سلیم کوثر
وہی ذکرِ شہرِ حبیب ہے وہی رہ گزارِ خیال ہے
یہ وہ ساعتیں ہیں کہ جن میں خود کو سمیٹنا بھی محال ہے
یہ وہ اسم ہے بجز اس کے کچھ بھی تو حافظے میں نہیں مرے
یہی اسم میری نجات ہے یہی اسم میرا کمال ہے
یہی دن تھے جب کوئی روشنی میرے دل میں اتری تھی اور اب
وہی دن ہیں اور وہی وقت ہے، وہی ماہ ہے، وہی سال ہے
یہاں فاصلوں میں ہیں قربتیں، یہاں قربتوں میں ہیں شدتیں
کوئی دور رہ کے اویس ہے کوئی پاس رہ کے بلالؓ ہے
وہ ابھی بلائیں کہ بعد میں، مجھے محو رہنا ہے یاد میں
میں صدائے عشقِ رسول ہوں، میرا رابطہ تو بحال ہے
ترا ان کے بعد بھی ہے کوئی، مرا ان کے بعد کوئی نہیں
تجھے اپنے حال کی فکر ہے، میری عاقبت کا سوال ہے