(قسط:۱۸)
حافظ عبیداﷲ
حدیث نمبر 18
’’(امام طبرانی فرماتے ہیں) ہم سے بیان کیا عبدان (عبداللّٰہ) بن أحمد نے، وہ کہتے ہیں ہم سے بیان کیا ہشام بن خالد نے ،انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا ولید بن مسلم نے ، وہ کہتے ہیں ہم سے بیان کیا ربیعہ بن یزید نے، اُنہوں نے نافع بن کیسان سے، انہوں نے اپنے والد (حضرت کیسانؓ ) سے ، وہ کہتے ہیں میں نے اﷲ کے رسول e کو یہ فرماتے سنا کہ: یَنزِلُ عیسیٰ بنُ مریمَ علیہ السّلام عِند المَنارۃِ البیضاء شرقي دمشق۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کے مشرقی حصے میں سفید مینارے کے پاس اتریں گے۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبرانی، ج 19،ص 196 ، مکتبۃ ابن تیمیۃ۔ القاہرۃ)
فائدہ: یہی حدیث امام بخاری نے ’’التاریخ الکبیر‘‘ میں حضرت کیسانؓ کے تعارف میں، اور ابن ابی عاصم (متوفی 287ھ) نے الآحاد والمثاني میں روایت کی ہے فرق یہ ہے کہ ان دونوں نے نافع بن کیسان سے روایت کرنے والے کا نام ربیعۃ بن یزید کے بجائے ’’ربیعۃ بن ربیعۃ‘‘ ذکر کیا ہے۔ اور حافظ ابن حجر نے الاصابۃ(ترجمہ کیسانؓ) میں اس حدیث کے بارے میں لکھاہے ’’رجالہ ثقات‘‘ (اس کے تمام راوی ثقہ ہیں)، نیز حافظ ابن عبدالبر نے بھی الاستیعاب (ترجمہ کیسانؓ) میں اس حدیث کی سند کو ’’صالح‘‘ (اچھی ) قرار دیا ہے۔
(التاریخ الکبیر، ج7 ص 233 /الآحاد والمثاني، ج5 ص98 /الاِصابۃ فی تمییز الصحابۃ،ج9 ص320 /الاستیعاب في أسماء الأصحاب، ج2 ص186 )
راویوں کا تعارف
عبدان (عبد اللّٰہ) بن أحمد : حدیث نمبر 16 کے تحت ان کا تعارف ہوچکا۔
ہشام بن خالد: ان کا ذکر بھی حدیث نمبر 16کے تحت ہوچکا۔
ولید بن مسلم: حدیث نمبر 7 کے تحت ان کا تعارف ہوچکا۔
ربیعۃ بن یزید القصیر الاِیادي الدمشقي أبوشعیب
امام ذہبی نے ایک جگہ انہیں ’’الاِمام القُدوۃ‘‘ (امام اور لوگوں کے لئے ایک مثالی شخصیت) اور دوسری جگہ ’’أحد الأعلام في العلمِ والعملِ‘‘ (علم وعمل دونوں کے اعتبار سے ایک معروف شخصیت) لکھا۔ عِجلی، نسائی، یعقوب بن شیبۃ، یعقوب بن سفیان سب نے انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ ابن سعد نے بھی انہیں ’’ثقہ‘‘ کہا۔ ابن حِبان نے ان کے بارے میں لکھا : ’’کان من خیار أہل الشام‘‘ (وہ شام کے بہترین لوگوں میں سے تھے)۔ امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں اِن سے روایت کرنے والوں میں ’’ولید بن مسلم‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے (جیسا کہ طبرانی کی مذکورہ روایت میں بھی اِن سے ولید بن مسلم روایت کررہے ہیں)۔یہ اﷲ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے سنہ 121 یا 123 ھ میں شہید ہوئے۔
(تہذیب التہذیب، ج3 ص264 /معرفۃ الثقات للعجلي، ج1 ص 360 /ثقات ابن حِبان، ج4 ص232 /التاریخ الکبیر، ج3 ص288 / تہذیب الکمال، ج9 ص148 / الجرح والتعدیل، ج3 ص474 /الکاشف، ج1 ص394 /تاریخ الاسلام، ج3 ص407 /سیر أعلام النبلاء، ج5 ص239 )۔
ربیعۃ بن ربیعۃ الدمشقي مولیٰ قریش
جیسا کہ بیان ہوا اسی روایت کو امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں اورحافظ ابن ابی عاصم نے الآحاد والمثانی میں نافع بن کیسان سے ’’ربیعۃ بن ربیعۃ‘‘ کے واسطے سے نقل کیا ہے ۔ امام بخاری نے ان کا تعارف یوں کرایا ہے: ’’سَمِعَ نافع بن کیسان، رویٰ عنہ الولید‘‘ ان کا نافع بن کیسان سے سماع ثابت ہے، اور اِن سے ولید (بن مسلم) نے روایت کی ہے۔ ابوحاتم رازی سے بھی ان کے بیٹے ابن ابی حاتم نے ایسی ہی بات نقل کی ہے۔ ابن حِبان نے انہیں ثقہ لوگوں میں ذکر کیا ہے۔ البتہ امام ذہبی اور حافظ ابن حجر نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’لا یُعرف‘‘ (یہ معروف نہیں ہیں)، لیکن دوسری طرف حافظ ابن حجر نے ہی الاِصابۃ میں اس حدیث کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’رجالہ ثقات‘‘ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں، نیز حافظ ابن عبدالبر نے بھی الاستیعاب میں اس کی سند کو درست قرار دیا ہے۔
(التاریخ الکبیر، ج3 ص 290 /الجرح والتعدیل، ج3 ص478 /ثقات ابن حِبان، ج8 ص240 /تاریخ دمشق، ج18 ص65 /میزان الاعتدال، ج2 ص43 /لسان المیزان، ج3 ص455 /الاِصابۃ فی تمییز الصحابۃ،ج9 ص320 /الاستیعاب في أسماء الأصحاب، ج2 ص186 )
نافع بن کیسان بن عبد اللّٰہ الثقفي
علماء رجال نے ان کا شمار صحابہ کرامؓ میں کیا ہے۔ بلکہ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ مندرجہ بالا حدیث نافع بن کیسان نے بلاواسطہ نبی کریم e سے بیان کی ہے۔ ان کا ذکر مندرجہ ذیل کتب میں ہے۔
(التاریخ الکبیر، ج8 ص 84 /الجرح والتعدیل، ج8 ص457 /معجم الصحابۃ لابن قانع، ج3 ص141 /معرفۃ الصحابۃ لأبي نعیم، ج5 ص2676 /الاِصابۃ فی تمییز الصحابۃ،ج11 ص36 /الاستیعاب في أسماء الأصحاب، ج2 ص290 /أسد الغابۃ، ج5 ص 291/تاریخ دمشق، ج61 ص413)۔
کیسان بن عبداللّٰہ بن طارق الثقفي
یہ بھی صحابی رسول e ہیں، ان کا تذکرہ مندرجہ ذیل کتب میں موجود ہے۔
(التاریخ الکبیر، ج7 ص 233 /معجم الصحابۃ للبغوي، ج5 ص154 /معرفۃ الصحابۃ لأبي نعیم، ج5 ص2101 /الاِصابۃ فی تمییز الصحابۃ،ج9 ص319 /الاستیعاب في أسماء الأصحاب، ج2 ص186 /أسد الغابۃ، ج4 ص 476/تہذیب الکمال، ج24 ص239 /تہذیب التہذیب، ج8 ص453)۔
قارئین محترم! ہم نے نہایت اختصار کے ساتھ مختلف صحابہ کرامؓ سے مروی چند احادیث آپ کے سامنے پیش کی ہیں جن میں نبی کریم e نے کبھی خاص طور پر اور کبھی علامات قیامت اور دجال کے خروج کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عیسیٰ u کے نزول کی خبر دی ہے، محدثین نے اپنی کتابوں میں ’’باب نزول عیسیٰ بن مریم‘‘ کا باب باندھ کر ان احادیث کو روایت کیا ہے۔ یہ احادیث ہمیں صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ، مسند احمد، صحیح ابن حبان، مستدرک حاکم، السنن الکبریٰ للبیہقي، مسند ابی داؤد طیالسی، المعجم الکبیر للطبراني، مصنف ابن ابی شیبہ، مستخرج ابی عوانہ، مستخرج ابي نعیم علیٰ صحیح مسلم، مسند اسحاق بن راہویہ، جامع معمر بن راشد، کتاب الایمان لابن مندۃ، شرح مشکل الآثار للطحاوي، شرح السنۃ للبغوي، موارد الظمآن، الآحاد والمثاني لابن ابي عاصم اور دوسری کتب میں ملتی ہیں۔
نیز بقول امام ترمذیؒ، وہ احادیث جن میں دجاّل کے حضرت عیسیٰu کے ہاتھوں قتل ہونے کا ذکر ہے اِن صحابہ کرامؓ سے مروی ہیں: حضرت عمران بن حصین، حضرت نافع بن عتبہ، حضرت ابو برزہ، حضرت حذیفہ بن اسید، حضرت ابو ہریرہ، حضرت کیسان، حضرت عثمان بن ابی العاص، حضرت جابر، حضرت ابو امامہ، حضرت عبداﷲ بن مسعود، حضرت عبداﷲ بن عمرو، حضرت سمرۃ بن جندب، حضرت نواس بن سمعان، حضرت عمرو بن عوف اور حضرت حذیفہ بن یمان رضي اﷲ عنہم اجمعین ۔
(الجامع للترمذي، باب ماجاء فی قتل عیسیٰ ابن مریم الدجال، ج4 ص97، دار الغرب الاسلامی، بیروت)
٭٭٭٭
احادیثِ نزولِ عیسیٰ u اور امت کا تلقي بالقبول
اگرچہ نزولِ عیسیٰ u کی احادیث ثقہ راویوں کے واسطے سے حدیث کی صحیح ترین کتب میں مروی ہیں، اور ان احادیث کے بارے میں منکرین نے عام طور پر اور جناب تمنا عمادی صاحب نے خاص طور پر جو شکوک وشبہات پیش کیے ہیں ان کا کافی وشافی جواب ہم عرض کرچکے ہیں۔ لیکن بطور تنزل ہم کہتے ہیں کہ اگر بفرض محال کچھ دیر کے لئے یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ وہ تمام احادیث جن میں نزولِ عیسیٰ u کی خبر دی گئی ہے ضعیف ہیں تو بھی تیرہ صدیوں میں گزرنے والے معروف اور مستند مفسرین و محدثین کا عام طور پر اور صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کا خاص طور پر ان احادیث میں بیان کردہ مضمون یعنی ’’نزولِ عیسیٰu ‘‘ پر اجماع و اتفاق اور چند معتزلہ وفلاسفہ کو چھوڑ کر کسی کا نزولِ عیسیٰ u کا انکار نہ کرنا ان احادیث کے مضمون کو صحیح بنادیتا ہے، اسے علماء کی اصطلاح میں ’’تلقي بالقبول‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور علماء حدیث نے یہ بات لکھی ہے کہ علماء امت کا تلقی بالقبول حدیث کو صحیح بنادیتا ہے اور اس کے لئے سند کی چنداں اہمیت نہیں رہتی، چند حوالے پیش خدمت ہیں:۔
حافظ ابوعُمر یوسف بن عبداﷲ بن عبدالبرّ مالکی قُرطبیؒ (متوفی 463 ھ) موطأ امام مالک ؒ کی شرح ’’التمہید‘‘ میں ایک حدیث پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وہذا الحدیث لا یحتج أہل الحدیث بمثل اسنادہ، وہو عندي صحیح لأن العلماء تلقوہ بالقبول لہ……‘‘ اگرچہ محدثین کے نزدیک اس جیسی سند قابل حجت نہیں، لیکن میرے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ اسے علماء کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہے۔
(التمہید لما في الموطأ من المعاني والأسانید، ج16 ص218 – 219)
اسی طرح ایک اور جگہ تحریر فرماتے ہیں :
’’وقد رُوِي عن جابر بن عبداللّٰہ باِسناد لا یصح أن النبي e قال: الدینار أربعۃ وعشرون قیراطاً، وہذا الحدیث واِن لم یصح اسنادہ فَفِي قول جماعۃ العلماء بہ، واجماع الناس علی معناہ ما یُغني عن الاسناد فیہ……‘‘ حضرت جابر بن عبداﷲ سے غیر صحیح سند کے ساتھ روایت کیا گیا ہے کہ نبی e نے فرمایا: ایک دینار چوبیس قیراط کا ہوتا ہے۔ یہ حدیث سند کے اعتبار سے اگرچہ صحیح نہیں لیکن علماء کی جماعت کا قول اسی کے مطابق ہونا اور اس کے معنی پر لوگوں کا اجماع ہوجانا سند سے مستغنی کردیتا ہے۔
(التمہید لما في الموطأ من المعاني والأسانید، ج20 ص145)
امام بدرالدین محمد بن جمال الدین زرکشی شافعیؒ (متوفی 794ھ) لکھتے ہیں :
’’ان الحدیث الضعیف اذا تلقتہ الأمۃ بالقبول عُمل بہ علی الصحیح حتی أنہ ینزل منزلۃ المتواتر…… ‘‘ جب (سند کے اعتبار سے) ضعیف حدیث کو امت کی طرف سے تلقی بالقبول ہو جائے تو صحیح بات یہ ہے کہ اُس پر عمل کیا جائے گا، یہاں تک کہ کبھی وہ متواتر کے درجے تک بھی پہنچ جاتی ہے ۔
(النکتب علی مقدمۃ ابن الصلاح للزرکشي، ج1 ص390)
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ (متوفی 852ھ) نے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی بات کا خلاصہ یوں بیان کیا ہے : (اختصار کے پیش نظر صرف اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے)
’’جب کسی خبر (حدیث) کو امت قبول کرلے اس کی تصدیق کرتے ہوئے اور اس پر عمل کرتے ہوئے تو جمہور علماء کے نزدیک وہ (حدیث) علم کا فائدہ دیتی ہے، یہی بات علماء حنفیہ میں سے شمس الأئمہ سرخسی وغیرہ۔ مالکیہ میں سے قاضی عبدالوہاب وغیرہ۔ شافعیہ میں سے ابو حامد اسفرائینی، قاضی ابوطیب طبری، شیخ ابواسحاق شیرازی، سلیم رازی وغیرہم۔ اورحنابلہ میں سے ابو عبداﷲ بن حامد، قاضی ابویعلیٰ، ابو الخطاب وغیرہم علماء اصول فقہ نے کہی ہے ۔ اور اکثر اہل علم مثلاً ابواسحاق اسفرائینی، ابوبکر بن فورک، ابو منصور تمیمی، ابن السمعانی، ابوہاشم الجبائی اور ابو عبداﷲ بصری کا یہی قول ہے۔ اور یہی محدثین کا مذہب ہے‘‘۔
(النکتب علی مقدمۃ ابن الصلاح لابن حجر العسقلانی، ج1 ص375 – 376 )
اسی طرح فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ایک حدیث ’’لا وصیۃ لوارث‘‘ (کہ وارث کے حق میں وصیت نہیں ہوسکتی) پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کی سند میں کلا م ہے لیکن : ’’الحجۃ في ہذا الاجماعُ علی مقتضاہ کما صرّح بہ الشافعي وغیرہ‘‘ (یعنی اگرچہ اس کی سند میں کلام ہے لیکن اس حدیث میں جو بات بیان ہوئی ہے اس پر اجماع کا ہوجانا یہ حجت ہے جیسا کہ امام شافعی وغیرہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے)۔
(فتح الباري، ج5 ص372)
امام شمس الدین محمد بن عبداﷲ السخاوی الشافعی ؒ (متوفی 902ھ) لکھتے ہیں :
’’وکذا اِذا تلقت الأمۃ الضعیف بالقبول یُعمل بہ علی الصحیح‘‘ جب امت کی طرف سے (سند کے اعتبار سے)ضعیف حدیث کو تلقی بالقبول حاصل ہوجائے تو صحیح قول کے مطابق اُس پر عمل کیا جائے گا۔
(فتح المغیث بشرح ألفیۃ الحدیث، ج2 ص153)
امام ابوبکر احمد بن علی الجصاص الحنفیؒ (متوفی 370ھ) نے احکام القرآن میں مختلف مقامات پر تصریح کی ہے کہ جب کسی خبرِ واحد کو امت کی طرف سے تلقی بالقبول ہوجائے تو وہ متواتر معنوی کے حکم میں ہوجاتی ہے، ایک جگہ الفاظ یہ ہیں:
’’لأن ما تلقاہ الناس بالقبول من أخبار الآحاد فہو عندنا فی معنی المتواتر لما بیّناہ في مواضع‘‘ اخبار آحاد میں سے جس خبر (حدیث) کو لوگوں کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہوجائے تو ہمارے نزدیک اسے متواتر معنوی کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے جس کی وجہ ہم نے مختلف مقامات پر بیان کی ہے۔
(احکام القرآن للجصاص، ج2 ص83، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
امام ابن القیم الجوزیہؒ (متوفی 751ھ) سند کے اعتبار سے ایک ضعیف حدیث کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’فہذا الحدیث ، واِن لم یثبت، فاتصال العمل بہ في سائر الأمصار والأعصار ، ومن غیر اِنکارٍ ، کافٍ في العمل بہ‘‘ ۔ یہ حدیث اگرچہ (سنداً) ثابت نہیں، لیکن تمام علاقوں اور تمام زمانوں میں اس میں یبان کردہ مضمون پر مسلسل عمل ہوتا آیا ہے اور کسی نے اس کا انکار نہیں کیا تو یہ (تلقی بالقبول) اس حدیث پر عمل کرنے کے لئے کافی ہے۔
(کتاب الروح، ج1 ص32، مجمع الفقہ الاسلامی، جدہ)
الغرض! بتانا یہ مقصود ہے کہ کسی حدیث کی سند کمزور ہونے یا اس میں مجروح راوی ہونے کی وجہ سے ضروری نہیں کہ حدیث کا متن یا اس میں بیان کردہ بات بھی ضعیف ہو، اس بات کا دبے لفظوں میں اقرار خود جناب تمنا عمادی صاحب نے بھی کیا ہے ، چنانچہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’اسی طرح صرف اس لئے کہ کسی حدیث کے بعض راوی مجروح یا وضاع وکذاب ہیں، اگر وہ قرآنی درایت کے مطابق ہے تو اس کو قطعی طور سے موضوع وغلط نہیں کہاجاسکتا، کیونکہ کوئی جھوٹے سے جھوٹا شخص ہر بات جھوٹی ہی نہیں بولتا کبھی وہ کوئی سچی بات بھی ضرور بولتاہے‘‘۔
(انتظارِ مہدی ومسیح، صفحہ 185)
اور اس سے پہلے یہ لکھ چکے ہیں کہ :
’’یہ بھی ضروری نہیں کہ جو حدیث نص قرآنی کے بالکل مطابق ہو اور عقل ودرایت قرآنیہ کے بھی خلاف نہ ہو وہ صحیح ہی ہو……‘‘۔
(انتظارِ مہدی ومسیح، صفحہ 185)
اگرچہ عمادی صاحب یہاں اپنا من گھڑت اصول بیان کررہے ہیں جس کا ذکر ہم مقدمہ میں کرچکے ہیں کہ حدیث کے صحیح اور جھوٹ ہونے کا معیار یہ ہے کہ اگر وہ درایت قرآنی (تمنائی درایت۔ناقل) کے خلاف نہ ہو تو چاہے اس کی سند میں جھوٹے راوی ہی کیوں نہ ہوں، اسے یقینی طور پر موضوع اور غلط نہیں کہا جاسکتا (لیکن بڑے تعجب کی بات ہے کہ نزول عیسیٰ علیuکی صحیح ترین احادیث کو جو کسی قرآنی آیت کے خلاف نہیں بلکہ قرآن کی آیات سے ان کی تائید ہوتی ہے وہ عمادی صاحب کے نزدیک یقیناً موضوع اور من گھڑت ہیں۔ ناقل)۔ اسی طرح ضروری نہیں کہ جو حدیث نص قرآنی کے خلاف نہ ہو وہ صحیح ہی ہو۔بہرحال حدیث کے صحیح وغلط ہونے کا یہ معیار محدثین کا بنایا ہوا نہیں بلکہ منکرینِ حدیث اور ان کے یارانِ طریقت کا ایجاد کردہ ہے، لیکن وہ یہ تسلیم کرگئے کہ حدیث کے صحیح یا غلط ہونے کا معیار محض اس کی سند نہیں، بلکہ ان کے مطابق ممکن ہے کہ جھوٹے اور حدیثیں گھڑنے والے راویوں کی بیان کردہ حدیث بھی سچی ہو۔
قارئین محترم! جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا ، وہ احادیث جن میں حضرت عیسیٰ u کے نزول کا ذکر ہے صحیح ترین سندوں کے ساتھ صحیح ترین کتب حدیث میں مختلف صحابہ کرامؓ سے بکثرت مروی ہیں، قرآن کریم اُن احادیث کے خلاف تو کیا بلکہ ان کا مؤید ہے، قرآن کریم نے عیسائیوں کے بڑے بڑے غلط عقائد کا ردّ صراحت کے ساتھ کیا ہے،ان کے عقیدہ تثلیث ، حضرت عیسیٰ uکو اﷲ کا بیٹا کہنے اورانہیں صلیب دیے جانے جیسے عقائد کی تردید قرآن کریم نے ببانگ دہل فرمائی ہے، لیکن عیسائیوں کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ حضرت عیسیٰ u صلیب پر جان دینے کے تین دن بعد زندہ ہوکر آسمان پر چلے گئے اور وہ دوبارہ نازل ہوں گے ، قرآن کریم نے یہ تو صاف لفظوں میں بیان کیا کہ نہ انہیں قتل کیا گیا اور نہ ہی سولی پر لٹکایا گیا، لیکن اس بات کی تردید نہیں فرمائی کہ انہیں آسمان پر اٹھا لیا گیا اور نہ ہی ان کے دوبارہ نزول کی تردید پورے قرآن میں کہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس ’’بل رفعہ اللّٰہ الیہ‘‘ (بلکہ اﷲ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا) جیسے الفاظ سے عقیدہ رفع کا اثبات کردیا۔ لہٰذا اگر عمادی صاحب کو ’’درایت قرآنی‘‘ کا لحاظ ہوتا تو وہ ضرور سوچتے کہ عقیدہ تثلیث و ابنیّت و صلب وکفارہ کی طرح قرآن نے عقیدہ رفع ونزول کا واضح الفاظ میں انکار کیوں نہیں کیا؟۔
عمادی صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’نزولِ مسیح کے متعلق حدیثیں عیسائی غلاموں نے جو نو مسلم تھے گھڑیں‘‘ (انتظارِ مہدی ومسیح، صفحہ 253)۔ یعنی وہ بھی مرزا قادیانی کی طرح یہی کہنا چاہتے ہیں کہ رفع ونزولِ عیسیٰ u کا عقیدہ مسلمانوں میں عیسائیوں کی طرف سے آیا ہے۔ لیکن جیسا کہ اوپر بیان ہوا، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ قرآن کریم نے رفع ونزولِ عیسیٰ uکا انکار کہیں نہیں کیا ، صحابہ کرام، تابعین عظام اور تبع تابعین میں سے کوئی ایک ہستی ایسی نظر نہیں آتی جس نے حضرت عیسیٰ u کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے اور پھر دوبارہ نزول کا انکار کیا ہو، اسی طرح احادیث ِ نزولِ عیسیٰ u پر عمادی صاحب کی طرف سے کی گئی بے جا تنقید کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا کہ کئی صدیوں سے ان احادیث کو امت مسلمہ صحیح تسلیم کرتی آرہی ہے اور عمادی صاحب سے پہلے گزرنے والے محدثین و شارحین اور علماء رجال وجرح وتعدیل میں سے کسی نے یہ تحقیق پیش نہیں کہ یہ احادیث صحیح بخاری وصحیح مسلم ودیگر کتب میں بعد میں ’’ٹھونس‘‘ دی گئیں۔ نیز یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ عمادی صاحب سے پہلے تیرہ صدیوں میں گزرے مفسرین، محدثین اور علماء امت یہی عقیدہ رکھتے آرہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ u نے نازل ہونا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے عیسائیوں کے عقیدہ رفع ونزول کی صاف الفاظ میں تردید نہ کی ۔ جو احادیث امت مسلمہ کے نزدیک صحیح ترین سمجھی جاتی ہیں، ان میں نبی کریم e نے قسم کھاکر یہ فرمایا کہ مریم کے بیٹے عیسیٰ (i) نے ضرور نازل ہوناہے۔ اور ساری امت بھی یہی عقیدہ رکھتی رہی توکیا یہ تسلیم کرلیا جائے کہ قرآن کریم ’’بل رفعہ اللّٰہ‘‘ جیسے الفاظ کے ساتھ عیسائیوں کے غلط عقیدے کی ترجمانی کررہا ہے؟ اسی طرح مسلمانوں کی اہم ترین اور صحیح ترین کتبِ حدیث بھی عیسائیت کی ترجمان ہیں؟ اور چودہ صدیوں میں گزرنے ہوئے محدثین، مفسرین وعلماء کرام بھی عیسائی عقیدے کا پرچار کرتے رہے؟۔ نعوذ باللّٰہ من ذلک۔
ساز خاموش ہے فریاد سے معمور ہیں ہم
Qنالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
(جاری ہے)