سید محمد معاویہ بخاری
گزشتہ ماہ حکومت کی جانب سے ’’انتخابی اصلاحاتی بل 2017ء ‘‘کے ذریعے کی گئی آئینی ترامیم کا بہت چرچا رہا، بالخصوص ترامیم کا وہ حصہ وجہ شہرت بنا جو ختم نبوت کے قانون سے متعلق تھا ۔ نکتۂ اعتراض جو سامنے آیا وہ یہ تھا کہ انتخابی حلف نامہ کو اقرار نامہ میں تبدیل کردیا گیا ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ۔ کیونکہ جو شخص فارم میں لکھے حلف نامہ کے مطابق اﷲ تعالیٰ کو گواہ بنا کر اور قسم اُٹھا کر اپنی شناخت بحیثیت مسلمان کراتا ہے اگر اس کا معاملہ برعکس نکل آئے تو یہ آئین پاکستان کے تحت قانوناً قابل گرفت عمل ہے اور ایسا شخص عمر بھر کے لئے نااہل ہو سکتا ہے اُسے سزا ہو سکتی ہے جبکہ اقرار نامہ محض ذاتی نوعیت کا ایک بیان ہے کہ اگر کسی شخص کا معاملہ اس کے اقرارنامہ کے برعکس ثابت ہو جائے تو اسے کیونکہ حلف کی حیثیت حاصل نہیں ہے لہٰذا وہ قابل مواخذہ بھی نہیں ہوگا۔ یہ معاملہ خاصا اہم تھا بلکہ ہے۔ لیکن اصل حقائق جو سامنے آرہے ہیں وہ اس حلف نامہ کی اقرار نامہ میں تبدیلی سے بھی زیادہ خوفناک ہیں۔ اسمبلی ممبران، میڈیا اور مذہبی و سیاسی جماعتوں نے محض حلف نامہ کی تبدیلی کو ہی موضوع بنایا جو ایک بڑے ڈرامہ کا بہت چھوٹا سا جُز تھا حالانکہ معاملہ خطرناک اور بہت آگے کا ہے۔ ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامہ میں کی گئی ترمیم کو احتجاج پر فوری واپس لے لیا گیا اور یہ کہ کر واپس لیا گیا کہ یہ ایک ’’کلیریکل مسٹیک ‘‘تھی جسے فوری واپس لیا جارہا ہے بلکہ اس کو بعینہٖ پہلی حالت میں بحال کردیا گیا ہے ۔ وفاقی وزیر قانون ’’زاہد حامدصاحب ‘‘اسمبلی میں جب یہ بیان دے رہے تھے تو اُن کی گفتگو اُن کی زبان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی کیونکہ اس تبدیلی و ترمیم کے گھناؤنے کھیل کے پیچھے وہ خود اور ایک خاتون وزیر کی افلا طونی سوچ کار فرما تھی۔
ترامیم واپسی کے اعلان پر قومی اسمبلی میں خوب تالیاں بجیں اورمیڈیا پر بھی داد ِ تحسین کے چھاجوں چھاج برسائے گئے۔ اس ڈرامائی تبدیلی سے عوام بھی خوش اور مذہبی جماعتیں بھی (چند ایک کے استثناء کے ساتھ )باقی سب مطمئن ہیں کہ حکومت نے بڑے پن کا ثبوت دیتے ہوئے اورعوام کے جذبات کاخیال رکھتے ہوئے ترامیم واپس لے لیں ۔ لہٰذا معاملہ ختم اور بات بھی ختم کہ باب بند ہوگیا۔
لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ معاملہ بہت خطرناک ہے جو ختم نہیں ہوا بلکہ شروع ہوا ہے اور مستقبل قریب میں اس کے نقصانات سامنے آئیں گے،اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت صرف حلف نامہ تبدیل کرنے کی مرتکب ہی نہیں ہوئی تھی بلکہ قادیانیوں کے حوالے سے موجود9اہم قوانین بھی منسوخ کردیئے گئے ہیں ۔یہاں ایک اہم بات ریکارڈ پر لانا ضروری ہے کہ ان ترامیم کے حوالہ سے بہت سا کام پرویز مشرف کے دور میں ہی کیا جا چکا تھا جس کی تفصیل کا اجمال یہ ہے کہ پرویز مشرف نے 2002ء میں انتخابی اصلاحات کے نام پر ترامیم کیں تو اُس وقت جبراً یہ کام بھی کردیا کہ آئین کی وہ شقیں جو قادیانیوں اور لاہوری احمدیوں کو غیر مسلم ظاہر کرنے کی تفصیل پر مشتمل تھیں اور ان کے عقائد کو بیان کرتی تھیں اور جن کی بنیاد پر انہیں غیر مسلم قراردیا گیا تھا ان شقوں کو آئین سے پرویزی حکم کے تحت معطل کردیا گیا تھا۔ اُس وقت ’’متحدہ مجلس عمل ‘‘پر مشتمل دینی جماعتوں کی بڑی تعداد قومی و صوبائی اسمبلیوں کا حصہ تھی بلکہ صوبہ پختونخواہ میں تو ان کی حکومت تھی مگر اپنی حکومت بچانے کے لئے پرویز مشرف کے حکم نامہ پر متحدہ مجلس عمل کی قیادت نے بھی دستخط کردیئے تھے جبکہ باقی نام نہاد لبرل سیاسی پارٹیوں کا یہ مسئلہ ہی نہیں تھا۔ اگر کوئی اعتراض کر سکتا تھا تو وہ مذہبی جماعتیں ہی تھیں مگر اس وقت مفادات یا مصلحت کے تحت مجرمانہ خاموشی اختیار کی گئی بعد ازاں معاملہ کی سنگینی کا احساس ہوا اور کچھ کرنا چاہا تو بہت دیر ہو چکی تھی ۔ 2002ء سے آئین کی یہ شقیں معطل چلی آ رہی تھیں حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں لیکن معاملہ جوں کا توں رہا ۔ موجودہ حکومت نے اپنے نااہل سابق وزیراعظم نواز شریف کی عدالتی فیصلہ کے تحت نااہلی کے بعد کہ وہ اب اپنی جماعت کے سربراہ بھی نہیں رہ سکتے تھے ’’انتخابی اصلاحاتی بل 2017ء ‘‘لانے کا فیصلہ کیا اس بل کی تیاری گو کہ جون کے ابتدائی دنوں میں شروع ہو چکی تھی لیکن عدالت کا حتمی فیصلہ آنے تک جو کہ سب کے لئے متوقع نااہلی کی صورت میں ہی آنا تھا اس بل کو دانستہ خفیہ رکھا گیا مگر تیاری ہوتی رہی۔
28جولائی 2017ء کو نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ آگیا تو بطور ٹاسک انتخابی اصلاحاتی بل کو جلد سے جلد لانے کی تیاری کرلی گئی ۔ میڈیا ذرائع کی اطلاعات یہ ہیں کہ اگست کے آخر میں اس بل کا مسودہ مکمل ہو چکا تھا اوراپوزیشن جماعتوں کو اس کی منظوری کے لئے راضی کیا جارہا تھا ستمبر کے مہینہ میں جوڑ توڑ مکمل ہوا اورحمایت کی یقین دہانی مل گئی تو اکتوبر 2017ء کی2تاریخ کو یہ بل پیش کر کے منظور کرایا گیا جس کا بظاہر مقصد یہ نظر آتا تھا کہ نواز شریف کومسلم لیگ (ن) کی صدارت پر بحال رکھنے کے لئے آئین کی ان شقوں میں ترامیم کی گئی ہیں جن کے تحت وہ پارٹی صدارت نہیں سنبھال سکتے تھے ۔3اکتوبر 2017ء کو اسلام آباد کے کنونشن ہال میں نواز شریف کو آئندہ چار سال کے لئے مسلم لیگ (ن) کا صدر منتخب کرلیا گیا تو اس موقع پر موصوف نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ :
’’پرویز مشرف نے میرا راستہ روکنے کے لئے کالا قانون بنایا جو آج دوبارہ اُسے لوٹا رہے ہیں، آج پھر آمر کا قانون ختم کررہے ہیں جسے ایوب اور پھر پرویز مشرف نے نافذ کیا تھا۔ ارکان اسمبلی کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے آمرکا قانون واپس اس کے منہ پر دے مارا۔‘‘
(بحوالہ روزنامہ ایکسپریس 4اکتوبر2017ء)
میڈیا ذرائع سے ہمارے علم میں جو باتیں آئی ہیں اُنہیں بیان کرنا ضروری ہے کہ اوّل یہ کہ ان ترامیم کو لانے اور بل کی تیاری میں تین حکومتی شخصیات ملوث تھیں جن کی باہمی مشاورت سے اس بل کامسودہ تیار ہوا۔
(1) بیرسٹر ظفر اﷲ صاحب جو کہ اچھے وکیل بھی ہیں اور مذہبی سکالر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں ۔ (2)وفاقی وزیر قانون زاہد حامد صاحب اور (3) ایک خاتون وفاقی وزیر انوشہ رحمان صاحبہ۔
’’ زاہد حامدصاحب ‘‘کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ موصوف ’’پلڈاٹ‘‘ نامی این جی او کے ایگزیکٹو بورڈ کے ممبر بھی رہ چکے ہیں اور ان کے بھائی صاحب بھی ۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ موصوف وفاقی وزیر صاحب نے اس بل کا مسودہ پلڈاٹ کے مشیران کی نگرانی میں تیار کیا جس میں آئین کی تمام شقوں کا مرحلہ وار جائزہ لیا گیا۔ نواز شریف کو آئینی دفعات 62۔63 کی جن شقوں کے تحت وزارت عظمیٰ سے نااہلی اور پارٹی صدارت سے محروم ہونا پڑا تھا ان میں ترامیم کر کے بحالی کا اہتمام کرنا اس وقت محض ایک ضمنی معاملہ رہ گیا کیونکہ پلڈاٹ کے شاطر قادیانی نواز مشیروں کے علم میں تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف دَورمیں 9 قوانین ایسے تھے جو قادیانیوں سے متعلق تھے اور انہیں معطل رکھا گیا تھا اس وقت کیونکہ ایک بار پھرترامیم ہونے جارہی ہیں تو کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ان معطل شدہ 9قوانین کو آئین سے مکمل طور پر منسوخ کرادیا جائے اور لگے ہاتھوں حلف نامہ کو اقرار نامہ میں بدل کر قادیانیوں کی آئینی حیثیت 1974ء کی آئینی ترامیم سے پہلی والی پوزیشن یعنی مسلمان کے طور پر بحال کردی جائے اس طرح ایک تیر سے دو شکار کر لئے جائیں۔چنانچہ نئے ترمیمی ایکٹ 2017ء میں سیکشن 241کے تحت یہ عبارت لکھی گئی:
The following Laws are here by repealed
یعنی نیچے دیئے گئے قوانین منسوخ کئے جاتے ہیں۔ ان منسوخ ہونے والے قوانین کی تعداد9ہے جو انگریزی حروف اے ، بی، سی، ڈی ، ایف کے ساتھ ترتیب میں لکھے گئے ہیں ، ان میں جو نمبرFہے اس کا عنوان ہے :
The conduct of general elections order 2002.
اس کے نیچے یہ لکھا ہوا ہے:
cheif executive order noumber (7) of 2002.
اس آرٹیکل 7کی دو شقیں7Bاور7Cجو قادیانیوں اور لاہوری مرزائیوں کی آئینی حیثیت کا تعین کرتی ہیں اورجن میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ قادیانی اور لاہوری مرزائی اپنے کن عقائد کی وجہ سے مسلمان نہیں بلکہ غیر مسلم قرار پاتے ہیں ،اس تفصیل کوآئین پاکستان سے سیکشن241کے تحت یہ عبارت لکھ کر کہ
The following Laws are here by repealed
ترجمہ: ’’نیچے دیئے گئے یہ قوانین منسوخ کئے جاتے ہیں‘‘
آئین پاکستان سے ختم کردیا گیا ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر کوئی ترامیم لائی جارہی ہیں تو پہلی ترامیم کی جگہ دوسری نئی ترامیم لکھی جائیں لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ انتہائی مہارت سے وزیر قانون زاہد حامد صاحب نے ’’پلڈاٹی مشیروں ‘‘کی منصوبہ بندی کے مطابق ان شقوں کو آئین پاکستان سے نکال کر قادیانیوں کو مکمل تحفظ فراہم کردیا ہے ۔
جنرل الیکشن آرڈر2002ء کے عنوان اورچیف ایگزیکٹو آرڈر نمبر7(2002ء) کی شق ایف کے تحت آئین پاکستان میں شامل سیکشن7Bاور سیکشن 7C کی دفعات میں یہ تفصیل موجود تھی کہ خاتم النبیین حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت کو کن حتمی شرائط کے ساتھ قبول اور حلفاً اقرار کئے بغیر کوئی بھی شخص بالخصوص مرزائیوں کی دونوں شاخیں یا برانچیں قادیانی اور لاہوری مرزائی خود کو مسلمان قرارنہیں دے سکتے اور اب یہی دو تفصیلی سیکشن جو قادیانیوں اور لاہوری مرزائیوں کی بطور غیر مسلم آئینی حیثیت متعین کرتے تھے آئین سے خارج کر کے قادیانیوں اور لاہوری مرزائیوں کے لئے سہولت و گنجائش پیدا کردی گئی ہے کہ وہ نہ صرف خود کو مسلمان ظاہر کر کے الیکشن لڑ سکتے ہیں بلکہ کسی اہم قومی منصب یعنی وزارتوں اور حساس عہدوں پر بھی براجمان ہو سکتے ہیں ۔
اس طرح ایک دین دشمن اورملک دشمن گروہ کو جس کی سازشیں گزشتہ 70برس سے سب پر عیاں ہیں مکمل چھوٹ دے کر آئین کا اسلامی تشخص اور ملکی سلامتی خطرے میں ڈال دی گئی ہے۔ ہو سکتا ہے نواز شریف صاحب نے وہ بیان انہی آئینی ترامیم کے خاتمہ کی بنیاد پر ہی دیا ہو جس میں کہا گیا تھا کہ ملک مشرقی پاکستان جیسے حادثے کا شکار ہو سکتا ہے ؟ آئینی ترامیم کے حوالہ سے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کا کردار انتہائی متنازع بن چکا ہے اورحکومت پر دباؤ ہے کہ موصوف کو وزارت سے فارغ کیا جائے۔ ویسے تو نواز شریف کے کہنے پر ایک تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی راجہ ظفر الحق صاحب کی سربراہی میں بنائی گئی تھی اور اس نے اپنی تحقیقات بھی مکمل کرلی ہیں ، میڈیا ذرائع کے مطابق اس تحقیقاتی ٹیم نے زاہد حامد ، انوشہ رحمان سے تحقیقات کی ہیں ۔ ذرائع کے مطابق زاہد حامد نے تحقیقاتی کمیٹی کو بتایا کہ میرا کوئی قصور نہیں مجھے جس بات کا حکم دیا گیا تھا میں نے وہ کیا ، رپورٹ مکمل ہونے کے بعد اعلیٰ قیادت کو حقیقت بتائی گئی تو حکم آیا کہ اس رپورٹ کو کسی طور پر بھی باہر نہیں آنا چاہئے ۔
چنانچہ رپورٹ کہیں محفوظ کردی گئی ہے ۔ ’’اے آر وائی ‘‘ کے پروگرام ’’دی رپورٹر‘‘ کے میزبان سمیع ابراہیم اور صابر شاکر نے ختم نبوت کے حوالہ سے کی گئی آئینی ترامیم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ ترمیمی بل این جی او ’’پلڈاٹ ‘‘کے سرکردہ لوگوں کی مشاورت سے تیار کیا گیا تھا۔ صابر شاکر نے مزید بتایا کہ اس بل کی کاپیاں قومی اسمبلی میں لائے جانے سے قبل چند بیرونی سفارت کاروں کو پیش کی گئیں اس بل کے اسمبلی میں پیش کئے جانے سے ایک دن پہلے وزیر خارجہ خواجہ آصف امریکی دورہ پر روانہ ہوئے تھے اور اُن سے پہلے امریکہ میں اس بل کی تفصیلات پہنچ چکی تھیں۔
مذکورہ آئینی ترامیم اور قوانین کی منسوخی باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکہ میں قادیانی کمیونٹی کے نمائندہ ’’ظہیر باجوہ ‘‘سے ملاقات کی اور مبارک بادیں وصول کیں ۔ قادیانیوں کی امریکہ سے ہی آپریٹ ہونے والے فیس بک پیج ’’ربوہ ٹائم‘‘ پر خواجہ آصف کی قادیانی رہنما سے ملاقات کی تصاویر شائع کی گئیں ۔ میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ محض اتفاق نہیں تھا بلکہ یہ تقریب ملاقات بھی آئینی ترامیم کے نام پر قادیانیوں کا راستہ روکنے والی قانونی دفعات کے آئین سے اخراج پر داد تحسین وصول کرنے کے لئے منعقد ہوئی تھی ۔ خواجہ آصف امریکہ سے واپس آ کر حکومتی حلیف ’’جیو چینل ‘‘کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں حامد میر اورایکسپریس چینل کے پروگرام ’’کل تک‘‘ کے میزبان جاوید چوہدری کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکے بلکہ ’’عذر گناہ بدتر از گناہ ‘‘کے مصداق وہ قادیانی رہنما سے اپنی ملاقات پر تاویلیں پیش کرتے رہے جو انتہائی نامناسب بلکہ مضحکہ خیز تھیں۔ خواجہ آصف صاحب کے بقول ایک کمیونٹی میٹنگ میں ہال سے گزرتے ہوئے سرسری ہیلو ہائے ہوئی تھی کوئی باقاعدہ طے شدہ ملاقات نہ تھی۔ مگر جو تصاویر ’’ربوہ ٹائم‘‘ کی ویب سائٹ پر اب بھی موجود ہیں وہ کچھ اور ہی موڈ اور مختلف صورت حال بتاتی ہیں۔