حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ
(ترجمہ: مولانا نسیم احمد فریدی امروہوی رحمہ اﷲ)
مکتوب بنام سیادت پناہ سید فرید مرتضیٰ بخاری علیہ الرحمۃ
مرحمت نامۂ گرامی عزیز ترین زمانہ میں آیا، اس کے مطالعے سے مشرف ہوا۔ اﷲ کا شکر ہے کہ فقرِ محمدی کی میراث آپ کو حاصل ہے۔ درویشوں سے محبت اور ان سے تعلق رکھنا اسی کا نتیجہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ گرامی نامہ کے جواب میں یہ بے سر و ساماں کوتاہ عمل کیا لکھے، بجز اس کے کہ چند ماثور و منقول فقرے آپ کے جد بزرگوار خیر العرب والعجم نبیِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فضائل و محامد میں رقم کر دے اور اس سعادت نامہ کو اپنے لیے وسیلۂ نجات اخروی بنائے۔ اس توصیف و منقبت کی برکت سے خود میرا کلام قابلِ تعریف بن جائے گا۔
مَا ان مَدحتُ محمَّدًا بِمقَالتی لکن مَدحتُ مقالتی بِمُحَمَّدٍ
ترجمہ: میں اپنے کلام سے حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی مدح نہیں کر رہا بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعے دراصل اپنے کلام کی تعریف کرتا ہوں۔
اب منقبت رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم لکھتا ہوں۔ اﷲ مجھے لغزش سے محفوظ رکھے اور نیک توفیق عطا فرمائے۔
بے شک حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم تمام اولادِ آدم کے سردار ہیں اور قیامت میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے مقابلے میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے متبعین زیادہ تعداد میں ہوں گے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ کے نزدیک تمام اوّلین و آخرین میں مکرّم و معظم ہیں۔ قیامت قائم ہونے پر سب سے پہلے آپ ہی اپنے مرقد مبارک سے اٹھیں گے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سب سے پہلے شفاعت کرنے والے ہوں گے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت سب سے پہلے قبول کی جائے گی۔ سب سے پہلے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جنت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور اﷲ تعالیٰ اس کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لے کھولے گا۔ قیامت میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم لِوائے حمد کو اٹھائے ہوئے ہوں گے اور حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے علاوہ سب اُس جھنڈے کے نیچے ہوں گے۔ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ہم (میں اور میری اُمّت) ظہور کے لحاظ سے آخر میں ہیں لیکن قیامت کے دن آگے ہوں گے۔ یہ بات میں فخر کے طور پر نہیں کہتا (بلکہ تحدیث نعمت کے طور پر اﷲ تعالیٰ کے انعام کا اظہار کرتا ہوں)۔ میں اﷲ کا حبیب ہوں، میں مرسلین و انبیاء کا قائد ہوں اور یہ بات بھی فخراً نہیں کہہ رہا، میں سلسلۂ خاتم الانبیاء کا ختم کرنے والا آخری نبی ہوں اس پر بھی فخر نہیں۔ میں محمد بن عبداﷲ بن عبدالمطلب ہوں۔ اﷲ نے انسانی مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے ان سب سے بہتر پیدا کیا، پھر اس مخلوق کو دو حصوں (عرب و عجم) میں تقسیم کیا تو مجھے اُن میں سے بہتر میں پیدا کیا۔ پھر قبائل بنائے تو بہترین قبیلے میں مجھے پیدا کیا پھر اس قبیلے کی شاخیں بنائیں تو اُن میں سے مجھے بہترین شاخ میں پیدا کیا۔ پس ازروئے نفس اور بہ نظرِ قبیلہ و بیت میں سب میں بہتر ہوں (یہ مجھ پر اﷲ کا انعام ہے)۔ قیامت میں سب سے پہلے قبر سے برآمد ہونے والا میں ہی ہوں گا۔ جب لوگ درگاہِ خداوندی میں آئیں گے تو میں اُن کا قائد ہوں گا، جب وہ کلام نہ کر سکیں گے میں کلام کرنے والا ہوں اور جس وقت تمام لوگ میدانِ محشر میں پریشان و محبوس کھڑے ہوں گے میں اُن کی شفاعت (شفاعتِ عمومی) کروں گا۔ جب وہ ناامید ہو جائیں گے میں اُن کو بشارت دینے والا ہوں گا، اس روز کرامت و بزرگی اور کلید ہائے جنت میرے ہاتھ میں ہوں گی۔ ثناءِ حق کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا۔ نزدِ خدا میں تمام فرزندانِ آدم میں گرامی ترین ہوں اور جب قیامت کا دن ہو گا تو میں امام انبیاء، خطیب انبیاء اور صاحبِ شفاعت ہوں گا اور ان سب خصوصیات پر مجھے کچھ بھی فخر نہیں ہے (بلکہ یہ صرف اظہارِ نعمت کے لیے کہہ رہا ہوں)۔‘‘
در اصل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم باعثِ تخلیق عالم ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا اور نہ اﷲ تعالیٰ (مخلوق کو پیدا کر کے) اپنی ربوبیت کا اظہار کرتا۔ آپ اُس وقت نبی تھے جب آدم علیہ السلام کا پتلا بھی تیار نہیں ہوا تھا۔
نماند بعصیاں کسے در گرد کہ دارد چنیں سیدِ پیشرو
„ ایسے عظیم الشان پیغمبر کی تصدیق کرنے والے یقیناً خیر الامم ہونے چاہییں۔ چنانچہ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(یعنی تم بہترین اُمّت ہو اے تصدیق کنندگانِ مصطفی، جس کو لوگوں کے فائدے کے لیے پیدا کیا گیا ہے) کا امتیاز اُن کے لیے ’’نقدِ وقت‘‘ ہے۔ اس کے مقابلے میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے والے بدترین بنی آدم ہیں۔ آیت: اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ کُفْرًا وَّنِفَاقًا(یعنی منکر بدّو سخت ترین ہیں کفر اور نفاق میں)…… ایسے لوگوں کی نشاندہی کر رہی ہے۔ دیکھا چاہیے کس خوش نصیب کو اتباع سنّت کی دولت سے نوازتے ہیں اور متابعت شریعت سے سرفراز کرتے ہیں۔ اس (پُرآشوب) زمانہ میں کیے ہوئے اس ’’عملِ قلیل‘‘ کو جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دین کی تصدیق کے ساتھ انجام دیا جائے ’’عملِ کثیر‘‘ کے درجہ میں رکھا جائے گا۔ اصحابِ کہف نے جو اعلیٰ درجات حاصل کیے وہ صرف ایک نیکی کی بنا پر ہی تو حاصل کیے تھے (جو بر وقت ہوئی تھی) اور وہ نیکی نورِ ایمان و یقین کے ساتھ ہجرت تھی، ایسے وقت میں جب کہ معاندین و مخالفینِ حق کا غلبہ ہو رہا تھا۔ مثال کے طور پر لکھتا ہوں کہ سپاہی اگر دشمنوں کے غلبے کے زمانے میں (وفاداری کے ساتھ) تھوڑی سی جدوجہد بھی کرتے ہیں تو وہ جد و جہد بہت ہی نمایاں اور قابلِ قدر ہوتی ہے۔ برخلافِ زمانۂ امن کے اس زمانہ کی جدوجہد اور وفاداری کا ویسا اعتبار نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں چونکہ آں سرور محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم رب العٰلمین ہیں اس لیے آپ کے متبعین، متابعت کے طفیل میں محبوبیت کے مرتبے پر فائز ہوتے ہیں۔ قاعدہ ہے کہ محب جس کسی کو اپنے محبوب کے اخلاق و شمائل پر دیکھتا ہے اس کو محبوب رکھتا ہے۔ مخالفینِ دین کی بدبختی کا بھی یہیں سے اندازہ کرنا چاہیے۔
محمد عربی کابروئے ہر دوسرا ست کسے کہ خاکِ درش نیست خاک بر سراو
اگر ہجرت ظاہری میسر نہیں تو ’’ہجرت باطنی‘‘ کو بہت زیادہ ملحوظ رکھا جائے گا کہ لوگوں کے ساتھ بظاہر تو رہیں اور درحقیقت ان کے ساتھ نہ ہوں (اُن کا غلط رنگ قبول نہ کریں) اﷲ تعالیٰ آپ کو اپنے آباء کرام کے راستے پر ثابت قدم رکھے۔ علیہم السلام الیٰ یوم القیامۃ