مولانا محمد یوسف شیخوپوری
رحمتِ عالم، فخر دو جہان سید الانس والجان سیدنا و مولانا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ انسانیت کے لیے مشعلِ راہ اور دنیا و آخرت کی کامیابیوں کی ضامن ہے۔ جس کا ہر ہر پہلو اور ہر ہر رخِ عشاقِ رسالت اور مشتاقانِ بارگاہِ نبوّت کے لیے ابدی سعادتوں کا گنجینہ ہے اور اس قدر حسین و بہار آفرین ہے کہ ذکر کرتے ہی دلوں میں محبت و مودت کے جذبات انگڑائیاں لینے لگ جاتے ہیں، کلیاں کھل اٹھتی ہیں اور روحوں کا چمن سرسبز و شاداب ہو جاتا ہے۔ آپ کا ذکرِ خیر ایسی بہار ہے جس کے بعد کسی دوسرے بہار کی ضرورت نہیں، جس کی حیات بخش فضاؤں میں مہکنے والی کلیوں، چٹخنے والے غنچوں اور کھلنے والے پھولوں کو کسی خزاں یا پت جھڑ کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ ہر جہت سے، ہر نوعیت سے کامل و مکمل اور لا محدود ہے ان میں ایک پہلو آپ کے اسم مبارک کا بھی ہے، جس میں سیرت طیبہ کا وہ بحر بے کراں ہے جس کو تحریر و بیان میں لانے کے لیے خرد انسانی ناکافی ہے۔ صرف اس نیت سے ذکر کرتے ہیں تاکہ اس پاک نام کی برکت سے ہماری زبانیں طہارت کا لباس اوڑھ لیں۔
مَا اِنْ مَدَحْتُ مُحَمَّدًا بِمَقَالَتِیْ و لٰکِنْ مَدْحْتُ مَقَالَتِیْ بِمُحَمَّد
یوں تو اﷲ کی قدرت نے اپنی شاہکار ترین تخلیق کو عالمِ وجود میں لا کر متعدد القابات و اسماء سے نوازا ہے جو ایک سے ایک بڑھ کر ہے۔ ایسے ایسے خصائص اور فضائل پر مشتمل ہے جو ضخیم و عظیم ہونے کے ساتھ محبت و ایمان کی کیفیتوں میں موج در موج اضافہ کرتے ہیں۔ لیکن ان سب میں آپ کے ذاتی نام نامی محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم)۔ ایک علیحدہ ہی شان کا حامل ہے، آپ کا یہ اسم مبارک الہامی طور پر رکھا گیا۔ علامہ ابن کثیرؒ نے ابن اسحٰقؒ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدہ بیان فرماتی ہیں کہ جب میرے شکم میں بصورتِ حمل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے تو ایک دن میں نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں تھی کہ میرے پاس ایک فرشتہ نے آ کر کہا تم اس امت کے سردار کو اپنے حمل میں اٹھائے ہوئے ہو۔ جب وہ پیدا ہو کر زمین پر آ جائیں تو یوں کہنا: ’’اُعْیْذہٗ بِالواحِدِ مِنْ شَرِّ کُلِّ حَاسِدٍ‘‘۔ اس نومولود کی نشانی یہ ہو گی کہ اس کے ساتھ ایک نور نکلے گا جس سے ملک شام میں بُصری کے محلات تک وسیع و عریض علاقہ منوّر ہو جائے گا۔ جب وہ بچہ پیدا ہو تو اس کا نام محمد رکھنا۔ (صلی اﷲ علیہ وسلم) البدایہ۔
اسی طرح برہان الدین حلبیؒ نے روایت نقل کی ہے کہ آپ کے دادا جناب عبدالمطلب نے آپ کا نام ایک خواب کی وجہ سے رکھا۔ انھوں نے خواب میں دیکھا کہ ان کی کمر سے ایک (نور کا) سلسلہ نکل رہا ہے جس کا ایک سرا زمین زمین میں ہے اور دوسرا آسمان میں، اسی طرح ایک سرا مشرق میں ہے اور دوسرا مغرب میں۔ پھر اس نے ایک درخت کی صورت اختیار کی جس کے ہر پتے پر نور چمک رہا تھا اور مشرق و مغرب کے لوگ اس درخت سے لگے ہوئے تھے۔ عبدالمطلب نے جب یہ خواب بیان کیا تو اس کی یہ تعبیر دی گئی کہ ان کی صلب سے ایک بچہ پیدا ہو گا جس کی مشرق و مغرب کے لوگ پیروی کریں گے اور آسمان و زمین والے اس کی تعریف کریں گے۔ اسی لیے آپ کے دادا نے آپ کا نام محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) رکھا۔ (سیرت حلبیہ)
لفظ ’’محمد‘‘ مادہ حمد سے مشتق ہے، جس کا معنی تعریف و ثناء بیان کرناہے۔اس مادّے کا باب تفعیل سے اسم مفعول کا صیغہ ’’محمد‘‘ ہے جس کا مطلب مطلب ہے بار بار تعریف کیا گیا۔ حمد کو آپ سے خصوصی نسبت ہے۔ آپ کو جو کتاب عطا کی گئی وہ فرقانِ حمید ہے، آپ کا پرچم لواء الحمد کہلایا ہے، آپ کی اُمّت حمّادون کہلاتی ہے اور آپ کو اﷲ کے ہاں سب سے بلند و برتر مقام ’’محمود‘‘ عطا کیا گیا ہے۔
آپ کا یہ نام مبارک تمام اسماء کا سرتاج ہے کیونکہ اﷲ نے اپنے محبوب کے لیے اسے بطور اسمِ ذات کے پسند فرمایا اور چار دانگِ عالم میں ازل سے ابد تک اس کی دھوم مچائی ہے۔ مفردات القرآن میں امام راغب اصفہانیؒ نے اس کی شرح یوں فرمائی ہے: ۱۔’’اَلَّذِیْ یُحْمَدُ حَمْدًا مَرَّۃً بَعْدَ مَرَّۃٍ‘‘۔ وہ ذات جس کی حمد و ثناء کثرت کے ساتھ بار بار کی جائے، کبھی جس کی تعریف ختم نہ ہو، ایک پہلو کو لے کر مدح شروع کریں وہ ابھی ختم نہ ہو کہ دوسرا شروع ہو جائے اسے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کہتے ہیں۔ ۲۔ ’’مُحَمَّد اِذاکَثُرَتُ خَصالُہُ الْمَحْمُوْدَۃُ‘‘ وہ ذات جس میں نوعیتِ مدح اور تعریف کے قابل تمام انواع و اقسام کے خصائل جمع ہو چکے ہوں۔ (معارف اسم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم)
جی ہاں یہی وہ مبارک نام ہے جس کا تلفظ کیے بغیر دائرہ اسلام داخلہ ممنوع ہے، جو کلمہ اسلام کا جزو لاینفک قرار پایا ہے اور اسلام کے بنیادی، مرکزی اور اہم عقیدہ توحید کی دلیل ہے۔ کیونکہ دینِ اسلام میں کلمہ طیبہ کے صرف دو جزء ہیں، پہلے میں اعلانِ توحید ہے اور دوسرے جز میں اعلانِ رسالت ہے۔ لا اِلٰہ الا اﷲ محمد رَّسول اﷲ۔ یہی کلمہ قرآن مجید میں متفرق صورت میں موجود ہے، اس کے علاوہ کوئی تیسرا جز پورے قرآن میں کہیں بھی مذکور نہیں اور سنتِ نبوی میں بھی مفقود ہے۔ خلفائے راشدین اور خصوصاً سیدنا علی المرتضی رضی اﷲ عنہ اپنے دورِ خلافت میں اور دیگر ائمہ نے اپنے اپنے ایامِ اختیار و اقتدار میں بھی اسی کلمہ شریف کو پڑھا اور اس کی تعلیم دی ہے اور اسی کو نجات اخروی کے لیے کافی سمجھا ہے۔ چنانچہ اصولِ کافی میں جہاں ایمانیات کا مسئلہ درج ہے وہاں بھی صرف دو شہادتیں (توحید و رسالت) موجود ہیں۔
۱۔ ’’بُنِیَ الِاسلام علی خمس شہادۃ ان الا الٰہ اللّٰہ وانّ محمدا صلی اللّٰہ علیہ وسلم عبدہ و رسولہ و اقام الصلوٰۃ و ایتاء الزکوٰۃ و حج بیت و صیام شہر رمضان……الخ‘‘ (اصول کافی، ج: ۱، ص: ۳۷۷)
۲۔ پرودگارِ عالم نے قلم کو فرمایا کہ لکھ لا الٰہ اﷲ محمد رسول اﷲ۔ (جلاء العیون)
۳۔ جب عرش پر آدم علیہ السلام نے نظر کی تو یہ کلمہ شریف نظر آیا لا الٰہ اﷲ محمد رسول اﷲ۔ (جلاء العیون)
۴۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف اﷲ تعالیٰ کی جانب سے وحی ہوئی کہ لوگوں کو کہہ دیجیے کہ کہیں لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ۔ (حیات القلوب)
۵۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ کو جب آپ نے کلمہ شریف پڑھایا تو اس میں یہ فرمایا کہ لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ۔ (حیات القلوب)
۶۔ نبی اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی مہر نبوت میں جو دونوں کندھوں کے درمیان تھی اس میں دو سطریں لکھی ہوئی تھیں، سطر اوّل میں لا اِلٰہ اﷲ اور سطر دوم میں محمد رسول اﷲ تھا۔ (حیات القلوب)
مذکورہ بالا تمام مقامات میں تیسری شہادت نہیں پائی جاتی فلہٰذا یہی کلمہ طیبہ جس کے صرف دو اجزاء توحید و رسالت ہیں، صحیح ہے اور آخرت میں نجات کے لیے یہی ضروری ہے اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کے اقوال و اعمال اسی کی مویّد ہیں اور ان کے دورِ خلافت میں بھی یہی کلمہ پڑھا جاتا رہا اور اسی کی تعلیم و تلقین جاری تھی، تیسرے جز والا کلمہ ان کے بعد والے لوگوں نے تصنیف کیا ہے اور مابہ الامتیاز قائم کرنے کے لیے مرتب کیا ہے۔
پہلا جز ایک دعویٰ ہے، دوسرا جز اس کی دلیل ہے کیونکہ وحدانیت کا یقینی اور حتمی علم حضور علیہ السلام کی ذات اور آپ کی شہادت و دعوت سے ہوا ہے اور ساتھ ساتھ سمجھ لیا جا رہا ہے۔ وہ اﷲ ہیں اور یہ اس کے رسول ہیں، اس کے رسول ہیں، اس کی صفات و ذات میں شریک نہیں ہیں، کیونکہ یہ اولاد والے ہیں، بنین و بنات والے، قبیلے کنبے اور خاندان والے ہیں اور وہ ان سب سے پاک ہے۔
یہ مبارک اسم توحید کی طرح ختمِ نبوّت کے عقیدہ کا بھی پرچار ہے۔ شیخ اکبرؒ نے لکھا ہے کہ حمد ہمیشہ آخر میں ہوتی ہے۔ جب ہم کھا پی کر فارغ ہوتے ہیں، سفر ختم کر کے گھر واپس ہوتے ہیں، ایسے دیگر مقامات میں آخر میں حمد کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ دنیا کا سفر ختم کر کے جنت میں داخل ہوں گے تو خدا کی حمد کریں گے۔ تو اسی دستور کے موافق جب سلسلۂ رسالت ختم ہوا تو یہاں بھی آخر میں خدا کی حمد ہو، اس لیے جو نبی سب سے آخر میں آئے ان کا نام محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) رکھا گیا۔
پھر کلمے کے پہلے جز اور دوسرے جز میں عجیب قسم کی مناسبت بھی ہے، پہلے جز میں لفظ ’’اﷲ‘‘ ، اﷲ کا ذاتی نام ہے اور دوسرے جز میں لفظ ’’محمد‘‘ ، اﷲ کے آخری نبی و رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا ذاتی نام ہے۔ رحمن، رحیم صفاتی نام ہیں، ادھر رسول صفاتی نام ہے، پھر لفظ اﷲ اور لفظ محمد دونوں مشدّد ہیں، دونوں میں ایک حرف ساکن ہے۔ دونوں چار حرفی مرکب ہیں، دونوں بے نکتہ ہیں، دونوں میں ایک ہی جنس کے دو حرف ہیں، ل، ل اورم، م۔ پھر یہ دونوں نام ایسے ہیں کہ جن کا ہر حرف معنی دار ہے، دونوں سے جس حرف کو بھی جدا کر دیا جائے اس کی معنویت برقرار رہتی ہے۔
امام جعفر صادقؒ فرماتے ہیں میم سے مراد امن اور امانت والا ہے، حا سے مراد حبیبِ خدا ہے، میم ثانی سے میمون اور مبارک ہے، دال سے مراد دین کی علامت ہے، گویا جو ذات امن اور امانت والی ہے، جو خدا کی محبوب ہستی ہے، جس کی آمد باعثِ میمنت اور مبارک ہو، جو ہستی دینِ کامل و اکمل کی علامت ہو اس عظیم و کریم ہستی کو محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کہتے ہیں۔
قوّت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کر دے