راشد الخیری
ماں کا خط
بیٹی! ہر مزی بیگم کو ماں کی طرف سے بہت سی دعائیں
تمہارا خط آئے پانچواں دن ہے۔ روز ارادہ کرتی تھی کہ جواب لکھوں مگر گھرکے دھندوں سے چھٹکارا ہی نہیں ہوتا۔ا دھر ماماؤں کی جھک جھک پٹ پٹ ادھر بچوں کی چیخم دھاڑ اور سب سے زیادہ تمہارے ابا جان کی علالت غرض دن اسی جھگڑے میں ختم اور صبح اسی چکر میں شام ہوجاتی ہے۔ آج نماز پڑھتے ہی صبح صبح خط لکھنے بیٹھ گئی۔ خدا کرے پورا ہو جائے۔ کیا کروں سیدھی آنکھ کی عجیب کیفیت ہے۔ ایک سطر لکھوں یا ٹانکا بھروں دھل دھل پانی بہنے لگتا ہے۔ ممیرے کا سرمہ ، نیم کا کاجل، لاہور کا شب چراغ، دہلی کا تریاق بصر، المختصر سب کچھ لگا چکی۔ فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ ہی ہاتھ پاؤں تھے یہ ہی آنکھیں یہ ہی دن تھے اور یہ ہی راتیں چھ چھ سات سات گھنٹے میں مردانی قمیصیں اٹھائی ہیں آج گز بھر کی ترپائی کو دوسروں کی محتاج ہوں!حیرت اور اچنبھا نہیں زندگی کے آسمان پر اعضاء انسانی چاند کی طرح بڑھ اور گھٹ کر دیکھنے اور سمجھنے والوں کو بہت کچھ سمجھا اور بتا رہیں۔ جس گھر میں کل چودھویں رات کا چاند چمک دمک کر درو دیوار کو منور کر رہا تھا آج وہی گھر ہے اور وہی چاند مگر قمر ہلال ہوگیا۔ اور جس انگنائی میں چادر مہتاب بچھی ہوئی تھی وہاں اندھیرا گھپ پڑا ہوا ہے۔ وہ بھی ایک وقت تھا کہ یہ جسم اور ہاتھ پاؤں سخت سے سخت محنت پر بھی تھکنے کا نام نہ لیتے تھے اور یہ بھی ایک دن ہے کہ دو قدم چلنے سے سانس پھول جاتا ہے۔ مگر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ طاقت میں نقاہت اور صحت میں علالت یاد رہی ۔جوانی کی راحت میں بڑھاپے کی زحمت پیش نظر اور شب ماہ میں شب سیاہ آنکھ کے سامنے تھی۔ یہ آنکھیں جو اب ناکارہ ہیں کام کے وقت اپنے سوا دوسروں کے بھی کام آئیں اوریہ قوت جو چند روزہ مہمان تھی میرے ہی واسطے نہیں ان کمزوروں کے لیے بھی تھی جو ہر قوت سے محروم ہوچکے تھے۔
مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ تم نے اس تین سال میں اپنے شوہر کے پاس رہ کر اپنی محنت اور ان کی عنایت سے لکھنے پڑھنے کی کمی پوری کرلی اور خدا نے تم کو اس قابل کردیا کہ زنانہ مدرسہ کے سالانہ جلسہ میں تمہاری تقریر سب نے پسند کی۔
بیوی ہم تو تعریف سن کر خوش ہونے والے ہیں۔ تم ہم سے ہزاروں کوس دور رہو اور برسوں صورت نہ دکھاؤ مگر دعا گو ہیں۔ اﷲ تم کو اپنے گھر میں خوش اور بامراد رکھے۔ یہ ہی ہماری آرزو اور دعا ہے۔ اب ماشاء اﷲ خود صاحب اولاد ہو خدا تمہاری مامتا ٹھنڈی رکھے اب اس کی قدر ہوجائے گی۔
تم نے لکھا اور میں نے پڑھا۔ تم نے کہا اور میں نے سمجھا کہ تمہارے میاں کہتے ہیں ہم نے تمہاری تعلیم میں کسر رکھی اور جو کام ہمارے کرنے کا تھا وہ انھوں نے کیا۔ میری طرف سے ان کو بہت دعا کے بعد کہہ دینا کہ کنواری بچیاں ماں باپ کے پاس شوہروں کی امانت ہیں اور وہ ذمہ دار ہیں کہ لڑکی وداع کرتے وقت عصمت کے بیش بہا زیور سے پوری طرح آراستہ ہو۔ ان کا فرض اولین ہے کہ اس جوہر کی حفاظت میں وہ اپنی اور اس کی ہر قربانی کو جائز سمجھیں۔ جس ملک میں اور جس قوم میں آج کل کے سے مسلمان آباد ہوں وہاں ماں باپ کو پھونک پھونک کر قدم دھرنا ہے۔ تعلیم کیا اگر خدائی ہو تو عصمت کے مقابلہ میں ہیچ ، جہاں احتمال کا گزر بھی ممکن ہے وہاں ماں باپ بچی کو بھیجنے سے مجبور ہیں۔ احتمال نہ بھی ہوتو احتیاط کا تقاضہ بھی کچھ وقعت رکھتا ہے۔میرا فرض تھا کہ میں ایک لمحہ کے واسطے بالخصوص جب تم سیانی ہوگئیں اپنی آنکھ سے اوجھل نہ کروں۔ الحمداﷲ کہ میں اس فرض کی ادائیگی پر خوش ہوں۔ مجھ کو جتنا آتا تھا میں نے تم کو پڑھایا، جہاں تک ہمارے امکان میں تھا استانیاں تلاش کیں، البتہ ہم نگاہ سے علیحدہ کرنے میں مجبور رہے۔ حاشاو کلّا میرا منشا ان بھولی بھالی بچیوں پر اعتراض کرنا نہیں جو اپنے عزیز وطن اور شفیق والدین سے کوسوں دور تعلیم پا رہی ہیں۔ لیکن میں اپنی عادت سے مجبور اور طبیعت سے لاچار ہوں۔ مگر یہ واقعہ ہے کہ اس مجبوری میں تمہاری محبت نہیں صرف عصمت کی وہ وقعت تھی جس کے بعد نہ ماں باپ کو زندہ رہنے کا حق ہے نہ لڑکی کو۔ مجھے ڈر ہے کہیں اس تحریر سے تم غلط فہمی میں نہ مبتلا ہو جاؤ میں تعلیم نسواں کو تم سے زیادہ ضروری سمجھتی ہوں میری رائے ہے میرا عقیدہ ہے میرا ایمان ہے کہ بغیر اس کے قومی ترقی مشکل محال نا ممکن مگر عصمت اس سے زیادہ بہت زیادہ بدر جہا زیادہ ضرورت ہے کہ ہر مرد اور ہر عورت اس ضرورت کو محسوس کرے اور اس کوشش پرکمربستہ ہو کہ ہر شہر میں ہر تحصیل میں ہر گاؤں میں ایسے مدارس اور ایسے مکتب کھولے جائیں جہاں لڑکیوں کی تعلیم ماں باپ کی آنکھ کے سامنے ہو اور اگر چہ یہ مشکل ہے، دقت ہو گی تاخیر ہوگی تو موجودہ مدارس کی باگ ان بیویوں کے ہاتھ میں ہو جو صرف تعلیم یافتہ ہی نہیں نماز روزہ کی بھی پابند ہیں۔ ان کی زبان نہیں طرز عمل ماں باپوں کو یہ یقین دلادے کہ ہم تم سے زیادہ بچیوں کی عصمت کی محافظ ہیں اور کسی ناجائز خبر نہیں افواہ کی شہرت سے قبل ذمہ دار بیوی کی خبر موت یقینی ہے۔
میں پھر ڈرتی ہوں کہیں الٹی بات نہ ہو جائے خدا شاہد ہے مجھے موجودہ مدارس کی شکایت نہیں۔ دراصل علم ہی نہیں شکایت کیا کروں گی لیکن ایک خیال ظاہر کرتی ہوں کہ مدرسوں کی حالت ایسی ہو اور مدرسہ والیوں کی کیفیت ایسی۔
مجھے یہ پڑھ کر واقعی افسوس ہوا کہ جس دودھ سے تم پلیں جس گھر میں تم رہیں جس طریقہ سے تم بڑھیں اور جس ڈھنگ سے تم اٹھیں وہ سب تمہاری رائے میں قابل ترمیم ہیں پردہ کی رسم ختم ہو۔ آزادی کے قدم آگے بڑھیں پرانے طریقے مٹادئیے جائیں، نئی رسمیں جاری ہوں۔ خدا کی شان ہے ایک تین ہی سال میں تمہارے خیالات اتنا پلٹا کھا گئے اور یورپ کا جن ایسا سر پر سوار ہوا کہ رگ رگ سے وہی صدا نکل رہی ہے۔
تم تو ماشاء اﷲ تعلیم یافتہ ہو، میں بچاری جاہل، مگر تم کو کچھ دنیا کی خبر بھی ہے اس ترقی اور آزادی نے دنیا میں کیا تہلکہ مچا دیا۔ آج لندن کی عدالت میں طلاق کے دو ہزار دعوے دائر ہیں۔ یہ صرف ایک عدالت کا حال ہے چھوٹی چھوٹی کچہریاں اور فیصلے جو آئے دن یہ جھگڑے چکاتے رہتے ہیں الگ رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خود عیسائی چیخ اٹھے ہیں کہ ہمارے گرجا ان خطرات کے انسداد سے قاصر ہیں اور ہمارا عیسائی قانون اچھی خاصی بھلی چنگی پاک و صاف عورت کو آوارگی کی طرف دھکیلتا ہے۔
میں جن مقدمات کا ذکر کر رہی ہو ان میں سب سے زیادہ ہولناک واقعات وہ ہیں کہ فوجی افسر لڑائی کے بعد گھر لوٹے تو معلوم ہوا کہ بیوی ایک دوسرے گھر کی گھر والی ہیں۔ میرا تمہارا رشتہ ایسا ہے کہ جو کہنا چاہتی ہوں وہ نہیں کہہ سکتی۔ مگر میں تم کو ہورپشو بٹوئمی ایم بی کے اس مضمون کی طرف متوجہ کرتی ہوں جو اسی مہینہ میں شائع ہوا ہے۔ جس میں اس شیدائے وطن کی فریاد نے پڑھنے والوں کے کلیجے دہلا دیئے ہیں۔ اس نے اپنے قانون کی کمزوری اور عیوب کا دکھڑا یہاں تک رویا کہ صاف صاف کہہ دیا کہ
’’پارلیمنٹ کے ایک معزز ممبر کو محض قانون کی خرابی کے باعث ایک شادی سے بچنے کے لیے عدالت کو دھوکا دینا پڑا۔ باوجود یہ کہ وہ نہایت نیک آدمی تھا۔ مگر اس شادی سے جو بلا کی طرح اس کے پیچھے چمٹ رہی تھی محفوظ رہنے کے لیے اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ اس نے بد چلن ہونے کا اقرار کر اپنا پنڈ چھڑایا۔
خدا اپنی قدرت دکھاتا ہے کہ مذہب کے دین فطرت ہونے کا غیر اقرار کر رہے ہیں اور اپنے اس سے ہزاروں کوس دور بھاگیں۔ اس مضمون میں جس کا ذکر کر رہی ہوں۔ قانون اور مذہب رسم اور رواج نے جو آفتیں بپا کی ہیں اس کا علاج بالآخر یہی سمجھ میں آیا ہے کہ مقدس اسلام کے زریں احکام کے سامنے سرجھکادیا۔
درود اور سلام طیبہ میں آرام کرنے والی اس مقدس ہستی پر جس کی نبوت کا اقرار آج چودہ صدی بعد دنیا اس طرح کر رہی ہے!
جب چمن میں کوئی پھول مرجھاتا ہے تو کلیاں آپس میں کہتی ہیں جو دن اس پر گزر گیا وہ ہمارے واسطے آنے والا ہے۔ بیٹی جو وقت مجھے پر گذر رہا ہے وہ تمہارے واسطے آئے گا۔ تمہاری طرح جوانی کی بہار اور دنیا کا لطف میں بھی دیکھ چکی اور میری طرح اعضا کا انحطاط اور بڑھاپے کی آفت تم کو دیکھنی ہے ضرورت ہے کہ جس ط رح میرا سینہ کلمۂ توحید سے جگمگا رہا ہے اور میں اس امانت کو لے کر خدا کے حضور میں حاضر ہوں گی۔ اس طرح تم بھی جب تک زندہ رہو مسلمان اور جب خاتمہ ہو اسلام پر۔
عارضی مجلسوں کی تیاریاں خالی محفلوں کے اہتمام بہت کچھ کیے اور کیے جاؤ۔ مگر تھوری سی تیاری اس دربار اور سرکار کی بھی جہاں حاضر ہونا یقینی اور منہ دکھانا ضروری۔ ہر مزی بیگم بڑا نازک وقت ہوگا دعا کرو خدا انجام بخیر کرے۔
مارچ ۲۰ء تمہاری ماں