مولانا مفتی عبدالرؤف سکھروی
جب کسی شخص کا انتقال ہو جائے تو شریعتِ مطہرہ کا حکم یہ ہے کہ انتقال کے فوراً بعد اس کے مال میں سے چار حقوق ادا کیے جائیں۔
۱۔ مرحوم کے کفن و دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں، اگر کوئی دوسرا شخص اپنی طرف سے کفن و دفن کا انتظام کر دے تو ترکہ سے یہ رقم نہیں لی جائے گی۔
۲۔ مرحوم کے ذمہ کسی کا کوئی قرض واجب الادا ہو تو اس کو ادا کیا جائے، چاہے قرضوں کی ادائیگی میں سارا مال خرچ کرنا پڑ جائے۔ اسی طرح اگر مرحوم نے اپنی بیوی کا مہر ادا نہ کیا ہو اور بیوی نے خوش دلی سے معاف بھی نہ کیا ہو تو یہ بھی قرضہ ہے، اسے ادا کرنا ضروری ہے اور بیوی کو یہ مہر میراث کے علاوہ ملے گا، مہر کا بیوی کے میراث کے حصہ سے کوئی تعلق نہیں، مہر الگ دیا جائے گا اور میراث کا حصہ الگ دیا جائے گا۔
۳۔ تیسرا حق ’’وصیت‘‘ ہے، یعنی قرضوں کی ادائیگی کے بعد دیکھا جائے گا کہ مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہے یا نہیں؟ اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال و جائیداد کے ایک تہائی (۱/۳) حصے کی حد تک ان وصیتوں کو پورا کیا جاے گا اور اگر وصیت تہائی مال سے زیادہ کی ہو تو ایک تہائی کی حد تک وصیت پورا کرنا ورثاء پر ضروری ہے، اس سے زیادہ وارثوں کے اختیار میں ہے، چاہے پورا کریں یا نہ کریں۔ البتہ مرحوم کی ناجائز وصیتوں کوپورا کرنا جائز نہیں۔
۴۔ وصیت پوری کرنے کے بعد جو کچھ مال باقی بچے اس کو شریعت کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق تمام ورثاء میں تقسیم کر دیا جائے۔
اس چوتھے حق کے بارے میں آج کل ہمارے معاشرے میں بڑی غفلت پائی جاتی ہے، بہت سے لوگ تو جانتے ہی نہیں کہ مرنے والے کے مال کو ورثاء میں تقسیم کرنا چاہیے اور جو لوگ جانتے ہیں کہ یہ ایک اہم فریضہ ہے اُن میں بھی بہت سے لوگ اس پر عمل نہیں کرتے۔ حالانکہ شریعتِ مطہرہ کے احکام میں سے وراثت تقسیم کرنے کا حکم ایک خاص اہمیت کا حامل ہے اور وراثت تقسیم نہ کرنا اور دوسروں کا حصہ اپنے قبضہ میں رکھ کر استعمال کرنا نہایت سنگین گناہ ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم نے اپنے اکثر احکامِ شرعیہ کے صرف اصول بیان کیے ہیں اور تفصیلات نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے مسلمانوں کو سمجھائی ہیں، لیکن بعض احکام کی اہمیت کے پیشِ نظر ان کی تمام تفصیلات کو بھی قرآن کریم نے خود پوری تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ وراثت کی تقسیم کا حکم بھی اُنہی احکام میں سے ہے کہ قرآنِ کریم نے اس کا پورا قانون تفصیل کے ساتھ وضاحت سے بیان کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں یوں تو حقوق العباد کی پوری ادائیگی پر زور دیا گیا ہے لیکن وارثوں کے حقوق ادا کرنے کی خصوصیت کے ساتھ تاکید آئی ہے۔ اسی لیے میراث کو شریعت کے مطابق انصاف سے تقسیم کرنا جنت کے اعمال میں سے ہے اور ایک حدیث شریف میں وراثت کی تقسیم میں ظلم اور ناانصافی سے بچنے پر جنت کی ضمانت دی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت ابو امامہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم چھے چیزوں کی ضمانت لے لو، میں تمھارے لیے جنت کا ضامن ہو جاؤں گا، ان چھے چیزوں میں سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بھی بیان فرمایا: وراثت کی تقسیم میں ناانصافی مت کرو، اپنی طرف سے انصاف کرو‘‘۔ (مجمع الزوائد)
اس کے برخلاف کسی وارث کا پورے ترکہ پر قبضہ جمائے رکھنا اور میراث کو تقسیم نہ کرنا یا تقسیم کے وقت بعض ورثاء کو محروم کرنا یا ان کو کم حصہ دینا ہرگز جائز نہیں، بلکہ سخت گناہ، غصب اور ظلم ہے جو حرام ہے۔
میراث تقسیم نہ کرنے اور دوسروں کا حق کھانے پر وعید:
چنانچہ قرآن کریم میں اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے ورثاء کے حصوں کو بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا:
وَ مَنْ یَعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہُ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَہُ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْہَا وَ لَہُ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ۔(النساء: ۱۴)
ترجمہ:اور جو شخص اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرے گا اُسے اﷲ تعالیٰ دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ایسا عذاب ہو گا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔ (آسان ترجمہ قرآن)
نیز احادیث طیبہ میں بھی دوسرے کا مال ناحق استعمال کرنے پر سخت وعیدیں آئی ہیں، ذیل میں چند احادیث طیبہ ملاحظہ ہوں:
حدیث نمبر۱:
عن سعید بن زید قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من اخذ شبرا من الارض ظلما فانہ یطوقہ یوم القیامۃ من سبع ارضین (مشکوٰۃ المصابیح، ۱۶۳/۲)
ترجمہ: حضرت سعید بن زید رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے ظلماً کسی کی زمین ایک بالشت بھی لی تو یہ زمین قیامت کے دن سات زمینوں تک اس کی گردن میں طوق بنا کر ڈالی جائے گی۔
حدیث نمبر۲:
عن انس قال قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم: من قطع میراث وارثہ قطع اللّٰہ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ۱۹۷/۲)
ترجمہ: حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے کسی وارث کو میراث سے محروم کر دیا تو اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو جنت میں اس کے حصے سے محروم فرمائیں گے۔
حدیث نمبر ۳:
عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ وسلّم: من کانت لہ مظلمۃ لاخیہ من عرضہ او شئی فلیتحﷲ منہ الیوم قبل ان لا یکون دینار و لا درہم ان کان لہ عمل صالح أخذ منہ بقدر مظلمتہ وان لم تکن لہ حسنات اخذ من سیئات صاحبہ فحمل علیہ۔ (صحیح البخاری، ۲۸۹/۱)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنے کسی بھائی پر ظلم کیا ہے تو آج ہی اس کو معاف کرا لے، اس دن کے آنے سے پہلے پہلے جس دن نہ درہم ہوں گے، نہ دینار، (بلکہ اس دن یہ ہو گا کہ) اگر ظالم کے پاس کوئی نیک عمل ہو گا تو اس نے اپنے بھائی پر جتنا ظلم کیا ہو گا اس کے بقدر نیکیاں مظلوم بھائی کو دے دی جائیں گی اور اگر ظالم کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تو پھر مظلوم کے گناہ اس ظلم کے برابر ظالم کے اوپر ڈال دیے جائیں گے۔
لہٰذا کسی شخص کے انتقال کے بعد اوپر ذکر کیے گئے چار حقوق میں سے تین حقوق ادا کرنے کے بعد سب سے اہم ترین فرض یہ ہے کہ جلد از جلد اس کی میراث تقسیم کی جائے، اسی میں عافیت اور راحت ہے، کیونکہ اس وقت مرنے والے کا صدمہ دل میں ہوتا ہے اور دل نرم ہوتا ہے تو تقسیم کا معاملہ بھی آسان ہوتا ہے، لیکن اگر اس وقت میراث تقسیم نہ کی جائے تو جتنی دیر ہوتی رہے گی اُتنی ہی اس میں الجھنیں اور دشواریاں پیدا ہوتی چلی جائیں گی۔ یہاں تک کہ لڑائی جھگڑوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کیونکہ جوں جوں مرنے والے کا صدمہ کم ہوتا چلا جاتا ہے دنیا کی محبت دل میں بڑھتی چلی جاتی ہے اور باہمی اختلاف ہوتا ہے، اس لیے جتنا جلدی ہو سکے میراث تقسیم کر لینی چاہیے، کیونکہ مرنے کے بعد ایک سوئی کے برابر مال میں بھی تمام ورثاء حصہ دار اور شریک ہو جاتے ہیں۔ ان سب کی رضا مندی کے بغیر مالِ میراث کا استعمال کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ بالخصوص اگر ورثاء میں نابالغ بھی ہو تو پھر معاملہ اور زیادہ سنگین ہو جاتا ہے کیونکہ نابالغ کی اجازت بھی شرعاً معتبر نہیں اور اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یتیموں کا مال کھانے کو ’’پیٹ میں آگ بھرنے‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔
تقسیمِ میراث میں ہونے والی کوتاہیاں:
ہمارے معاشرے میں میراث تقسیم کرنے کے حوالے سے جو کوتاہیاں پائی جاتی ہیں اُن میں سے چند مشہور صورتیں ذیل میں لکھی جاتی ہیں تاکہ اُنھیں پڑھ کر اپنی غلطی کا احساس ہو اور گناہ سے بچنے کی فکر پیدا ہوا۔
والد کے ساتھ تعاون کرنے والے بیٹوں کا کاروبار پر قبضہ جمائے رکھنا:
جو بیٹے والد مرحوم کے ساتھ اُن کی زندگی میں کاروبار میں معاونت کرتے ہیں اور کاروبار سنبھالتے ہیں وہ اپنے والد کے انتقال کے بعد اس کاروبار کے مالک بن کر بیٹھ جاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ شروع سے ہم نے کاروبار سنبھالا ہے لہٰذا یہ ہماری محنت ہے، یہ میراث میں شامل نہیں ہو گا۔ حالانکہ عموماً اس کاروبار میں بیٹوں کا اپنا ذاتی کوئی حصہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ اپنی محنت کا کچھ عوض لے کر کام کرتے ہیں، ایسی صورت میں شرعی لحاظ سے کاروبار والد ہی کا ہوتا ہے اس لیے دیگر مال و جائیداد کی طرح یہ بھی ترکہ میں شامل ہو گا۔ ہاں مرحوم کی میراث تقسیم کرتے وقت اگر کاروبار سنبھالنے والے بیٹوں کا حصہ اتنا بنے جتنی مالیت کا کاروبار ہے تو وہ اپنے حصہ میں کاروبار لے سکتے ہیں۔
گھر کے ساز و سامان پر بیوہ کا قبضہ کرنا:
بعض جگہ یہ ہوتا ہے کہ مرحوم کے کاروبار، کارخانے اور دکان وغیرہ پر تو لڑکے قبضہ کر لیتے ہیں اور گھر کا جتنا سامان ہوتا ہے وہ سب بیوہ کے قبضے میں آ جاتا ہے اور بیوہ اس کی مالک بن کر بیٹھ جاتی ہے اور جس طرح چاہتی ہے اس میں تصرف کرتی ہے۔ جب تک بیوہ زندہ ہوتی ہے وہ میراث تقسیم نہیں کرتی بلکہ اس کو ماں کی نافرمانی میں شمار کیا جاتا ہے، حالانکہ جس طرح لڑکوں کا جائیداد پر قبضہ کرنا ناجائز ہے اسی طرح بیوہ کا گھر کے سامان پر قبضہ کرنا اور تقسیم نہ کرنا بھی ناجائز ہے، بلکہ یہ تمام مال و جائیداد اور ساز و سامان ورثاء کا حق ہے اور باپ کے انتقال کے بعد ماں کی زندگی میں میراث تقسیم کرنے میں ماں کی نافرمانی ہرگز نہیں ہے، کیونکہ میراث کی تقسیم شریعت کا حکم ہے۔
بیوہ سے مہر معاف کرانا یا اس کو مہر دے کر میراث کا حصہ نہ دینا:
بعض جگہوں پر یہ رواج ہے کہ شوہر کے انتقال کے بعد بیوہ سے زبردستی مہر معاف کروایا جاتا ہے اور وہ بیوہ بے چاری مجبور ہو کر بادلِ ناخواستہ مہر معاف کر دیتی ہے۔ یہ طریقہ شرعاً جائز نہیں بلکہ اگر اس طرح بیوہ اپنا مہر معاف کر دے تب بھی معاف نہیں ہو گا اور بیوہ کو مہر دینا ضروری ہو گا۔ بعض لوگ مہر تو معاف نہیں کرواتے لیکن شوہر کے انتقال کے بعد اس کو میراث میں سے حصہ نہیں دیتے بلکہ مہر دے کر جان چھڑا لیتے ہیں، یہ طریقہ بھی غلط ہے۔ کیونکہ شرعی لحاظ سے مہر کا بیوی کے میراث کے حصہ سے کوئی تعلق نہیں، لہٰذا مہر الگ ادا کیا جائے گا اور میراث کا حصہ الگ دینا ضروری ہے۔
دوسری شادی کرنے کی صورت میں بیوہ کو میراث کا حصہ نہ دینا:
بعض جگہوں میں یہ دستور ہے کہ بیوہ اگر دوسرا نکاح کر لے تو اسے شوہر کی میراث سے محروم کر دیتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیوہ یا تو تنہائی کی زندگی سے بچنے کے لیے دوسرا نکاح کر کے مال سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے یا اپنے حصۂ میراث کومحفوظ رکھنے کی خاطر دوسرا نکاح نہیں کرتی، عمر بھر بیوہ رہتی ہے اور طرح طرح کی مصیبتیں برداشت کرتی ہے۔ یاد رکھیں کہ دوسرا نکاح کرنے سے بیوہ کا حقِ میراث ہرگز ختم نہیں ہوتا بلکہ دوسرے ورثاء کی طرح وہ بھی اپنے مقررہ حصے کی پوری پوری حق دار ہوتی ہے۔
دوسرے قبیلہ کی بیوہ کو میراث سے محروم کرنا:
بعض خاندانوں میں یہ رواج بھی ہے کہ جو عورت شوہر کے قبیلہ سے نہ ہو اُسے میراث کا حصہ نہیں دیتے، یہ بھی بہت بڑا ظلم اور جہالت ہے۔ بیوہ ہر حال میں اپنے شوہر کی میراث میں حصہ دار ہے خواہ وہ شوہر کے خاندان سے ہو یا کسی دوسرے خاندان سے۔
بہنوں کو میراث سے محروم کرنا:
یہ بدترین رسم تو اکثر دین دار گھرانوں میں بھی پائی جاتی ہے کہ میراث میں بہنوں کو حصہ دار نہیں سمجھا جاتا اور یہ سمجھتے ہیں کہ باپ کی میراث میں صرف بیٹے حق دار ہیں، بیٹیوں کا کوئی حق نہیں۔ بعض لو گ جو بہنوں کو حصہ دار سمجھتے ہیں وہ بھی کسی نہ کسی طرح بہنوں سے ان کا حصہ معاف کروا لیتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ تم اپنے حصۂ میراث سے ہمارے حق میں دستبردار ہو جاؤ، چنانچہ بہنیں مجبور ہو کر زبانی طور پر یہ کہہ دیتی ہیں کہ ہم اپنا حصہ چھوڑتی ہیں، اس کے بعد بھائی یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہم اکیلے اس میراث کے حق دار ہیں۔ یاد رکھئے! یہ سراسر ظلم ہے، زمانہ جاہلیت کی رسمِ بد ہے اور اس میں خلافِ شرع ہندوؤں کی ظالمانہ رسم کی تائید و ترویج ہے۔ اس طرح زبانی دستبرداری اور شرما شرمی میں معاف کرنے کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں اور اس طرح معاف کرنے سے بہنوں کا حق ختم نہیں ہوتا اور نہ ہی بھائیوں کے لیے بہنوں کا حصہ اپنے استعمال میں لانا حلال ہوتا ہے۔ لہٰذا بھائیوں پر لازم ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا خوف کھائیں، اﷲ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی سے ڈریں اور آخرت کی پکڑ سے بچتے ہوئے بہنوں اور دیگر تمام ورثاء کو ان کا پورا پورا حصہ علیحدہ علیحدہ کر کے عملاً اُن کے قبضہ میں دیں، اس کے بعد اُنھیں اختیار ہو گا کہ جہاں چاہیں خرچ کریں۔
شادی شدہ بہنوں کو میراث کا حصہ نہ دینا:
ایک بری رسم یہ بھی ہے کہ غیر شادی شدہ بہنوں کو تو میراث میں حصہ دے دیتے ہیں، لیکن شادی شدہ بہنوں کو میراث میں حصہ نہیں دیا جاتا اور اگر وہ مطالبہ کریں تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ والد صاحب نے تمھاری شادی کے موقع پر تمھارا جو جہیز تیار کر کے دیا تھا اس سے تمھارا حق ادا ہو گیا۔ خوب سمجھ لیجئے! یہ سوچ بھی بالکل غلط ہے۔ اوّل تو اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں لڑکیوں کا حصہ مقرر فرمایا ہے، اس میں غیر شادی شدہ ہونے کی کوئی قید نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ زندگی میں باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے وہ ہدیہ اور تحفہ ہے، اس کا میراث سے کوئی تعلق نہیں۔ میراث تو وہ مال ہے جو انسان مرتے وقت چھوڑ کر جاتا ہے اور اس میں سارے ورثاء اپنے اپنے حصوں کے مطابق حق دار ہوتے ہیں، اس لیے زندگی میں کسی وارث کو کچھ مال دینے سے میراث میں اس کا حصہ ختم نہیں ہوتا۔ لہٰذا شادی شدہ بہنیں بھی اپنے حصہ کی حق دار ہیں۔
مشترکہ ترکہ میں سے کوئی چیز یاد گار کے طور پر رکھنا یا صدقہ کرنا:
بعض وارث ترکہ کی تقسیم سے پہلے میت کی یادگار کے طور پر کسی چیز کو معمولی سمجھ کر یا بابرکت سمجھ کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں جس کی دوسرے ورثاء سے اجازت نہیں لی جاتی، اسی طرح میت کے ایصالِ ثواب کے لیے مشترکہ ترکہ میں سے مال خرچ کیا جاتا ہے، حالانکہ تمام ورثاء کی رضا مندی کے بغیر اس طرح کرنا جائز نہیں اگرچہ وہ معمولی چیز ہی کیوں نہ ہو۔ اور اگر ورثاء میں کوئی نابالغ ہو تو اس کی اجازت اور معافی بھی معتبر نہیں۔ ہاں اگر سب وارث عاقل و بالغ ہوں اور دلی رضامندی سے کسی وارث کو کوئی چیز دے دیں یا جائز طریقہ سے صدقہ کریں تو اس کی اجازت ہے۔
اﷲ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو شریعت کے مطابق عدل و انصاف کے ساتھ میراث تقسیم کرنے اور اس میں ہونے والی کوتاہیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(مطبوعہ: ماہنامہ البلاغ، اکتوبر ۲۰۱۷ء)
Masha Allah