(قسط:۱۴)
ظفرجی
نامعلوم افراد
آئی جی آفس ․․․․ لاہور ․․․․5 مارچ1953
“سر !کراچی سے ڈیفنس سیکرٹری کا فون ! ”
” ہاں سرجی ․․․․ خیریت ؟ ” آئی جی نے جمائی لیتے ہوئے کریڈل اٹھایا۔
” آئی جی صاحب ․․․ کچھ ہم سے بھی رابطہ رکھا کیجئے ۔پرائم منسٹر کو بریفنگ دینی ہوتی ہے۔ ” سکندر مرزا نے کہا۔
” اوہ سر جی! یہاں دن رات میٹنگز چلتی ہیں۔ اوپر سے شہر کے حالات ․․․․ ! ”
” ڈی ایس پی فردوس شاہ کیسے قتل ہوا ؟”
” انہی لوگوں نے مارا جو پچھلے ایک ہفتے سے شہر پر قابض ہیں ۔” آئی جی نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا ۔
” اوہ مائی گوش ! یعنی فوج اور پولیس دونوں بُل شٹ ہو گئے ؟”
” کیا کریں سر ؟ پولیس کے پاس اچھے ہتھیار نہیں اور جنرل صاحب آگے آنے کو تیار نہیں ۔ ”
“کیوں ؟ کیا کہتا ہے جنرل اعظم ؟”
” اُن کے بھی نخرے ہیں یار !جب تک شہر میں آگ نہیں لگے گی۔مظاہرین گاڑیاں نہیں جلائیں گے۔ توڑپھوڑ نہ ہوگی۔ فوج ٹیک اوور نہیں کرے گی۔․ وٹ اے جنٹل مین یار ! ”
” تو کر دو اُس کی خواہش پوری ! ”
” کیا مطلب ؟ ”
” اومائی جنٹل مین ! تم نے نِیرو کا نام سنا ہے ؟ روم کا ایک مشہور بادشاہ تھا ۔چل چھوڑ ․․․․ ایسا کر ․․․ ایک فون نمبر دیتا ہوں۔یہاں مرزاآتش بیٹھے ہوں گے۔ انہیں بتا دو کہ شہر میں تھوڑی بہت آگ لگا دیں۔ چل رہنے دے، تو تھکا ہو گا یار !میں خود ہی کہہ دیتا ہوں ۔ ”
آئی جی نے ایک کھوکھلا قہقہہ لگا کر کہا:
” لیکن یہ آگ لگائے گا کون ؟ ”
” نامعلوم افراد ․․․ ” اسکندر مرزا نے کہا اور فون بند کر دیا۔
صبح 8 بجے جب آئی جی میٹنگ کے لئے گورنر ہاؤس کی طرف نکلے تو شہر بھر میں نامعلوم افراد کا راج قائم ہو چکا تھا۔نسبت روڈ پر انہوں نے کئی دکانوں کو لٹتے دیکھا۔ ایک مرزائی بزّاز کی لاش سڑک پر پڑی تھی ۔جسے سفید لٹھے سے ڈھک کر چاروں کونوں پر اینٹیں رکھ دیں گئی تھیں۔ بلوائی دکان سے کپڑوں کے تھان کے تھان نکال رہے تھے ۔ پولیس دُور کھڑی تماشا دیکھنے میں مصروف تھی۔
“ادھر آؤ۔” آئی جی نے ایک بنگالی سپاہی کو آواز دی جو اپنی بندوق کولہوں پہ ٹکائے پان چبا رہا تھا۔سپاہی بھاگا بھاگا آیا اور کڑاکے دار سلیوٹ کیا:
” نن ․․․ نیچے کر ہاتھ ․․․ ڈھکّن ! ” آئی جی نے ڈانٹا۔
” پھِکر کرنے کا ناہیں ہے ساب ․․․ ایدھر سب اپنا ہی لوغ ہے۔ ” وہ پان چباتے ہوئے بولا۔
” گورنر ہاؤس کا رستہ سیف ہے ؟” آئی جی نے پوچھا۔
” ایک دم بڑھیا ساب! بس کوتوالی کی طرف کُس گربر ہے ۔باقی سب سیک ہے۔”
” ٹھیک ہے۔ دھیان سے کرو ڈیوٹی ! ” آئی جی نے شیشہ چڑھاتے ہوئے کہا۔
آئی جی گورنر ہاؤس پہنچے تو اجلاس شروع ہو چکا تھا۔ گورنر جنرل غلام محمد کی تقریر جاری تھی۔ ہوم سیکرٹری ، جنرل اعظم خان ، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ایس ایس پیز ہمہ تن گوش تھے ۔
” یہ ٹینشن پہلی بار نہیں دیکھی میں نے ۔” گورنر جنرل نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔
” یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں بمبئی میں تھا۔ شہر میں ہندو، مسلم فسادات پھوٹے اور پورا بمبئی جلنے لگا۔”
” کیا چل رہا ہے ؟ ” آئی جی نے ہوم سیکرٹری کے پاس بیٹھتے ہوئے سرگوشی کی۔
” شکار کے قِصّے ! ” ہوم سیکرٹری نے جواباً کہنی ماری۔
” فسادات کو صرف ایک ہی چیز ٹھنڈا کرتی ہے ․․․ گولی ۔فسادات کی انیشئل سٹیج پر ہی اگر کثیر تعداد میں بلوائی مار دیے جائیں تو بلوہ خود بخود دم توڑ جاتا ہے، کیوں آئی جی صاحب ؟”
” سس ․․․․ سر !اندرون شہر کا کنٹرول اگر فوج کے حوالے کر دیا جائے تو ․․! ” آئی جی نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
” اس پر بات ہو چکی ہے ،یُو آر لیٹ۔ پولیس کو گولی چلانے کا کھلا اختیار ہے اور گشتی دستوں کی مدد کے لئے فوج بھی موجود ہیں۔ کوارڈینیٹ وِد جنرل اعظم ! ”
” سر !فردوس شاہ مرڈر کے بعد پولیس کے حوصلے پست ہیں ۔” آئی جی گڑگڑایا۔
” حوصلہ رکھوجو جوان بہادری سے لڑے گا، اسے من چاہی جگہ پر دو مربع زمین دی جائے گی ۔”
آئی جی ایک ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہو گیا۔
“چیف سیکرٹری کہاں ہیں؟ ” گورنر نے پوچھا۔
” سیکریٹریٹ میں کلرکوں نے ہنگامہ مچا رکھا ہے سر !انہیں شانت کرنے گئے ہیں۔” ہوم سیکرٹری نے بتایا۔
“کلرکوں کو کیا ہوا ؟ ”
” کل ہونے والے قتلِ عام کی وجہ سے سب برہم ہیں سر ! ”
” اوہ گاڈ ․․․ اس کا مطلب ہے ،یہ تحریک سرکاری مشینری میں بھی گھس چکی؟ ”
” یس سر ․․․ ریلوے ملازمین بھی ہڑتال پر ہیں ․․․ اور محکمۂ بجلی کے لائن مین بھی کام چھوڑے بیٹھے ہیں۔”
” ایسا کرو۔ سہ پہر کی میٹنگ میں کچھ معززین شہر کو بلواؤ۔ پھر ایک بیان پر ان کے دستخط کراؤ اور یہ بیان ریڈیو سے نشر کراؤ۔ اس سے پبلک پر اچھا اثر پڑے گا ۔لکھو اَبھی۔”
” یس سر! ” ہوم سیکرٹری کاغذ قلم لے کر سیدھا ہو گیا۔
” لکھو! ختم نبوت کے نام پرامن و امان تباہ کرنے والے لوگ ملک و قوم کے دشمن ہیں۔ ان کے مطالبات محض تعصب اور کوتاہ فہمی پر مشتمل ہیں۔ جماعت احمدیہ، پاکستان کی ایک پرامن ، غیر متعصب اور ایجوکیٹڈ کمیونٹی ہے ”
“سر! ایک منٹ ” ہوم سیکرٹری لکھتے لکھتے رُک گیا۔
“کیا ہوا ؟”
“سر! اس مسودے پر کوئی معزز آدمی سائن نہیں کرے گا ! ”
“چلو پھاڑ دو ! ”
__________
شیخوپورہ سے کچھ اسیرانِ ختمِ نبوت کو قید کر کے لاہور لایا جا رہا تھا۔ بس حدودِ شہر میں داخل ہوئی تو نعروں کی گونج سے مارشل لاء حکام کے چہرے پر بل آ گیا۔ لاہور کی حدود میں ملٹری نے بس کو روک کر پولیس انسپکٹر کو نیچے اتار لیا۔ ایک ملٹری آفیسر بندوق تان کر بس میں داخل ہوا اور بڑے رعب و جلال سے پوچھا:
” نعرے کون لگا رہا تھا ؟ ”
اس اچانک صورتحال سے بس میں سکوت طاری ہو گیا۔
ممتازشاعرسیّد امین گیلانی بھی اسیران میں شامل تھے ۔ ہاشمی خون نے جوش مارا اور تن کر کہا:
“میں لگاتا ہوں نعرے ! ”
آفیسر نے بندوق گیلانی صاحب کے سینے پر تان کر کہا:
” اب لگاؤ نعرے ! ”
سیّد نے پُرجوش نعرہ لگایا:
“میرا کالی کملی والا ! ”
سب نے باآواز بلند جواب دیا:
“زندہ باد ! ”
آفیسر کی بندوق کی نال نیچے ڈھلک گئی اور وہ یہ کہتا ہوا بس سے اتر گیا:
” ہاں وہ تو زندہ باد ہی ہیں ! ”
اس دن پولیس نے دل کھول کر گولی چلائی۔پولیس کی درندگی کا شکار صرف اور صرف ختمِ نبوت کے پر امن رضاکار ہی بنے ۔ جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کرنے والوں کو کسی نے پوچھا تک نہیں ۔ سب سے زیادہ ظلم گوالمنڈی میں ہوا۔عبدالکریم مرزائی اے ایس آئی اور خان بہادر سپرنٹنڈنٹ بارڈر پولیس یہاں تعیّنات تھے ۔ خان بہادر وہی شخص تھا، جس نے 1935ء میں تحریک مسجدِ شہید گنج میں بھی مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگے تھے ۔ انگریز حکومت نے اس تحریک کو کچلنے کے انعام میں خان بہادر کوکئی تمغوں سے نوازا تھا۔ آج پھر وہ دو مربع زمین کے لالچ میں ایمان بیچنے آیا تھا۔ یہ دونوں آفیسرز رضاکاروں کو اُبھار اُبھار کر گولیاں چلاتے رہے ۔پولیس گاڑی پر لگے میگافون سے بار بار اِعلان کیا جاتا:
” ہے کوئی ختمِ نبوت کا پروانہ ؟ہے کوئی شہادت کا تمنائی ؟ ”
اعلان سنتے ہی آٹھ دس دیوانے نعرۂ تکبیر لگاتے ہوئے آگے بڑھتے اور بارڈر پولیس انہیں گولیوں سے بھون دیتی۔
دن بھر نہ تو عاشقانِ مصطفی ﷺ ایک قدم پیچھے ہٹے اور نہ پولیس کے دل میں لمحہ بھر کو اِنسانیت جاگی۔ صبح نو بجے سے لے کر دوپہر دو بجے تک یہ مقتل گاہ یونہی سجی رہی۔ لوگ جوق در جوق ” لبیک یا رسول اﷲ ﷺ ” کا نعرہ لگاتے ہوئے ، ناموسِ رسالت پر قربان ہوتے رہے۔ وقفے وقفے سے ایک فوجی گاڑی آتی اور اسلحہ دیکر چلی جاتی۔ ان شہداء کی تعداد کسی نے ایک ہزار لکھی تو کسی نے دس ہزار۔ رب سچّا ہی جانتا ہے کہ کتنے لوگ شہید ہوئے ۔ کہا جاتا ہے کہ ان گمنام مجاہدین کی لاشیں ٹرکوں میں ڈال کر چھانگا مانگا جنگل میں پہنچائی گئیں۔ ان کے جسدِ خاکی کئی طویل کھائیاں کھودکر پھینکے گئے ۔ پہلے تیل چھڑک کر آگ لگائی گئی، پھر ان اجتماعی قبروں کی مٹّی برابر کر دی گئی۔
سرورِ کونین ﷺ سے ، جب سر کا سودا ہو چکا
ہم نہ پوچھیں گے کسی سے بھاؤ اب بازار کا
خفیہ والے
6 مارچ 1953ء ․․․․․ لاہور
“یہ ریڈیو پاکستان لاہور ہے ۔۔۔۔ ریاض الدین سے خبریں سنئے۔
ہِز ایکسی لینسی گورنر جنرل جناب غلام محمد نے کہا ہے کہ لاہور کا امن بہت جلد بحال کر دیا جائے گا۔ انہوں نے معززین شہر کے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مٹھّی بھر بلوائیوں کو مذہب کے نام پر شہر کا امن تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔انہوں نے پولیس کو تاکید کی کہ بہرصورت تشدّد اور فائرنگ سے اجتناب کریں۔معززینِ شہر نے ہِز ایکسی لینسی کو ہر ممکن حمایت اور تعاون کا یقین دلایا۔”
“بند کر ریڈیو یار! نرا جھوٹ ،بکواس۔” سٹی مجسٹریٹ نے کہا اور آئی جی نے گاڑی میں نصب ریڈیو آف کر دیا۔
“اب کہاں چلنے کا ارادہ ہے ؟”
” کوتوالی چلتے ہیں،بس تھوڑا حالات کا جائزہ لینے۔ ” آئی جی نے کہا۔
“میں تو کہتا ہوں واپس چلیں۔ حالات ٹھیک نہیں لگ رہے ۔” مجسٹریٹ شیشے سے باہر جھانکتے ہوئے بولا۔
“ملٹری کے ہوتے ہوئے بھی ڈرتے ہو۔ کمال ہے یار ! ”
“ملٹری باغِ جناح میں بیٹھی ہے اور بلوائی شہر میں۔ ”
ریلوے اسٹیشن کے قریب انہوں نے ایک جلوس دیکھا جو کاروں ، سائیکلوں اور تانگوں کو روک رہا تھا۔ جلوس کی قیادت ایک داڑھی والا شخص کر رہا تھا۔ آئی جی نے ایک سائیڈ پر گاڑی روک دی۔
” پھنسا دیا ناں یار! گاڑی موڑ و” مجسٹریٹ چشمہ درست کرتے ہوئے بولا۔
” ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔وہ بزرگ جو سفید ٹوپی پہنے مجمع سے نعرے لگوا رہا ہے۔ اپنا ہی بندہ ہے۔”
” کیا مطلب ؟” مجسٹریٹ نے حیرت سے پوچھا۔
” خُفیہ کا ہے یار ! ”
آئی جی نے ہارن دیا تو وہ شخص بھاگا بھاگا ادھر چلا آیا۔
” ٹریفک کیوں روک رکھی ہے دولت خان ؟” آئی جی نے شیشہ نیچے سرکاتے ہوئے پوچھا۔
” جلوس نوں تھوڑا مصروف رکھیا اے ․․․ تُسی نکل جاؤ ․․․ کُش نئیں کہندے۔ ”
(جلوس کو کچھ مصروف کررکھا۔آپ نکل جائیں۔کوئی کچھ نہیں کہے گا)
” کچھ نئیں کا بچّہ ․․․․ اگر گاڑی جلا دی تو ؟”
” او سر جی بے فکر ہو جاؤ ۔میں تہاڈے اَگے اَگے چلداں۔ آؤ میرے پِچھے پچھے۔ ” یہ کہہ کر دولت خان گاڑی کے آگے آگے نعرے لگاتا ہوا چلا۔
(سرآپ بے فکرہوجائیں۔میں آپ کے آگے آگے چلتا ہوں۔آپ میرے پیچھے آئیں۔)
” شاہی پولیس ․․․زندہ باد”
“زندہ باد ․․․ زندہ باد ! ” مجمع نے نعرہ لگایا۔
جلوس سے کچھ لوگوں نے آئی جی کی گاڑی روکنے کی کوشش کی لیکن دولت خان نے کمال مہارت سے انہیں سمجھایا کہ یہ شاہی پولیس کے افسر ہیں۔ قتلِ عام تو بارڈر پولیس کر رہی ہے ۔
“کمال کا آدمی ہے یار! یہ دولت خان۔” مجسٹریٹ نے تبصرہ کیا۔
ہاں بس داڑھی نقلی ہے حرامزادے کی۔ کسی دن پکڑا گیا تو تکّہ بوٹی کرا لے گا اپنی۔” آئی جی نے کہا۔
“بڑا رسک ہے یار! نقلی داڑھی لگاکر اصلی داڑھی والوں سے نعرے لگوانا ،سلیوٹ دولت خان۔ ” چیف سیکرٹری بول اٹھا۔
” صرف ایک دولت خان نہیں ،اڑھاء سو خفیہ والے بیٹھے ہیں مسجد وزیر خان میں ۔کسی بھی تحریک کو کریش کرنے کے لئے کچھ سرکاری پرزے فٹ کرنے ہی پڑتے ہیں ! ”
نولکھّا تھانہ کے قریب انہوں نے ایک ٹینک دیکھا۔ جس پر کوئی فوجی نہیں تھا۔ ایک درازرِیش شخص ٹینک پر چڑھ کر مجمع سے نعرے لگوا رہا تھا:
“پاک فوج ․․․ زندہ باد”
“جنرل اعظم ․․․ زندہ باد”
” یہ بھی خفیہ کا ہے ؟” مجسٹریٹ نے شیشہ نیچے سرکاتے ہوئے پوچھا۔
” جاؤ اور جاکر داڑھی چیک کر لو۔ ” آئی جی نے گاڑی چلاتے ہوئے کہا۔
” رسک ہے یار!اصلی نکل آئی تو؟ ”
سرکلر روڈ کے زیریں پُل کے پاس انہیں ایک لٹھ بردار ہجوم نے روکا۔ یہ لوگ نعرے لگا رہے تھے ۔
“ہڑتال، ہڑتال ،پہیہ جام ہڑتال”
اس سے پہلے کہ وہ کار کو روکتے ،ایک خفیہ والا’’ بزرگ‘‘ بھاگا بھاگا ادھر آیا۔
“او بے وقوفو، کار نوں چھڈّو۔ اوس تانگے نوں روکو۔ ” اس نے چیخ کر مظاہرین سے کہا۔
(ارے بے وقوفو! کارکو چھوڑو اوراُس تانگے والے کو روکو۔)
ہجوم لاٹھیاں تانے تانگے کے پیچھے ہو لیااور اُسے روک کر گھوڑے کو کھول دیا۔
سرکلر روڈ سے آگے پولیس کی ساری چوکیاں خالی تھیں ۔البتہ خفیہ والے یہاں بھی ادھر ادھر مٹک رہے تھے ۔
“ادھر آؤ دلبر حسین ” ڈی آئی جی نے ایک سبزپوش فقیر کو آواز دی جو درویشوں والا لمبا چوغہ پہنے حق مولا ،حق مولا،کے نعرے لگا رہا تھا۔
” پولیس کہاں چلی گئی ؟” آئی جی نے استفسار کیا۔
“ریٹریٹ کر گئی سر! ” سبزپوش کن اکھیوں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولا۔
“کیوں ؟․․․کوئی گڑ بڑ ہوئی ہے ؟”
“نہیں سر ․․․ ایس ایس پی مرزا نعیم سب کو لے کر کوتوالی چلے گئے ہیں ۔ ”
“مرزا نعیم کی ایسی کی تیسی ! ” آئی جی نے یہ کہتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی۔
وہ کوتوالی کے سامنے پہنچے تو فضاء دھواں دھار تھی۔ ہر طرف آنسو گیس کے اثرات پھیلے ہوئے تھے ۔ تھانے کے باہر ہزاروں کا مجمع کھڑا نعرے لگا رہا تھا:
“پاک فوج ․․․․ زندہ باد ”
“شاہی پولیس زندہ باد”
پولیس کانسٹیبلری ․․․ مردہ باد”
” بارڈر پولیس ․․․ مردہ باد”
ایک لمبی داڑھی اور زلفوں والا جوان جس نے سر پر کفن باندھ رکھا تھا ۔ان کی طرف دوڑا چلا آیا۔
“یہ کیا ہو رہا ہے سمندر خان ؟”
“سر جی! بارڈرپولیس نے کل جو فائرنگ کیا تھا ناں۔ اس پر عوام شورکرتا ہے۔ بولتا ہے ،گولی چلانے والے کو اَمارہ حوالے کرو ۔پولیس آنسو گیس پینک پینک کر تھک گیا اے ”
” مرزا نعیم الدین کہاں ہیں ؟”
“اندر ہے سر جی!کوتوالی میں تم گاڑی کو پیچھے سے لے کر آؤ ۔ ”
“کوتوالی میں انڈے دے رہا ہے ؟ ”
آئی جی نے کوتوالی کے پچھواڑے میں گاڑی روکی اور سیدھا اندر چلے گئے ۔
ایس ایس پی مرزا نعیم بوٹ اور شرٹ اتارے کرسی پہ نیم دراز تھا۔
” ایس ایس پی صاحب ․․․ خیریت ؟ آپ محاذ چھوڑ کر بھاگ آئے ؟” آئی جی نے آتے ہی پوچھا۔
مرزا نعیم بت بنا آئی جی کو دیکھتا رہا ، پھر اچانک منہ پھیر لیا۔
” تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ ”
” میری طبیعت تو ٹھیک ہے سر،لیکن سرکار کو شاید باؤلے کُتّے نے کاٹ لیا ہے۔”
“کیا ہو گیا ہے ؟ ”
” کل پانچ سو بارہ بندہ قتل کیا ہے میں نے، اپنے ان ہاتھوں سے۔ دیکھیں ان انگلیوں کو ۔ورم آ گیا ٹرائگر دبا دبا کے، لیکن ہوا کیا؟ دس مارے تو بیس اور آکر کھڑے ہو گئے ۔500 بندہ مار چکے تو آرڈر آیا فائرنگ روک دو۔ آج پھر کہہ رہے ہیں فائرنگ شروع کردو۔ حکومت کا ضمیر تو کُتّے کی موت مر چکا۔ہم کیوں کٹھ پتلی بنے رہیں ! ”
” اوہ ،․ تو 500 مسلمان مار کے ایک مرزائی کا ضمیر جاگ اٹھا۔ ” آئی جی نے کیپ اتار کر ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
” لعنت ایسی مرزائیت پر جس کی بنیادیں انسانی خون میں لتھڑی ہوں۔ لعنت ایسی نوکری پر، جس میں صبح سے شام تک کیڑے مکوڑوں کی طرح انسانوں کو مارا جائے ۔”
“فوج ہماری مدد کے لئے موجود ہے ناں ۔”
” فوج ؟ ․․․․ ہونہہ ․․․کیا کرے گی فوج ؟ شہر میں بلوہ ہوتا ہے تو لوگ ہجرت کرتے ہیں۔ نکل لیتے ہیں ۔یہاں لوگ الٹا داخل ہو رہے ہیں۔آج بھی ملک بھر سے ہزاروں لوگ لاہور میں داخل ہوئے ۔کس کس کو مارے گی فوج ؟ یہ رہا میرا استعفی !” مرزا نعیم ایک کاغذ آئی جی کے سامنے رکھتے ہوئے بولا۔
” یہ بات چیف منسٹر کے سامنے کہہ سکتے ہو؟ ”
” کیوں نہیں ،اپنے ہی عوام کو قتل کر کے حکومت کبھی نہیں جیت سکتی۔ اسے مذاکرات کا رستہ اختیار کرنا چاہیے اور عوام کے مطالبات پر کان دھرنے چاہئیں۔”
” چلو میرے ساتھ ابھی اور اسی وقت ! ” آئی جی نے گاڑی کی چابی اٹھائی اور کوتوالی سے باہر نکل گیا۔
مرزا نعیم الدین اس کے پیچھے پیچھے تھا۔
(جاری ہے)