انتظار احمد اسد
جن کے آنے سے مکہ میں اسلام کو ترقی ہوئی ،جو گلیوں میں راتوں کو رعایا کی خبر گیری کے لیے پہرا دیا کرتے تھے ،جن کے عقد میں حضرت علی ؓ کی بیٹی تھی ،جن کے ارادوں نے قرآن کا روپ دھارا ،جن کی منشا خدا کی منشا ٹھہری ،شوکت اسلام ،ترقی اسلام ،خوشحالی مسلم ،انصاف و عدل کے پھریرے ،جرأت و بہادری کا باب جن سے منسوب تھا ، وہ جو خلیفہ عدل و حریت ٹھہرے ،جن کے بارے میں انگریز کو خطرہ تھا کہ اگر ایک اور پیدا ہوجاتا تو ہر طرف اسلام ہی اسلام ہوتا جس کا نظام حکومت آج بھی یورپ میں رائج ہے ،جس نے فقر میں بادشاہی کی، جس کو سر منبر دوران خطاب ٹوک دیا جاتا اور اس کا احتساب کیا جاتا ،جس نے نبوت کے اہم پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا ،وہ جس کے بیٹے کو شہزادہ رسول ؐ حضرت امام حسین ؓ نے کہا تم ہمارے غلام ہو تو اس نے حضرت حسین ؓ سے یہ لکھوا کر وصیت کی کہ میری نجات کے لیے یہی کافی ہوگا۔ جو کفار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں رحم دلی کی عظیم مثال تھے ،جن کے دورہ حکومت میں روم و فارس اسلامی علمبردار ی میں آگئے تھے لیکن وہ خود پیوند لگے کپڑے پہنتے اور غلام کو گھوڑے پر سوار کر کے خود پید ل چلتے تھے ۔
وہ جو بدری بھی تھے اور میدان احد سمیت تما م معرکوں میں نبی ﷺ کے دست راست رہے۔جن کے آنے سے اسلام مہک اٹھا، جو نبی ؐ کی دشمنی لیکر آیا لیکن خود غلام رسول ؐ بن گیا ، جس کے لیے غلاف کعبہ پکڑ کر نبی ؐ نے دعا ئیں مانگیں، جو اعلیٰ حسب و نسب کا مالک ہونے کے باوجود کہا کرتا تھا کہ عمر تجھ کو تو اسلام سے قبل اونٹ چرانے نہیں آتے تھے آج تو مسلمانوں کا خلیفہ ہے ،وہ جو کھجور کے درخت کے نیچے خلافت کے دنوں میں سر ریگستان سو جایا کرتا تھا ۔وہ محب رسول ﷺ ،محب اہل بیت ؓ ،محب صحابہ ؓ اور محب امت تھا، وہ جس کے خون سے اسلامی سال کے پہلے مہینہ محرم کی ابتداء ہوتی ہے ،جی ہاں یہ شخصیت یہ ہستی یہ جری، بہادر،بے مثل و بے مثال صحابی رسول ؐ حضرت عمر فاروق ؓ تھے جن کو نماز فجر کی امامت کے دوران مصلیٰ نبوی ؐپر ابو لولو فیروز مجوسی نے شہید کردیا تھا ۔
حضرت عمر ؓ قوی ہیکل ،بلند قامت ،بے باک، 26سالہ نوجوان تھے جب انھوں نے اسلام قبول کیا۔ اسلام لانے کا بظاہر سبب تو بہن تھی جس نے ظلم و تشدد برداشت کرنے کے باوجود اسلام کو سینے سے لگا کر رکھا ،لیکن اصل حقائق تویہ تھے کہ آمنہ ؑ کے در یتیم ؐ نے رات کو غلاف کعبہ پکڑ کر اس کو خدا سے مانگا تھا اسی لیے آپ ؓ کو مراد رسول ؐ بھی کہا جاتا ہے۔
حضور ﷺ اس روز دار ارقم میں جانثاروں کے ہمراہ موجود تھے کہ ایک غلام نے کواڑ سے دیکھا کہ ننگی تلوار لیے عمر خراماں خراماں در رسول ؐ کی طرف آرہے ہیں ۔ حضرت حمزہ ؓ نے دروازہ کھولنے کا کہا؛ صحابہ ؓ کی پریشانی دیدنی تھی حضرت حمزہ ؓ نے کہا کہ اگر دربار مصطفوی ؐ میں کوئی گستاخی کی تواسی کی تلوار سے اس کا سر قلم ہوگا ۔لیکن رحمت اللعالمین ﷺ نے فرمایا ’’دروازہ کھول دو! اﷲ تعالیٰ نے اگر اس کی بھلائی کا ارداہ فرمایا ہے تو اس کو ہدایت دے گا‘‘دروازہ کھولا گیا دو آدمیوں نے عمرکو دونوں بازوؤں سے پکڑ رکھا تھا کہ میرے آقا ﷺ اٹھے اور عمر کی چادر کو پکڑ کر زور کا جھٹکا دے کر فرمایا ’’اے عمر اسلام قبول کر لے ،اے اﷲ ! اس کو ہدایت کے نور سے روشن کردے ،اے اﷲ !عمر ابن خطاب کو ہدایت عطا فرما، اے اﷲ !عمر بن خطاب کے ذریعے دین کو عزت بخش دے اور اس کو ایمان سے تبدیل کر دے ‘‘۔
حضرت عمر ؓ فرمایا کرتے تھے کہ حضور ﷺ کے اس ارشاد کے بعد میں بارگاہ مصطفوی ؐ میں یوں گویا ہو اکہ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ ؐ اﷲ کے سچے رسول ہیں ‘‘پس پھر کیا تھا مکہ کے درو دیوار جھومنے لگے چاروں طرف سے نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوئے فضائیں اس نعرہ سے گونج اٹھیں کہ آج خطاب کا بیٹا بھی محمد ﷺ کے غلاموں میں شامل ہو گیا ہے اب چھپ کر عبادت کرنے کا دھیان قصہ پارینہ ہو گیا ،کفر کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی وہ دن اور پھر عمر کی زندگی کا آخری دن غلام کی غلامی ایک مثال بن گئی۔
حضرت عمر ؓ اسلام قبول کرنے کے بعد جب تک مکہ میں رہے ابو جہل اینڈ کمپنی ان سے خائف رہی اور جب ہجرت کرنے لگے تو اعلانیہ ہجرت کی ۔جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں جب آپ ؓکے رائے کی نسبت حضرت ابوبکر ؓ کی رائے کو مقدم سمجھا گیا تو قرآن نے حضرت عمر ؓ کی رائے کو صائب جانا ۔آپ ؓ مدینہ کے انصار اور مکہ کے مہاجرین میں یکساں مقبول تھے خانوادہ حضرت علی ؓ سے آپ ؓ کی الفت و محبت بے مثال تھی۔ حضرت علی ؓ کی ایک صاحبزادی ام کلثوم آپ کے نکاح میں تھی اسی لیے آپؓ کو داماد علی ؓ بھی کہتے ہیں ۔تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے عرب میں ایسا مستحکم اور انصاف پر مبنی نظام حکومت قائم کیا جس میں امیرو غریب کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا گیا ۔آپ کے زمانے کے گورنر علاقے کے سب سے مالی طور پر غیر مستحکم لوگ ہوا کرتے تھے ۔تقویٰ اور اسلام کے پیروکاروں کو آپ ؓ نے گورنر مقرر کیا جو زمین پر سوتے ،موٹا کپڑا پہنتے ان کا ساما ن ایک تھیلے سے بھی کم ہوتا تھا ۔آپ ؓ کے بارے میں نبی ؐ نے فرمایا’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے شیطان جب کسی راستے سے عمر کو دیکھتا ہے تو وہ اپنا راستہ بدل لیتا ہے ‘‘۔
جب کفار کو للکار کر سب سے پہلے محمد عربی ﷺ کی معیت میں کعبہ میں نماز ادا کی گئی تو کفار تلملا اٹھے ،اسی دن نبی ﷺ نے آپ ؓ کو فاروق کا لقب دیا۔ نبی ؐ نے آپ ؓ کو اسلام کا مضبوط دروازہ قرار دیا تھا۔ یہ عمر ہی تھے جن کے بارے میں نبی بر حق ﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتا لیکن مجھ پر نبوت کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے اور میں خاتم النبین ہوں‘‘ ۔ایک دفعہ نبی ﷺ نے انہیں جنت کا چراغ بھی قرار دیا۔ جب دریائے نیل خشک ہوا توکاغذ کے پرزے پر مبنی رقعہ پھینکتے ہی دریا میں ایسی روانی آئی جو آج تک اپنی پوری آب و تاب سے جاری ہے ۔مدینہ میں زلزلہ آیاتو عمرؓ نے زمین پر کوڑا مارااور کہا کہ اے زمین !کیا عمر نے تجھ پر انصاف نہیں کیا وہ دن اور آج کا دن مدینہ میں کبھی زلزلہ نہیں آیا ۔جی ہاں یہ وہی عمر تھے جن کی حکومت ،عدالت ،سیاست کو دیکھ کر علی ؓ نے انھیں مسلمانوں کا ملجا و ماویٰ قرار دیا تھا اور لشکر عمر کو دیکھ کر حیدر کرارؓ نے انھیں جند اﷲ کا قلب دیا تھا ۔
قرآن مجید میں آیات( واتخذو من مقام ابراہیم مصلیٰ ،ان اﷲ ھو مولٰہ ، ھذا بہتان عظیم ،اور من یھدہ اﷲ فلا مضل لہ ) انھیں کی رائے پر نازل ہوئیں ۔عمر وہی تھے جن کے حسن تدبر سے عدالتیں قائم ہوئیں ،جن کی سیاسی قابلیت سے فوجی دفتر اور والنٹیروں کی تنخواہیں مقرر ہوئی،جن کے مشورہ سے دفتر مال بنا یا گیا ،مردم شماری ،زمین کی پیمائش ،مفلوک الحال مسلمانوں ہی نہیں یہودی اور عیسائیوں کے روزینے ،مکہ اور مدینہ میں مسافروں کے لیے چو کیاں اور سرائے ،رعب حکومت اور شوکت اسلام کے لیے چھاؤنیاں ،تحفظ قرآن کی غرض سے نماز تراویح کا اہتمام عمر ؓ کے ایسے کارنامے ہیں جن کی رہتی دنیا تک کوئی نظیر نہیں ۔
عمر ؓ وہ تھے جنہوں نے حاکمین اور گورنروں کے لیے ضروری قرار دیا کہ وہ سورۃ البقرۃ ،سورۃ النساء ،سورۃ المائدہ ،سورۃالحج اور سورۃ النور کو زبانی یاد کریں تاکہ انھیں احکام خداوندی کا صحیح ادراک ہوسکے۔ یہی عمرؓ تھے جن کی برکت سے قادیہ ،جلولہ ،جلوان ،تکریت ،خوزستان ،ایران ،اصفہان ،طبرستان ،آذر بائیجان ،آرمینیا ،فارس ،سیستان ،مکران خراسان ،اردن ،حمص ،یرموک ،بیت المقدس ،اسکندریہ اور طرابلس فتح ہوئے۔ جی ہاں ان کی حکومت میں ہی شہزادی شہر بانو سے شہزادہ رسولؓ حضرت امام حسین ؓ کا نکاح ہوا ،جن کے دروازے پر سیدنا علی ؓ سیدنا حسین ؓ کو لے کر شادی کے لیے تشریف لائے جنھوں نے اپنے بیٹے کو حسینؓ پر ترجیح دینے سے انکار کر دیا اور اس کے ارداے کہ شہر بانو سے نکاح کرے کو ناکام کرکے عترت رسول ؐکی قدر کی ۔اس عقد نکاح کو جسے حضرت عمر ؓ نے کیا تھا امام حسین ؓ نے آخر وقت تک نبھایا ۔
حضرت عمر ؓ وہی تھے جن کے دور حکومت میں چار ہزار مسجدیں تعمیر ہوئی ،جن کے دور خلافت میں فقہ کی تکمیل و ترقی ہوئی، جن کی مجلس شوریٰ کے رکن حیدر کرار ؓ جیسے جری صحابہ کرام ؓ تھے ،جس نے حرم کعبہ کو آبادی سے ممتاز کیا ،جس نے کعبۃ اﷲ کے غلاف کو قیمتی غلاف میں بدلا، جس نے پیاسوں کے لیے نہر موسیٰ کھدوائی ۔جی عمر ؓوہی تو ہیں جن کے متعلق تفسیر فہمی میں ’’غلب المسلمون فارس فی امارۃ عمر‘‘ کے کلیہ کو تسلیم کیا گیا جن کی جلال بھری نظروں سے والیان تاج مرعوب رہتے ،جو مال غنیمت میں سے کبھی زائد حصہ نہ لیتے تھے۔
عمرؓ وہ کہ حجر اسود سے یوں مخاطب ہیں کہ ’’تجھے ہم نافع اور ضار نہیں سمجھتے تیرا بوسہ اس لیے لیتے ہیں کہ میرے محبوب ؐ نے تیرا بوسہ لیا تھا ‘‘جن کے متعلق یہ مشہور تھا کہ عیسائی عالم ان کی شکل سے ان کو پہچان لیتے ۔جن کو حضور ﷺ کی زندگی ہی میں جنت کا سر ٹیفکیٹ مل گیا ۔یہ وہی با کمال شخصیت ہے جو کسی وقت منبر پر احکام خداوندی سنا رہا ہوتا ہے تو کسی وقت مشکیزہ کاندھوں پر رکھے محتاجوں ،بے کسوں اور بیواؤں کے پانی کا انتظام کررہا ہوتا ہے۔وہ جو باطنی اقتدار کے مقابلہ میں ظاہری وجاہت کو ہپیچ سمجھتا تھا ۔جس کی ہم نوائی اور تصدیق صاحب نبوت ﷺ نے سکوت فرما کر تو اہل بیت ؓ نے عملی طور پر فرمائی جو غیرت و حمیت کا ایک لاوا تھا کہ جس کے نام سے کفر پر آج بھی لرزہ طاری ہے ۔
جی ہاں یہی مراد رسول ؐ، داماد علی ؓ یکم محرم کو شہید ہوا
اسلامی سال کی ابتداء خون عمر ؓ و حسین ؓ سے ہوتی ہے