محمد احمد حافظ
حضور پر نور،ماوا و ملجائے یوم النشور صلی اﷲ علیہ وسلم کا مقام ومرتبہ اس قدر اعلیٰ وارفع اور بلند وبالا ہے کہ عقل انسانی اس کا مکمل ادراک نہیں کر سکتی۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم وجہ ِتخلیق کائنات ہیں۔آپ کی ذات اقدس فرش وعرش پر یکساں محبوب ومقبول اور آپ کی زندگی عالمِ انسانیت کے لیے سب سے بڑا نمونہ عمل ہے،آپ کی ذاتِ اقدس محبتوں کا مرکز،چاہتوں کا مصداق،عقیدتوں کا مرجع اور ذوق وشوق کا محور ہے۔جب خود خلّاق عالم نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجنے کا حکم فرمایا ہو:
یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
تو عقل انسانی آپ کے مقامِ اقدس کا کیا احاطہ کر سکے گی؟صرف یہی نہیں آپ کے ادب وتوقیر کا حکم قرآن مجید میں متعدد جگہ صادر فرمایا:
لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیّ
لَا تَجْعَلُوْا دُعَاءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَاءِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا
لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ
لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوْا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا
اﷲ تعالی نے جن نفوس کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی معیت کا شرف بخشا، عشاق سرمست کی جماعت صحابہ نے ان آیات قرآنی کے عملی تقاضوں کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیا تھا۔وہ اپنے آقا ومولیٰ کی بارگاہِ اقدس میں یوں بیٹھتے جیسے لبوں پر مہرِ سکوت ثبت ہو،جسم میں سانسوں کی آمد ورفت ختم ہو چکی ہو۔صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ مکرمہ سے عروہ بن مسعود(جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے)کفار کے سفیر بن کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واپس جا کر اپنی حاضری کا حال کچھ یوں بیان کیا:
’’اے میری قوم!اﷲ کی قسم میں بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا اور قیصر وکسریٰ ونجاشی کے ہاں گیا ہوں،میں نے کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا جس کے درباری اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسا کہ محمد ( صلی اﷲ علیہ وسلم)کے اصحاب آپ کی تعظیم کرتے ہیں۔اَﷲ کی قسم ان کے لعابِ دہن کو زمین پر گرنے نہیں دیتے بلکہ اصحاب اپنے منہ اور جسم پر مل لیتے ہیں۔ جب وہ اپنے اصحاب کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس کی تعمیل کے لیے دوڑتے ہیں اور جب وضو کرتے ہیں تو ان کے وضو کے پانی کے لیے باہم جھگڑے کی نوبت آجاتی ہے اور جب وہ کلام کرتے ہیں تو اصحاب ان کے سامنے اپنی آوازیں دِھیمی کردیتے ہیں اور ازروئے تعظیم ان کی طرف تیز نگاہ نہیں کرتے۔‘‘
ٍٍ شمائل ترمذی میں ہے کہ جس وقت آپ کلام شروع کرتے تو آپ کے ہم نشین اس طرح سر جھکا لیتے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے ہیں۔
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ یہ والہانہ عقیدت ومحبت صرف آپ کی حیات طیبہ تک محدود نہ تھی بلکہ آپ کے وصال پر ملال کے بعد بھی اصحاب ِایمان مزارِ اقدس کے جوار میں مؤدب اور سراپا عجز وانکسار رہتے۔ایک مرتبہ خلیفہ ابو جعفر منصور نے مسجد نبوی میں امام مالک سے مناظرہ کیا اور اثنائے مناظرہ اپنی آواز بلند کی، حضرت امام مالک نے فرمایا اپنی آوازیں بلند مت کرو ،اَﷲ تعالیٰ نے امت کو حکم فرمایا ہے’’ لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی‘‘اس لیے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا احترام آپ کے وصال کے بعد بھی ویسا ہی ضروری ولازمی ہے جیسا کہ اس ظاہری دنیا میں آپ کے وجود پر تھا۔یہ سن کر ابو جعفر منصور دِھیما پڑ گیا۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا اگر مسجد نبوی کے گرد کسی مکان میں میخ ٹھوکنے کی آواز سنتیں تو کہلا بھیجتیں کہ رسول اﷲ کو اذیت نہ دو۔سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے اپنے مکان کے دونوں کواڑ مدینہ منورہ سے باہر ایک مقام پر تیار کروائے کے مباداان کی تیاری میں لکڑی کی آواز سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ناراحتی ہو۔صحیح بخاری شریف میں ایک روایت حضرت ابن زید سے یوں درج ہے کہ میں مسجد نبوی میں لیٹا ہوا تھا ایک شخص نے مجھے کنکر مارا،میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ تھے۔آپ نے فرمایا ان دو شخصوں کو بلاؤ،میں بلا لایا،آپ نے ان سے پوچھا تم کون ہو؟اور کہاں سے آئے ہو؟انہوں نے جواب دیا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔آپ نے فرمایا اگر تم اس شہر کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں دُرّے لگواتا،کیا تم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مسجد میں اپنی آواز بلند کرتے ہو؟
آہستہ سانس لے کہ خلاف ادب نہ ہو
نازک ہے آئینے سے طبیعت حضور کی
حضرت امام مالک رحمہ اﷲ نے اپنی ساری زندگی مدینہ منورہ میں کبھی بول وبراز نہیں کیا۔ایک شخص نے کہا کہ مدینہ کی مٹی خراب ہے،امام مالک نے فتویٰ دیا کہ اسے تیس درے مارے جائیں اور قید کیا جائے۔پھر فرمایا کہ ایسا شخص تو اس لائق ہے کہ اس کی گردن ماردی جائے،وہ زمین جس میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آرام فرماہوں اس کی نسبت گمان کرتا ہے کہ اس کی مٹی خراب ہے؟حضرت عبداﷲ ابن مبارک رحمہ اﷲ کا واقعہ مذکور ہے کہ انہوں نے حدیث بیان کی کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو سبزیوں میں لوکی بہت پسند تھی۔حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ مجھے تو پسند نہیں،اس پر حضرت عبداﷲ بن مبارک نے فورا ًاپنی مسند کے ساتھ رکھی تلوار سونت لی اور کہا کہ:……’’ اپنے ایمان کی تجدید کرو ورنہ ابھی تمہاری گردن اڑاتا ہوں۔‘‘
ایک مرتبہ آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں مدینہ کے تازہ پھل پیش کیے گئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعا فرمائی :……’’ اے اَﷲ ! ہمارے پھلوں میں برکت دے، ہمارے مدینہ میں برکت عطا فرما، ہمارے صاع اور ہمارے مُد میں برکت عطا فرما…… اے ہمارے رب ! ( حضرت ) ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور تیرا ہی نبی ہوں، انہوں نے مکہ کے لیے جیسی دعا کی تھی میں بھی ویسی بلکہ اس سے بڑھ کر دگنی دُعا مدینہ کے لیے کرتا ہوں۔ ( یعنی ہمارے شہر مدینہ میں مکہ مکرمہ سے دگنی برکتیں نازل فرما) ( مسلم )
مدینہ منورہ…… جہاں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا تاقیامت قیام ہے، جو کائناتِ ارض وسماء کا نگینہ ہے ،جہاں ہر لمحہ آسمانوں سے رحمتوں کی بارش برستی رہتی ہے۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو مدینہ منورہ کے معطر ماحول میں قیام رکھتے ہیں، آقائے دو جہاں صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعاؤں کا حصار انہیں اپنے دامنِ جُود و عطا میں لیے رکھتا ہے…… اہلِ دل ہمیشہ آرزو مند ر ہے کہ اس شہرِ دل نواز میں قیام کا کوئی بہانہ مل جائے…… مدینہ کی محبت ہر دَم ان کے دلوں میں سوز و گداز کی مشعلیں جلائے رکھتی ہے۔ کتنے ہی افسردہ دِل عُشاق اپنے دِلوں میں مدینہ ہجرت کی تمنا لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ،کتنوں کواَرمان رہا کہ مرنے کے بعد قبر کے لیے دوگز زمین یہاں مل جائے۔
اَﷲ تعالیٰ نے نسل انسانی میں آپ کی ذات سے بڑھ کر کسی کو بھی محبت وشیفتگی،والہانہ لگاؤ اور عشق وعقیدت کا تعلق عطا نہیں فرمایا۔ یہی عشق و عقیدت ہے جو دین حق پر ڈٹ جانے اور طاغوت کے مد مقابل سینہ سپر ہو جانے کا حوصلہ دیتی ہے۔ یہی والہانہ لگاؤ ہے جو ناموس پیمبر کے لیے کٹ مرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہی محبت، عقیدت، عشق، تعلق، خاطر، سب اﷲ تعالیٰ کی عطاء ہیں جس کے نصیب ہو جائیں اس کے بھاگ ہرے ہیں۔
اے مے کشو! اگر مئے حُبِّ رسول سے
لبریز دل کا جام نہیں ہے تو کچھ نہیں!