مکتوب نمبر:۵
ڈاکٹر محمدآصف
عزیز احمدی دوستو!
کبھی آپ نے غور کیا کہ ایک طرف تو احمدی دوست مسلمانوں سے یہ تقاضا کرتے ہیں کہ انہیں اپنا حصہ سمجھا جائے، انہیں برابر کے حقوق ملیں اور مسلمان معاشرتی زندگی میں ان سے مل جل کر رہیں۔ اس کو آپ حقیقت کا نام دیں گے یا اس کے برعکس کہ ان کی یہ جملہ خواہش اور کل تقاضے مرزا صاحب اور ان کے خلفاء کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں۔ جماعت احمدیہ میں شادی بیاہ سے لے کر جنازہ اور تدفین تک جملہ معاملات میں مسلمانوں سے بائیکاٹ کی تعلیم ہے اور اس پر بھرپور زور دیا گیا ہے کہ مسلمانوں سے کسی قسم کا کوئی معاملہ نہ رکھیں حتیٰ کہ ان کے معصوم بچوں کا جنازہ تک نہ پڑھیں۔ مرزا صاحب کے ان اقدامات کو دیکھتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرنا کوئی مشکل نہیں کہ مرزا صاحب اپنے ماننے والوں کو ایک الگ امت بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب مرزا غلام احمد صاحب اور ان کے خلفاء کی تعلیمات یہ ہیں تو پھر وہ مسلمانوں سے باہمی روابط کا کیوں مطالبہ اور تقاضا کرتے ہیں۔ اس دوہرے کردار کا اندازہ کرنے کے لیے درج ذیل تحریرات سب سے بڑا ثبوت ہیں چند تحریرات ملاحظہ فرمائیں:
’’ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے غیر احمدیوں کے ساتھ صرف وہی سلوک جائز رکھا ہے جو نبی کریمؐ نے عیسائیوں کے ساتھ کیا۔ غیر احمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں۔ ان کو لڑکیاں دینا حرام قرار دیا گیا۔ ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا۔ اب باقی کیا رہ گیا ہے جو ہم ان کے ساتھ مل کر کرسکتے ہیں دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں ایک دینی دوسرے دنیوی تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ عبادت کا اکٹھا ہونا ہے اور دنیوی تعلقات کا بھاری ذریعہ رشتہ ناطہ ہے۔ سو یہ دونوں ہمارے لیے حرام قرار دیئے گئے۔ا گر کہو کہ ہم کو ان کی لڑکیاں لینے کی اجازت ہے تو میں کہتا ہوں کہ نصاریٰ کی لڑکیاں لینے کی بھی اجازت ہے۔ اور اگر یہ کہو کہ غیر احمدیوں کو سلام کیوں کہا جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث سے ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی کریمؐ نے یہود تک کو سلام کا جواب دیا ہے۔‘‘
(کلمۃ الفصل از مرزا بشیر احمد ایم اے ص 169 ۔170 )
جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود لکھتے ہیں:
کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد) کا نام بھی نہیں سنا، وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘
(آئینہ صداقت از مرزا بشیر الدین محمود، ص: 35 )
جب بھی کسی احمدی دوست سے پوچھا جائے کہ آپ لوگ ساری امت مسلمہ کو کیا سمجھتے ہیں تو وہ جھٹ سے جواب دیتے ہیں کہ ہم انہیں مسلمان سمجھتے ہیں لیکن جب انہیں کہا جاتا ہے کہ مرزا صاحب نے ساری امت مسلمہ کو کافر قرار دیا ہے تو وہ فوراً کہتے ہیں کہ سب سے پہلے مسلمان علماء نے مرزا صاحب کو کافر قرار دیا اس لیے نبی کریم نے فرمایا ہے کہ جو کسی مسلمان کو کافر قرار دیتا ہے تو وہ خود کافر ہو جاتا ہے لہٰذا اس لیے مرزا صاحب نے امت مسلمہ کو کافر کہا ہے تو میں ان سے عرض کرتا ہوں کہ اگر علما مرزا صاحب کو کافر قرار نہ دیتے لیکن سچا سمجھ کر قبول بھی نہ کرتے تو کیا مرزا صاحب یا جماعتی خلفاء امت مسلمہ کے ساتھ رعایت کر دیتے انہیں مسلمان سمجھ لیتے میرے محترم آپ مرزا صاحب کی ان ساری عبارتوں کو مرزا صاحب کے صاحبزادوں اور خلفاء کی تحریروں کو غور سے پڑھیں آپ نے اس مسئلہ پر ساری تحریریں کبھی اکٹھی نہیں پڑھی ہوں گی میں بہت سے ایسے احمدیوں کو جانتا ہوں جس کا صرف اس بات پر اخراج ہوگیا کہ انہوں نے اپنی غیر از جماعت والدہ کا یا کسی مسلمان کا جنازہ پڑھا تھا۔
’’جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود سے جب پوچھا گیا کہ غیر احمدی کے بچے کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے وہ تو معصوم ہوتا ہے اور کیا یہ ممکن نہیں وہ بچہ جوان ہو کر احمدی ہوتا۔ اس کے متعلق مرزا بشیر الدین نے کہا کہ جس طرح عیسائی بچے کا جنازہ نہیں پڑھا جاسکتا اگرچہ وہ معصوم ہی ہوتا ہے، اسی طرح ایک غیر احمدی کے بچے کا جنازہ نہیں پڑھا جاسکتا۔‘‘ (انوار خلافت، انوار العلوم، جلد 3، ص 150)
(۱) مرزا صاحب کو مارچ 1906ء میں الہام ہوا؛ ’’خدا تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے اور خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہے۔‘‘
(تذکرہ ایڈیشن چہارم ص 519)
(۲) ’’جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا وہ خدا کے رسول کی نافرمانی کرنے والا جہنمی ہے‘‘
(تذکرہ ایڈیشن چہارم، ص: 280)
(۳) ’’جو تیرے مخالف تھے ان کا نام عیسائی، یہودی اور مشرک رکھا گیا‘‘
(روحانی خزائن،ج:18،ص:382)
اس سلسلہ میں مرزا صاحب کے صاحبزادے مرزا بشیر احمد ایم اے اپنی کتاب کلمتہ الفصل کے ص 110 پر تحریر فرماتے ہیں ’’ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ ؑکو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ ؑکو نہیں مانتا یا عیسیٰ ؑ کو مانتا ہے مگر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہیں مانتا اور محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کو مانتا ہے پر مسیح موعود (مرزا صاحب) کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘
(کلمۃ الفصل ص 110 مرزا بشیر احمد ایم اے)
منیر انکوائری کمیشن کے سوال کے جواب میں ان دونوں جماعتوں نے یہ بیان دیا کہ ہم غیر احمدیوں کو کافر نہیں سمجھتے ان کا یہ بیان ان کے حقیقی عقائد اور سابقہ تحریرات سے اس قدر متضاد تھا کہ منیر انکوائری کمیشن کے جج صاحبان بھی اسے صحیح باور نہ کرسکے چنانچہ وہ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں:
’’اس مسئلہ پر کہ آیا احمدی دوسرے مسلمانوں کو ایسا کافر سمجھتے ہیں جو دائرہ اسلام سے خارج ہے؟ احمدیوں نے ہمارے سامنے یہ موقف ظاہر کیا ہے کہ ایسے لوگ کافر نہیں ہیں اور لفظ ’’کفر‘‘ جو احمدی لٹریچر میں ایسے اشخاص کے لیے استعمال کیا گیا ہے اس سے کفر خفی یا انکار مقصود ہے یہ ہرگز مقصود نہیں ہوا کہ ایسے اشخاص دائرہ اسلام سے خارج ہیں لیکن ہم نے اس موضوع پر احمدیوں کے بے شمار سابقہ اعلانات دیکھے یہیں اور ہمارے نزدیک ان کی تعبیر اس کے سوا ممکن نہیں کہ مرزا غلام احمد کے نہ ماننے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
(پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ اردو، ص 212 ۔ 1954ء)
عزیز دوستو!
ٍ اسلام میں کسی ایسی شخصیت کی گنجائش نہیں ہے جس پر انبیاء کی طرح ایمان لانا ضروری ہو اور ایمان نہ لانے کی صورت میں کفر لازم آتا ہو اور اسلام سے اخراج ہو جائے اور نہ ہی کسی نبوت کے دعوے والی شخصیت کی اطلاع ہے کہ کوئی شخص آکر نبوت کا دعوی کرے گا اور اس پر ایمان لانا ضروری ہوگا۔ اور وہ اپنی نبو ت کو ثابت کرنے کے لیے دلائل پیش کرے گا اور ساری امت مسلمہ کو کافر قرار دے گا۔اس بات کی تحقیق آپ کو قرآن و سنت سے ہی ملے گی۔
تمام احمدی دوستوں سے انتہائی خلوص سے عرض کروں گا کہ تمام تر تعصبات اور نفرتوں کو بھلا کر انتہائی غیر جانبداری سے مرزا غلام احمد صاحب اور ان کے صاحبزادوں کی کتابیں نہایت غور و فکر کے ساتھ پڑھیں۔ مزید گزارش یہ ہے کہ دوران مطالعہ خود ساختہ تاویلات میں ہرگز نہ الجھیں الفاظ کا وہی مفہوم مراد لیں جو بظاہر نظر اور سمجھ آ رہا ہے۔ اگر آپ ہر بات کی تاویل کریں گے تو حقائق تک کبھی رسائی نہ پاسکیں گے۔ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے لاکھ جھوٹ بولنا پڑتے ہیں۔
والسلام علیٰ من التبع الھدیٰ
آپ کا ایک خیر خواہ
ڈاکٹر محمدآصف