محمد فیاض عادلؔ فاروقی
یہ سب قانون فطرت کے، کہو کس نے بنائے ہیں؟
یہ کس کے حکم کے پابند اجالے اور سائے ہیں؟
ستارے ، کہکشائیں، نیبولے کوئی تو ہے تھامے
شِہابی تازیانے رات دن کس نے چلائے ہیں؟
یہ کس نے پھول کو ہنسنا سکھایا ، رونا شبنم کو؟
سجائے کس نے یہ کانٹے ؟ یہ گل کس نے کھلائے ہیں؟
سکھایا کس نے بلبل کو چہکنا، گل کو مسکانا
یہ خوشبو کس نے بکھرائی؟ چمن کس نے سجائے ہیں
زمیں یہ کیوں نہیں چاندوں سے، سیاروں سے ٹکراتی؟
مدار ان فلکیاتی گولوں کے کس نے بنائے ہیں؟
یہ کس نے باندھ رکھا ہے کروں کو اپنے مرکز سے؟
یہ کس کی سنتے ہیں ؟ یہ کس کے سیکھے اور سکھائے ہیں؟
کشش رکھی ہے کس نے ثقل کی ان بے زبانوں میں؟
ضوابط کس نے ان بے جان جسموں میں بسائے ہیں؟
ہوائیں کس کے کہنے پر رواں ہیں دشت و صحرا میں؟
یہ پھرتی کس لیے پانی کے مشکیزے اٹھائے ہیں؟
گرجتے ہیں برستے ہیں بھرے جائیں تو ہوں خالی
یہ چلتے پھرتے بادل کس نے یوں اوپر چلائے ہیں؟
پرندوں کو پکڑ رکھا ہے وسط آسماں کس نے؟
یہ کس نے تتلیوں کے خوبصورت پر بنائے ہیں؟
بتا رکھا ہے کس نے شہد کی مکھی کو گلشن میں؟
گلوں سے رس چراؤ جو وہ بیٹھے یوں چھپائے ہیں
یہ کس نے ذہن انسانی میں بوئے فکر کے پودے؟
کرشمے یہ جس و وجدان کے کس نے دکھائے ہیں؟
یہ گنتی کس کی ہے ایجاد کس کا معجزہ الفاظ؟
تماشے یہ عدد اور حرف کے کس نے لگائے ہیں؟
یہ مادہ کس نے گوندھا ، عنصر و قوت کے گارے میں؟
عناصر کے یہ سب اجزاء بھی پھر کس نے بنائے ہیں؟
یہ مائع کس نے سمٹائے یہ گیسیں کس نے پھیلائیں؟
یہ جامد ٹھوس ذرے سنگ کے کس نے جمائے ہیں؟
یہ کس نے ہائیڈروجن، آکسیجن کی ملاوٹ سے
عجب بے رنگ لیکن با مزہ قطرے بنائے ہیں؟
یہ سب مخلوق آخر کس کی کھیتی ، کس کا خرمن ہے؟
وہ مالی کون ہے جس نے یہ گل بوٹے اگائے ہیں؟
نہ کوئی وقت تھا جس دم نہ کوئی وسعت و ہیئت
تو اس دم یہ کرشمے کس نے بالآخر دکھائے ہیں؟
یہ دل کس نے بنایا، جس کو وسعت دی دو عالم کی؟
کہ جس میں ہم نے دو عالم کے بت لا کے بٹھائے ہیں
گلستان جہاں کا باغباں ہے کون عادلؔ جی؟
بتاؤ ہے خدا ، جس کو کہ ہم بیٹھے بھلائے ہیں