سید عطاء المحسن بخاری رحمتہ اﷲ علیہ
جماعتِ صحابہؓ………دانائے سبل،فخر الرسل،مولائے کُل علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پروردہ جماعت ہے کہ جن کا حکم ‘حکم الہٰی ،کلام‘کلام ِ الہٰی اور عمل منتہائے ربیّ ہے۔مولائے کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تین لاکھ سے متجاوز قدسی صفت صحابہؓ کی جماعت گراں مایہ میں فکر و نظر اور شعور و احساس کا وہ نور منتقل کیا کہ جو قیامت تک امتِ رسول ا کے لیے ہدایت اور حریت کے راستو ں کو اجالتا رہے گا ۔نواسۂ رسول،جگر گوشۂ بتول،نور نظر علی المرتضیٰ ،سیدنا حسین سلام اﷲ و رضوانہ علیہ بھی اسی جماعتِ صحابہؓ کے فرد فرید اور لُولُوئے لالہ ہیں۔
سیدنا حسین ص کی ذات والا صفات میں اسوۂ رسالت کا یہی نورانی عکس نمایاں تر ہے۔آپ کا اسوہ مقام صحابیت کی عملی تفسیر ہے۔اور اس سے اس ارشاد نبوی کی صداقت پر ایمان قوی ہوجاتا ہے کہ جماعت صحابہ کا ہر ہرفرد قیامت تک امت رسول کے لیے ذریعہ ہدایت ہے ۔وہ سب آسمان نبوت کے روشن ستارے ہیں۔وہ سب مومنین کا ملین ہیں۔صحابہ کے ایمان کی گواہی خود اﷲ نے کلام اﷲ میں دی ۔منافقت اور ایمان کی راہیں متضاد اور جداجدا ہیں۔بعض لوگ منافقت کا روپ دھارکر صحابہ کی جماعت میں داخل ہوئے تواﷲ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر ان کی منافقت واضح کردی ۔حضور نبی امی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُن منافقین کا نام لے لے کر انہیں اپنی جماعت سے باہر نکال دیا تھا۔اس فیصلہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کسی صحابی رسول کے ایمان میں شک کا اظہار بجائے خود منافقت ہے۔
سیدنا حسینؓ…….!صالح ،زاہد ،عابد ،باکمال،منکسر المزاج،متواضع ،شب زندہ دار ،تہجد میں اﷲ سے گفتگو کرنے والے ،اپنے رب کے حضور عجز کا اظہار کرکے طویل سجدے کرنے والے اور قیام طویل میں ایک یا دو پارہ نہیں سورۃ بقر ایک رکعت میں پڑھنے والے تھے ۔جنہوں نے بچپن میں نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کے پیار کی بہاروں کو لوٹا ہے۔آپ کی گود میں کھیلے ہیں اور وہ ریحانتہ النبی ہیں……حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا…….
’’یا اﷲ ! جو حسینؓ سے محبت کرے ،میں اس سے محبت کرتا ہوں ،جو حسینؓ سے بغض رکھے تو بھی اس سے بغض رکھ۔‘‘
سیدنا حسین ص کو نبی ا کی معیت جسدی اور معیّت ِ زمانی حاصل ہے۔آپ براہِ راست فیضانِ رسول حاصل کرنے کے شرف سے مشرف ہیں۔آپ کا یہ مقام و مرتبہ اور اجلال و اکرام ہی ہماری محبتوں کا مرکز ومحور ہے۔
سیدنا حسین ؓ کا واقعہ شہادت‘ منافقین عجم کے سازشی فکر وفلسفہ کا شاخسانہ ہے۔شہادت حسینؓ سے دین کی روح عمل سمجھ میں آجاتی ہے اور غیرت و حمیت اپنے اوج کمال پر نظر آتی ہے۔سیدنا حسینؓ نے جہاں غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خلعتِ شہادت زیب تن کی ،وہاں انہوں نے منافقین عجم کے اس گروہِ خبیث کو بھی ہمیشہ کیلئے رسوا کردیا جو ان کے ناناا کے دین کے درپے آزار ہو کر خلافت ِ عثمانی پر مہلک وار کرچکا تھا۔
حادثہ کربلا کے پس منظر میں یہودیوں،سبائیوں اور مجوسیوں کی منافقانہ سازشیں کارفرما تھیں۔خیبر کی شکست،جزیرۃ العرب سے انخلاء اور اپنے اقتدار کے چکنا چور ہونے کے بعد یہودیوں نے امتِ مسلمہ میں انتشار و افتراق کی گہری سازشیں شروع کردی تھیں اور وہ اسلامی حکومت کے استحکام اور تیزی سے بڑھتی ہوئی فتوحات سے خوفزدہ ہوکر انتقام پر اتر آئے تھے۔ادھر عجمی مجوسیوں کو اقتدارِ کسریٰ کے ملیا میٹ ہوجانے کے کبھی نہ مندمل ہونے والے زخم چاٹنے کی مصروفیت تھی ،انہی دو نمایاں عناصر کو ایک حسبی نسبی یہود ی مسٹر عبد اﷲ ابن سباء جیسا شردماغ سازشی میسر آیا جس نے شہید مظلوم سیدنا حسینؓ کی شہادت تک مرکزی کردارادا کیا۔
۶۰ھ میں جب امیر المؤمنین سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ کا سانحہ ارتحال پیش آیا تو کوفہ کے کچھ منافقوں نے سیدنا حسین ؓ کو خط لکھا کہ’’ حسینؓ ! تجھ کو مبارک ہو‘ معاویہ مرگیا! ‘‘سازش اور فساد کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے ۔کوفیوں نے سیدنا حسین ؓ کو خطوط لکھے،خلافت پر متمکن ہونے کی دعوت دی اور کہا کہ ہمارا کوئی امام نہیں ،میدان خالی ہے۔پھل پک چکا ہے،آئیے!ہم آپ کو امام مانتے ہیں۔تاریخ کی روایات میں ہے کہ سیدنا حسین ؓ کو بارہ ہزار خطوط لکھے گئے۔آپ نے حالات کا جائزہ لینے کے لیے اپنے چچازاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل کوکوفہ بھیجا۔پہلے ہزاروں کوفیوں نے ان کی بیعت کی پھر انہیں بے دردی کے ساتھ شہید کردیا۔چنانچہ جب سیدنا حسینؓ مقام ثعلبیہ پر پہنچے اور انہیں معلوم ہوا کہ مسلم بن عقیل کو شہید کردیا گیا ہے۔تو آپ نے جناب مسلم بن عقیل کے بیٹوں سے مشورہ کے بعد یزید سے ملاقات کا فیصلہ کرلیا۔حضرت مسلم بن عقیل کے بیٹے بھی آپ کے ساتھ تھے اور اسی مقام سے کوفہ کی بجائے شام کا سفر شروع کیا۔ابن زیاد اور شمر جو مسلم بن عقیل کے قتل میں براہِ راست شریک اور ملوث تھے،انہوں نے سمجھ لیا کہ اگر سیدناحسینؓ ‘یزید کے پاس پہنچ گئے تو اصل سازش عیاں ہوجائے گی اور مفاہمت ہوجائے گی ۔چنانچہ انہوں نے آپ کا راستہ روکا اور اپنے ہاتھ پر یزید کی بیعت کا مطالبہ کیا۔سیدنا حسینؓ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا:’’ابن زیاد کے ہاتھ پر یزید کی بیعت ؟ یہ میری موت کے بعد ہی ممکن ہے‘‘۔سیدنا حسین ؓ کا یہ فیصلہ عین حق تھا اور غیرت حسینؓ کا یہی تقاضا تھا۔پھر میدان کربلا میں سیدنا حسین ؓ نے جو تین شرائط پیش کیں،اُن پر ائمہ اہل سنت اور ائمہ اہل تشیع متفق ہیں اور دونوں طبقوں کی کتابوں میں موجود ہیں۔جو ’’تاریخ ابن کثیر‘‘،’’تاریخ طبری‘‘ اور شیعہ کی مشہور کتاب ’’الشافی‘‘ میں کچھ یوں مرقوم و مرتسم ہیں:
’’میری تین باتوں میں سے ایک بات پسند کرلو۔یا میں اس جگہ لوٹ جاتا ہوں جہاں سے آیا ہوں،یا تم میرے راستے سے ہٹ جاؤ او رمجھے یزید کے پاس جانے دو۔کہ میں اپنا ہاتھ یزید کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہوں،وہ میرا عم زاد ہے ۔پھر وہ میرے متعلق خود اپنی رائے قائم کرلے گا۔یا پھر مجھے مسلمانوں کی سرحدات میں سے کسی سرحد
کی طرف روانہ کردو تو میں وہیں کا باشندہ بن جاؤں گا پھر جو نفع اور آرام وہاں کے لوگوں کو حاصل ہوگا ،وہی مجھے بھی مل جائے گا ۔اور جو نقصان اور تکلیف وہاں کے لوگوں کو ہوگی ،وہی مجھے بھی پہنچے گی (’’الشافی ‘‘ص۷۱)
یہی وہ تین شرائط ہیں جو اہل سنت کے لیے فیصلے کا معیار ہیں۔اصل مجرموں کی شناخت کے لیے بھی یہیں سے حقیقی بنیادیں فراہم ہوتی ہیں۔ان شرائط کے مطالعہ کے بعد کسی قصے ،کہانی اورافسانے کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی اور حقائق کھل کر،ابھر کر اور نکھر کر سامنے آجاتے ہیں۔
جولوگ آج آلِ رسول اور اہل بیت رسول علیہم السلام کی محبتوں کاواسطہ دے کر حق و باطل کے خانہ ساز معرکے اٹھا رہے ہیں اور فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں۔ان کی ساری خرمستیاں‘ سبائی دولت ،اشتری حیلوں،حکیمی تجبراور مختاری چالوں کا مظہر کامل ہیں۔یہود ومجوس کی ساری تگ و دو اس نکتہ پر مرتکز ہے کہ تاریخ ،ادب،سیاسیات،سماجیات اور اعتقادات کے ہر ہر گوشے میں شرک اور نفاق کے سانچوں میں ڈھلے ہوئے بت کھڑے کردئیے جائیں ۔میدان جنگ میں عبرتناک شکست اور ذلت آمیز موت سے پے در پے دوچار ہونے والے اعداء ِرسول واعداء ِ اصحاب رسول کے پاس یہی ایک انتقامی حربہ تھا جو پوری قو ت سے مسلسل آزمایا گیا اور آزمانے والے وہی تھے کہ فتنہ و سازش اور شرک و نفاق جن کی فطرت و طینت ،ضمیر و خمیر،سرشت و خصال اور فکر و نہاد کے اجزاء ترکیبی ہیں۔جس کا درد ناک مظاہرہ شہادت سیدنا عثمانؓ کی صورت میں ہوچکا تھا۔
’’بندگی بوتراب‘‘ کا نعرہ سرزمینِ عجم کو اسی لیے راس اور خوش آیا کہ یہاں صنم پرستی ،شاہ پرستی،اور شخصیت پرستی مزاجوں کا حصہ ہوچکی تھی۔جہاں بندگی ٔ طاقت و دولت آئین ہائے کہنہ و نوکے متن ِ واحد کا درجہ رکھتی تھی،ایسی رت میں،ایسے ماحول میں اور ایسے موسم میں خبیثانِ عجم ،یہود ومجوس کے لیے سازگار ی ہی ساز گاری تھی۔چنانچہ ملت ابراہیمی کی عالمگیر وحدت کو پارہ پارہ اور امت محمدیہ کی ابدی شوکت و سطوت کو مجروح و مسخ کرنے کے لئے آلِ رسول علیہم الرضوان کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا اور کربلا مقتل گاہِ آلِ رسول بنا دی گئی ۔سبط ِ رسول شہید کردئیے گئے اور انہی کے نام پر ایک نیا دین گھڑا گیا ،ایک نیا دھرم متعارف کرایا گیا جس کے پجاری و بیوپاری گزشتہ تیرہ سوسال سے اسلام کے صدر اوّل میں اپنی جانکاہ ہزیمتوں کا انتقام لے رہے ہیں لیکن یہ دین اسلا م ہے کہ خون صحابہ ؓ اور اسوۂ و آثار اصحابِ رسول علیہم الرضوان اس ناقابل تسخیر قلعہ کی فصیلیں ہوگئی ہیں۔جب تک دنیا قائم ہے‘سیدنا حسین ؓ کا نام گونجتا رہے گا اور اسلام کی آبیاری کے لئے جان و مال قربان کرنے والوں (صحابہ کرامؓ ) کا نام بھی تاابد تابندہ رہے گا۔
حادثۂ کربلا کاتعلق عقائد سے نہیں تاریخ سے ہے ۔عقیدہ کی بنیاد قرآن وسنت ہے ۔بعض لوگوں نے تاریخ کی بنیاد پر عقیدہ گھڑلیا ہے ۔جو یقینا جہالت اور گمراہی ہے ۔تاریخ کی تمام کتابوں میں ہے کہ سیدنا حسین ص نے نہ تو اپنی بیعت کامطالبہ کیا اور نہ ہی یزید کی خلافت کو کہیں غلط کہا۔مدینہ ،مکہ اور کربلا تک کسی ایک مقام پر آپ کے کسی خطبے میں یزید کے خلاف کوئی چارج شیٹ نہیں ۔کوفہ کے سبائی منافقوں کے خطوط کی بنیاد پر آپ نے اصلاحِ احوال کے لیے سفر کاآغاز کیا ۔آپ کو سفر کوفہ سے روکنے والوں میں عبداﷲ بن عباس (چچا)عبداﷲ بن جعفر طیار(تایا زاد اور یزید کے سسر)عبداﷲ بن عمر (بھانجا) ،محمد بن علی حنفیہ (بھائی )عبداﷲ بن زبیرجیسے آپ کے قریبی رشتہ دار اور عظیم لوگ تھے لیکن آپ نے اپنے فیصلہ میں تبدیلی نہ فرمائی ۔ابن زیاداور شمر سیدنا حسین کے قتل میں براہِ راست ملوث و مجرم ہیں۔شہادت ِ حسینؓ کے بعد سیدنا زین العابدین اور سیدہ سکینہ ‘یزید کے گھر رہے ۔یزید نے قسم کھاکر قتل حسین ؓ سے برأت کابیان دیا اور سیدنا زین العابدین نے یزید کابیان صفائی قبول کیا ۔یہاں تک کہ یزید نے انہیں ہدایہ اور مال اسباب دے کر محافظوں کے ساتھ اُن کی خواہش کے مطابق مدینہ منورہ روانہ کیا۔سیدنا زین العابدین ۹۵ھ تک حیات رہے ۔انہوں نے یزید کی وفات کے بعد بھی ۳۵سال تک اس کے خلاف ایک جملہ نہیں فرمایا۔تب تو وہ کسی جبر کاشکار نہیں تھے ۔جبکہ ابن زیاداور شمر بھی قتل ہوچکے تھے ۔سیدنا زین العابدین حادثۂ کربلا کے عینی شاہد ہیں اور اُن کی کوئی گواہی یزید کے خلاف نہیں۔جبکہ مذکورہ بالا حضرات یزید کی بیعت پر قائم رہے۔
سانحہ کربلا کے سلسلے میں اہل سنت کا اجماعی موقف یہ ہے کہ سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ کو ٹھیک اسی طرح دھوکہ دیا گیا جس طرح سیدنا علی ص کو دھوکہ دے کرشہید کیا گیا۔اس سانحۂ عظیم اور حادثہ ٔ فاجعہ کو سمجھنے اور حقیقی سازشی کرداروں سے آگاہی کے لیے شہادت سیدنا عثمان ص کے محرکات اور اسباب و عوامل کو جانچنا اور مجرموں کوپہچاننا ضروری ہے۔اس سازش کا مرکزی کردار یہودی النسل عبداﷲ ابن سباء منافق تھا۔اسے سیدنا علی ص کے حکم پر قتل کیا گیا۔اسی کی سبائی تحریک کے افراد نے سیدنا علی،سیدنا معاویہ اور سیدنا عمروبن عاص پر رمضان ۴۰ھ میں بیک وقت فجر کی نماز کے وقت قاتلانہ حملہ کیا۔سیدنا علی شہید ہوئے ۔سیدنا معاویہ زخمی ہوئے اور عمروبن عاص بچ گئے کہ اس روز وہ مسجد میں تشریف نہ لائے۔اُن کی جگہ خارجہ بن حذیفہ نماز پڑھارہے تھے او روہ شہید ہوگئے ۔
سیدنا حسین ؓنے اپنے خطبہ میں خود فرمایاکہ’’میرے گروہ کے افراد نے مجھے دھوکہ دیا‘‘سیدنا حسین رضی اﷲ عنہ‘ کوفی دھوکہ بازوں ،منافقوں اور سبائی تحریک کی سازش کاشکارہوئے ۔انہوں نے مکہ سے ثعلبیہ تک کاسفر اصلاحِ احوال کے لیے فرمایا۔سازش عیاں ہونے پرثعلبیہ سے کوفہ کی بجائے شام کارخ اختیار کیا ۔یوں کربلاکاسفر‘سفر قصاصِ مسلم بن عقیل ہے۔کربلامیں آپ نے فرمایا:’’میں اصلاحِ احوال کے لیے آیا ہوں ‘‘پھر تین شرائط مفاہمت کی پیشکش ہیں۔سیدنا حسینص نے اگر یزید کی بیعت نہیں کی تو یہ ان کا اجتہادی حق تھا ۔بحیثیت صحابی رسول وہ اپنے اجتہاد پر قائم رہنے یا اس سے رجوع کرنے کا حق رکھتے تھے کہ مجتہد دونوں صورتوں میں ثواب کا مستحق ہوتا ہے ۔چنانچہ مکہ،ثعلبیہ اور کربلا تینوں مقامات پر جوں جوں صورتحال آپ پر واضح ہوتی گئی ‘آپ کااجتہادی موقف بھی بدلتا رہا۔اور سازشی کردار بھی واضح ہوتے چلے گئے ۔کربلا میں یقینا ظلم ہوا ۔اس ظلم میں ملوث سازشی ناقابل معافی ہیں اور سیدنا حسین ص اور سیدنا زین العابدین ؒ کامؤقف برحق ہے ۔