امت رپورٹ
لاہور کے معروف عالم دین مولانا شمس الرحمن معاویہ کی قبر کھل جانے پر خوشبو سارے قبرستان میں پھیل گئی۔ واقعہ چند ماہ قبل میاں میر قبرستان میں پیش آیا۔ مرحوم کے بھائی عبیدالرحمن کے مطابق مولانا شمس الرحمن کی قبر کے قریب ایک د وسری قبر کی کھدائی جاری تھی کہ اسی دوران کدال لگنے سے ان کی قبر تھوڑی سی کھل گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق قبر کھلتے ہی قرب و جوار میں خوشبو پھیل گئی۔ دین پور شریف کے تاریخی قبرستان میں مختلف تحریکوں سے وابستہ کئی تاریخی شخصیات اور گمنام شہداء و مجاہدین مدفون ہیں۔ مذکورہ قبرستان میں بھی برسوں پہلے کھدائی کے دوران ایک قبر کھل جانے پر ایسا ہی واقعہ مشاہدے میں آیا تھا۔
لاہور کے معروف عالم دین مولانا شمس الرحمن معاویہ ۶؍دسمبر ۲۰۱۳ء کو ایک قاتلانہ حملے میں شہید ہوئے تھے۔ وہ لاہور کی بستی سیدن شاہ میں رہائش پذیر تھے۔ جس کے قریب ہی واقع حضرت میاں میر قبرستان میں انھیں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کے چھوٹے بھائی مولانا عبیدالرحمن نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’قریباً ساتھ ماہ پہلے میرے حفظ کے ساتھی اور دوست حافظ عبدالرحمن ایک روز اچانک مجھے ملنے آئے ان کا چھوٹا بھائی کچھ عرصہ پہلے فوت ہوا، جس کی قبر ہمارے بھائی کی قبر کے قریب ہی بنی۔ حافظ عبدالرحمن کے چہرے پر دبا دبا جوش صاف دکھائی دے رہا تھا۔ آتے ہی بولے کہ میں آپ کے لیے ایک بڑی خبر لایا ہوں۔ میرے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ اپنے چھوٹے بھائی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے لیے وہ اکثر قبرستان جاتے رہتے ہیں۔ چند روز پہلے وہ جب اپنے بھائی کی قبر پر کھڑے فاتحہ پڑھ رہے تھے کہ اسی دوران دو آدمی ان کے پا س آکر رک گئے۔ حافظ عبدالرحمن کے متوجہ ہونے پر انھوں نے مولانا شمس الرحمن معاویہ کی قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ صاحب قبرکون ہیں اور ان کے لواحقین کہاں رہتے ہیں؟حافظ عبدالرحمن نے ان دونوں اجنبیوں کو مولانا شمس الرحمن کا تفصیلی تعارف کراتے ہوئے پوچھا کہ ان صاحبان کو ان قبر اور صاحب قبر سے کیا دلچسپی ہے تو جواباً انھوں نے بتایا کہ چند روز پہلے ان کے ایک عزیز کا انتقال ہوگیا جس کی قبر کے لیے مولانا شمس الرحمن معاویہ کی قبر کے بالکل قریب جگہ منتخب کی گئی۔ وہ لوگ قبر کھود رہے تھے کہ اسی دوران غلطی سے کدال مولانا شمس الرحمن کی قبر کی دیوار کو لگ گئی جس سے اس میں سوراخ ہوگیا۔ قبر کھلتے ہی قرب وجوار میں یکدم خوشبو پھیل گئی اور وہ خوشبو اس سوراخ میں سے نکل رہی تھی۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے قبرستان میں کسی نے عطر کی شیشی توڑ دی ہو۔ جب کہ صاحب قبر کا کفن بالکل صاف ستھرا دکھائی دے رہا تھا۔ ان لوگوں نے تھوڑی دیر یہ منظر دیکھنے کے بعد سوراخ کو بند کردیا۔
عبیدالرحمن کا مزید کہنا تھا کہ ’’میں نے جب یہ بات اپنے گھر والوں کو بتائی تو ہمارے حفظ کے استاد اور ماموں قاری محمد شفیع صاحب اپنے اطمینان کے لیے دو بارہ میرے ساتھی حافظ عبدالرحمن سے ملے اور سارا واقعہ خود سنا۔ بعد ازاں ہم لوگ قبرستان گئے تو وہاں موجود گورکن نے بھی اس واقعے کی تصدیق کی لیکن وہ یہ نہ بتا سکا کہ مولانا شمس الرحمن کی قبر کے ساتھ کھدائی کرنے والے لوگ کون تھے۔‘‘
عبیدالرحمن نے مزید بتا یا کہ ’’گزشتہ برس ان کی والدہ اور ماموں حج پر گئے جہاں ان کی والدہ نے خواب میں دیکھا کہ وہ مطاف میں طواف کر رہی ہیں اور بھائی شمس الرحمن ان کے آگے چل رہے ہیں۔‘‘
ضلع رحیم یار خان کی تحصیل خان پور میں واقع تاریخی بستی دین پور شریف تحریک ریشمی رومال کا اہم ترین مرکز رہا ہے اس بستی کا قبرستان علاقے بھر کا قدیمی اور تاریخی قبرستان ہے۔ اس قبرستان میں تحریک ریشمی رومال کے مرکزی رہنما مولانا عبیداﷲ سندھی، حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوری، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے چوتھے مرکزی امیر مولانا لال حسین اختر ، مولانا عبدالہادی دین پوری، معروف خطیب مولانا عبدالشکور دین پوری اور حافظ الحدیث مولانا عبداﷲ درخواستی رحمتہ اﷲ علیہم مدفون ہیں۔ حضرت درخواستی کے انتقال کے بعد ان کی یاد میں ہونے والے تعزیتی ریفرنس میں ایک شاعر نے کہا تھا کہ:
عبدالہادی، غلام محمد یہاں لال اختر، عبیداﷲ سندھی بھی ہیں
جس کو لاہوری نے ہے جنت کہا، تیرا دارالبقاء شیخ درخواستی
گجرات سے تعلق رکھنے والے حافظ افضل نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ’’۱۹۹۳ء میں تبلیغی جماعت کے ساتھ ہماری تشکیل خان پور میں ہوئی میں نے وہاں اپنے امیر صاحب سے درخواست کی کہ ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دین پور شریف کے قبرستان کی زیارت ضرور کرنی چاہیے۔ امیر صاحب سے اجازت ملنے کے بعد ہم نے پروگرام بنایا کہ نماز جمعہ دین پور کی جامع مسجد میں ادا کی جائے اور اس سے پہلے قبرستان حاضری دی جائے۔ ہم جب دین پور پہنچے تو مقامی ساتھیوں نے ایک سفید ریش بابا جی بطور رہبر ہمارے ساتھ کردیے جن کی اس وقت عمر ستر برس کے قریب تھی۔ بابا جی نے ہمیں بتایا کہ اس قبرستان میں خاص بات یہ ہے کہ اس میں کوئی بھی قبر پختہ نہیں ہے۔ اس میں اگرچہ مشہور شخصیات بھی دفن ہیں لیکن اکثریت گمنام علماء، مجاہدین، صلحا اور شہداء کی ہے۔ اس قبرستان میں زیادہ تر ایسے لوگ دفن ہیں جو مختلف ادوار میں کسی نہ کسی دینی تحریک سے وابستہ رہے۔ ہم نے ایک خاص بات یہ نوٹ کی کہ جیسے ہی اس قبرستان میں داخل ہوئے تو ہمیں واضح طور پر ایک رعب محسوس ہوا۔ ہم نے اس قبرستان کے حوالے سے بابا جی کو کوئی خاص واقعہ سنانے کی درخواست کی۔ پہلے تو وہ ہچکچائے لیکن پھر ہمارے اصرار پر انھوں نے بتایا کہ بہت برس پہلے یہاں ایک قبر کی کھدائی جاری تھی میں بھی کھدائی کرنے والوں میں شامل تھا کہ اسی دوران کدال لگنے سے ایک قبر میں سوراخ سوگیا۔ سوراخ عین اس جگہ ہوا جہاں میت کا چہرہ تھا۔ سوراخ ہوتے ہی قبرستان میں خوشبو پھیلنے لگی۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیران کن منظر قبر کے اندر موجود تھا۔ ہم نے دیکھا کہ میت کے چہرے سے کفن ہٹا ہوا تھا اور اس کے عین اوپر ایک بڑے ٹوپے (غلے کی پیمائش کے لیے استعمال کیا جانے والا ایک ایسا برتن جس میں قریباً ڈھائی کلو غلہ آتا ہے) جتنا بڑا پھول معلق تھا۔ کئی رنگوں کے اس پھول کی خوبصورتی لاجواب تھی۔ ایسا پھول ہم نے تو کبھی نہ دیکھا۔ اس سے بھی حیران کن منظر یہ تھا کہ تھوری دیر بعد اس پھول میں سے ایک قطرہ ٹپکتا عین اسی لمحے میت کے لب ذرا سے کھلتے اور وہ قطرہ منہ کے اندر چلا جاتا۔ میت کے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ جگمگا رہی تھی۔ ہم لوگ یہ منظر دیکھ رہے تھے کہ اسی اثناء میں یہ خبر خانوادہ دین پور کے بزرگوں تک پہنچی تو انھوں نے ہمیں سختی سے ڈانٹا اور سوراخ کو فوراً بند کرنے کی ہدایت کی۔ بابا جی کا کہنا تھا کہ ان سمیت اس واقعے کے کئی عینی شاہدین ابھی بھی اس بستی میں حیات ہیں، جنھوں نے وہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ وہ قبر کسی گمنام آدمی کی تھی جس پر کتبہ بھی موجود نہیں تھا‘‘۔
(مطبوعہ: روزنامہ امت کراچی)