(قسط:۱)
علامہ محمد عبداﷲ رحمۃ اﷲ علیہ
حرفِ آغاز:
پندھوریں صدی ہجری کے آغاز کے مبارک موقع پر اسلامی یونیورسٹی بہاول پور نے پاک سرزمین کو ایک گراں بہا علمی تحفہ ’’خطباتِ بہاول پور‘‘ کے نام سے دیا۔ یہ مجموعہ بارہ خطبات پر مشتمل ہے، جو ملتِ اسلامیہ کے نام ور اسکا لر جناب ڈاکٹر حمید اﷲ مرحوم نے یونیورسٹی کے غلام محمد گھوٹوی ہال میں دیے تھے۔ یہ اس وقت کے یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب عبدالقیوم قریشی کی ایک مستحسن اور قابل قدر کاوش تھی۔ کاش کہ یہ سلسلہ کچھ اور پھیلتا اور اُمت مسلمہ کے بعض دیگر اکابر اہلِ علم کے پاکیزہ خیالات سے بھی ملک و ملت کو استفادہ کا موقع میسر آتا، لیکن:لیس کل ما یتمنی المرء یدرکہ۔
ڈاکٹر صاحب موصوف، ایک بہت ہی شہرت یافتہ اسکالر ہیں اور ان کے یہ خطبات بڑے معلومات افزا ہیں، اس کے باوجود وہ جو عربی زبان کا ایک مقولہ ہے:’’ان لکل جواد کبوۃ ولکل صارم نبوۃ‘‘ (ہر تیز رفتار گھوڑا کبھی منہ کے بل گرتا ہے او رہر تلوار کبھی خطا کر جاتی ہے)۔ اس کے مطابق کوئی انسان ، خواہ علم و فضل میں وہ کتنا اونچامقام رکھتا ہو، اس سے غلطی سرزد ہوسکتی ہے۔ ماضی قریب میں ہم نے دیکھا کہ بہت سے تعلیم یافتہ نوجوان ڈاکٹر صاحب کے ان کے خطبات کو حوالہ کی کتاب قرار دیتے ہوئے ان سے استدلال اور استناد کرتے ہیں، مگر ہم ان خطبات کی یہ حیثیت تسلیم کرنے سے معذرت خواہ ہیں۔ کیوں ؟ یہی ہم آج کی فرصت میں قارئین کو بتانا چاہتے ہیں۔ایک مرتبہ ہم پھر گزارش کردیں کہ ہمارا مطمح نظر تنقید برائے تنقید قطعاً نہیں ہے۔ میں دل سے ڈاکٹر صاحب کی قدر کرتا ہوں اور ان کے علمی و تحقیقی کام کو انتہائی وقعت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ آئندہ گزارشات سے مقصود ، محض تحقیقِ حق ہے۔ اِنَّہُ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفیٰ۔
واقعہ یہ ہے کہ بے شک ڈاکٹر صاحب، ایک وسیع النظر فاضل ، اسلامی قانون کا کافی مطالعہ رکھتے ہیں، ایک بلند پایہ مؤرخ بھی ہیں، لیکن ان کا یہ مقام تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ انھیں صفِ اول کے فقہاءِ اُمت میں لا کھڑا کیا جائے۔ علم حدیث میں تبحر اور مہارت تو دور کی بات ہے، ان پر ایک ’’محدث‘‘ کا اطلاق بھی شاید ہی ہوسکے۔ حدیث کے طلبہ، محدث ، حافظہ ، حجۃ اور حاکم کی فنی اصطلاحات سے بخوبی واقف ہیں، ہماری آئندہ گزارشات ان پر واضح کریں گی کہ علم حدیث میں ڈاکٹر صاحب کا کیا پایہ ہے۔ اور یہ کہ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں ہماری رائے کسی تنگ نظری یا ’’مولویانہ بخل‘‘ پر مبنی نہیں ہے، بلکہ علوم دینیہ سے خیر خواہی کا مقتضا ہے۔
واللّٰہ علی مانقول وکیل
کیا عورت مردوں کی امام بن سکتی ہے؟:
جناب ڈاکٹر صاحب اس سوال کا جواب ’’ہاں‘‘ میں دیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
’’حضرت اُمِ ورقہ رضی اﷲ عنہا کو رسول اﷲ نے ان کے محلے اھل دارھا نہ کہ اہل بیتھا کی مسجد کا امام مامور فرمایا تھا جیسا کہ سنن ابی داؤد اور مسند احمد بن حنبل میں ہے اور یہ بھی کہ ان کے پیچھے مرد بھی نماز پڑھتے تھے اور یہ کہ ان کا موذن ایک مرد تھا۔ ظاہر ہے کہ مؤذن بھی بطور مقتدی ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہوگا۔‘‘ (خطبات، طبع چہارم، ص:۳۵)
آگے چل کر خطبہ نمبر ۱۲ میں سوال نمبر ۵ اور اس کا جواب بھی قابلِ ملاحظہ ہے:
’’سوال: حضرت اُم ورقہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے گھر کی عورتوں کا امام بنایا تھا۔ کیا عورت صرف عورتوں کی امامت کرسکتی ہے۔ مردوں کی نہیں؟
جواب: میں اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کہ صرف عورتوں کے لیے امام بنایا گیا تھا۔ حدیث میں یہ الفاظ ’’اھل خاندان کے لیے‘‘ اھل کے معنی صرف عورتوں کے نہیں ہوتے۔ پھر اس حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے کہ ان کا ایک موذن تھا، جو ایک مرد تھااور مزید تفصیلات بھی ملتی ہیں کہ ان کے غلام بھی تھے۔ ظاہر ہے کہ غلام ان کی امامت میں ہی نماز پڑھتے ہوں گے۔ غرض یہ کہ امامت صرف عورتوں کے لیے نہیں تھی بلکہ مردوں کے لیے بھی تھی۔‘‘ (خطبات، ص:۴۲)
جنا ب ڈاکٹر صاحب کے ارشادات کا جائزہ لینے سے پہلے ہم قارئین سے عرض کرتے ہیں کہ وہ نگاہ کو اور گہرائی تک لے جائیں، شریعتِ مقدسہ کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کریں اور پھر دیکھیں کہ کیا عورت کا مردوں کے لیے امام بننا ، شریعت کے لطیف او رپاکیزہ مزاج سے کوئی میل کھاتا ہے۔
شریعت ِمقدسہ کا عمومی مزاج اور عورت کی امامت:
اس سلسلے میں ہم قارئین کی توجہ تین نکات کی طرف مبذول کرائیں گے:
پہلا نکتہ:
اگر عورت مسجد میں جا کر مردوں کی امام بن سکتی ہے تو یقینا جہری نمازوں میں قرات بھی جہراً کرے گی اور نماز جہری ہو یا سری ، تکبیرات تو یقینا بلند آواز سے کہے گی ۔ جب یہ سب کچھ اس کے لیے روا ٹھہرا تو پھر اس کے اذان خود کہنے میں رکاوٹ کیوں ہوتی اور کسی مرد کو اس کے لیے موذن مقرر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ شریعت تو یہاں تک حکم دیتی ہے کہ اگر نماز میں امام سے کوئی بھول چوک ہوجائے تو مرد سبحان اللّٰہ کہہ کر آگاہ کریں اور عورت ایک ہاتھ کی ہتھیلی دوسرے ہاتھ کی پشت پر مار کر مطلع کرے۔ التسبیح للرجال والتصفیق للنساء (بخاری ومسلم، ج:۱،ص:۱۸۰،وغیرہ) جو عورت غلطی بتانے کے لیے مردوں کی جماعت میں زبان سے سبحان اﷲ نہیں کہہ سکتی ، وہ آگے کھڑی ہو کر تکبیرات کہے گی اور قرأت کرے گی؟ عقلِ سلیم کیا کہتی ہے؟
دوسرا نکتہ:
حدیث کی تمام معتبر کتابوں (بخاری باب الصلوٰۃ ،حدیث نمبر ۳۸، مسلم ج:۱،ص:۲۳۴ وغیرہ) میں ایک واقعہ آیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم بی بی اُم سُلَیْم انصاریہ رضی اﷲ عنہا کے گھر تشریف لے گئے۔ وہاں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی تو حضرت انس رضی اﷲ عنہ اور ان کا چھوٹا بھائی، حضور صلی اﷲ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنہا اپنے ان دونوں بیٹوں کے پیچھے کھڑی ہوئیں، ’’صففت اناوالیتیم ورۂ والعجوز من ورائنا‘‘۔(ترمذی، ج:۱، ص:۵۵) تو شریعتِ مطہرہ کی نازک مزاجی اور احتیاطی پسندی اس بات کی روادار نہیں ہے کہ بوڑھی ماں اپنے بیٹوں کے ساتھ صف میں کھڑی ہوجائے۔ کیا وہ اس بات کی اجازت دے گی کہ عورت، مردوں کی امام بن کر آگے کھڑی ہو؟ حاشا وکلّا۔
تیسرا نکتہ:
شریعت مقدسہ تو یہاں تک حکم دیتی ہے کہ عورت کا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے، کمرے میں نماز پڑھنا بہتر ہے اور کمرے کے کسی گوشے میں نماز ادا کرنا کھلے کمرے میں ادا کرنے سے بہتر ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:
’’ صلا تھا فی مخدعھا افضل من صلا تھا فی بیتھا‘‘ (ابوداؤد، ج:۱، ص:۹۱)
شریعت عورت کو یہاں تک حجاب اور پردے میں دیکھنا چاہتی ہے ، مگر ڈاکٹرصاحب اسے محلے کی مسجد میں مردوں کے آگے کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ فواعجبا
بہ بیں تفاوتِ راہ از کجاست تا بکجا؟
اب ہم ڈاکٹر صاحب کے ارشادات کا جائزہ لیتے ہیں:
۱۔ وہ فرماتے ہیں: ام ورقہ رضی اﷲ عنہا کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے محلے کی مسجد کا امام مامور فرمایا تھا۔
ہم نے سنن ابی داؤد اور مسند احمد (جن سے روایت لی گئی ہے) کو کھول کر ان کا ایک ایک لفظ بغور پڑھا، مگر ہمیں نہ کہیں محلے کا لفظ نظر آیا نہ مسجد کا۔
۲۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ تکنیک بڑی با مقصد اور حیرت انگیز ہے کہ پہلے تو وہ ایک مفروضہ کو شک وارتیاب کے انداز میں بیان کرتے ہیں پھر یک لخت ترقی کر کے وہ اسے یقین کا درجہ دے دیتے ہیں۔ ان کے فرمان کے یہ جملے ملاحظہ ہوں:
’’ان کا مؤذن ایک مرد تھا۔ ظاہر ہے کہ مؤذن بھی بطور مقتدی ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہوگا۔ ان کا ایک مؤذن تھا، جو ایک مرد تھا اور ان کے غلام بھی تھے۔ ظاہر ہے کہ غلام ان کی امامت میں نماز پڑھتے ہوں گے۔ غرض یہ کہ امامت صرف عورتوں کے لیے نہیں تھی، بلکہ مردوں کے لیے بھی تھی۔‘‘ (حوالہ اوپر گزر چکا ہے)
ملاحظہ فرمایا آپ نے؟ کس طرح پیشہ ور مناظروں کی طرح ڈاکٹر صاحب نے ’’ہوگا‘‘ اور ’’ہوں گے‘‘ کو ’’تھا تھی‘‘ میں تبدیل کردیا۔ ایک محقق آدمی، اصحاب الجدل کی روش کیوں اختیار کرتا ہے؟
۳۔ شروع میں جو اقتباس دیا گیا ہے، اس میں آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب، سنن ابی داؤد اور مسند احمد کا حوالہ دینے کے بعد معاً ہی یہ فرماتے ہیں کہ: اور یہ بھی کہ ان کے پیچھے مرد بھی نماز پڑھتے تھے، حالانکہ ان کتابوں میں ان الفاظ کا کوئی نشان تک نہیں ہے۔ یہ محض اضافہ ہے جو موصوف کی علمی دیانت اور ثقاہت کو مجروح کرتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’اور مزید تفصیلات بھی ملتی ہیں کہ ان کے غلام بھی تھے۔‘‘
لیکن زیرِ بحث روایت میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ صرف ایک غلام کا ذکر ہے، غلاموں کا نہیں۔ممکن ہے ڈاکٹر صاحب نے اور کہیں سے لیا ہو۔ ہم روایت کے الفاظ مع ترجمہ نقل کردیتے ہیں۔ قارئین خود پڑھ کر اطمینان فرمالیں۔
’’قال وکانت قد قرأت القرآن فاستأذنت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان تتخذ فی دارھا مؤذناً فأذن لھا۔ قال وکانت دبّرت غلاماً و جاریۃً، فقاما الیھا باللیل، فغمَّا ھا بقطیفۃٍ لھا، حتی ماتت وذھبا۔‘‘(سنن ابی داؤد، ج:۱،ص:۹۴)
ترجمہ: ’’راوی کہتا ہے ، ام ورقہ نے قرآن پڑھ رکھا تھا، تو انھوں نے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ اپنے گھر میں مؤذن مقرر کرلیں، توآپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی۔ راوی مزید کہتا ہے کہ اس نے ایک غلام اور ایک لونڈی کو مدبر بنالیا تھا۔ انھوں نے رات کو اٹھ کر اس کی چادر سے اس کا گلا گھونٹ دیا، حتی کہ وہ مر گئی اور وہ دونوں چلے گئے۔ ‘‘
(آگے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا نھیں تلاش کرواکے انھیں سزائے موت دینا بھی مذکور ہے)
سنن ابی داؤد کے اسی باب میں دوسری روایت ان الفاظ سے آئی ہے:
’’وجعل لھا موذناً یوذن لھا۔ وامرھا ان تَؤُمّ اھل دارھا۔‘‘(سنن ابی داؤد، ج:۱،ص:۹۵)
ترجمہ: ’’آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک موذن اس کے لیے مقرر کردیا جو اس کے لیے اذان کہہ دیتا اور اسے اجازت دی کہ اپنی اہل خانہ کی امام بن جایا کرے۔‘‘
اب آپ فرمایے کہ اوپر کے خط کشیدہ الفاظ( کہ ان کے پیچھے مرد بھی نماز پڑھتے تھے) آپ کو کہیں نظر آتے ہیں؟ جب نہیں ہیں تو ہوا میں محل تعمیر کرنے کی کیا تک بنتی ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ دونوں روایتوں کے الفاظ ’’فی دارھا‘‘ اور ’’لھا‘‘ خود یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ خاتون گھر میں عورتوں کی جماعت کراتی تھیں اور مؤذن گھر میں اذان کہہ کر چلاجاتا تھا۔ نماز وہاں ادا نہیں کرتا تھا جیسا کہ چند سطور بعد خود حدیث شریف سے یہ حقیقت واضح ہوجائے گی۔
ایک عجوبہ:
ہماری طرح قارئین کو بھی شاید یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ’’دار‘‘ کے اصلی معنی ’’گھر‘‘ کے ہیں جو چاردیواری سے گھرا ہوا ہو۔ قرآن پاک میں کم و بیش تیس مرتبہ یہ لفظ آیا ہے۔ دارالآخرۃ ، دارالسلام،دارالقرآن، دارالخلد وغیرہ وغیرہ اور ہر جگہ گھر کے معنی مراد ہیں۔ ڈاکٹرصاحب نے پہلے تو سیع یہ فرمائی کہ دار سے مراد محلہ لیا۔ پھر اس کے ساتھ مسجد کا لفظ بڑھایا۔ بعدازاں مستورات کے ساتھ مردوں کو شامل کیا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی شرعی دلیل کے بغیر یہ توسیع در توسیع کس ضرورت کے پیش نظر فرمائی گئی؟
حقیقت حال، ڈاکٹر صاحب کے تصور کے برعکس:
ڈاکٹر صاحب نے تو ’’ہوگا‘‘ اور ’’ہوں گے‘‘ کے الفاظ کو ’’تھا‘‘ اور ’’تھی‘‘ کا لباس پہنا کر ایک رائے قائم فرمالی اور ڈنکے کی چوٹ اس کا اعلان فرمادیا۔ لیکن اگر وہ کتبِ حدیث کو مزید کھنگالنے کی زحمت فرماتے تو انھیں اپنی غلطی کا علم ہوجاتا اور پھر ان شکوک اور ظنون کی کوئی گنجائش باقی نہ رہ جاتی۔
سنن دار قطنی میں خود حضرت ام ورقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے:
’’ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اَذِنَ لَھَا اَن یُّؤَذَنَ لھا ویُقَامَ وتَؤُمَّ نساء ھا۔‘‘
(سنن دار قطنی، باب: ذکر الجماعۃ)
ترجمہ: ’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے اجازت دی تھی کہ اس کے لیے اذان اور اقامت کہی جائے اور وہ اپنی عورتوں کی امامت کرائے۔‘‘
فرمایے ، مسئلہ حل ہوگیا؟ حضرت ام ورقہ رضی اﷲ عنہا کس کی امام بنتی تھیں؟ عورتوں کی یا مردوں کی؟ راقم السطور کو اپنی علمی کم مائیگی کا اعتراف ہے، پھر کتابی ذخیرہ بالکل محدود سا ہے۔ ممکن ہے ’’تَؤم نساء ھا‘‘ کا جملہ حدیث کی دیگر کتابوں میں بھی منقول ہو مگر اس وقت تک یہ جملہ معتبر سند کے ساتھ صرف دار قطنی میں ملا ہے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ جہاں تک نفسِ مسئلہ کا تعلق ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ فقہ و حدیث اس پر متفق ہیں چنانچہ محدث ابن خزیمہ رحمتہ اﷲ علیہ اپنی صحیح میں حدیث اُم ورقہ کو نقل کرتے ہوئے عنوان قائم فرماتے ہیں:
’’باب امامۃ المرأۃ النساء فی الفریضۃ‘‘
ترجمہ: ’’عورت کا فرض نماز میں عورتوں کی امامت کرانے کا بیان‘‘۔ (ص:۸۹، ج:۳)
ہمیں یقین ہے کہ اگر ایسی عبارات، ڈاکٹر صاحب کے سامنے ہوتیں تو وہ علماءِ اُمت کے متفق علیہ مسئلہ کے خلاف کوئی رائے قائم نہ فرماتے۔
عورتوں کے لیے مردوں کا امام بننے کی صریح ممانعت:
حضرت ام ورقہ رضی اﷲ عنہا کی روایت پر خاصی بحث ہوچکی ہے، اخیر میں ہم نفس مسئلہ کے بارے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک فرمان نقل کرتے ہیں جو اس عنوان پر نصِّ صریح کی حیثیت رکھتا ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لا تؤمن امرأۃ رجلا۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، ص:۷۷)
ترجمہ: ہر گز کوئی عورت کسی مرد کی امام نہ بنے۔
اس حدیث کی سند میں مقال ہے، مگر علماءِ امت کی طرف سے تلقی بالقبول پائی جاتی ہے، چنانچہ حافظ ابن تیمیہ کے جد امجد ،مجد الدین ابن تیمیہ رحمتہ اﷲ علیہ نے اسے منتقی الاخبار میں، علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اﷲ نے بلوغ المرام میں، نواب صاحب بھوپالی رحمہ اﷲ نے عرف الجادی میں اسے نقل کیا ہے۔
اس فرمان کا دو ٹوک فیصلہ ہے، لہٰذا یوں ہوگا، ووں ہوگا‘‘ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔
ایک اور حدیث شریف میں بھی رکاوٹ کی واضح دلیل ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمایا:
’’اخروھن حیث اخرھن اللّٰہ۔‘‘ (مشکوٰۃ ص:۴۴۴)
ترجمہ: تم انھیں پیچھے رکھو کیونکہ اﷲ نے انھیں پیچھے رکھا ہے۔‘‘
ارشاد گرامی کے یہ الفاظ مطلب میں بالکل واضح ہیں۔ مزید کسی تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔
بہت ممکن ہے کہ خواتین کے بارے میں ضرورت سے زیادہ فراخ دلی ڈاکٹر صاحب میں یورپ کی بودوباش سے آگئی ہو، ورنہ تو ڈاکٹر صاحب ایسی باتیں نہ ارشاد فرماتے، جو حدیث شریف میں نہ تو صراحتاً مذکور ہیں نہ اس سے مفہوم ہوتی ہیں۔ اگر شریعت میں کوئی حکم عورتوں کے لیے مردوں کی امامت کے جواز کا آجاتا تو ماوشما کو قطعاً اس پر اعتراض کا حق نہ ہوتا۔ یقینا ائمہَ دین اس کے قائل ہوتے، کتب فقہ میں اس کا ذکر ہوتا اور امت میں اس پر عمل کی مثالیں نظر آتیں ، جب کہ کتابوں میں معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے، ایک حوالہ آپ بھی پڑھ لیجیے۔
’’کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعۃ‘‘ چودھویں صدی ہجری میں لکھی گئی ایک نہایت ہی عمدہ تصنیف ہے۔جس میں مصنف نے چاروں فقہی مسلک بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمائے ہیں۔ علماء اس کو ایک حوالہ کی کتاب مانتے ہیں اور اس پر اعتماد فرماتے ہیں۔ اس کی چند سطروں کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’امامت کی شرطوں میں سے ایک شرط امام کا مرد ہونا ہے۔ توعورتوں اور خنثیٰ کا امام بننا اس صورت میں درست نہیں ہے جب کہ مقتدی مرد ہوں۔ اگر مقتدی عورتیں ہوں تو ان کا امام بننے کے لیے مرد ہونا شرط نہیں۔بلکہ عورت،عورت کی امام بن سکتی ہے۔ تین ائمہ (امام ابوحنیفہ ، اما شافعی اور امام احمد رحمہم اﷲ) اس پر مفتق ہیں۔ مالکیہ کا اس میں اختلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں:
عورت اور خنثیٰ امام نہیں بن سکتے ،نہ مردوں کے لیے نہ عورتوں کے لیے، نہ فرض نماز میں نہ نفل میں۔ ان کے نزدیک امام کا مرد ہونا ہر حالت میں شرط ہے۔ مقتدی کوئی بھی ہو۔‘‘ (کتاب الفقہ ج:۱،ص:۳۷۲)