سید محمد کفیل بخاری
قومی اسمبلی میں انتخابی قوانین بل کے حوالے سے حلف ختم نبوت میں مجرمانہ تبدیلی کے خلاف دینی قوتوں کے بھر پور احتجا ج نے حکومت کو پسپا ہونے پرمجبور کیا چنانچہ حلف نامہ ختم نبوت اور اس سے متعلقہ دفعات 7B اور 7C کو قومی اسمبلی اور سینٹ نے متفقہ طور پر اصل حالت میں بحال کردیا۔ حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ تحقیقات کر کے اس گھناؤنی سازش کے پوشیدہ کرداروں کو بے نقاب کیا جائے اور جن لوگوں نے آئین کے ساتھ مذاق اور کھلواڑ کیا انہیں سزا دی جائے۔ اس پر راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی بنائی گئی کہ وہ تحقیقات کر کے اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کرے چنانچہ کمیٹی نے اپنی رپوٹ حکومت کو پیش کردی جسے سرد خانے میں پھینک دیا گیا۔ اسی دوران 6 نومبر 2017ء کو تحریک لبیک نے فیض آباد چوک راولپنڈی پر دھرنا دے دیا اور مطالبہ کیا کہ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد استعفیٰ دیں، راجہ ظفر الحق رپورٹ منظر عام پر لائی جائے اور مجرموں کو سزا دی جائے جب تک مطالبات پورے نہیں ہوتے دھرنا جاری رہے گا۔
قطع نظر اس کے کہ تحریک لبیک کے قائد علامہ خادم حسین رضوی نے تنہا پرواز کی اور کسی بھی دوسری جماعت کو اعتماد میں لینے یا اپنے ساتھ شامل کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں نا مانوس زبان استعمال کی اور دیگر مقررین نے دھرنے کو مسلکی جنگ کی آگ کے شعلوں میں دھکیلنے کی پوری کوشش کی لیکن دیگر تمام دینی قوتوں نے ان کے اصولی مطالبات کی مکمل حمایت کی۔ زاہد حامد کے استعفے اور راجہ ظفر الحق رپورٹ افشاء کرنے سے یہ مسئلہ نہایت احسن اور پر امن طریقے سے حل ہو سکتا تھا لیکن نشۂ اقتدار میں بد مست حکمرانوں کی گردن میں تکبر وغرور کاجو سریا فٹ ہے اس نے ا ن کا دماغ خراب اور غور وفکر کی ساری صلاحیت مفلوج کردی ہے۔ مسلم لیگ نون کے افلاطونوں اور دانشوروں کی سوچ کو سات سلام جنہوں نے فیض آباد چوک کھلواتے کھلواتے پورا ملک بند کروا دیا اور حکومت کو بند گلی میں لا کھڑا کیا۔ ملک کی دینی وسیاسی قیادت نے انہیں لاکھ سمجھایا کہ تشدد کا راستہ اختیار نہ کیا جائے مذاکرات اور افہام وتفہیم سے مسئلے کا حل نکالا جائے اور طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے حتیٰ کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی طاقت کے استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا لیکن لیگی سقراطوں اور بقراطوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت دھرنا ختم کرانے کے لیے فوج طلب کرلی، فوج نے سرکاری تنصیبات کی حفاظت کی ذمہ داری تو قبول کی لیکن عوام کے خلاف طاقت کے استعمال سے انکار کرتے ہوئے معاملات مذاکرات کے ذریعے ہی حل کرنے کا مشورہ دیا۔ حکمرانوں نے تمام مشوروں اور تجاویز کے علی الرغم دھرنے کے خلاف طاقت کے استعمال کا فیصلہ کیا اور 25 نومبر کو آپریشن شروع کر دیا۔ ہر اعتبار سے یہ ایک احمقانہ فیصلہ تھا جس کے رد عمل میں ملک بھر میں دھرنے اور مظاہرے شروع ہوگئے۔ آپریشن فورسز کو پیچھے ہٹنا پڑا دھرنے کے شرکاء میں اضافہ ہوا، مظاہرین نے تمام بڑے شہروں کے داخلی وخارجی راستے بند کردیے، موٹر وے اور جی ٹی روڈ بھی بند کردیے گئے۔ جب کہ حکومت نے نیوز چینلز اور سوشل میڈیا بند کر دیا۔ پر تشدد واقعات میں ایک پولیس افسرسمیت سات افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ نوبت بایں جا رسید کہ دھرنا قیادت نے پوری کابینہ کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔
26 نومبر کو وزیر اعظم کی صدارت میں اہم اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی، وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب شریک ہوئے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک بار پھر طاقت کے استعمال سے گریز اور مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کا مشورہ دیا۔ بالآخر 27 نومبر رات گئے دھرنا قیادت سے کامیاب مذاکرات کے بعد ان کے دو اصولی مطالبات تسلیم کر لیے گئے۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد مستعفی ہوگئے اور راجہ ظفر الحق رپوٹ ایک ماہ کے اندر اندر عام کردی جائے گی۔ حکومت اور دھرنا قیادت کے مابین تحریری معاہدہ ہوا جس پر وزیر داخلہ احسن اقبال وفاقی سیکرٹری داخلہ ارشد مرزا، علامہ خادم رضوی، پیر افضل قادری اور میجر جنرل فیض حمید نے دستخط کردیے۔ یوں اکیس روزہ دھرنا اپنے منطقی انجام کو پہنچا۔ مذاکرات کی کامیابی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اہم کردار ادا کیا۔
اگر شروع میں ہی وزیر قانون زاہد حامد مستعفی ہوجاتے او رراجہ ظفر الحق رپورٹ عام کردی جاتی تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔ بے گناہ افراد جاں بحق ہوتے نہ قومی املاک کو نقصان پہونچتا۔ دھرنے کے پس منظر اور پیش منظر کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے لیکن ابھی صورت حال واضح ہونے میں کچھ وقت لگے گا غبار چھٹ جانے پر سب کچھ سامنے آجائے گا۔ تحریک ختم نبوت کی قیادت پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مستقل بنیادوں پر اپنے مشن پر کاربند اور جدوجہد میں مصروف ہے ہمیں عارضی اور ہنگامی حالات پر نظر ضرور رکھنی ہے اور ختم نبوت کے مشن پر اپنی آئینی اور پر امن جد وجہد بہر صورت جاری رکھنی ہے۔ دشمن عیار اور زخمی سانپ ہے وہ کسی بھی وقت پھر حملہ آور ہوسکتا ہے ہمیں اپنی قیادت پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے خطرات اور سازشوں سے باخبر رہتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچنا ہے۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کی ہر طرح سے حفاظت فرمائے اسلام اور وطن دشمنوں کے ناپاک ارادوں اور سازشوں کو ناکام ونامراد بنائے۔ آمین