدالتوں کے فیصلوں میں ججوں سے غلطیاں نہیں ہوتیں؟ یا ججوں کا کوئی فیصلہ مانا ہی نہ جائے؟ کیا مکانات، سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر میں انجینئر غلطی نہیں کرتے؟ لیکن کبھی کسی ذی ہوش نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ ان غلطیوں کی بنا پر تعمیر کا ٹھیکہ انجینئروں کی بجائے گورکنوں کو دے دیا جائے؟ پھر یہ کہ اگر چند جزوی نوعیت کے فتوؤں میں بے احتیاطیاں یا غلطیاں ہوئی ہیں تو اس کا مطلب یہ کیسے نکل آیا کہ اب اسلام اور کفر کے فیصلے قرآن و سنت کے بجائے مرزا قادیانی کی انفرادی آراء کی بنیاد پر کرنے چاہییں۔
یہ بات بھی واضح ہو جانی چاہیے کہ بعض مسائل میں آرا کا اختلاف نہ مضر ہے نہ اس کے مٹانے کی ضرورت ہے اور نہ مٹایا جاسکتا ہے۔ اختلاف رائے نہ وحدت اسلامی کے منافی ہے نہ کسی کے لیے مضر بلکہ اختلاف رائے ایک فطری اور طبعی امر ہے، جس سے نہ کبھی انسانوں کا گروہ خالی رہا نہ رہ سکتا ہے۔ کسی جماعت میں ہر کام اور ہر بات میں مکمل اتفاق رائے صرف دو صورتوں میں ہوسکتا ہے ایک یہ کہ ان میں کوئی سوجھ بوجھ والا انسان نہ ہو جو معاملہ پر غور کرکے کوئی رائے قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اس لیے ایسے مجمع میں ایک شخص کو ئی بات کہہ دے تو دوسرے سب اس پر اس لیے اتفاق کرسکتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی رائے اور بصیرت ہی نہیں۔ دوسرے اس صورت میں مکمل اتفاق رائے ہوسکتا ہے کہ مجمع کے لوگ ضمیر فروش اور خائن ہوں کہ ایک بات کو غلط اور مضر جانتے ہوئے محض دوسروں کی رعایت سے اختلاف کا اظہار نہ کریں اور جہاں عقل بھی ہو اور دیانت بھی یہ ممکن نہیں کہ ان میں اختلاف رائے نہ ہو اس سے معلوم ہوا اختلاف رائے عقل و دیانت سے پیدا ہوتا ہے اس لیے اس کو اپنی ذات کے اعتبار سے مذموم نہیں کہا جاسکتا۔
اسلام میں مشورہ کی تکریم اور تاکید فرمانے کا یہی منشا ہے کہ معاملہ کے متعلق مختلف پہلو اور مختلف آراء سامنے آ جائیں تو فیصلہ بصیرت کے ساتھ کیا جاسکے۔انتظامی اور تجرباتی امور میں تو اختلاف رائے خود رسول اﷲﷺ کے عہد مبارک میں آپ کی مجلس میں بھی ہوتا رہا اور خلفاء راشدین اور عام صحابہ کرام کے عہد میں امور انتظامیہ کے علاوہ جب نئے نئے حوادث اور شرعی مسائل سامنے آئے جن کا قرآن وحدیث میں صراحتاً ذکر نہ تھا یا قرآن پاک کی ایک آیت کا دوسری آیت سے یا ایک حدیث کا دوسری حدیث سے بظاہر تعارض نظر آیا اور ان کو قرآن و سنت کی نصوص میں غور کرکے تعارض کو رفع کرنے اور شرعی مسائل کے استخراج میں اپنی رائے اور قیاس سے کام لینا پڑا توان میں اختلاف رائے ہوا جس کا ہونا عقل و دیانت کی بنا پر ناگزیر تھا۔
میرے محترم! خود جماعت احمدیہ میں بھی کتنے فرقے بن چکے ہیں۔ ایک قادیان والی پارٹی ہے دوسری لاہوری گروپ ہے ان دونوں گروپوں میں نہ صرف بنیادی و اعتقادی اختلافات ہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے بھی شائع کرتے رہے ہیں۔ دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر (جو سب کے سب مرزا غلام احمد صاحب کے بہترین ساتھی اور صحبت یافتہ تھے) جن سنگین الزامات کی بوچھاڑ کی وہ نہایت چشم کشا اور ہوش ربا ہیں۔ (اس سلسلہ میں مباحثہ راولپنڈی ضرور ملاحظہ فرمائیں) احمدیت اپنے تمام تنظیمی ڈسپلن اور مالی وسائل کے باوجود شروع ہی سے انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہی اور یوں اس میں بہت سے فرقے بنتے چلے گئے۔ یہ سب فرقے مرزا غلام احمد قادیانی کو اپنا امام اور پیشوا تسلیم کرتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے شدید اختلاف رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کو گمراہ قرار دیتے ہیں۔
تیسرا فرقہ: جماعت احمدیہ اصلاح پسند یہ لوگ عبدالغفار جنبہ کے پیروکار ہیں۔اس کا دعویٰ ہے کہ وہ زکی غلام، مسیح الزمان اور خلیفۃ اﷲ ہے۔ ان کی ویب سائٹ www.alislam.org ہے۔
چوتھا فرقہ۔ گرین احمدیت کہلاتا ہے اس کے بانی مرزا رفیع احمد تھے جو اپنے آپ کو ایوب احمدیت اور مجدد صدی کہتے ہیں۔ ان کی ویب سائٹ http://greenahmdi.yat.org ہے۔
پانچواں فرقہ ’’جماعت الصحیح الاسلام‘‘ کہلاتا ہے اس کے قائد منیر احمد عظیم ہیں وہ بھی مسیح اور خلیفۃ اﷲ ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ ان کی ویب سائٹ www.jamaat-ul-sahih-al-islam.com
چھٹا فرقہ۔ ’’جماعت احمدیہ المسلمین‘‘ کہلاتا ہے اس کے قائد ظفر اﷲ وومن صاحب ہیں یہ بھی خلیفۃ اﷲ ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں احمدیت کے سچے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسرے احمدیوں کو بھٹکا ہوا سمجھتے ہیں۔
ان کی ویب سائٹ www.jaam-international.org ہے۔ (یہ ویب سائٹ پاکستان میں پراکسی سے اوپن ہوگی)۔
ساتواں فرقہ۔ ’’جماعت احمدیہ حقیقی‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کے قائد ناصر احمد سلطانی ہیں ناصر احمد سلطانی بھی خلیفہ اﷲ اور مصلح ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں اور پگڑی بھی مرزا غلام احمد کی طرح باندھتے ہیں۔ (مرزا مسرور کے پیروکاروں میں سے بہت سے لوگوں نے ان کی بیعت کی ہے) ۔ان کی ویب سائٹ http://al-ahmadiyyat.com/official/ ہے۔
آٹھواں فرقہ: احمدیت کا یہ فرقہ ’’انوار الاسلام‘‘ کہلاتا ہے اور یہ نائیجریا میں ہے۔
میرے محترم! یہ سب بیان کرنے کا مقصد کوئی طعن و تشنیع نہیں صرف اتنی گزارش ہے کہ انتہائی غیر جانبداری، خالی ذہن اور ٹھنڈے دل کے ساتھ مرزا صاحب کی تعلیمات اور عقائد پر ازسرنو غور کریں ہر بات کا پہلے سے تراشا ہوا جواب ڈھونڈنے کے بجائے دیانتداری سے دونوں طرف کے دلائل دیکھیں۔
والسلام علیٰ من اتّبع الھدیٰ
منجانب: آپ کا ایک خیر خواہ