ڈاکٹرعمرفاروق احرار
کوئی دورتھا کہ کتاب تنہائی کا بہترین ساتھی تھی ،آج کتاب تنہا ہے اورساتھی کو ترستی ہے۔کبھی کتاب سے دُوری کاتصوربھی محال تھا،آج کتاب قاری کی قربت کو ترستی ہے۔ اِبن رُشدنے کہاتھاکہ’’ میں نے زندگی میں صرف دو رَاتیں کتاب کے مطالعہ کے بغیرگزاری ہیں‘‘ اوراَب مطالعہ زندگیوں ہی سے نکل چکاہے۔جہاں تیزرفتاردُنیاکی نت نئی ایجادات بالخصوص انٹرنیٹ ،سوشل میڈیا اورموبائل فون نے کتب بینی کے ذوق کو تشویشناک حدتک کم کردیاہے،وہیں کتابوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عام آدمی کی کتاب تک رسائی کو مشکل کردیاہے۔اگرچہ انٹرنیٹ معلومات کی فوری فراہمی کاآسان اور تیزترین ذریعہ ہے،مگرصرف معلومات کے حصول نے علم ودانش سے محرومی کی صورت پیداکردی ہے۔مادیت کی دوڑ اورآسائشات نے بھی ہماری زندگی سے کتاب کونکال باہرپھینکاہے۔اب کتاب ہماری ترجیحات سے نکل چکی ہے۔
پاکستان میں کتاب سے تعلق کے کمزورہونے کی کئی وجوہات ہیں:شرح خواندگی کی کمی،قوتِ خرید کاکم ہونا،کتب کی اشاعت اورفراہمی میں حکومت کی عدم دل چسپی اور گھروں میں بچوں کو اَچھی کتابوں کے مطالعہ کی عادت نہ ڈالنابھی کتاب سے رشتہ قائم نہ رہنے کے بڑے اسباب ہیں۔ امت کا آغاز کتاب سے ہوا، لیکن افسوس کہ انجام کتاب سے دُوری ہے ۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 73 فیصد عوام نے کتب بینی سے دُوری کا اعتراف کیا ہے اورصرف 27 فیصد لوگ کتابوں سے شغف رکھتے ہیں۔کتابیں علم بانٹتی ہیں،کتابوں سے اجتناب جہالت ہے۔پاکستان میں قابل دادہیں وہ لوگ کہ جواِس حوصلہ شکن ماحول میں بھی قلم اورقرطاس سے جڑے ہوئے ہیں،وگرنہ اوپر سے لے کرنیچے تک کتاب اورمطالعہ سے ناآشنائی بہت دُورتک جاپہنچی ہے۔بقولِ کسے :’’مشرف صاحب کے بطور حکمران ترکی وزٹ کے موقع پر کرامت اﷲ غوری صاحب وہاں پاکستان کے سفیر تھے ۔ کرامت صاحب کے گھر میں اُن کی وسیع ذاتی لائبریری دیکھ اور یہ جان کر کہ اُنھیں مطالعہ کا بے پناہ شوق ہے ، مشرف صاحب نے کندھے اُچکائے اور کہا: ’’مجھے تو پڑھنے کا شوق نہیں۔‘‘پرویزمشرف کے یہ الفاظ درحقیقت ہمارے مجموعی فکراوررَویّہ کے ترجمان ہیں۔ایک بارممتازشاعرواَدیب احمدندیم قاسمی مرحوم کے ہاں مجلس ترقی ادب لاہورکے دفترمیں بیٹھاتھا۔ایک خاتون پروفیسرسے تعارف ہواتووہ کہنے لگیں کہ میرے بیٹے کا نام بھی عمرفاروق ہے۔میں چاہتی تھی کہ گھرمیں سیرۃِ فاروق اعظمؓپر کوئی کتاب لاکر رکھوں،تاکہ بیٹابڑاہوکراُن کی سیرۃ وکردارسے واقف ہو۔میں کتابوں کی دکان پر گئی اورمحمدحسنین ہیکل کی کتاب’’الفاروق عمرؓ ‘‘ خریدی۔اِسی دوران ایک خاتون کارسے اتر کردوکان میں داخل ہوئی اوردوکاندارسے کہا کہ کوئی سی پانچ سات موٹی موٹی کتابیں دے دیں۔دوکاندارنے حیرت سے پوچھاکہ آپ نے کتابیں کیاکرنی ہیں تو خاتون نے کہا کہ’’ شوپیس کے طورپر ڈرائنگ روم کے شیلف میں رکھنی ہیں۔‘‘گویا اب مطالعہ کی بجائے لوگوں پر علم کا رُعب ڈالنے کے لیے چندبھاری بھرکم کتابیں الماریوں میں سجادی جاتی ہیں ۔جن سے پطرس بخاری کی کہانی ’’میبل اورمیں‘‘کی یادتازہ ہوجاتی ہے کہ دونوں کرداررَوزانہ گھنٹوں کتابوں کے مندرجات پر بحث کرتے ،مگر آخر میں یہ رازکھلاکہ دونوں نے کتابوں کو پڑھناتو درکنار کھولنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔یہی صورت حال اپنے گردوپیش میں روزانہ ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
کتب بینی کے کم ہوتے ہوئے معاشرہ میں نئی کتابوں کی اشاعت ایک خوش آئنداَمرہے۔حالیہ دنوں میں دواَچھی اورپُرمغزکتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔’’میانِ دوکریم‘‘عمرے کے مبارک سفرکی رُودادہے۔جسے روزنامہ ’’اسلام‘‘کے ہفت روزہ ’’خواتین کا اسلام‘‘کے سابق مدیرجناب محمداحمدحافظ حال مدیرماہنامہ’’وفاق المدارس‘‘کراچی نے سپردقلم کیاہے۔سنابل پبلی کیشنز،کراچی سے شائع ہونے والایہ سفرنامہ حجازمقدس کی مطہریادوں پر مشتمل ہے۔جسے برادرعزیزمحترم محمداحمدحافظ نے خوبصورت ادیبانہ اسلوب میں تحریرکیاہے۔’’میانِ دوکریم‘‘میں مصنف کائنات کے متبرک ترین مقامات کے انواروبرکات کے مشاہدات کے تذکرہ میں جہاں نہاں خانۂ دل کی کیفیات کوکمال چابک دستی سے کاغذپر منتقل کرتے ہیں،وہیں وہ قاری کوگردوپیش کے حالات وواقعات سے بھی باخبررکھنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے،یوں یہ سفرنامہ باطنی احوال اورظاہری مناظرکو ساتھ ساتھ لے کرچلتاہے۔’’میانِ دوکریم‘‘ میں جذبات کا وَفورہے ،مگر جذبات وکیفیات شریعت کے تابع ہیں۔افراط وتفریط کا دُورتک گزرنہیں ہے،چونکہ مصنف خودبھی صحیح العقیدہ عالم ہیں اورپھر یہ مبارک سفراَکابرعلماء کی سرپرستی میں کیاگیاتھا ۔اس لیے یہ سفرنامہ ایک مستند اورمدلل دستاویزکی حیثیت اختیارکرگیاہے۔ قاری کی دل چسپی کو برقراررکھنے کے لیے ظرافت کا سامان بھی موجودہے۔متبرک مقامات کے تعارف میں تاریخی پس منظراورموجودہ ماحول کو مکمل تفصیلات کے ساتھ تحریرمیں لایاگیاہے۔جس کے لیے آیات واحادیث ،تاریخی حوالہ جات اورنادرونایاب اورتازہ ترین تصاویر کابھی بالتزام اہتمام ہے۔عمرہ کے لیے جانے والوں کے لیے آسان طریقہ سے عمرہ اداکرنے کاطریقہ بتایاگیاہے۔اس لیے ہر زائرحرم کو یہ سفرنامہ ضرورمطالعہ کرناچاہیے۔سفرنامہ رنگارنگ معلومات بھی اپنے اندرسموئے ہوئے ہے۔حرم کے ائمہ کے تفصیلاً سوانحی حالات بھی پیش کیے گئے ہیں،مگرامام کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس کا ذکرہونے سے رہ گیاہے۔بہرحال یہ سفرنامہ حجازمقدس کے سفرناموں میں انفرادی خصوصیات کا حامل ہے۔جس کے لیے مصنف کی عرق ریزی اورمحنت شاقہ کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے ۔
دوسری قابل ذکر کتاب’’یادنامۂ حامدعلی خان‘‘ہے جوبابائے صحافت مولانا ظفرعلی خانؒکے چھوٹے بھائی ممتازاَدیب مولانا حامدعلی خان مرحوم پر مشاہیرکے لکھے گئے مقالہ جات پر مشتمل ہے ۔175صفحات پر مشتمل یہ مجموعۂ مضامین مولانا حامدعلی خان کے فاضل فرزندجناب زاہد علی خان نے ترتیب دیاہے جو اَلفیصل پبلشرزلاہورسے شائع ہواہے۔مولانا حامدعلی خان ایک صاحب طرزاَدیب اورشاعرتھے۔برسوں معروف ادبی جرائدہمایوں اورمخزن کی ادارت کی۔پھر اپنارسالہ’’الحمرا‘‘جاری کیا۔بعدازاں مکتبہ فرینکلن میں اعلیٰ عہدہ پر فائزرہے۔جہاں پانچ سواَمریکی مصنفین کی کتب پاکستانی ادیبوں سے ترجمہ کراکے شائع کرائیں۔’’یادنامۂ حامدعلی خان‘‘ میں دیگرشخصیات کے مضامین کے علاوہ مولانا حامدعلی خان کا ایک غیرمطبوعہ افسانہ اورغیرمطبوعہ کلام بھی شامل ہے۔لائق صدتبریک ہیں جناب زاہد علی خان کہ جو اَپنے تاریخ سازوالدماجدکے ادبی سرمایہ کو منصہ شہودپر لائے اورنژادِ نو کو اُن کے شعری محاسن اوراَدبی کارناموں سے روشناس کرانے کا باعث بنے۔
کتاب سے عشق کیجئے،کتاب نفرتیں مٹاتی اور محبت بڑھاتی ہے۔تنہائی کو ختم کرتی اوراَن دیکھی دُنیاؤں کی سیرکراتی ہے۔غم واَندوہ میں ڈھارس بندھاتی اورجینے کی امنگ پیداکرتی ہے۔جب کوئی بھی پاس نہ ہوتو کتاب سچے دوست کی طرح باتیں کرتی ہے ۔سچ کہا شورش کشمیری نے کہ:’’کتاب سا مخلص دوست کوئی نہیں۔‘‘