ترجمہ: مولوی محمد نعمان سنجرانی
• حضرت اعمش شہر بن حوشب سے اور وہ حارث بن عمیرہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہ کے آخری لمحات میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اُن پر کبھی غشی طاری ہوتی تھی اور کبھی ہوش میں آ جاتے تھے کہ فرمانے لگے: ’’آپ جیسے چاہیں میرا گلا گھونٹ دیں، آپ کی عزت کی قسم میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ (سیر اعلام النبلاء، جلد: ۱، ص: ۴۰۷)
• مُبَرِّد سے روایت ہے کہ حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما سے کہا گیا کہ سیدنا ابوذر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں: ’’مجھے غنا سے زیادہ فقر محبوب ہے اور صحت سے زیادہ بیماری‘‘۔ حضرت حسن رضی اﷲ عنہ فرمانے لگے: ’’اﷲ ابوذر پر رحم فرمائے! میں تو صرف یہ کہتا ہوں جو شخص اپنی ذات کے لیے اﷲ کی پسند نا پسند پر راضی ہو جاتا ہے تو وہ کچھ خواہش نہیں رکھتااور یہی قضا کے فیصلوں پر رضا مند (رضا بالقضا) ہونے کا درجہ ہے‘‘۔ (سیر اعلام النبلاء، جلد: ۱، ص: ۲۶۲)
• وہب بن منبہ سے روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا: ’’مصیبت میں جو شخص تم میں سے سب سے زیادہ گھبراہٹ کا اظہار کرے وہ سب سے زیادہ دنیا سے محبت کرنے والا ہے‘‘۔ (سیر اعلام النبلاء، جلد: ۴، ص: ۵۵۱)
• شعبی سے روایت ہے کہ حضرت شُریح نے فرمایا: ’’جب مجھے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اس پر میں اﷲ کی چار بار تعریف کرتا ہوں کہ اس سے بڑی مصیبت میں مبتلا نہیں فرمایا اور اﷲ کی تعریف کرتا ہوں کہ اس نے مجھے صبر کی توفیق دی اور اﷲ کی تعریف کرتا ہوں کہ اُس نے مجھے انا ﷲ و انا الیہ راجعون پڑھنے کی توفیق دی جس پر مجھے ثواب کی امید ہے اور اﷲ کی تعریف کرتا ہوں کہ مصیبت کے نتیجے میں پہنچنے والا نقصان میرے دین میں واقع نہیں ہوا‘‘۔ (سیر اعلام النبلاء، جلد: ۴، ص: ۱۰۵)
• غسّان بن المفضَّل غَلابی کہتے ہیں کہ مجھے میرے ایک دوست نے حدیث مبارک سنائی، ایک شخص امام یونس بن عبید رحمہ اﷲ کے پاس آیا اور اپنے تنگ دستی اور معاشی پریشانیوں اور غموں کا ذکر کیا۔ یونس بن عبید نے فرمایا: ’’کیا اپنی بصارت کے بدلے میں تمھیں ایک لاکھ ملنے پر خوشی ہو گی؟ وہ کہنے لگا: نہیں۔ فرمایا: پھر سماعت کے بدلے میں؟ اس نے کہا: نہیں، فرمایا: زبان کے بدلے میں؟ پھر فرمایا: عقل کے بدلے میں؟ اس نے کہا: نہیں۔ اسی طرح اس کو اﷲ کی نعمتیں یاد کروائیں۔پھر حضرت یونس نے فرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ تم لاکھوں کے مالک اور تم اپنی حاجتوں پر غم زدہ ہو‘‘۔ (سیر اعلام النبلاء، جلد: ۶، ص: ۲۹۲)
• اشعث ابن سعید سے روایت ہے کہ امام ابن عون نے فرمایا: آدمی رضا کی حقیقت کو اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ فقر پر بھی ویسا ہی راضی ہو جیسے مالداری پر راضی ہوتا ہے۔ تم کیسے اﷲ سے اس کی قضا کے طالب بنتے ہو، پھر اگر اس کا فیصلہ تمھاری خواہش کے مخالف ہو تو ناراض ہو جاتے ہو۔ مباداتمھاری پسند تمھارے لئے باعثِ ہلاکت ہو اور اگر اﷲ کا فیصلہ تمھاری خواہش کے مطابق ہو تو تم راضی ہو جاتے ہو۔ تم خود سے انصاف نہیں کر رہیاور نہ تم بابِ رضا کی حقیقت کے عارف ہو۔ (صفۃ الصفوۃ، جلد: ۳، ص: ۳۱۱)
• احمد ابنِ عِصام سے روایت ہے کہتے ہیں کہ زُہَیر ابن نُعیم نے فرمایا: بے شک یہ معاملہ (معاملۂ زیست) دو چیزوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ایک صبر اور دوسرا یقین۔ اگر یقین ہو لیکن اس کے ساتھ صبر نہ ہو تب بھی ناقص ہے، اگر صبر ہو اور اس کے ساتھ یقین نہ ہو تب بھی ناقص ہے۔ حضرت ابی ہریرہ رضی اﷲ عنہ نے ان دونوں کی ایک بڑی عمدہ مثال بیان فرمائی۔ فرمایا کہ یقین اور صبر کی مثال ایسے ہے کہ جیسے دو کسان مل کر زمین کھود رہے ہوں ان میں سے اگر ایک بیٹھے تو دوسرا بھی بیٹھ جائے۔ (صفۃ الصفوۃ، جلد: ۴، ص: ۸)
• حضرت عثمان ابن ہیثم سے روایت ہے: کہتے ہیں کہ بصرہ میں قبیلہ بنو سعد کا ایک آدمی تھا جو عبیدا ﷲ بن زیاد کی فوج میں افسر تھا۔ ایک روز وہ چھت سے گرا اور اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ حضرت ابو قلابہ اس کے پاس عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور فرمایا: مجھے امید ہے کہ تمھارے لئے بہتر ہو گا۔ اس نے کہا اے ابو قلابہ! میری دونوں ٹانگوں کے بیک وقت ٹوٹنے میں کیا بہتری ہو سکتی ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ اﷲ نے جو کچھ چھپا رکھا ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ (یعنی ہماری معلومات ناقص ہیں)۔ ابھی تین دن ہی گزرے تھے کہ اس شخص کے پاس ابن زیاد کا خط آیا کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے لشکر میں پہنچو۔ اس نے پیغام لانے والے قاصد سے کہا: میرا حال تمھارے سامنے ہی ہے۔ ابھی سات دن ہی گزرے تھے کہ حضرت حسین رضی اﷲ عنہ کے مظلومانہ قتل کی خبر آن پہنچی۔ وہ شخص کہنے لگا: اﷲ ابوقلابہ پر رحم کرے بے شک یہ (میری ٹانگوں کا ٹوٹنا) میرے لئے بہتر تھا۔ (صفۃ الصفوۃ، جلد: ۲، ص: ۳۸)