مبصر : صبیح ہمدانی
نام : تفہیم البلاغہ اردو شرح دروس البلاغہ شارح: مولانا محمد یار عابد ضخامت: ۴۶۴ صفحات
قیمت: درج نہیں ناشر: ادارہ تالیفات ختم نبوت، ۲۸ غزنی اسٹریٹ ، اردو بازار، لاہور
درسی کتب کی شروح و حواشی لکھنے کی روایت خاصی پرانی ہے اور اس سلسلے میں لکھی جانے والی کتب ہماری علمی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔مگر یہ کام اپنے جوہر کے اعتبار سے ایک انتہائی مشکل اور خطر آمیز ہے۔ خصوصا اس زمانے میں جبکہ ہماری علمیت ایک عمومی سطحیت اور کم استعدادی کا شکار ہو چکی ہے، درسی کتب کی شروحات کے معیار کو بھی بہت تیزی سے زوال آیا ہے۔ مختلف اساتذہ اپنی زیرِ تدریس کتاب کے درسی امالی کو یکجا کر کے کتابی شکل میں شائع کر نے لگے ہیں، اور اس سلسلے میں قدر بواجب محنت و جستجو کا لحاظ بھی عام طور پر نہیں رکھا جاتا۔ کثرتِ تصنیف کا شوق علمیت کی پستی کا ایک مستقل سبب ہے۔ اگر آپ درسِ نظامی کے کسی محنتی مدرس سے ملیں تو وہ ان لا تعداد (روز افزوں) شروحات کی بے تحاشا اغلاط اور کمزوریوں پر شدید شکوہ کناں نظر آئے گا۔
ان سطور کا راقم ایک پیشہ ور طالب علم ہے اور اپنی شناخت پڑھنے پڑھانے میں ہی دیکھتا ہے۔ آج کل چھپنے والی بہت سی درسی شروحات سے نیاز مندانہ استفادہ کرتے ہوئے مجھے بے ساختہ وہ لطیفہ یاد آتا ہے جو غالباً صَرف پڑھاتے ہوئے میرے ایک عالی قدر استاد نے سنایا تھا، اس لطیفے کی تقریب یہ تھی کہ ایک ہم جماعت نے سبق پوچھنے پر استادِ محترم سے عرض کیا بس یہی مقام جو آپ نے استفسار فرمایا مجھے یاد نہیں باقی پوری کتاب ازبر ہے۔ استادِ گرامی نے فرمایا کہ صاحب خانہ کے جاگنے پر ایک چور کو بھاگنا پڑا، صاحب خانہ اس کے پیچھے پیچھے بھاگا، اور کرنا خدا کا یوں ہوا کہ عین اس وقت جب چور دیوار کو پھاندنے کے لیے اس پر چڑھ چکا تھا صاحبِ خانہ کا ہاتھ چور کی پنڈلی پر پڑ ہی گیا۔ چور نے بے ساختہ کہا:’’ اِتھاؤں نہ پکڑ، اتھائیں میکوں درد ہے‘‘ (بس یہیں سے مت پکڑ، یہیں مجھے ہاتھ لگانے پر درد ہوتا ہے)۔ اور صاحب خانہ نے گھبرا کر چھوڑ دیا۔
استشہاد یہ ہے کہ موجودہ درسی شروحات بھی بس ’’مقامات درد‘‘ کو ہی بیان نہیں کرتیں، ان مقامات کے سوا متون کے جتنے آسان اور غیر مغلق مباحث ہیں ان پر فصاحت و بلاغت کے دریا بہائے جاتے ہیں۔لیکن زیر نظر کتاب اس عمومی روش سے حیرت انگیز طور پر محفوظ نظر آتی ہے۔
دروس البلاغہ علم ِ بلاغت میں درسِ نظامی کی سب سے پہلی کتاب ہے۔ اس کتاب کے مصنفین نے جس زمانے میں اسے لکھا وہ مصر میں علوم کی تجدید کا ابتدائی عرصہ تھا۔ اس زمانے کی کتب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان میں قدیم اور روایتی کتب جیسی علمیت کا رنگ اور عبارت کی گہرائی و جامعیت بھی ملحوظ رکھی گئی، اور انحراف کا مادہ بہت کم تھا۔ غالباً اسی خصوصیت کی بنا پر اس کتاب کو دار العلوم دیوبند کے نصابِ درس میں مقام ملا اور پاکستان میں بھی یہ شاملِ درس ہے۔ چونکہ یہ کتاب درسِ نظامی میں اپنے فن کی پہلی کتاب ہے اس لیے اکثر طلبہ اپنے ذہن کی رفتار کو اس کے ساتھ ہم وقت کرنے میں دقّت محسوس کرتے ہیں۔ اس پر مستزاد اربابِ وفاق المدارس کا طرفہ فیصلہ یہ ہے کہ اس کتاب کا امتحان علم المنطق کی منتہی کتاب ’’قطبی‘‘ کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ عمومی طور پر ہمارے طالب علم بلاغت کے فن کی پہلی ہی اینٹ کج بیٹھنے کے سبب پورے فن ہی سے دلچسپی کھو بیٹھتے ہیں۔
ان سب مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے مولانا محمد یار عابد زید فضلہ نے بہت محنت سے کام لیا ہے۔ مولانا نے اس کتاب کو کئی برس پڑھایا ہے اور یہ شرح لکھنے کے دوران اپنے ہی بیان کے مطابق بازار میں دستیاب دیگر شروح سے بھی استفادہ کیا ہے۔ اس وجہ سے انھیں کتاب کے سبھی ’’مقامات ِ درد انگیز‘‘ اور شارحین کے ان سے عدم اعتناء کا ادراک بھی ہوتا رہا ہے۔
اس شرح کی نمایاں خصوصیات میں سے اس کی زبان کی سلاست اور اشعار کی نحوی ترکیب قابلِ ذکر ہیں۔ خاص طور پر نحوی ترکیب کے حوالے سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے دیار میں عبارات کی ترکیبِ نحوی کے حوالے سے ایک خاص نہج مروّج ہے جو عام طور پر عالمِ عرب یا دیگر اقطاع اسلام کے علما میں نظر نہیں آتا۔ فاضل شارح نے ہمارے اسلوب کے مطابق اشعار کی نحوی ترکیب کر کے بلا شبہ ایک اصیل و حقیقی کارنامہ سر انجام دیا ہے جس سے طلبہ و اساتذہ استفادہ کریں گے۔
نام کتاب: الشریعہ(اشاعت خاص: تذکارِ رفتگاں)۔ تحریر: مولانا زاہد الراشدی ضخامت:۷۹۲ صفحات
قیمت: ۵۰۰ روپے ناشر: مکتبہ امام اہلِ سنت، شیراں والا باغ ، گوجرانوالا
مولانا ابو عمار زاہد الراشدی مد ظلہ العالی اس زمانے کی زندہ اساطیر ہیں۔ ان کی شخصیت ہم اصاغر الاصاغر کے لیے بہت طریقوں سے مصدرِ تلقّی و استفادہ ہے۔ اس عمر میں ان کی تحریر و تقریر و تدریس پر مشتمل سرگرمیاں دیکھ کر ہماری نژاد کے نو واردانِ میدانِ بلابھی رشک کرتے ہیں۔ لا ریب ان کے اس تحرّک ِ بے پایاں کے پس منظر میں اصل قوت وہ توفیقاتِ الٰہیہ ہیں جو کسی نہ کسی حد تک بہر حال قبولیت اور مقبولیت کا اشارہ ہیں۔ اﷲ تعالی ان کی صحت و عافیت و رشد و ہدایت میں مزید برکات ارزانی فرمائیں۔
زیرِ تبصرہ کتاب ماہنامہ الشریعہ کی اشاعت خاص ہے جس میں تذکارِ رفتگاں کے موضوع پرمولانا زاہد الراشدی کی تحریرات کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ یہ تحریرات اگرچہ اپنی نہاد میں صحافتی اور ذاتی تعلق و تجربے کا رنگ لیے ہوئے ہیں مگر اس کے با وجود یہ جمشید کا وہ جام ہیں جس میں گذشتہ تقریبا نصف صدی کی تاریخ اپنے رجالِ کار کے روپ سروپ کی شکل میں منعکس ہو کر نظر آتی ہے۔یہ تراجمِ رجال و اعلام کا وہ جرعۂ آب ہے جس نے ہماری تاریخ کے ایک نہایت اہم دور کو جامۂ تحریر میں زندہ کر دیا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کم از کم میرے لیے ایک خوانِ حیرت کی ریزہ چینی تھی۔ راقم الحروف کے اجدادی خاندان کا تعلق اور ہمدردیاں ہمیشہ جمعیت علمائے اسلام سے رہی ہیں، اگر چہ اپنی کم فہمی کے باعث میں کبھی جمعیت کی سیاسی جدو جہد کو پوری طرح حیطۂ ادراک میں نہیں لا سکا مگر اکابرِ جمعیت سے احترام کا ایک لا شعوری رشتہ شروع سے رکھتا ہوں۔کتنے ہی نام جو بچپن میں خاندان کی گرما گرم سیاسی بحثوں میں سنے، کتنے ہی فیصلے، کتنی تقسیمیں، تنقیدات، واقعات، اعتقادات، آنسو اور مسرّتیں……(میں نے مولانا سید شمس الدین کی شہادت کو یاد کر کے روتے ہوئے اور حضرت مولانا ہزاروی اور مفتی محمود رحمہما اﷲ کے جملوں پر کئی بزرگوں کو بے تحاشا خوش ہوتے ہوئے دیکھ رکھا ہے)۔ جو حافظے کے نہاں خانے میں دفن تھے اچانک مجسم ہو کر سامنے آ گئے۔ کتاب میں تو انفاسِ عیسوی کی خاصیت ہے، مردوں کو زندہ کرتی ہے۔
میرے ایک نہایت عزیز دوست جو الشریعہ کی معاصر روش کے شدید ناقد اور مجلسِ ادارت سے شاکی ہیں، اس اشاعت خاص کو دیکھ کر کہنے لگے کہ الشریعہ نے زندگی میں پہلی بار کوئی اچھا کام کیا ہے۔ یہ رائے اگر چہ ایک خاص انتہا کا نتیجہ یا ردِّعمل ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ الشریعہ کی سب خاص و عام اشاعتوں میں زیرِ تبصرہ اشاعت یقینا ایک غیر معمولی مقام کی حامل ہے۔ کل کے مؤرخ کو اگر مولانا زاہد الراشدی کی کسی ایک کتاب کا انتخاب کرنا پڑا تو محال ہے کہ یہ کتاب چھوڑ کر وہ کسی اور جانب نظر کر سکے۔
جہاں تک اس کتاب میں شامل ان شخصیات کا ذکر ہے جن کے احوال و آثار پر مولانا نے قلم اٹھایا ہے، تو شاید ہے گذشتہ نصف صدی کی کوئی اہم شخصیت ایسی ہو جس کا کم یا زیادہ تذکرہ شامل ہونے سے رہا ہو۔ مولانا زاہد الراشدی کے اسلوب کے بارے میں ایک انکشاف اس کتاب کے مطالعے کے دوران یہ ہوا کہ گذشتہ نصف صدی میں ان کے اسلوب نے کوئی جوہری تبدیلی قبول نہیں کی۔ زمانی امتداد کے باوجود الفاظ کا چناؤ، لہجہ ، طرزِ بیان سب میں اس قدر یکسانی ہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔
جب یہ کتاب تبصرے کے لیے میرے پاس آئی تو رسالہ کی ترتیب ابتدا میں تھی ، اور اب جبکہ رسالہ پریس میں جانے کے لیے تیار ہے، مولانا سید عطاء المنان بخاری دام لطفہ مجھے تیسری بار کہہ چکے ہیں کہ آپ اس کو پڑھتے ہی جا رہے ہیں اب کچھ لکھ بھی دیجیے۔
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے قاری بالکل وجودی نوعیت کے سوالات سے دو چار ہوتا ہے۔ اگر آپ کا تعلق پاکستان اور ملت اسلامیہ کے وجود و شناخت کے کسی بھی پہلو سے ہے تو یہ کتاب آپ کے لیے انتہائی متعلق معلومات پر مشتمل ہے۔