تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

احادیثِ نزولِ عیسیٰ بن مریم علیہماالسلام

اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ (۱۹ ویں وآخری قسط)
حافظ عبیداﷲ
چند مزید مغالطے اور اُن کی حقیقت
قارئین محترم! تمنا عمادی صاحب کی کتاب کے سرورق پر لکھا ہے ’’انتظارِ مہدی ومسیح، فن رجال کی روشنی میں‘‘ اب انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر عمادی صاحب نے احادیث کا جائزہ فنِ رجال و جرح وتعدیل کی روشنی میں لینا تھا تو پھر اِس فن کے ہر اصول اور قاعدہ کا لحاظ رکھاجاتا، لیکن افسوس کہ عمادی صاحب نے علم رجال کی کتابوں سے صرف وہ باتیں لیں جن سے قاری کو شک وشبہ میں مبتلا کیا جاسکے اور جہاں انہیں کتب رجال میں اپنے مطلب کی کوئی چیز نہ ملی وہاں انہوں نے اپنے مفروضے اور اپنے اصول بھی ایجاد کرلیے اور پھر بھی کام نہ چلا تو علماء فن رجال کے نزدیک معروف شخصیات کو فرضی اور من گھڑت شخصیت قرار دے دیا ۔
عمادی صاحب نے نزولِ عیسیٰ u کی احادیث کے راویوں پر بزعم خود تنقید کے بعد اِن احادیث کی حیثیت گھٹانے کے لئے چند اور تلبیسات بھی پیش کی ہیں جن کا جائزہ لیا جاتاہے۔
تلبیس نمبر(1)
’’ یہ احادیث صرف فلاں فلاں راوی یا فلاں محدث کو ہی کیوں ملی؟ باقیوں کو کیوں نہ مل سکی؟ یا فلاں حدیث صرف امام مسلم اور امام ابوداؤدنے ہی کیوں نقل کی، باقیوں نے کیوں نہ بیان کی؟ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جھوٹی حدیثیں بنانے والوں کو باقی کتابوں میں یہ حدیثیں داخل کرنے کا موقع نہ مل سکا وغیرہا من الشبہات‘‘۔
(دیکھیں: انتظار مہدی ومسیح، صفحہ 259)
تلبیس کا ازالہ
منکرینِ حدیث کے نام نہاد ’’محدث العصر‘‘ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صرف وہی حدیث قابل قبول اور صحیح ہوگی جو تمام کتب حدیث میں موجود ہو اور تمام محدثین نے اسے نقل کیا ہو، اگر کوئی حدیث دو تین کتابوں میں مذکور ہو اور باقی محدثین نے اسے اپنی کتابوں میں ذکر نہ کیا ہو تو عمادی صاحب کے ’’تلبیسی فنِ رجال‘‘ کے مطابق یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ حدیث جھوٹی ہے اور اس کے وضاعین ( گھڑنے والوں) کوباقی کتابوں میں وہ حدیث داخل کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ لیجیے! اس ’’تمنائی اصول ‘‘ سے احادیث کی ایک کثیر تعداد تو موضوع اور من گھڑت ٹھہری، مثال کے طور پر صحیح بخاری کو ہی لیجیے، اس کی سب سے پہلی حدیث ’’انما الاعمال بالنیات…… الخ‘‘ کے بارے میں محدثین کا اتفاق ہے کہ اِن الفاظ کے ساتھ یہ حدیث کسی بھی صحیح سند کے ساتھ حضرت عمرt کے علاوہ کسی اور صحابی سے مروی نہیں، حضرت عمرt نے یہ حدیث مدینہ طیبہ میں خطبہ کے دوران بیان فرمائی لیکن اُن سے روایت کرنے والے تنہا علقمہ بن وقاصؒ ہیں، پھر علقمہؒ سے صرف محمد بن ابراہیمؒ روایت کرتے ہیں، اور محمد بن ابراہیمؒ سے صرف یحییٰ بن سعیدؒ ہی روایت کرتے ہیں۔ اسی طرح صحیح بخاری کی آخری حدیث ’’کلمتان حبیبتان الی الرحمن……الخ‘‘ بھی صرف حضرت ابوہریرہt بیان کرتے ہیں، اُن سے ابوزرعہؒ پھر اُن سے عمارہ بن القعقاع ؒ، اور عمارہ سے صرف محمد بن فضیلؒ ہی روایت کرتے ہیں کوئی بھی ان کا متابع نہیں ملتا۔ تو عمادی صاحب جیسے محققین یہاں بھی یہ کہیں گے کہ حضرت عمرt سے پہلی حدیث صرف علقمہ بن وقاص نے کیوں بیان کی؟ کسی اور نے کیوں نہ روایت کی؟ اسی طرح حضرت عمرؓ کے علاوہ کسی اور صحابی نے اِن الفاظ کے ساتھ کیوں نہ روایت کی؟، نیز صحیح بخاری کی آخری حدیث حضرت ابوہریرہؓ کے علاوہ کسی اور صحابی سے کیوں مروی نہیں؟ اور حضرت ابوہریرہؓ سے بھی صرف ابوزرعہؒ، پھر اُن سے صرف عمارہ بن القعقاع ؒاوراُن سے صرف محمد بن فضیلؒ کوہی کیوں ملی؟ ثابت ہوا کہ یہ دونوں حدیثیں ’’من گھڑت‘‘ ہیں اور وضاعین نے صحیح بخاری میں ڈال دی ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو یہی منکرینِ حدیث کے اِن ’’جامع العلوم‘‘ صاحب کا مشن اورایجنڈا تھاجو وہ فنِ رجال اوراصول حدیث کا نام لے کر لوگوں کو دھوکہ دے کر پورا کرنے کی کوشش کرتے رہے ، موصوف تو دنیا میں نہیں رہے، اگر ان کے ’’یارانِ طریقت‘‘ اور ان کی تلبیسات کو شائع کرنے والوں میں سے کوئی ہماری رہنمائی اصولِ حدیث کی اس کتاب کی طرف کردے جس میں مذکورہ بالااصول لکھا ہے تو ہم اس کے ممنون ہوں گے ۔ محدثین کے ہاں تو ثقہ وعادل کا تفرد قطعاً محل نزاع نہیں، اور نہ ہی کسی حدیث کے صحیح ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ حدیث کی تمام کتب میں یا کم از کم صحاح ستہ کی تمام کتابوں میں موجود ہو۔
تلبیس نمبر(2)
عمادی صاحب کا کہنا ہے کہ جن احادیث میں نزولِ عیسیٰ ؑکا ذکر ہے ان میں مختلف واقعات مختلف الفاظ سے بیان ہوئے ہیں جسے وہ ’’تضاد‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، مثال کے طور پر کہتے ہیں کہ کسی حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ نازل ہونے کے بعد لوگوں کی امامت کروائیں گے ، اور کسی حدیث میں آتا ہے کہ جب وہ نازل ہوں گے تو مسلمان نماز کی تیاری میں ہوں گے ، آپ سے کہا جائے گا کہ آپ نماز پڑھائیں لیکن آپ انکار کریں گے اور مسلمانوں کے امام سے کہیں گے کہ آپ ہی امامت کروائیں، لہٰذا ان احادیث میں تضاد ہے، اور پھر یوں دھوکہ دیتے ہیں کہ:
’’تمام اہل علم کے نزدیک اذا تعارضا تساقطا کا ایک مسلمہ اصول ہے یعنی جب دو متضاد باتیں باہم متعارض ہوں اور ان دونوں میں سے ایک کو دوسری پر ترجیح دے کر مرجوح کو ساقط کرنے کی گنجائش نہ ہو تو دونوں باتیں اعتبار سے ساقط ہوجائیں گی، اس لئے یہ حدیثیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں اور باہم متعارض ہیں اہل علم کے متفقہ اصول کے مطابق دونوں ساقط الاعتبار ہیں‘‘ ۔ (انتظارِ مہدی ومسیح، صفحہ 249)
تلبیس کا ازالہ
قارئین محترم! ہماری بحث نزولِ عیسیٰ u کے بارے میں ہے اور اس بارے میں کہ آپ کا نزول ہونا ہے یا نہیں ہرگز صحیح احادیث میں کسی قسم کا تعارض یا تناقض نہیں پایا جاتا، احادیث کے پورے ذخیرہ میں کوئی ایک صحیح حدیث ایسی نہیں ملتی جس میں نزولِ عیسیٰ u کی نفی یا تردید کی گئی ہو، لہٰذا احادیث میں الفاظ یا واقعات کی ترتیب میں اختلاف کو ’’تضاد‘‘ کا نام دے کر نزولِ عیسیٰ u کے متفقہ مضمون کو غلط ثابت کرنا عمادی صاحب کا صریح دھوکہ ہے، آپ u نے نازل ہونے کے بعدامامت کرنی ہے یا نہیں، اگر چہ حقیقتاً اس میں بھی کوئی تضاد نہیں لیکن اگر بالفرض ایک منٹ کے لئے اسے تضاد تسلیم بھی کرلیا جائے توساقط تو وہی بات ہوگی جس میں تعارض ہے یعنی صرف یہ بات واضح نہ ہوگی کہ آپ نے امامت کرانی ہے یا نہیں ، لیکن دونوں حدیثوں میں یہ بات تو متفق علیہ ہے کہ حضرت عیسیٰ u نے نازل ہونا ہے یہ بات کیسے ساقط ہوگئی؟۔
نیز حقیقت یہ ہے کہ جسے عمادی تضاد بتا رہے ہیں وہ ہرگز تضاد نہیں، جس حدیث میں یہ بیان ہے کہ حضرت عیسیٰ u نازل ہونے کے بعد ’’امامت کریں گے‘‘ اس میں نماز کا ذکر نہیں بلکہ خود اس حدیث کے ایک راوی ’’ابن ابی ذئب‘‘ (محمد بن عبدالرحمن بن المغیرۃ القرشي المدني) جن کے بارے میں خود عمادی صاحب اقرار کرتے ہیں کہ ’’سارے محدثین کے نزدیک ثقہ اور معتبر ہیں‘‘ (انتظارِ مہدی ومسیح، صفحہ193)، جنہیں امام ذہبیؒ نے ’’شیخ الاسلام، بڑی شان والے اور فقیہ مدینہ‘‘ کہا ،جو عمادی صاحب کی طرح ’’ہندوستانی عجمی‘‘ نہیں تھے بلکہ قریشی عربی تھے، انہوں نے اس کی تشریح بھی کردی کہ اس سے مراد نماز والی امامت نہیں بلکہ قیادت اور راہنمائی ہے ، لیکن عمادی صاحب کو یہ بات ’’لا یعنی اور بعید از قیاس‘‘ معلوم ہوتی ہے (دیکھیں: انتظارِ مہدی ومسیح، صفحہ 248) ۔ جبکہ جس حدیث میں نماز کی امامت کا ذکر ہے اس میں یہ ہے کہ جب آپ کا نزول ہوگا تو اُس وقت مسلمان نماز کی تیاری میں ہوں گے تو آپ سے اُس نماز کی امامت کا کہاجائے گا لیکن آپ مسلمانوں کے اُس وقت کے امام سے کہیں گے کہ نہیں امامت آپ ہی کرائیں (جس کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا ہوگا کہ میں حضرت محمد e کی شریعت کا متبع بن کر آیا ہوں۔ ناقل)۔ یہ صرف پہلی نماز کے بارے میں ہے ، یہ کسی حدیث میں نہیں کہ اس کے بعد جب تک آپ زندہ رہیں گے کبھی بھی نماز کی امامت نہیں کرائیں گے۔
نیز اگر دونوں احادیث میں نماز والی امامت ہی مراد لی جائے تو بھی کوئی تعارض نہیں، جس حدیث میں مسلمانوں کے اُس وقت کے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا ذکر ہے وہ نزول کے بعد سب سے پہلی نماز کے وقت ہوگا تاکہ لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ میں امت محمدیہ کے نبی حضرت محمد e کا تابع بن کر آیا ہوں، اور پھر بعد میں جب مسلمانوں کی قیادت آپ کے ہاتھوں میں دی جائے گی تو آپ نمازیں بھی پڑھائیں گے جس کا ذکر دوسری حدیث میں ہے، فلا اشکال۔
اگر بیس تیس آدمی ایک واقعہ بیان کریں ، بعض جزئیات میں ان کے الفاظ وبیان میں اختلاف ہو لیکن کوئی بات ایسی بھی ہو جسے سب بیان کریں اور کسی کا اس میں اختلاف نہ ہو تو اگر بالفرض اختلاف کی وجہ سے گرانا ہی ہے تو صرف اُن باتوں کو گرایا جائے گا جن میں اختلاف ہے، جو بات سب کے درمیان متفق علیہ ہے اسے قبول نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
آئیے مزید وضاحت کے لئے عمادی صاحب کی اس نرالی منطق کی روشنی میں خود اُن کی چند تحریروں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ اپنی کتاب ’’امام زہری وامام طبری۔ تصویر کا دوسرا رُخ‘‘ میں ایک جگہ حضرت عبداﷲ بن عباس w کی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ابن عباس ؓ نے اپنی عمر بوقت وفات نبوی دس سال بتائی، اور بعض روایتوں میں ہے کہ تیرہ سال بتائی، اور بعض میں ہے کہ پندرہ سال بتائی، امام احمد رحمہ اﷲ آخری قول کو صحیح بتاتے ہیں، مگر ولادت کے حساب سے تیرہ سال والا قول صحیح معلوم ہوتا ہے ، ان کی عمر(70) ستر سال اور بروایتے (72) بہتر سال تھی، وفات سنہ68 ھ اور بروایتے سنہ69ھ میں ہوئی‘‘۔ (امام زہری و امام طبری، صفحہ 102)
لیجیے! وفات نبوی کے وقت حضرت ابن عباس r کی عمر دس سال تھی؟ تیرہ سال تھی؟ یا پندرہ سال تھی؟ آپ کی کل عمر ستّر سال ہوئی ؟ یا بہتّر سال ہوئی؟ آپ کی وفات 68 ھ میں ہوئی؟ یا 69ھ میں ؟ تضادات ہی تضادات اور تناقضات ہی تناقضات لہٰذا ’’عمادی منطق‘‘ کے مطابق نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت ابن عباس r کی ولادت ہی نہیں ہوئی اور نہ ان کی وفات ہوئی کیونکہ بقول عمادی صاحب ’’ تمام اہل علم کے نزدیک اذا تعارضا تساقطا کا ایک مسلمہ اصول ہے یعنی جب دو متضاد باتیں باہم متعارض ہوں اور ان دونوں میں سے ایک کو دوسری پر ترجیح دے کر مرجوح کو ساقط کرنے کی گنجائش نہ ہو تو دونوں باتیں اعتبار سے ساقط ہوجائیں گی‘‘ ۔
اسی طرح امام ابن شہاب زہریؒ کی وفات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’زہری کی وفات حسب روایت سمعانی روز سہ شنبہ 17 رمضان سنہ124ھ کو نواحی شام قریہ بیل میں ہوئی، اُن کی قبر قریہ زار میں ہے ، معجم البلدان میں ہے کہ ’’بیل‘‘ بالکسر واللام ملک رَے کے قریوں میں سے ہے۔ بعضوں نے سرخس کے قریوں میں لکھا ہے اور زار کے متعلق لکھا ہے کہ یہ ایک قریہ ہے نواحی سمرقند میں استخن کے قریوں میں سے جہاں لوگ عموماً دفن کیے جاتے ہیں……‘‘ (امام زہری و امام طبری، صفحہ 88)
اب دیکھیں، یہ تو لکھا کہ امام زہری کی وفات ’’بیل‘‘ نامی گاؤں میں ہوئی، لیکن یہ ’’بیل‘‘ شام کا گاؤں ہے؟ یا رَے کا؟ یا سرخس کا؟ اسی طرح اُن کا مدفن ’’زار‘‘ ملک شام میں ہے یا سمرقند وغیرہ میں؟ کچھ معلوم نہیں، تضاد در تضاد ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ امام زہری کی وفات نہ ’’بیل‘‘ نامی کوئی گاؤں میں ہوئی اور نہ ہی ’’زار‘‘ میں ان کی قبر، بلکہ ان کی وفات ودفن سے متعلق تمام روایات واقوال کو ردّ کردیا جائے گا اور یہ کہا جائے گا کہ ان کی وفات ہی نہیں ہوئی۔
؂ اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا …… لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
قارئین محترم! عمادی صاحب کو اپنے اس مفروضے کی کمزوری کا اچھی طرح علم تھا ، چنانچہ خود اس کا ذکر بھی کرتے ہیں اور پھر اپنے ’’یارانِ طریقت‘‘ کے اطمینان کے لئے اس کا جواب دینے کی کوشش میں ’’اپنی وحی و الہام‘‘ کے ذریعے یہ انکشاف بھی کرتے ہیں کہ :
’’وضاعین وکذابین کا یہ بھی اصول رہا ہے کہ کسی غلط مفہوم کو ثابت کرنے کے لئے وہ چند حدیثیں گھڑتے ہیں اور ان میں اس غلط مفہوم کو بطور قدر مشترک ان سب حدیثوں میں رکھ کر اس مفہوم کے بعض لوازمات میں تھوڑا اختلاف ان اپنی من گھڑت حدیثوں میں قصداً رکھ کر پھر انہیں لوازمات پر ایک بحث چھیڑ دیتے ہیں تاکہ وہ اصل مفہوم زیر بحث ہی نہ آنے پائے اور لوگ انہیں لوازمات کے اختلاف میں الجھ کر رہ جائیں اور کچھ دنوں پر وہ اصل مفہوم غلط جس کے لئے وہ حدیثیں گھڑی گئیں وہ سب کا متفق علیہ مسئلہ ہوجائے ……‘‘۔ (انتظارِ مہدی ومسیح، صفحہ 250)
در اصل عمادی صاحب کی بے تکیاں اور موشگافیاں اس کا مصداق ہیں کہ :
؂ بَک رہا ہوں جُنوں میں کیا کیا …… کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
تلبیس نمبر (3)
اُن احادیث کا ذکر کرتے ہوئے جن میں نبی کریمe نے قیامت کی علامات بیان فرماتے ہوئے نزولِ عیسیٰ u کا بھی ذکر فرمایا، عمادی صاحب یوں شبہ پیدا کرنے کوشش کرتے ہیں کہ مختلف احادیث میں اِن علامات کی ترتیب مختلف مذکور ہے، کسی حدیث میں مغرب سے آفتاب کا طلوع ہونے کاپہلے ذکر ہے اس کے بعد خروجِ دابّۃ، پھر یاجوج و ماجوج کے خروج اور پھر دجّال کے خروج کا ذکر ہے اور اس کے بعد نزولِ عیسیٰ uکا ذکر ہے اور باقی علامات کا ذکر اس کے بعد ہے، جبکہ کسی حدیث میں سب سے پہلے دھواں نکلنے کا ذکر ہے، اس کے بعد دجّال کے خروج کا ، اس کے بعد مغرب کی طرف سے سورج نکلنے کا اور اس کے بعد نزولِ عیسیٰ کا، اور پھر باقی علامات کا، اور پھر یہ اضافہ اپنی طرف سے کرتے ہیں کہ ’’ان کے بیان کا انداز یہی ہے کہ جو علامت پہلے ظاہر ہوگی اس کا ذکر پہلے کیا ہے ، پھر اس کے بعد والی کا ، پھر اس کے بعد والی کا‘‘۔ (ملخصاً: انتظارِ مہدی ومسیح، صفحہ 265 – 266)
تلبیس کا ازالہ
قارئین محترم! جن احادیث میں علامات قیامت کا ذکر ہے اُن میں ترتیب بیان نہیں کی گئی کہ پہلے فلاں ہوگی پھر فلاں، بلکہ حرف ’’و‘‘ کے ساتھ صرف یہ بیان ہے کہ قیامت سے پہلے یہ سب علامات ظاہر ہوں گی، اور عربی میں حرف ’’و‘‘ ترتیب کے لیے نہیں آتا، نبی کریم e نے صرف بتایا ہے کہ قیامت سے پہلے سورج مغرب سے طلوع ہوگا، زمین سے ایک جانور نکلے گا، یاجوج وماجوج نکلیں گے، دجّال نکلے گا، تین جگہ زمین دھنسے گی، حضرت عیسیٰ u کا نزول بھی ہوگا اور دوسری علامات بھی ہوں گی ،جن احادیث کے بارے میں عمادی صاحب یہ تلبیس پیدا کررہے ہیں اُن میں حرف ’’ف‘‘ یا حرف ’’ثم‘‘ نہیں کہ عمادی صاحب اس سے ترتیب سمجھ رہے ہیں، لہٰذا اسے خوامخواہ تضاد بنانے کی کوشش کرنا تمنائی دھوکہ ہے اور کچھ نہیں۔
عمادی صاحب نے ایک حدیث میں یہ لفظ دیکھ لیا کہ صحابی نے دس علامات گنواتے ہوئے 9 علامات گنوانے کے بعد کہا کہ ’’ان میں آخری علامت فلاں ہے‘‘ یا کہا کہ ’’دسویں علامت فلاں ہے‘‘ تویہ شوشہ چھوڑ دیا کہ اس کا مطلب ہے کہ یہ دسویں سب سے آخر میں ظہور پذیر ہوگی اور جس ترتیب سے علامات راوی نے بیان کی ہیں ان کے ظہور کی ترتیب بھی وہی ہے، یہ عمادی فن تلبیس کا شاہکار ہے، کیونکہ دس علامات کو بیان کرتے ہوئے جب یہ کہا جائے کہ دسویں یا آخری فلاں ہے تو اس سے مراد اِن دس علامات میں سے نمبر دس اور آخری ہوتا ہے ، اِس سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ پہلی نو علامات کے واقع ہونے کی بھی وہی ترتیب ہوگی جیسے راوی بیان کررہا ہے؟ ہاں اگر حدیث میں علامات کو گنواتے ہوئے شروع سے ’’ف‘‘ یا ’’ثم‘‘ کے ساتھ ہی ترتیب بیان کی جاتی تو بات اور ہوتی۔
بہرحال ہمارا استدلال اِ ن احادیث میں علامات قیامت کی بیان کردہ ترتیب سے نہیں، بلکہ ہماری دلیل یہ ہے کہ نبی کریم e نے علامات قیامت میں سے ایک اہم علامات ’’نزولِ عیسیٰu‘‘ بھی بیان فرمائی ہے۔
تلبیس نمبر (4)
قارئین محترم! حدیث کی بہت سی کتب اُن کے مصنفین سے اُن کے شاگردوں کے واسطے سے نقل کی گئی ہیں، مثلاً امام مالک بن انسؒ کی مؤطا اُن کے آٹھ شاگردوں کی واسطے سے روایت کی گئی ہے جن کے نام یہ ہیں: یحییٰ اللیثی، ابو مصعب الزہری، عبداللّٰہ بن مسلمۃ القعنبی،سوید بن سعید الحدثانی،یحییٰ بن عبداللّٰہ بن بکیر،عبدالرحمن بن القاسم، علی بن زیاد اور محمد بن حسن الشیباني، اُس وقت چھاپا خانے یا پریس تو ہوتے نہیں تھے بلکہ محدثین اپنے شاگردوں کو اپنی کتاب نقل کراتے تھے یعنی احادیث تو استاد بیان کرتا تھا لیکن اسے قلم بند کرنے والے ان کے شاگرد ہوتے تھے اس طرح وہ کتب قلمی نسخوں کی صورت میں آگے چلتی تھیں ، اسی لئے ہمیں بہت سی کتابوں میں ایسے الفاظ ملتے ہیں کہ جس مصنف کی طرف کتاب منسوب ہے اسی کے بارے میں لکھا ہوتا ہے کہ ’’قال فلانٌ‘‘ اور آگے حدیث کی سند بیان ہوتی ہے۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں کیونکہ جس شاگرد نے اپنے استاد سے یہ کتاب نقل کی اس نے اپنے استاد کا نام لکھ کر آگے اس کی سند کے ساتھ حدیث بیان کردی، لیکن عمادی صاحب نے یہاں بھی دھوکہ دینے کے لئے یہ لکھ دیا کہ :
’’آپ کو تعجب ہوگا کہ کوئی محدث خود اپنی ذات سے کس طرح روایت کریگا؟ بات یہ ہے کہ محدثین کی کتابوں میں ان کے تلامذہ کے مسودات بھی بعد کو داخل کردیے گئے۔ بعض جگہ تو اس محدث کا نام حذف کیا جاسکا اور بعض جگہ رہ گیا……‘‘(انتظارِ مہدی ومسیح، صفحہ296)
تلبیس کا ازالہ
قارئین محترم! محدثین سے ان کی کتب سندوں کے ساتھ نسل در نسل نقل ہوتی چلی آرہی ہیں، جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ آج کسی بھی شیخ الحدیث کے پاس چلے جائیں وہ آپ کے سامنے امام بخاریؒ تک اپنی مکمل سند بیان کردے گا ، عمادی صاحب کو دھوکہ یہ لگا ہے یا وہ یہ دھوکہ دینا چاہتے ہیں کہ مثلاً امام بخاری ؒ کے بعد آنے والے تمام لوگوں نے لکھی اور چھپی ہوئی صحیح بخاری پڑھ کر یہ یقین کرلیا ہے کہ یہ امام بخاری ؒ کی کتاب ہے ،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کتبِ حدیث ، خاص طور پر صحاح ستہ جیسے کتابی صورت میں موجود ہیں ایسے ہی نسل در نسل سند کے ساتھ ان کے مصنفین تک متصل بھی ہیں، لہٰذا اس تمنائی تلبیس کی کوئی حیثیت نہیں کہ ان کتب میں نامعلوم شاگردوں نے اپنے مسودے شامل کردیے تھے۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرامؓ ، تابعین وتبع تابعین عظام ، ائمہ حدیث واسماء الرجال اور سلف صالحین کے فہم قرآن وحدیث کے مقابلے میں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے والوں اور اصولِ حدیث وفنِ اسماء الرجال کا نام لے کر مغالطات وتلبیسات کا جال بُن کر انکارِ حدیث کی ترغیب دینے والوں سے محفوظ رکھے۔
اِن اُرِیدُ اِلّا الاِصلاحَ مَا استَطعتُ وَمَا تَوفِیقِي اِلّا بِاللّٰہِ العَلِيِّ العَظِیم
٭٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.