مولانا محمد یوسف شیخوپوری
خلیفہ راشد، خلیفہ ثانی، مزاج شناس مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم، شہید مصلائے رسول، محسنِ بتول، مرادِ پیغمبر، فاتح عرب و عجم، عزتِ اسلام، خسر نبی علیہ السلام دامادِ علی رضی اﷲ عنہ، مدفونِ روضہ رسول، محدثِ امت، سالار اعظم، شاہ سوارِ عدالت سیدنا و مولانا عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے دس سال چار ماہ مثالی دورِ خلافت کی خصوصیات و اولیات ہدیہ قارئین ہیں جن میں اکثر کتاب الاوائل لابی ہلال العسکری اور تاریخ طبری میں یکجا مذکور ہیں باقی مختلف مقامات سے نقل کی گئی ہیں۔
(۱)مستقل بیت المال یعنی خزانہ قائم کیا۔ (۲)عدالتیں قائم کیں اور ان میں قاضی مقرر کیے۔ (۳) اذان کا سلسلہ آپ رضی اﷲ عنہ کی رائے اور مشورہ سے قائم ہوا۔ (۴)مسلمانِ عالم کی اپنی تاریخ اور اپنا سنہ قائم کیا جو آج تک جاری ہے اور اس کا آغاز ہجرتِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم سے کیا۔ (۵)سب سے پہلے امیر المؤمنین کا لقب اختیار کیا۔ (۶)فوجی دفاتر کا قیام آپ ہی کا رَہینِ احسان ہے۔ (۷)رضارکاروں کی تنخواہیں مقرر کیں۔ (۸)دفتر مال کا قیام آپ ہی کے زمانہ خلافت میں ہوا۔ (۹)زمینوں کی پیمائش آپ نے جاری کی۔ (۱۰)مردم شماری کا نظام۔ (۱۱)زراعت کے فروغ کے لیے نہریں کھدوائیں۔ (۱۲)نئے شہروں کو آباد کرایا مثلاً کوفہ، بصرہ، جیزہ، فسطاط اور موصل وغیرہ۔ (۱۳)مقبوضہ ممالک کی صوبوں میں تقسیم۔ (۱۴)دہ عشورہ یعنی دہ یکی مقرر کی۔ (۱۵)دریا کی پیداوار مثلاً عنبروغیرہ پر محصول لگایا اور محصل مقرر کیے۔ (۱۶)حربی تاجروں کو ملک میں آنے اور تجارت کرنے کی اجازت دی۔ (۱۷)جرائم کے خاتمے کے لیے جیل خانے مقرر کیے۔ (۱۸)عام تعزیری سزاؤں میں دُرّہ کا استعمال کیا۔ (۱۹)راتوں کو گشت کر کے رعایا کی خبر گیری اور حالات دریافت کرنے کا طریقہ نکالا۔ (۲۰)پولیس کا محکمہ قائم کیا۔ (۲۱)مختلف ضروری مقامات پر فوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔ (۲۲)گھوڑوں کی نسل میں اصیل اور مجلس کی تمیز قائم کی جو اس وقت عرب میں نہ تھی۔ (۲۳)پرچہ نویسی مقرر کیے اور اس کا مکمل نظام بنایا۔ (۲۴)مسافروں کے آرام و راحت کے لیے مکانات بنوائے۔ (۲۵)لقطہ (راہ میں پڑے ہوئے بچوں کے لیے) پرورش و پرداخت کے واسطے روزینے مقرر کیے۔ (۲۶)مختلف شہروں میں مستقل مہمان خانے تعمیر کرائے۔ (۲۷)سب سے پہلے آپ نے ہی یہ اصول طے کیا کہ اہلِ عرب میں کوئی غلام نہیں ہو سکتا۔ (۲۸)نادار غیر مسلموں (یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے)کے روزینے مقرر کیے۔ (۲۹) مکاتب قائم کیے۔ (۳۰) معلموں اور مدرسوں کے مشاہرے مقرر کیے۔ (۳۱)حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں بار بار اصرار کر کے قرآنِ پاک کو ترتیبِ تلاوت پر مرتب کرایا اور شریک غالب کے طور پر اس عظیم خدمت میں برابر کے معاون رہے۔ (۳۲)قانون میں قیاس کااصول قائم کیا۔ (۳۳)فرائض میں عول کا مسئلہ ایجاد کیا۔ (۳۴)فجر کی اذان میں ہی ’’الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ کہنے کی تاکید فرمائی چنانچہ مؤطا امام مالک بھی اس کی تفصیل مذکور ہے اسی طرح ابن ماجہ میں مذکور ہے کہ یہ کلمات خود جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ثابت ہیں آپ نے حضرت ابو محذورہ رضی اﷲ عنہ کو اذان میں یہ کلمات دو دفعہ کہنے کی تلقین فرمائی حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا اسے اذان میں لازم کرنا صرف یہ بتانے کے لیے تھا کہ اذان کے بعد کسی کو نماز کے لیے دوبارہ یہ کلمات کہنا مکروہ ہے جوکہنا تھا کہا جا چکا بعض لوگ اذان کے بعد بھی لوگوں کو نماز کے لیے جگاتے رہتے ہیں حضرت عمر رضی اﷲ عنہ یہ چاہتے تھے کہ یہ بات اذان میں ہی کہی جائے بعد میں کسی کلمہ سے کسی کو نماز کی طرف لانا مکروہ ہے یہ مطلب نہیں کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ ان کلمات کے موجد تھے)۔ (۳۵)نماز تراویح پورا مہینہ جماعت سے قائم کی۔ (۳۶)شراب کی حد کے لیے اسی کوڑے مقرر کیے۔ (۳۷)تجارت کے گھوڑوں پر زکوٰۃ مقرر کی۔ (۳۸)بنو ثعلب پر بجائے جزیہ کے زکوٰۃ مقرر کی۔ (۳۹)وقف کا طریقہ ایجاد کیا۔ (۴۰)نماز جنازہ میں چار تکبیروں پر تمام لوگوں کا اجماع کروایا (اسی مسئلہ میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کی شمولیت کے ساتھ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اﷲ عنہ کے گھرمیں مجلس مشاورت ہوئی جس کی نگرانی حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ فرما رہے تھے اس اجتماع میں یہ فیصلہ ہوا کہ چونکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا آخری عمل جنازہ میں چار تکبیروں کا ہے لہٰذا چار تکبیریں کہنا چاہئیں۔ (اس سے زائد تکبیریں متروک العمل ہیں) ’’اجتمع اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی بیت ابی مسعود الانصاری فاجمعوا ان التکبیر علی الجنازۃ اربع ‘‘(السنن الکبریٰ) اسی طرح سیدنا علی المرتضی رضی اﷲ عنہ کے دورِخلافت میں بھی چار تکبیروں کا معمول تھا چنانچہ آپ رضی اﷲ عنہ نے ایک شخص یزید بن المکفف کا جنازہ پڑھایا تو اس پر چار تکبیریں کہیں۔ ’’عن علی رضی اﷲ عنہ بن ابی طالب انہ صلی علیٰ یزید بن المکفف نکبر اربع تکبیرات۔ وھو اخرشیٍ کبرہٗ علی رضی اﷲ عنہ علی الجنائز (کتاب الآثار امام محمد)خود حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی شہادت کے بعد ان پر نماز جنازہ آپ کے صاحبزادے حضرت حسن رضی اﷲ عنہ نے پڑھائی تو اس پر چار تکبیریں کہیں ’’عن الشعبی ان الحسن بن علی رضی اﷲ عنہ صلی علی علی بن ابی طالب مکبراً علیہ اربع تکبیرات‘‘ (طبقات لابن سعد، المستدرک للحاکم)۔ (۴۱)مساجد میں وعظ کا طریقہ قائم کیا اس سلسلہ میں حضرت تمیم داری رضی اﷲ عنہ کا سب سے پہلے بطورواعظ تقرر عمل میں آیا۔ (۴۲)اماموں اور مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔ (۴۳)مساجد میں راتوں کو روشنی کا انتظام کیا۔ (۴۴)ہجو کہنے پر تعزیر کی سزا قائم کی۔ (۴۵)غزلیہ اشعار میں عورتوں کے نام لینے سے منع کیا حالانکہ یہ طریقہ عرب میں مدتوں سے جاری تھا۔ (۴۶)دس سال چار ماہ دور خلافت میں ایسا عدل و انصاف اور فتوحات کیں جن کی مثال لانے سے دنیا قاصر ہے۔ ۲۲۵۱۰۳۰ مربع میل علاقہ فتح ہوا مکہ سے شمال کی جانب ،۱۰۳۲،مشرق کی جانب ۱۰۸۷،جنوب کی جانب ۴۸۳؍ اور مغرب کی جانب جدہ تک بڑے بڑے ملک اور شہر مثلاً شام، مصر، عراق اور جزیرہ اسی طرح کرمان، خراسان، خوزستان، آرمینیہ، آذربائیجان، فارس و مکران ختم ہوا اس کے علاوہ بے شمار اولیات و خصوصیات ہیں جن کو اہل تحقیق نے نقل کیا ہے۔