مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اﷲ علیہ
تم نے یورپ کے تمدن کی کتوں کی طرح لوٹ کر اور بھیڑیوں کی طرح چل کر ہمیشہ پرستش کی ہے اور مذہب کی تعلیمات کی ہنسی اڑائی ہے کہ وہ آخرت آخرت کہتا ہے۔ مگر یورپ کی طرح دنیا کے لیے کچھ نہیں بتلایا، لیکن شاید تم آج قرآن حکیم کی اس آیت کو سمجھ سکو جس کے متعلق حدیث صحیح میں آیا ہے کہ اس کی تلاوت آخری زمانہ کے فتنہ سے بچائے گی:
ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا۔ اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَ لِقَآئِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا۔ (سورۃ الکہف، ۱۰۴،۱۰۵)
تم کو بتلاؤں کہ سب سے زیادہ ناکام ونامراد کام کرنے والے کون ہیں؟ وہ جن کی تمام قوت سعی صرف دنیا کی زندگی سنوارنے ہی میں کھو گئی اور جہل حقیقت نے ان میں یہ گھمنڈ پیدا کر دیا کہ وہ بہت خوبیوں کا کام کر رہے ہیں، یہی لوگ ہیں جنہوں نے اﷲ کی نشانیوں اور اس کے رشتہ کو نہ سمجھا اور اس سے انکار کیا، پس ان کا تمام کیادھرا برباد ہوگیا اور قیامت کے دن انہیں کوئی وزن نصیب نہ ہوگا۔
دوسری جگہ اربابِ کفر کے اعمال یہ بتلائے:
یَعْلَمُوْنَ ظَاھِرًا مِّنَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ھُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ھُمْ غٰفِلُوْنَ (سورۃ الروم، ۷)
صرف دنیا کی زندگی کا ایک ظاہری پہلو انہوں نے جان لیا ہے اور وہ آخرت کے علاقوں سے بالکل غافل ہوگئے ہیں۔
’’آخرت‘‘ سے مقصود یہ نہیں ہے کہ دنیا اور دنیا کے اعمال ترک کر دیے جائیں، بلکہ اس کی عملی تفسیر یورپ کی موجودہ زندگی کو سمجھو جس نے اپنے تئیں صرف دنیا ہی کے لیے وقف کر دیا ہے اور اس کے گھمنڈ میں وہ اﷲ اور اس کے رشتہ کے لیے کوئی وقت اور فکر نہ نکال سکی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے وہ چیز تو حاصل کر لی، جس کا نام تمدن رکھا گیا ہے، لیکن وہ شے حاصل نہ کرسکی، جو انسان کے لیے امنِ حقیقی کی راہ اور سلام وسعادتِ فطری کی صراط مستقیم ہے۔
(ولادت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم، ص ۳۰،۳۱)