ادریس بختیار
معاملہ کو صحیح تناظر میں نہیں دکھا جا رہا، تدبر کی شدید کمی ہے، اگر ساری صورتِ حال کا غور سے جائز لیا جائے۔ حکمرانوں نے افسوسناک حد تک عاقبت نا اندیشی کا ثبوت دیا، ایک سے زیادہ بار غلط بیانی کی، حقائق چھپائے اور معاملات درست کرنے کی نیم دلانہ کوششیں کیں، وہ بھی اس وقت جب حالات دن بدن بگڑتے گئے، قابو سے باہر ہوتے گئے۔ کسی بھی مرحلے پر اپنی غلطی تسلیم نہیں کی گئی۔ اس کے برعکس ابتدا میں تسلسل سے یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ ختمِ نبوّت کے حلف نامہ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اسے ڈھٹائی بھی کہا جا سکتا ہے، حکومتی وزراء بار بار ٹی وی پر آ کر عوام کو گمراہ کرتے رہے۔ وزیرِ قانون کچھ کاغذ بھی دکھاتے اور دعویٰ کرتے کہ انتخابی قانون میں کچھ بھی بدلا نہیں گیا۔ حقیقت یہ نہیں ، بلکہ اس کا اصل صورتِ حال سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا۔ متعدد تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ ان کی نشاندہی کی گئی، بار بار کی گئی۔ جب حالات بگڑتے نظر آنے لگے، کچھ شقیں درست کر دی گئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قانون کو اصل شکل میں واپس لانے میں عوام کے مسلسل دباؤ کا بہت اہم کردار رہا۔ حکمرانوں کا رویہ تو یہ تھا کہ اس ملک کے عوام کو بے وقوف بنایا جائے اور اس کی کوشش کی گئی، بار بار۔
ہوا کیا تھا؟ انتخابی قانون 2017ء بناتے وقت امیدواروں کے حلف نامہ میں خاموشی سے کچھ تبدیلیاں کر دی گئی تھیں۔ ان میں سے چند بہت اہم تھیں اور آئینِ پاکستان کا لازمی حصہ تھیں۔ امیدوار کو ایک حلف نامہ بھرنا تھا کہ وہ ختمِ نبوّت پر ایمان رکھتا ہے۔ پہلا کام تو یہ کیا گیا کہ اس فارم کا عوان تبدیل کیا گیا۔ اس سے پہلے فارم کا عنوان تھا ’’Declaration and oath by the person mominated‘‘۔ اسے تبدیل کر دیا گیا اور نئے قانون میں لکھا گیا:’’Declaration by the candidate‘‘ یعنی اس میں سے ’’حلف‘‘ ہٹا دیا گیا۔ پرانے فارم کی شق 2کے شروع ہی میں لکھا تھا: I solemnly swear…..(میں حلفا قسم کھاتا ہوں……) اور اس کی ذیلی شق(i) میں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے پر ایمان رکھنے اور کسی بھی دوسرے فرد کو نبی تسلیم نہ کرنے کا اقرار تھا۔ نئے فارم میں شق 2ختم کر دی گئی تھی۔ اس کی جگہ پہلی شق کی تیسری ذیلی شق میں ختمِ نبوّت کا اقرار تھا مگر اس سے پہلے یہ جملہ کہ ’’میں حلفا قسم کھاتا ہوں‘‘ نکال دیا گیا تھا۔ ترمیم شدہ قانون میں صرف یہ رہ گیا تھا : ’’I believe….‘‘ اس کی حلفاً تصدیق ضروری نہیں رکھی گئی تھی۔ قانونی اعتبار سے اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اس طرح کے معاملے کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا، جب کہ غلط حلف بھرنے والے کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
اس ترمیم پر احتجاج ہوا، شور مچا، جو بالکل جائز اور عین اسلامی تھا اور ساتھ ہی آئینِ پاکستان کے مطابق بھی۔ یہاں حکومتی ارکان کی منافقت ظاہر ہونا شروع ہوئی۔ ریکارڈ گواہ ہے کہ بیشتر وزراء اس بات سے انکار کرتے رہے کہ ختمِ نبوّت کے قانون میں کوئی ترمیم کی گئی ہے۔ وزیر قانون ہوں یا دوسرے وزراء، سب کا ایک ہی دعویٰ تھا، حقیقت سے دور۔ جو کاغذ وہ کسی ٹی وی پر دکھاتے وہ بھی دروغ گوئی کی انتہا تھی۔ وزیر قانون کہتے: ’’دیکھ لیجیے، دونوں قوانین میں کوئی فرق نہیں ہے‘‘۔ ساتھ ہی وہ دو کاغذ لہراتے۔ دونوں کاغذوں پر کیا لکھا ہوتا تھا کوئی پڑھ نہیں پاتا تھا۔ مگر حقائق پوشیدہ نہیں رہے۔ سب کچھ سامنے آ گیا کہ کیا تبدیلی لائی گئی۔ بالآخر حکومت مجبور ہوئی اور اکتوبر کی پانچ تاریخ کو ایک اور ترمیم کے ذریعہ، ’’حلف‘‘ کا لفظ عنوان میں دوبارہ شامل کر دیا گیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی اور اسی لیے یہ شبہ تقویت پاتا ہے کہ اس میں معاملہ کے پس پشت کوئی سازش ہے۔
اس کی وجہ ہے۔ کیا صرف یہی ایک غلطی تھی جو حکومت اور ارکان پارلیمان کی اکثریت نے کی؟ ایسا نہیں تھا۔ الیکشن ایکٹ کے تحت اور بہت کچھ کیا گیا تھا اور وہ بھی سامنے آنا تھا، آیا۔ صرف حکومت کے بزرجمہر ہی یہ جھوٹا دعویٰ کرتے رہے کہ ختمِ نبوّت کے قانون کو درست کر دیا گیا۔ اس قانون کے ذریعہ آٹھ دوسرے متعلقہ قوانین منسوخ کیے گئے تھے۔ ان میں سے ایک وہ قانون تھا جس میں رائے دہندہ کو بھی ایک حلف دینا ہوتا ہے کہ وہ ختمِ نبوت پر ایمان رکھتا ہے۔ عام انتخابات آرڈر 2002ء میں یہ بھی کہا گیا تھا اگر کسی فرد نے مسلم رائے دہندگان کی فہرست میں اپنا نام درج کروا لیا ہے اور اس کے خلاف یہ شکایت کی جائے کہ وہ مسلمان نہیں ہے تو ریوائزنگ اتھارٹی اسے پندرہ دن میں طلب کر کے یہ حلف لے کہ وہ ختمِ نبوّت پر ایمان رکھتا ہے۔ دوسری صورت میں اس کا نام غیر مسلم کی فہرست میں درج کیا جائے گا۔ انتہائی سازشی خاموشی کے ساتھ یہ شق بھی انتخابی ایکٹ 2017ء کے ذریعہ نکال دی گی تھی۔ عجیب بات یہ ہے کہ پانچ اکتوبر کو جب انتخابی قوانین میں ترمیم کر کے حلف کا لفظ شامل کیا جا رہا تھا، وزیر قانون نے تسلیم کیا تھا کہ اس شق سے بھی تنازع پیدا ہو سکتا ہے۔ مگر اس شق کو بحال کرنے میں انھیں کوئی ڈیڑھ ماہ لگا اور سولہ نومبر کو ایک بار پھر ترمیم کر کے اس شق کو اصل شکل میں بحال کیا گیا۔
اس دوران بہت کچھ ہوتا رہا۔ ایک طرف تو کچھ لوگوں نے دارالحکومت میں احتجاجی دھرنا شروع کیا، جس کا بنیادی مقصد حکومت پر دباؤ ڈال کر ختمِ نبوّت کی شقوں کو بحال کروانا تھا، دوسری طرف یہ مطالبہ بھی تھا کہ اس بھیانک غلطی کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ اس سارے معاملے کو کسی اور طرح لیا گیا۔ احتجاجی تنظیم کے سربراہ کو سیاسی مخالف سمجھا گیا اور ان کے ساتھ اسی طرح کا برتاؤ کیا گیا۔ یہ رویہ درست نہ تھا، نہ ہے۔ ممکن ہے کہ احتجاج کرنے والوں نے جو زبان استعمال کی وہ تہذیب کے ان معیاروں کے مطابق نہ ہو جن پر اس حکومت کے وزراء عمل کرتے ہیں۔ احتجاج کرنے والوں کو بھی احتیاط کرنی چاہیے۔ ملک اس وقت جس مشکل میں ہے، اس میں اسے سنبھالنا سب کی ذمہ داری ہے۔ مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ اگر احتجاج نہیں کیا جاتا تو یہ حکومت ختمِ نبوّت کے قانون کو خاموشی کے ساتھ ختم کردیتی۔ اس بات کو اس حقیقت سے بھی وزن ملتا ہے کہ وزراء شروع میں کسی بھی غلطی کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے۔ بعد میں جو کچھ ہوا، اس پر وزیر داخلہ احسن اقبال کو خاص طور پر اور دوسرے وزراء کو بھی ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔ احسن اقبال ایک محترم اور معتبر مسلمان خاتون کی گود میں پلے بڑھے ہیں۔ انھیں پتہ ہو گا کہ کسی بھی شخص کا عقیدہ اس کا اور اﷲ کے درمیان ہے والے معاملے پر ان کے بزرگوں کا مؤقف کیا تھا؟
حالات میں بہت زیادہ کشیدگی آ چکی ہے۔ حکمرانوں میں اگر کچھ عقل باقی ہے تو وہ مثبت اقدامات کریں۔ اقدامات یہ نہیں کہ احتجاج کرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال کریں۔ اس سے حالات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ احتجاج کرنے والوں اور ان صائب الرائے افراد کا مشورہ مان لیا جائے جو وزیر قانون کی برطرفی چاہتے ہیں۔ ان میں پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف صاحب بھی شامل ہیں۔ راجہ ظفر الحق صاحب کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ اگر آ چکی ہے تو اسے عوام کے سامنے لایا جائے تا کہ اصل بات ظاہر ہو جائے۔ احسن اقبال پتہ نہیں کس گمان میں ہیں، کہتے ہیں کہ ایک سو چھبیس دن کمیٹیوں کا اجلاس ہوا تھا اور ہزاروں کاغذات دیکھنے ہوں گے تب حقیقت سامنے آ سکتی ہے۔ یہ بات درست نہیں۔ بات سب کے سامنے ہے۔ ذمہ دار تو بہت ہیں اور اﷲ کو جوابدہ بھی ہوں گے، فی الحال بہتر یہ ہے کہ وزیر قانون سے استعفیٰ لے لیا جائے اور آگ پر تیل چھڑکنے کی بجائے جذبات ٹھنڈے کیے جائیں۔
پس نوشت: کچھ اخبارات میں وزارت داخلہ کا ایک اشتہار شائع ہوا ہے۔ اس میں کئی غلط بیانیاں ہیں۔ مثلاً حلف نامہ کے عنوان کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’solemnly swear‘‘ کی جگہ ’’selemnly affirm‘‘ لکھا گیا تھا درست نہیں۔ عنوان میں یہ تھا ہی نہیں۔ اس میں سے ’’حلف‘‘ کا لفظ ہٹا دیا گیا تھا ، جو بعد میں شامل کیا گیا، جیسا کہ اوپر دیکھا جا سکتا ہے، منظور شدہ قانون اس کی تصدیق نہیں کرتا۔ اسی طرح یہ دعویٰ کہ عام انتخابات آرڈر 2002کے آرٹیکل 7Cاور 7Bمیں قادیانی ووٹر کے بطور مسلم ووٹر اندراج پر اعتراض کے لیے سال اور دن کی قید ختم کر دی گئی ہے، حقیقت کے بر عکس ہے۔ سولہ نومبر کو منظور شدہ قانون میں پندرہ دن کی شرط موجود ہے۔ وزارت داخلہ معاملات خراب کر رہی ہے، اب اس میں کوئی شبہ نہیں رہا۔ بہتر یہ ہو گا کہ وہ اپنا رویہ درست کریں اور اﷲ کے لیے اس ملک پر رحم کریں۔ ان کا معاملہ یہ قوم اﷲ پر چھوڑتی ہے۔ (مطبوعہ: روزنامہ جنگ، 24؍ نومبر2017ء)