تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

خطبات بہاولپور کا علمی جائزہ…… اسلام اور موسیقی

 (قسط: ۲)

علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ

اسلام اور موسیقی:
پہلے اس عنوان پر جناب ڈاکٹر صاحب کے ارشادات ملاحظہ فرمائیے:
۱۔ ’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت بلال کو اس کام (اذان) کے لیے منتخب فرمایا کیونکہ ان کی آواز سریلی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُنھیں اذان کا طریقہ سکھایا اور یہ بھی بتایا کہ کس لفظ کو کھینچو، کس کو مختصر کرو، گویا موسیقی کی سریں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں سکھائیں۔‘‘ (خطبات ص: ۲۴۱، طبع چہارم)
۲۔ خطبہ ختم ہونے کے بعد سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو کسی نے مذکورہ بالا بیان کا حوالہ دے کر سوال کیا کہ موسیقی کی اسلام میں کس حد تک گنجائش ہے؟
ڈاکٹر صاحب نے جواب میں ارشاد فرمایا:
’’یہی نہیں، اور بہت سی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیقی کی اسلام میں ممانعت بالکل نہیں ہے۔ اگر ممانعت ہے تو اس بات کی کہ مثلاً نماز کے وقت موسیقی کا شغل جاری رکھا جائے، یا اس کا منشا ایسی تفریح ہو جو اخلاقی نقطۂ نظر سے بری سمجھی جاتی ہے۔‘‘ (خطبات، ص: ۲۵۲)
۳۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے مؤقف کو مثالوں سے واضح کرتے ہوئے آگے چل کر ارشاد فرمایا:
’’قرآن مجید کی تلاوت بھی موسیقی ہی کی ایک شاخ ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکام ہیں کہ قرآن مجید کو معمولی نثری عبارت کی طرح نہ پڑھو بلکہ خوش الحانی سے پڑھو اور یہ بھی فرمایا کہ اﷲ نے کسی غنا، کسی گانے کی اجازت اتنی نہیں دی ہے جتنی قرآن کو اچھی آواز سے تلاوت کرنے کی۔‘‘ (ص: ۵۳۔۲۵۴)
۴۔ خطبہ نمبر ۹ کے سلسلۂ سوال و جواب میں کسی نے ڈاکٹر صاحب سے سوال کیا کہ پچھلے کسی لیکچر میں موسیقی کے بارے میں فرمایا کہ اسلام میں اس کی اجازت ہے۔ کیا ساز کی بھی اجازت ہے؟ جب کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آلات مزامیر کو توڑنے کے لیے آیا ہوں۔ اس کا جواب ڈاکٹر صاحب نے یوں دیا:
’’آپ مجھے اس حدیث کا حوالہ دیں۔ اگر حدیث صحیح ہوئی تو میں قبول کرنے کے لیے پوری طرح آمادہ ہوں۔ باقی رہے ساز، تو میری موسیقی دانی کا یہ عالم ہے کہ مجھے علم نہیں کہ ساز کسے کہتے ہیں؟‘‘ (خطبات، ص: ۳۱۷)
۵۔ خطبہ نمبر ۱۲ کے سلسلہ میں سوال جواب کے دوران کسی صاحب نے پھر کہہ دیا کہ یہ بتایا گیا ہے کہ مسند احمد بن حنبل میں ایک حدیث ہے جس میں کم و بیش یہ الفاظ ہیں کہ خدا نے مجھ کو معازف اور مزامیر کو نابود کے کے لیے بھیجا ہے۔ اس کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
’’جس طرح ہم حدیث پر عمل کرنے کے پابند ہیں اسی طرح اس بارے میں اوّلاً یہ بھی معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا یہ روایت صحیح بھی ہے یا نہیں۔ اس تحقیق کے ختم ہونے تک، جس کا مجھے یہاں وقت نہیں مل سکتا کوئی رائے اس مسئلے کے متعلق قائم نہیں کی جا سکتی۔ بہرحال حدیث کے تمام الفاظ پر دوبارہ غور کیجیے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہے کہ بتوں کی پوجا اور پرستش کے لیے گانا بجانا ہوتا ہے، میں اس کو محو کرنے کے لیے آیا ہوں۔‘‘
محترم قارئین! موسیقی کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کے ارشادات آپ نے ملاحظہ فرما لیے۔ یہ اقتباسات ان کے خطبات کے مختلف مقامات سے لیے گئے ہیں اور بصد افسوس کہنا پڑ رہا ہے کہ نہ صرف یہ کہ زیر نظر موضوع پر ڈاکٹر صاحب کی معلومات ناقص ہیں، بلکہ گستاخی معاف! ان کے بیان میں علمی دیانت بھی مجروح ہوتی نظر آتی ہے۔ ہم ان اقتباسات کا نمبر وار تجزیہ کرتے ہیں اور اگر کہیں ہمارے لب و لہجہ میں تلخی و ترشی محسوس ہو تو ہم پیشگی معذرت خواہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی بزرگی کا احترام بجا مگر اﷲ کا دین کہیں زیادہ احترام کا مستحق ہے۔ آخر علم کی حمایت اور دین کا تحفظ، اخلاف کی ذمہ داری ہے۔
۱۔ اسلام میں اذان کا سلسلہ کیونکر جاری ہوا؟ اس کی تفصیل کتب حدیث میں سے ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور دارمی میں آئی ہے۔ باقاعدہ اذان شروع ہونے سے پہلے ایک روز صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں مشورہ ہوا کہ لوگوں کو نماز کے لیے کیونکر جمع کیا جائے؟ مختلف تجویزیں سامنے آئیں، مگر کوئی فیصلہ نہ ہوا۔ اس وقت تک حضرت بلال رضی اﷲ عنہ بآواز بلند کہہ دیا کرتے تھے: ’’الصلوٰۃ جامعۃ‘‘ اور لوگ نماز کے لیے جمع ہو جاتے تھے۔ اس دوران ایک انصاری صحابی حضرت عبداﷲ بن زیدرضی اﷲ عنہ نے رات کو ایک خواب دیکھا، جس کا لُبِّ لباب یہ ہے کہ انھیں اذان کے معروف کلمات تلقین کیے گئے۔ صبح کی نماز سے پہلے انھوں نے کاشانۂ نبوت پر حاضر ہو کر اپنا خواب عرض کیا۔ ادھر وحی الٰہی سے اس رؤیائے صادقہ کی تصدیق ہو گئی تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے فرمایا:
’’انہا لرؤیا حق ان شاء اللّٰہ ، فقم مع بلال فالق علیہ ما رأیت ، فلیؤذن بہ فانہ اندیٰ صوتاً منک۔‘‘
ترجمہ: ’’یہ خواب ان شاء اﷲ سچا ہے۔ تم بلال کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ، تم نے جو کچھ دیکھا ہے، اسے بتاتے جاؤ، وہ اسے کہتا جائے کیونکہ وہ تم سے بلند آواز ہے۔‘‘
چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ میں بلال(رضی اﷲ عنہ) کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ میں یہ کلمات انھیں بتاتا رہا اور وہ پکار کر انھیں دہراتے رہے۔ اتنے میں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ بھی چادر گھسیٹتے ہوئے پہنچ گئے اور انھوں نے بھی اس طرح کا خواب بیان کیا تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: فللّٰہ الحمد۔
یہ تفصیل مندرجہ بالا چاروں کتابوں میں موجود ہے اور ان میں سے کسی ایک میں یا ان کے علاوہ کسی اور کتاب میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کا انتخاب سریلی آواز کی وجہ سے کیا گیا تھا، بلکہ اس بات کی تصریح ہے کہ وہ بلند آواز ہیں، اس لیے ان کا تقرر بطور مؤذن ہوا۔ دوسرا یہ کہیں مذکور نہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کو اذان کے سُر بتائے تھے۔ بلکہ روایت میں تصریح ہے:’’فجعلت القیہ علیہ‘‘ یعنی حضرت عبداﷲ خود ہی کہلواتے رہے۔
اب پڑھیے اوپر دیے گئے اقتباس نمبر ایک کی عبارت اور اندازہ لگائیے کہ ڈاکٹر صاحب کا بیان حقیقت سے کتنا دور ہے۔
؂ناطقہ سربگریباں ہے کہ اسے کیا کہیے!
۲۔ اب آپ اقتباس نمبر دو کی طرف آئیے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس فرمان نے ہمیں ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ:
’’موسیقی کی اسلام میں ممانعت بالکل نہیں ہے‘‘
حیرت اس بات پر ہے کہ ایک فاضل آدمی اتنی بڑی جسارت کیونکر کر سکتا ہے کہ وہ ناجائز کو جائز اور حرام کو حلال قرار دیتا ہے۔ اس مسئلہ پر نئی اور پرانی بہت سی کتابیں لکھی ہوئی ملتی ہیں۔ ہم قارئین کو مشورہ دیں گے کہ اگر وہ ضرورت سمجھتے ہوں تو درج ذیل دو کتابچوں کا مطالعہ فرمائیں:
۱۔ اسلام اور موسیقی۔ از حضرت مفتی محمد شفیعؒ (صاحب تفسیر معارف القرآن)
۲۔ مسائل سماع۔ از فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خاں (بانی بریلوی مکتب فکر)
ہمارے لیے اس وقت تفصیل میں جانا ممکن نہیں۔ مختصراً چند معروضات سنیے۔
موسیقی کے لفظی معنی ہیں، مخصوص قواعد کے تحت گانا بجانا۔ اسی کے لیے عربی زبان میں غناء کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ بنی نوع انسان میں جہاں دوسری برائیاں رائج چلی آ رہی ہیں، وہاں موسیقی بھی ایک ایسی برائی ہے جو ایک باقاعدہ فن کی حیثیت سے جڑ پکڑ چکی ہے۔ اس فن کے ماہرین نے چھوٹی بڑی بہت سی کتابیں چھوڑیں۔ جہاں تک شریعت مقدسہ کا تعلق ہے، وہ انسان کو نیکی کی راہ پر چلاتی ہے اور بدی سے دور رکھتی ہے۔ اب توجہ سے سنیے کہ موسیقی کے بارے میں وہ کیا ہدایات دیتی ہے۔
(ا) یہ عالم ہست و بود، متضاد اشیاء سے مرکب ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے: رات اور دن، گرمی اور سردی، نور اور ظلمت، نیکی اور بدی…… وغیرہ وغیرہ۔ اب اگر کوئی آدمی پوچھے کہ قرآن اور قرآنی تعلیمات کا متضاد کیا ہے تو اس کا جواب ہماری زبان سے نہیں، خود قرآن سے سنیے۔ کھولیے پارہ نمبر ۲۱، سورۂ لقمان۔ بسم اﷲ سے پڑھنا شروع کیجیے۔ آغاز میں فرمایا گیا ہے:
تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْحَکِیْمِ ۔ ہُدًی وَّ رَحْمَۃً لِّلْمُحْسِنِیْنَ۔(سورۂ لقمان: ۲،۳)
جس سے معلوم ہوا:
۱۔ قرآن کریم، علم و دانش کا گنجینہ ہے۔
۲۔ یہ ہدایت کا نصاب کامل ہے، جس کے ہوتے ہوئے نہ تو عقل کی بھول بھلیوں میں جانے کی ضرورت ہے، نہ دائیں بائیں جھانکنے کی ضرورت۔
۳۔ یہ سراپا رحمت ہے۔ اس کے بعد اور کیا چاہیے؟ پس سب کچھ ہی تو مل گیا۔
۴۔ یہ نعمت کن لوگوں کا نصیب ہے؟ ان کا جن کے دل نیک جذبات سے بھرپور ہیں، جن کے خیالات پاک، اعمال پاک، گویا نیکوکاری ان کی فطرت اور جبلت بن چکی ہے۔
۵۔ آگے ان کے چند اوصاف کا ذکر فرمایا کہ وہ اﷲ سے لو لگانے والے اور اپنی ہاتھ کی کمائی کو راہ مولیٰ میں خرچ کرنے والے ہیں۔ ان کی نگاہ دنیا کے سود و زیاں پر نہیں ہوتی۔ آخرت ان کا مطمحِ نظر ہوتی ہے۔
۶۔ وہ دنیا میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، تو راہِ حق پر گامزن ہوتے ہیں اور آخرت میں فوز و فلاح ان کا مقدر ہو گا۔
اس کے بالمقابل ہے’’لہو الحدیث‘‘ :
’’لہو الحدیث‘‘سے کیا مراد ہے؟ جلیل القدر صحابی حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے تین مرتبہ قسم کھا کر فرمایا: اس سے مراد ہے راگ باجا۔ یہی تفسری اور کئی اَجلّہ صحابہ مثلاً حضرت عبداﷲ ابن عباس، حضرت ابو ہریرہ، حضرت جابر رضی اﷲ عنہم اور کئی ایک تابعین سے منقول ہے۔ دیکھیے تفسیر ابن کثیر، مدارک اور بغوی وغیرہ۔ جب راگ باجا، قرآن پاک کے مقابل ٹھہرا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ سراسر گمراہی، اﷲ کی رحمت سے دوری کا سبب اور بدکاروں کا حصہ ہے۔
(ب) شیطانی آواز: قرآن کریم کی سورۂ اسراء، آیت: ۶۲ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جب شیطان، اپنی سرکشی کی وجہ سے بارگاہِ خداوندی سے مردود ہوا تو اس نے پھر اﷲ تعالیٰ سے کہا کہ میں اولاد آدم میں سے تھوڑے سے لوگوں کے سوا سب کو اپنے دام میں کر لوں گا۔ ادھر سے ارشاد ہوا: جا مردود! جو تیرے پیروکار ہوں گے، میں تیرے سمیت انھیں جہنم میں ڈالوں گا اور ان میں سے جس جس پر تیرا بس چلے، تو اپنی آواز کے ذریعے اس کو ورغلا لے اور اپنی سوار اور پیادہ فوج کو ان پر چڑھا لا، ان کے اموال و اولاد میں حصہ دار بن جا اور انھیں جھوٹے وعدوں کے ذریعے بہلا لے۔
اب سوال یہ ہے کہ: ’’وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْہُمْ بِصَوْتِکَ‘‘ (بنی اسرائیل، آیت: ۶۴) میں ’’بصوتک‘‘ یعنی ’’شیطانی آواز‘‘ سے کیا مراد ہے؟ تو پاک و ہند کے علاوہ دیگر بلاد اسلامیہ میں بھی پڑھائی جانے والی تفسیر جلالین میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
’’بدعائک بالغناء والمزامیر و کل داع الی المعصیۃ‘‘
ترجمہ:راگ اور باجوں کے ذریعہ تیرا ان کو بلانا اور ہر وہ چیز جو (اﷲ کی) نافرمانی کی طرف بلانے والی ہو۔
تفسیر بغوی اور ابن کثیر وغیرہ میں امام مجاہد تابعیؒ کا تفسیری قول نقل کیا گیا ہے:
’’بالغناء والمزامیر‘‘
غور طلب بات یہ ہے کہ اﷲ کا قرآن راگ باجے کو ’’لہو الحدیث‘‘ اور شیطان کی آواز قرار دیتا ہے، مگر قرآن پر ایمان رکھنے والے کچھ لوگ ان چیزوں کو جائز قرار دیتے ہیں۔
شریعت مقدسہ کا دوسرا سرچشمہ ہے حدیث شریف۔ اب ہم اس کی طرف آتے ہیں کہ حدیث شریف کی رُو سے موسیقی کا کیا حکم ہے؟ توجہ فرمایے۔
پہلی حدیث:
’’لیشربن ناس من امتی الخمر یسمونہا بغیر اسمھا یعزف علٰی رؤسھم بالمعازف و القینات یخسف اللّٰہ بہم الارض و یجعل منہم القردۃ والخنازیر۔‘‘
(جامع صغیر، ج:۲، ص: ۱۳۹ بحوالہ ابن ماجہ، صحیح ابن حبّان، طبرانی و بیہقی)
ترجمہ: ’’میری امت کے کچھ لوگ شراب کا نام بدل کر اسے پییں گے۔ ان کے سروں پر باجے بجائیں گے۔ گانے والی عورتیں موجود رہیں گی۔ اﷲ تعالیٰ ان میں سے کچھ کو زمین میں دھنسا دے گا اور کچھ کی شکلیں بگاڑ کر انھیں بندر اور سور بنا دے گا۔‘‘
الفاظ کے کچھ تفاوت کے ساتھ یہی روایت بخاری شریف میں بھی آئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
’’لیکونن من امتی اقوام یستحلون الحر و الحریر والخمر والمعازف‘‘(بخاری، ص: ۸۳۷)
ترجمہ: ’’ضروری میری امت میں کچھ لوگ ہوں جو بدکاری، ریشم، شراب اور باجوں کو حلال سمجھیں گے۔‘‘
آگے پھر اس روایت میں بھی خسف اور مسخ کا ذکر آیا ہے۔
قارئین غور فرمائیں کہ ’’حلال سمجھیں گے‘‘ کا لفظ کیا بتا رہا ہے اور پھر اس مختصر سی فہرست پر بھی غور کریں، زناکاری، مردوں کا ریشم پہننا، شراب پینا کس درجہ کے قبیح جرائم ہیں۔ ان کے ساتھ ’’باجے بجانے‘‘ کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے۔
یہاں یہ بھی ذکر کر دینا مناسب ہو گا کہ باجے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو منہ سے بجائے جاتے ہیں، ان کے لیے مزامیر کا لفظ آتا ہے، یہ جمع ہے مزمار کی۔ مثال کے طور پر بانسری، شہنائی، الغوزہ، مرلی وغیرہ۔ دوسرے وہ جو ہاتھ سے بجائے جاتے ہیں ان کے لیے عربی زبان میں معازف کا لفظ آتا ہے مثلاً سارنگی، بربط، طبلہ، نقارہ وغیرہ۔
شرعی حکم دونوں کا یکساں ہے۔ احادیث میں کہیں معازف کا لفظ آیا ہے، کہیں مزامیر کا اور کہیں دونوں کا۔
دوسری حدیث:
حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما راوی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ان اللّہ حرم علَیَّ الخمر والمیسر والکوبۃ‘‘
(سنن ابو داؤد، کتاب الاشربہ، باب: حدیث وفد عبدالقیس)
ترجمہ: ’’اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر حرام فرما دیا ہے شراب، جوئے اور باجے (طبلے) کو۔‘‘
اس کے ہم مطلب روایت اسی ابو داؤد شریف میں ایک صفحہ پہلے نقل ہوئی ہے جس کا ترجمہ یوں ہے:
’’حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما راوی ہیں کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے شراب، جوئے، طبلے اور طنبور سے رکاوٹ فرمائی۔‘‘
تیسری حدیث:
رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ان اللّٰہ بعثنی رحمۃً للعالمین و ہدًی للعالمین و امرنی ربی عزَّ و جلَّ بمحق المعازف والمزامیر والاَوثان والصلب وامر الجاہلیۃ‘‘ (مسند احمد، مبوب، ج: ۱۷، ص: ۲۳۲)
ترجمہ: ’’اﷲ تعالیٰ نے مجھے جہان والوں کے لیے رحمت اور ہدایت کا سرچشمہ بنا کر بھیجا ہے اور میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمام باجوں، بتوں، صلیبوں اور زمانۂ کفر کی رسوم کو مٹا دوں۔‘‘
یہ حدیث مشکوٰۃ میں بھی موجود ہے۔
اس کے ساتھ کی ایک روایت فردوس دیلمی کے حوالہ سے کنوز الحقائق میں موجود ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
’’امرت بہدم الطبل والمزمار‘‘ (کنوز الحقائق برحاشیہ جامع صغیر، ص: ۵۳)
ترجمہ: ’’مجھے طبلہ اور بانسری یعنی ہاتھ اور منہ سے بجانے والے تمام باجوں کے نیست و نابود کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘
متعدد روایات اور بھی اس سے ملتے جلتے مضمون کی مختصر کنز العمال میں موجود ہیں۔
چوتھی حدیث:
حضرت انس رضی اﷲ عنہ راوی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’صوتان ملعونان فی الدنیا والاٰخرۃ مزمار عند نعمۃ و رنۃ عند مصیبۃ‘‘
(جامع صغیر از علامہ سیوطیؒ مع رمز صحیح)
ترجمہ: ’’دو آوازیں دنیا و آخرت میں لعنتی ہیں۔ خوشی کے وقت باجے کی آواز اور مصیبت کے وقت ماتم کی آواز۔‘‘
پانچویں حدیث:
کتب حدیث میں متعدد صحابۂ کرام رضی اﷲ عنہم سے اس مضمون کی روایت منقول ہے کہ جب اُمت میں مختلف برائیاں عام ہو جائیں گی، تو اس وقت امت میں خسف (یعنی زمین میں دھنس جانا)، مسخ (یعنی شکل بگڑ جانا)، قذف (یعنی سنگ باری ہونا) کے عذاب آئیں گے۔ ہم یہاں پر صرف ایک روایت، جو نسبتاً مختصر ہے، نقل کر دیتے ہیں۔
حضرت عمران بن حصین رضی اﷲ عنہ راوی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری اُمت میں یہ تینوں عذاب آئیں گے۔ مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے عرض کیا: اﷲ کے رسول(صلی اﷲ علیہ وسلم) کب ایسا ہو گا؟ فرمایا:
’’اذا ظہرت القیان والمعازف و شربت الخمور‘‘ (ترمذی، ج:۲، ص: ۴۴)
ترجمہ: ’’جب گانے والی عورتیں اور باجے پھیل جائیں گی اور شرابیں پی جائیں گی۔‘‘
حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ کی روایتیں اسی ترمذی میں موجود ہیں۔ حضرت سہل بن سعد رضی اﷲ عنہ کی روایت ابن ماجہ میں آئی ہے۔ پیچھے حضرت ابو مالک اشعری رضی اﷲ عنہ کی حدیث نمبر ایک بھی آ چکی ہے۔ حضرت ابو سعد خُدری رضی اﷲ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے بھی اس طرح کی روایات منقول ہیں۔
ان تمام روایات سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ راگ باجے قطعی طور پر حرام ہیں۔
اقوال بزرگاں:
مسئلہ زیر بحث کے بارے میں اگر ائمہ دین اور علماءِ اُمّت کے اقوال جمع کیے جائیں تو بلاشبہ ایک ضخیم دفتر تیار ہو جائے گا جس کی یہاں گنجائش نہیں ہے، اس لیے ہم کتبِ فقہ کی عبارات کو نظر انداز کرتے ہوئے یہاں حضرت صوفیاء کرام کے دو چار اقوال نقل کیے دیتے ہیں۔
بعض لوگ دو غلط فہمیوں کا شکار ہیں، ایک تو یہ خیال کیا جاتا ہے کہ موسیقی کے بارے میں فقہاء تو تشدد برتتے ہیں، مگر صوفیاء کرام اس بارے میں بہت نرم واقع ہوئے ہیں۔ دوسرا یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دیوبندی مکتب فکر کے علماء تو سختی دکھاتے ہیں، مگر بریلوی مکتب فکر کے بزرگان نرمی دکھاتے ہیں۔ یہ دونوں خیال قطعی غلط اور خلافِ واقعہ ہیں۔ توقع ہے کہ آئندہ سطور میں ان غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جائے گا۔
سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی کے خلیفۂ اجل حضرت ابو علی رودباریؒ، جن کے بارے میں تصوف کے امام شیخ ابو القاسم قشیریؒ فرماتے ہیں: ’’ہو اعلمھم بالطریقۃ‘‘ کہ وہ طریقت کے سب سے بڑے عالم تھے، ان سے پوچھا گیا کہ ایک شخص مزامیر سنتا ہے اور کہتا ہے یہ میرے لیے حلال ہیں اس لیے کہ میں ایسے درجے تک پہنچ گیا ہوں کہ احوال کے اختلاف کا مجھ پر اثر نہیں ہوتا۔ فرمایا:’’نعم قد وصل و لکن الی سقر‘‘ ہاں پہنچا تو ضرور مگر جہنم تک (العیاذ باﷲ)۔(رسالہ قشیریہ، ص: ۳۴)
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے بھی یہ حوالہ اپنے رسال مقال العرفاء، ص: ۳۰ میں نقل کیا ہے۔ فاضل بریلوی، ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’خالی قوالی جائز ہے۔ اور مزامیر حرام…… حضرت سلطان المشائخ، محبوب الٰہی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ، فوائد الفواد شریف میں فرماتے ہیں: ’’مزامیر حرام است‘‘ حضرت مخدوم شرف الملّت والدّین یحییٰ منیری قدس سرہٗ نے مزامیر کو زنا کے ساتھ شمار کیا ہے۔‘‘ (رسالہ احکام شریعت، ص: ۱۶۱)
سِیَرْ الاولیاء، جو حضرت شیخ نظام الدین اولیاء دہلویؒ کے خلیفہ مولانا محمد بن مبارک علویؒ کی تالیف (بزبان فارسی) ہے، اس میں ایک عجیب حکایت لکھی ہے جس کا ترجمہ درج ذیل ہے:
’’ایک صاحب نے حضرت سلطان المشائخ ؒکی خدمت میں عرض کیا کہ بعض آستانہ دار درویشوں نے ان دنوں ایک ایسے مجمع میں جس میں چنگ، رباب اور مزامیر تھے، رقص کیا۔ فرمایا: انھوں نے ٹھیک نہیں کیا۔ جو چیز نامشروع ہے، وہ ناپسندیدہ ہے۔ اسی کتاب میں یہ بھی ہے کہ حضرت سلطان المشائخ نے فرمایا کہ میں نے رکاوٹ کی ہے کہ مزامیر اور دوسرے محرمات (ناجائز آلات) درمیان میں نہیں ہونے چاہئیں۔‘‘ (مسائل سماع، ص: ۶۔۷)
فاضل بریلوی آگے چل کر سیر الاولیاء ہی کے حوالہ سے حکایت بالا کا تتمہ یوں نقل کرتے ہیں:
ترجمہ: ’’اس کے بعد ایک صاحب نے ان کا یہ عذر گزارش کیا کہ جب وہ طائفہ صوفیہ اس جگہ سے باہر آیا، لوگوں نے ان سے کہا کہ تم نے یہ کیا کیا؟ ایسے مجمع میں جہاں مزامیر تھے، تم نے سماع کیسے سنا؟ اور کیوں کر رقص کیا؟ انھوں نے جواب دیا کہ سماع میں ایسے مستغرق تھے کہ ہمیں خبر ہی نہیں تھی کہ یہاں مزامیر ہیں یا نہیں۔ حضور سلطان المشائخ نے ارشاد فرمایا: یہ جواب بھی کچھ نہیں۔ یہ عذرِ باطل تو تمام معصیتوں پر ہو سکتا ہے۔‘‘
فاضل بریلوی نے یہ جواب نقل کر کے اس کی تشریح یوں فرمائی ہے:
’’یعنی آدمی شراب پیئے اور کہہ دے، مجھے خبر ہی نہ تھی کہ یہ شراب ہے یا شربت۔ ماں کے ساتھ زنا کرے اور کہہ دے میں تو ایسا ڈوبا ہوا تھا کہ یہ معلوم ہی نہ کر سکا کہ یہ ماں ہے یا بیوی۔ لاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔‘‘ (مسائل سماع، ص: ۲۷، ۲۸)
آخر میں فاضل بریلوی کے اسی رسالہ ’’ مسائل سماع‘‘ سے ایک اقتباس اور پڑھ لیجیے:
’’فقیر غفر لہ المولیٰ القدیر نے اپنے فتاویٰ میں ثابت کیا ہے کہ ان پیروان ہوائے نفس کا حضرات اکابر چشت قدست اسرارھم کی طرف سماع مزامیر کی نسبت کرنا محض دروغ بے فروغ ہے۔ ان کے اعاظم اجلّہ تصریح فرماتے ہیں کہ یہ ہمارے مشائخ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم پر افترا ہے۔ بعض جہال بدمست، یا نیم ملّا ہوس پرست، یا جھوٹے صوفی بدست، جو احادیث صحیحہ مرفوعہ محکمہ کے مقابل بعض ضعیف قصے یا محتمل واقعے یا متشابہ کلمے پیش کرتے ہیں، انھیں اتنی عقل نہیں…… یا قصداً بے عقل بنتے ہیں…… کہ صحیح کے مقابل ضعیف، متعیّن کے آگے محتمل، محکم کے سامنے متشابہ واجب الترک ہے۔ پھر کہاں قول، کہاں حکایت فعل، کجا محرم، کجا مُبیح؟ ہر طرح یہی واجب العمل، اسی کو ترجیح…… مگر ہوس پرستی کا علاج کس کے پاس ہے؟ کاش! گناہ کرتے اور گناہ جانتے۔ یہ ڈھٹائی اوربھی سخت ہے کہ ہوس بھی پالیں اور الزام بھی ٹالیں۔ اپنے لیے حرام کو حلال بنا لیں۔‘‘ (رسالہ مذکورہ، ص: ۷۔۸)
اقتباس نمبر ۳:
ڈاکٹر صاحب نے بڑا غضب ڈھایا ہے یہ فرما کر کہ قرآن مجید کی تلاوت موسیقی ہی کی ایک شاخ ہے۔ سبحٰنک ہذا بہتان عظیم۔ہم اس سلسلہ میں ایک حدیث شریف اور پھر اس کی تشریح ایک ایسے محدث کے الفاظ میں نقل کریں گے جو فقط محدث ہی نہیں تھے بلکہ بلند پایہ صوفی بھی تھے۔
رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’اقرء وا القرآن بلحون العرب و اصواتھا۔ و ایاکم و لحون اہل العشق و لحون اہل الکتابین۔ و سیجیء بعدی قوم یرجعون بالقرآن ترجیع الغناء و النوح ، لا یجاوز حناجرھم مفتونۃ قلوبھم و قلوب الذین یعجبھم شانھم‘‘
(رواہ البیہقی ورزین ،مشکوٰۃ المصابیح، ص: ۱۹۱)
ترجمہ: ’’تم قرآن کو عربوں کے لہجوں اور آوازں میں پڑھا کرو اور عشق مزاج لوگوں اور تورات، انجیل والوں کے لب و لہجہ سے بچ کر رہو۔ میرے بعد وہ لوگ آئیں گے جو راگ اور بین کے انداز میں زبان کو پھیر پھیر کر قرآن کو پڑھیں گے۔ قرآن ان کے گلوں سے آگے نہیں جائے گا۔ ان کے دل بھی فتنے میں پڑے ہوئے ہوں گے اور ان لوگوں کے دل بھی جنھیں ان کی یہ ادا پسند آتی ہو گی۔‘‘
اب اس کی مختصر تشریح حضرت شیخ عبدالحق محدّث دہلویؒ کی زبانی سنیے۔ یہ وہ محدّث کبیر ہیں جن کے فیضان سے گیارہویں صدی ہجری کے آغاز میں برصغیر کی تاریک فضا میں علمِ حدیث کا نور پھیلا۔ وہ فرماتے ہیں:
’’مراد بلحون عرب تحسین صوت و تطریب اوست بے تکلف در رعایت قوانین موسیقیہ باعانت طبیعت۔ و مراد بلحون اہل عشق، آنچہ مے کنند مردم در مغازلہ نساء و محادثۂ ایشاں در اشعار از رعایت قواعد موسیقی و تکلف دراں۔‘‘ (اشعہ اللّمعات، شرح فارسی مشکوٰہ، ج: ۲، ص: ۱۵۵)
ترجمہ: ’’عربوں کے لہجوں سے مراد یہ ہے کہ قوانین موسیقی کا لحاظ کیے بغیر محض اپنی طبیعت کی امداد سے آواز کو بنا سنوار کر پڑھا جائے۔ اور اہلِ عشق کے لہجوں سے مراد وہ انداز ہے جو لوگ غزل خوانی کرتے ہوئے اور عورتوں سے بات چیت کرتے ہوئے قواعد موسیقی کا لحاظ کرتے ہوئے تکلف کے ساتھ اختیار کرتے ہیں۔‘‘
حاصل اس حدیث اور اس کی تشریح کا یہ ہے کہ سادہ، فطری خوش آوازی کے ساتھ قرآن پاک کا پڑھنا اور قواعد موسیقی کے تحت تلاوت کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ پہلی کا حکم دیا گیا ہے اور متعدد روایات میں اس کا حکم آیا ہے۔ دوسری ممنوع ہے، اس سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے۔ اب جو شخص اس فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے کھینچ تان کر تلاوتِ قرآن مجید کو موسیقی کی شاخ بتاتا ہے، نہیں کہا جا سکتا کہ وہ حق سے اتنا دور کیوں چلا گیا؟
اقتباس نمبر ۴:
ڈاکٹر صاحب کا یہ ارشاد فرمانا کہ ’’مجھے علم نہیں کہ ساز کسے کہتے ہیں؟‘‘ تعجب خیزہی نہیں مضحکہ خیز بھی ہے۔ اب اگر یہ حقیقت ہے تو انھیں اس مسئلہ میں رائے قائم کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا اور اگر یہ غلط ہے تو انھیں گلو خلاصی کے لیے یہ انداز اختیار کرنا زیب نہیں دیتا تھا۔ بہرصورت ہم مزید اس عنوان پر کچھ نہیں کہنا چاہتے۔
واﷲ تعالی اعلم بحقیقۃ الحال
اقتباس نمبر۵:
ڈاکٹر صاحب سے ایک حدیث کا حوالہ دے کر سوال کیا گیا تو اوّلاً انھوں نے حدیث کی صحت کو مشکوک بنانے کی کوشش کی۔ ثانیاً انھوں نے تحقیق کا موقع نہ مل سکنے کا عذر پیش کیا۔ ثالثاً انھوں نے ایک من گھڑت تاویل سے کام چلانے کی سعی فرمائی۔ ہمیں تعجب ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے بالکل وہی روش اختیار کی جو ایک پہلوان اکھاڑہ جیتنے کے لیے اختیار کرتا ہے کہ کسی نہ کسی پینترے سے میدان سر کرنا ہے۔ اوپر اقتباس نمبرمیں جو خط کشیدہ جملہ ہے، اس کو دوبارہ پڑھ لیجیے۔ اس سوال کے جواب میں جس حدیث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یہ وہ حدیث ہے جو ہم نے حرمتِ موسیقی کے دلائل دیتے ہوئے ’’تیسری حدیث‘‘ کے عنوان سے نقل کی ہے۔ اس میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے میرے رب نے چار چیزوں کے مٹانے کا حکم دیا ہے: (۱) موسیقی کے آلات یعنی باجے (۲) بت (۳) صلیب (۴) رسوم جاہلیت۔
یہ فرمان بالکل اسی طرح ہے جس طرح کہ یہ ارشادِ خداوندی ہے:
’’اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ والْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ‘‘ (سورۂ المائدہ: ۹۰)
ترجمہ: ’’بے شک شراب، جوا، بت اور فال نکالنے کے تیر، گندگی اور شیطانی کام ہیں تو ان سے بچ کر رہو۔‘‘
اب کوئی جاہل ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ شراب وہ حرام ہے جو بت پرستی کے وقت پی جائے، جوا وہ حرام ہے جو بتوں کی پرستش کے وقت کھیلا جائے۔ یہ چاروں کام بیک وقت کیے جائیں تو حرام اور ناجائز ہیں ورنہ تو نہیں۔ اگر کوئی شخص بدرستی ہوش و حواس یہ بات منہ سے نہیں نکال سکتا تو دنیا کو کون سی منطق اس بات کو درست قرار دے سکتی ہے کہ حدیث بالا میں ذکر فرمودہ چاروں کام اکٹھے کیے جائیں تو ممنوع اور حرام ہیں، ورنہ تو نہیں؟

خطبات بہاولپور کا علمی جائزہ…… اسلام اور موسیقی پر خیالات

  1. Amir Sohail says:

    ماشآءاللہ.
    بہت, بہت خوب.
    دل خوش ہو گیا پڑھ کر.

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.