ملفوظات مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمتہ اﷲ علیہ جمع و ترتیب: مولانا نورالرحمن
صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ اور اسی سے التجاء:
’’ہمیں دو باتوں پر کامل یقین ہے اور اسی پر ہمارا یمان ہے: ایک تو یہ کہ مال و دولت کے تمام خزانے اﷲ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں اور دوسرا یہ کہ اولادِ آدم کے قلوب بھی اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ اگر ہم اخلاص کے ساتھ صحیح کام کریں گے تو اﷲ تعالیٰ بندوں کے قلوب خود بخود ہماری طرف متوجہ کر کے اپنے خزانوں سے ہماری مدد کرے گا۔ ہمیں کسی انسان کی خوشامد کی ضرورت نہیں ہے، لہٰذا جو ضرورت ہمیں پیش آتی ہے، ہم اﷲ تعالیٰ سے کہتے اور مانگتے ہیں ۔ وہ ایسی جگہ سے ہماری ضرورت کو پورا کرتاہے جہاں ہمارا گمان بھی نہیں ہوتا، پھر ہم کیوں کسی انسان کے سامنے ہاتھ پھیلائیں؟‘‘
’’مجھے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے یہ کلمات بے انتہا پسند ہیں اور اسی پر میرا عمل ہے: ’’أَ سْمَعْتُ مَنْ نَاجَیْتُ‘‘(جس سے سرگوشی کر رہا تھا اسی کو سنا رہا تھا) تو جس کے لیے ہم یہ سب کچھ کر رہے ہیں اسی کو اپنا حال سناتے ہیں اور اسی سے مانگتے ہیں، کسی اور سے ہمیں کیا واسطہ؟ چنانچہ نہ کبھی فارغ التحصیل طلباء کی دستار بندی اور تقسیم اسناد کے نام سے اور نہ بخاری شریف کے ختم کے نام سے کبھی کوئی سالانہ، یا غیر سالانہ جلسہ کیا اور نہ ہی کوئی مدرسہ کی روئیداد چندہ دہندگان کی فہرست شائع کی اور نہ کوئی اشتہار، نہ چندہ کی اپیل شائع کی، نہ کوئی مدرسہ کا سفیر یا محصل مقرر کیا۔‘‘
علماء سے دنیا داروں کے تعلق کی نوعیت:
’’دنیا والوں کا علماء سے تعلق کچے دھاگے سے بندھا رہتا ہے، ذراسی کوئی بات ان کے منشاء کے خلاف ہوئی اور فورا تعلق ختم ہوا‘‘۔ ’’دنیا میں اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے سوا کسی سے کسی خیر کی توقع نہ کریں اور نہ کسی پر اعتماد و توکل کریں، ورنہ سوائے خسران وناکامی کوئی اور نتیجہ نہ ہوگا۔‘‘
’’سیٹھ محمد یوسف مرحوم نے عرض کیا کہ آپ مدرسہ بنائیے اور حضرت مولانا عبدالرحمن کامل پوری کو بھی بلا لیجئے، میں آپ دونوں حضرات کی پانچ سال کے لیے مشاہرہ کی رقم پچاس ہزار روپیہ بنک میں جمع کرا دیتا ہوں اور بے حد اصرار کیا، لیکن میں نے انکار کردیا، میں نہیں چاہتا تھاکہ ہمارے مدرسہ کا آغاز توکل علیٰ اﷲ کے بجائے توکل علیٰ الاغیار سے ہو۔‘‘
’’اﷲ کا کام ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مدرسہ ہے، اﷲ تعالیٰ اسے اسی طرح چلاتا ہے اور اسی طرح چلاتا رہے گا۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم اپنی نیت خالص کر لیں اور جو شخص بھی اخلاص سے اس مدرسہ کی خدمت کرے گا، اﷲ تعالیٰ اس کو اس کا بدلہ دنیا میں بھی دیں گے اور آخرت میں بھی۔‘‘
علم سے مقصود رضائے الٰہی، اصلاحِ اعمال اور اخلاص ہے:
اخلاص اور اصلاح اعمال اورنماز باجماعت کے اہتمام اور مقصرین کو تنبیہ اور فخر و مباہات اور سمعہ اور ریاء سے نفرت دلاتے ہوئے ابن ماجہ کی حدیث: ’’من تعلم علما ممایبتغی بہ وجہ اﷲ لایتعلمہ الا لیصیب بہ عرضامن الدنیا لم یجد عرف الجنۃ یوم القیامۃ‘‘ (جس شخص نے ایسا علم سیکھا جس سے اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے، دنیاوی سازو سامان کے لیے حاصل کیا، وہ جنت کی بوبھی نہیں سونگھ سکے گا) سنا کر فرمایا:
علم بذات خود مقصود نہیں، بلکہ اصل مقصود رضائے الٰہی ، نصرت دین اور خدمت اسلام ہے اور علم بغیر عمل کے بے کار غیر مفید ہے، بلکہ بسا اوقات مضر ہوتا ہے، زہر قاتل، وبال جان اور ضیاع آخرت ہے، علماء کے طبقہ میں جو لوگ اس برے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں ان سے دین کو زیادہ خطرہ ہوتا ہے،اﷲ تعالیٰ علمائے سوء کی غلط کاریوں سے دین اسلام کو بچائے۔
مدرسہ اور علم دین کا مقصد:
ہم نے یہ مدرسہ اﷲ تعالیٰ کے لیے بنایا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ طلبہ، علم دین صرف اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے حاصل کریں اور اگر دنیا کا کوئی مقصد ہے، چاہے وہ سند حاصل کرنا ہو یا کوئی منصب ہو یا شہرت وغیرہ کوئی اور مقصد ہو توخدا کے لیے وہ طالب علم یہاں سے چلا جائے، ہم تکثیر سواد کے خواہش مند نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ کام کے آدمی آئیں اگرچہ کم ہوں‘‘۔مجھے عمارتوں اور موازنوں (یعنی مدرسہ کی عمارت کی لاگت، روزانہ کا خرچ اور سالانہ مواز نے کی مدات اور متعلقہ رقوم کی مقدار) سے کوئی دلچسپی نہیں، مجھے تو یہ بتلائیے کہ کام کے کچھ آدمی بھی پیدا ہوسکے؟ اور فرمایا: میں یہ دیکھتا ہوں کہ اچھے اچھے علماء کی نظر بھی اس پر لگی ہوئی ہے ہم میں رسوخ اور توکل اور استغناء عنقا ہوگیا ہے۔
ہم تو صرف صحیح کام کرنے کے مکلف ہیں اگر صحیح طریق پر مدرسہ نہ چلا سکیں گے تو بند کردیں گے ہم کوئی دین کے ٹھیکیدار نہیں ہیں کہ صحیح یا غیر صحیح، جائز یا ناجائز جس طرح بھی ممکن ہو مدرسہ جاری رکھیں، ہم تو غیر صحیح اور ناجائز ذرائع اختیار کرنے کی بنسبت مدرسہ کو بند کردینا بہتر بلکہ آخرت کی مسؤلیت کے اعتبار سے ضروری سمجھتے ہیں۔
اگر ادارہ کے نام کے بغیر کام چلتا تو قطعاًنام نہ رکھتے، مگر چونکہ یہ ممکن نہ تھا، اس لیے ابتدا میں صرف ’’مدرسہ عربیہ‘‘ کا نام رکھا تھا اور فرمایا کہ: اصل چیز کام ہے نام نہیں۔ جس کے لیے ہم نے بنایا ہے وہ سب کچھ جانتا ہے اور لوگ اگر اس مدرسہ کو پرائمری سمجھتے ہیں تو کیا کوئی حرج ہے؟
دنیا کے لیے علم دین کا حصول شقاوت اور بد بختی ہے:
شقی او رملعون ہے وہ شخص جو علم دین کو حصول دنیا کے لیے استعمال کرتا ہے، ایسے بدبخت سے سرپر ٹوکری اٹھا کر مزدوری کرنے والا بدر جہا بہتر ہے۔ جو طالب علم اس مدرسہ میں اسلامی شکل و شباہت اختیار کیے بغیر رہنا چاہتا ہے اور جس کے دل میں علم دین کے ذریعہ دنیا کو حاصل کرنے کی تمنا ہے وہ ہمارے مدرسہ میں نہ رہے ، ورنہ اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ اور مدرسہ کے ساتھ بد ترین خیانت ہوگی۔
طلبہ کے معاش کے حوالہ سے ایک اعتراض کا جواب:
ایک مرتبہ چیف منسٹریٹر محکمہ اوقاف مسعود صاحب مدرسہ تشریف لائے اور کہا کہ: طلبہ کو کوئی ہنر بھی سکھانا چاہیے، جیسا کہ آج کل تجدد پسندوں کی طرف سے اس خیال کا چرچا ہو رہا ہے کہ علماء کو معاشی اعتبار سے باعزت مقام دیا جائے اور طلبہ کو ہنر سکھانا چاہیے، تاکہ فارغ ہونے کے بعد طلبہ بدحالی کا شکار نہ ہوں تو اس پر فرمایا: ہم تو اس حصول معاش کے تصور ہی کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ہم تو چاہتے ہیں کہ طالب علم صرف اﷲ تعالیٰ کے دین کا سپاہی بنے، اس کے سوا زندگی کا کوئی مقصد اس کے حاشیہ خیال میں بھی نہ ہو اور اﷲ تعالیٰ پر ایسا یقین و اعتماد ہو کہ معاش کے بغیر اﷲ تعالیٰ کے دین کی خدمت کرے۔
نامساعد حالات میں بھی دین کی خدمت کا جذبہ:
دین کی خدمت کے متعلق کبھی سوچتا ہوں کہ خدانخواستہ اگر ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ مجھ پر خدمت دین کے سارے دروازے بند ہو جائیں تو میں کیا کروں گا؟ میں ایسا گاؤں تلاش کروں گا جہاں کی مسجد غیر آباد ہو اور لوگ نماز نہ پڑھتے ہوں وہاں جا کر اپنے پیسوں سے ایک جھاڑو خریدوں گا اور مسجد کو اپنے ہاتھ سے صاف کروں گا، پھر خود اذان دوں گا اور لوگوں کو نماز کی دعوت دوں گا، جب وہ مسجد آباد ہوجائے تو پھردوسری مسجد کو تلاش کروں گا اور وہاں بھی ایسا ہی کروں گا۔
میرے اکثر رفقاء نے یہ عہد کیا ہے کہ تا حیات ہر حال میں مدرسہ کی خدمت کریں گے، تنخواہ خواہ ملے یا نہ ملے اور فرمایا: موجودہ دور میں مدارس میں تنخواہ کے اضافہ کے لیے درخواست کا رواج تو ہے، لیکن تنخواہ کے کم کرنے کا رواج نہیں، لیکن الحمدﷲ! میرے رفقاء نے ایسی روایت بھی قائم کردی ہے اور اس ضمن میں حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی قدس سرہ کا ذکر کرتے تھے۔رمضان المبارک میں عمرہ پر تشریف لے جانے لگے تو عرض کیا گیا: یہ مہینہ چندہ کا ہے اور آپ کے موجود ہونے کا اثر پڑتا ہے تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے جدا مجد کا مقولہ سنا کر جو انھوں نے حاکم یمن ابرہہ کے سامنے کہا تھا: ’’ان لھذا البیت ربا یحمیہ‘‘ (اس گھر کا ایک مالک ہے جو اس کی حفاظت کرے گا) سنا کر تشریف لے گئے۔
مدرسہ کے اساتذہ شریک کار ہیں، ملازم نہیں:
ہم سب اساتذہ وغیرہ کی مثال مشین کے پرزوں کی ہے، جس میں چھوٹے بڑے پرزے سب ہی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور ہم سب ایک کشتی کے مسافر ہیں اور اس کشتی کو کنارے تک پہنچانا ہم سب کافرض ہے۔ اساتذہ سے فرمایا: ’’ہم سب ایک منزل کے مسافر ہیں اور ایک ہی کشتی میں سوار ہیں، اپنی اپنی طاقت اور اخلاص کے مطابق اس کشتی کو منزل مقصود تک لے کر چلنا ہے، آپ حضرات میں سے کسی کو بھی یہ غلط فہمی نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارا کوئی افسر ہے اور ہم اس کے ماتحت ہیں، ہمارے مدرسے کی بنیاد تقویٰ اور اخلاص پر قائم ہے۔‘‘
غبی صالح طالب علم بے دین ذہین طالب علم سے بہتر ہے:
ایک غبی دین دار طالب علم برداشت کیا جاسکتا ہے مگر ذکی بے دین ہر گز برداشت کا حامل نہیں ہے اور کبھی فرماتے: میرے نزدیک غبی صالح افضل ہے ذکی فاسق سے اور میں جب صبح کو نماز کے لیے نکلتا ہوں اور وضو خانے اور مسجد میں طلبہ کو زیادہ تعداد میں دیکھتا ہوں تو خوشی ہوتی ہے، لیکن اگر اس کے برعکس دیکھتا ہوں تو سخت افسوس ہوتا ہے اور ’’انا ﷲ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھتا ہوں اور معذوری کے باوجود جی چاہتا ہے کہ کمروں میں جا کر سستی کرنے والوں کو خوب ماروں۔جو شخص علم دین عمل کے لیے حاصل نہیں کرتا وہ ایک حیوان سے بدتر ہے ایسا شخص علم کے انوار و برکات سے محروم رہتا ہے۔ علم اس لیے حاصل کیا جاتا ہے کہ انسان علم کے ذریعہ اچھے برے صحیح و غلط میں تمیز کر سکے، ہم تم کو پیٹ پالو حیوان بنانا نہیں چاہتے۔
علماء و طلبہ و حفاظ کو خاص کر تہجد کی پابندی اور قرآن کریم کی تاکید کرتا ہوں۔ فرمایا: ’’قرآن بڑی نعمت ہے میں صبح کو جب فجر کے لیے مسجد میں داخل ہوتا ہوں تو میرا دل ان لوگوں کے لیے دعا کرتا ہے جو تلاوت میں مشغول ہوتے ہیں۔‘‘
مدارس میں عصری علوم کے داخل نہ کرنے سے متعلق ایک مبارک خواب:
ایک مرتبہ ڈھاکہ میں علمائے کرام کا ایک اجلاس تھا، جس میں پاکستان کا مشرقی حصہ (موجودہ بنگلہ دیش) اور مغربی حصہ کے اکابر علمائے کرام موجود تھے، عصری علوم کا نصاب مروجہ کے ساتھ جوڑ کا مسئلہ زیر بحث تھا۔ بعض علمائے کرام نے اس کی حمایت میں رائے دی اور کچھ مخالفت کر رہے تھے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ علوم عصر یہ کو داخل نصاب کرنے میں حرج ہے؟ میں رات کو خواب دیکھتا ہوں کہ ایک مسجد میں کھڑا ہوں اور سامنے چٹائی بچھی ہے اور اس میں یہ عبارت بنی ہوئی ہے ’’النجاۃ فی علوم المصطفیٰ‘‘ اور اس خواب میں پھر میں دونوں کانوں میں انگلیاں ڈال کر پوری قوت کے ساتھ ان کلمات کے ساتھ اذان دیتا ہوں: ’’النجاۃ فی علوم المصطفیٰ سیدالسادات‘‘ (سیدالسادات میں نے خود بڑھادیے ہیں) صبح جاگنے پر دل میں سے یہ خیال نکل گیا اور یقین ہوگیا کہ اس دور میں بھی صرف علوم نبوت سے کامیابی ممکن ہے، عصری علوم کی ضرورت بالکل بے معنی ہے۔
نصاب کے متعلق مزید فرمایا: ’’ہم ان قدیم علوم کو مٹانا نہیں چاہتے، بلکہ ان علوم میں صحیح نصاب پیدا کرنے کے لیے بہتر کتابوں کو داخل کرنا چاہتے ہیں، یعنی اس سلسلہ میں تجدید نہیں بلکہ تقادم چاہتے ہیں۔
مدرسہ کی ترقی اور قبولیت کے لیے حرمین کے اسفار:
بار بار حج یا عمرہ کا سفر کرنے سے میرا مقصد حج یا وعمرہ کی تعداد بڑھانا اور اس کو اپنے لیے سرمایہ فخر و مباہات سمجھنا ہرگز نہیں ہے، بلکہ میں تو ایک خاص مقصد کے لیے باربار حرمین شریفین زاد ہمااﷲ رفعتاً جاتا ہوں اور وہ یہ کہ میں نے اﷲ تعالیٰ کی توفیق سے جو یہ باغ لگایاہے: ’’مدرس عربیہ اسلامیہ‘‘ اس کی قبولیت اور کامیابی کے لیے دعائیں کروں، بیت اﷲ کے فیوض اور روضہ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت اور ان کو مزید اخلاص اور اہلیت سے سرفراز فرمائیں، جس طرح ایک کار کا ڈرائیور جب سفر شروع کرتا ہے تو پٹرول کی ٹنکی کو بھر لیتا ہے مگر جہاں ٹنکی خالی ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے تو جلد از جلد کسی پٹرول پمپ سے تیل لیتا ہے اسی طرح میں بھی نہ صرف ہر سال بلکہ سال میں متعدد مرتبہ حرمین شریفین سے تیل لینے جاتا ہوں۔
قرآن کی نعمت اور کثرت تلاوت:
جب میں دیوبند میں طالب علم تھا تو ایک روز میں نے فجر کی نماز ایک چھوٹی سی کچی عمارت کی مسجد میں پڑھی، نماز کے بعد میں نے اپنی چادر اس کے کچے فرش پر بچھادی اور قرآن کریم کی تلاوت شروع کردی، جمعہ کی نماز تک اسی ایک نشست میں ایک ہی ہیئت پر ۲۶؍پارے پڑھ لیے اور چونکہ جمعہ کی نماز کے لیے مجھے دوسری مسجد میں جانا ناگزیر تھا کہ اس میں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی، اس لیے پورا نہ کرسکا ورنہ پورا قرآن کریم ختم کرلیتا۔
ہمارے مدرسے کی بنیاد قرآن کریم کی تعلیم پر ہے اور حفظ کے اساتذہ کو تاکید فرماتے کہ: ’’طلبہ کو قرآن کریم تجوید کے ساتھ پڑھائیں اورفرمایا: ’’اگر کوئی اچھا قاری نماز میں قرآن کریم پڑھتا ہے تو میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنی معذور ی کے باوجود گھنٹوں قرآن کریم کھڑا ہو کر سنتا رہوں۔ تمام علوم و فنون، قرآن کریم و سنت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے غلام ہیں اور علوم قرآن اور علوم نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے تقویٰ اور اخلاص شرط ہے اس لیے کہ ان علوم کا تعلق اﷲ رب العزت کی ذات سے ہے اور ان علوم میں انوار ہی انوار ہیں اور ان میں شغف باعثِ رحمت و نجات ہے۔
ختم نبوت کے لیے شہادت کا جذبہ اور قربانی:
تحریک ختم نبوت کے موقع پر طلبہ سے فرمایا: ’’ضرورت پڑی تو پہلے بنوری اپنی گردن کٹوائے گا پھر آپ کی باری آئے گی اگر مفتی محمود زخمی پاؤں کی حالت میں تحریک میں حصہ لے سکتے ہیں تولنگڑا بنوری بھی ان سے پیچھے نہ رہے گا، وقت آنے پر آپ دیکھیں گے کہ بنوری کے ہاتھ میں جھنڈا ہوگا اساتذہ ہمارے ساتھ ہوں گے اور تم ہمارے پیچھے ہوگے۔‘‘
تحریکا ت کے لیے سب سے بڑا فتنہ ’’ریاکاری اور نام ونمود:
تحریک ختم نبوت کے بارے میں فرمایا: ’’آج کل جو کوئی تحریک دین کے لیے چلائی جارہی ہے اس میں سب سے بڑا فتنہ نام و نمود کافتنہ ہے، یہ فتنہ دینی تحریکوں کو تباہ کر ڈالتا ہے، مجھے بار بار یہ ڈر لگتا ہے کہ میں اس فتنہ کا شکار نہ ہوجاؤں اور اس طرح یہ تحریک ڈوب نہ جائے۔
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم پر طعن سوء خاتمہ کا سبب ہے:
جب مودودی صاحب نے خلافت و ملوکیت لکھی تو حضرت بنوری رحمتہ اﷲ علیہ نے فرمایا: ’’اس فتنہ انگیز تالیف کے مولف کے حق میں مجھے سوئے خاتمہ کا اندیشہ ہے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے ساتھ ساتھ حضرت عثمان مظلوم رضی اﷲ عنہ پر اعتراض نا قابل عفو جرم ہے۔‘‘
خدانا شناس تہذیبوں اور قوموں کی قیادت تمام برائیوں اور فتنوں کی جڑ ہے:
بد قسمتی سے عالم کی زمامِ قیادت کافی عرصہ سے خدا ناشناس تہذیبوں اور بد دین قوموں کے ہاتھ میں ہے، جن کے یہاں الا ماشاء اﷲ! دین و دیانت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں اور شرم و حیا، عفت و عصمت اور غیرت و حمیت کے الفاظ ان کی لغت سے خارج ہیں، ان کے نزدیک مکرو فن اور دغا و فریب کا نام سیاست ہے، انسانیت کشی کے وسائل و اسباب کا نام ترقی ہے، فواحش و منکرات کا نام آرٹ ہے، مرد وزن کے غیر فطری اختلاط کا نام روشن خیالی اور خوش اخلاق ہے، پردہ دری اور عریان کا نام ثقافت ہے اور پسماندہ ممالک ان کی تقلید اور اندھی تقلید اور نقالی کو فخر سمجھتے ہیں، اس لیے آج سارے عالم میں فتنوں کا دور دورہے۔
مسلمانوں کی مغلوبیت کے دو اسباب:
آج مسلمانوں کے قبلہ اول اور ار ض الانبیاء پر یہود قوم کا تسلط ہے، جن کو انبیاء علیہ السلام کی زبان پر ملعون قرار دیا گیا ہے، پھر ان کا مسجد اقصیٰ کو جلانا، مسلمانوں کے اموال لوٹنا، ان کا بے گناہ خون بہانا اور ان پر وحشیانہ ظلم وغیرہ، یہ اس قوم کی تاریخی جرائم پیشہ طبیعت کی ایک مثال ہے، لیکن یہ سب کچھ جو ہوا اس کے بنیادی اسباب دو ہیں، ایک دشمنانِ اسلام پر اعتماد اور بھروسہ،جو بظاہر تعاون کا دعویٰ کرتے ہیں اور اندر سے مسلمانوں اور اسلام کی جڑیں کاٹنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں، دوسرآرام و راحت کا عادی ہونا، مغربی تہذیب پر فدا ہونا اور دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔