ڈاکٹرعمرفاروق احرار
سنگاپورمیں حالیہ صدارتی انتخابات میں منتخب ہونے والی صدر 63سالہ حلیمہ یعقوب پیشے کے اعتبارسے وکیل ہیں۔اُن کے والدیعقوب کا تعلق ہندوستان سے تھا اوروہ سنگاپورمیں چوکیدارتھے۔انہوں نے سنگاپورمیں ایک ملائی خاتون سے شادی کی۔23؍اگست 1954کو حلیمہ کی ولادت ہوئی۔جب حلیمہ آٹھ سال کی تھیں تو اُن کے والددُنیاسے چل بسے،مگر حلیمہ نے ہمت نہیں ہاری اور اَپنی تعلیم کا سلسلہ جار ی رکھا۔ 1978 میں سنگاپور یونی ورسٹی سے قانون میں گریجویشن کیا۔انہوں نے بعداَزاں ایل ایل ایم اورڈاکٹرآف لاز کی ڈگریاں بھی حاصل کیں۔تعلیم کے بعدنیشنل ٹریڈرزیونین کانگرس میں بطورلیگل آفیسرکے کا م کیااورپھرترقی کی منازل طے کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف لیبرسٹڈیزکے ڈائریکٹرکے عہدے تک جا پہنچیں۔حلیمہ یعقوب نے حکومتی جماعت پیپلزاَیکشن پارٹی(PAP )سے بحیثیت رُکن سیاسی زندگی کا آغازکیا۔2001ء میں میں سنگاپورکی پارلیمنٹ کی رُکن منتخب ہوئیں اور2013ء میں اسمبلی کی تیرہویں سپیکرمنتخب کرلی گئیں۔2015 میں وہ اپنی جماعت کی ہائی کمان میں شامل ہوگئیں۔ 07؍اگست 2017ء کو حلیمہ نے پارلیمان کی رکنیت اورسپیکرشپ سے استعفیٰ دے دیا۔اب حلیمہ کی نگاہیں سنگاپورکی صدارت پر لگی ہوئی تھیں۔انہوں نے ملک کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کردیا۔
سنگاپور میں اکثریت چینی نسل والوں کی ہے اور ہمیشہ وزیراعظم کا انتخاب بھی اُنہی میں سے ہوتاہے۔ ، لیکن اس مرتبہ ایک آئینی ترمیم کے تحت ملائی اقلیت میں سے صدر بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔سنگاپور کے آئین کے تحت صدارتی امیدوار کی کمپنی کے حصص کی کم از کم مالیت 37 لاکھ ڈالر ہونی چاہیے ۔ اگرچہ حلیمہ یعقوب اتنی امیر کمپنی کی مالک نہیں تھیں، لیکن اُن کی قسمت نے اُن کاساتھ دیا اورملکی آئین کے مطابق سپیکر پارلیمنٹ ہونے کی حیثیت سے اُنہیں اُس اصول سے استثنیٰ حاصل ہوگیا۔ملائی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی حلیمہ کے مقابلے میں 4 اُمیدوار کھڑے ہوئے تھے۔ تاہم دو اُمیدوار صالح میریکان اورپاکستانی نژاد فرید خان کو اِلیکشن کمیشن نے اس لیے نااہل قرار دے دیا کہ وہ ’’چھوٹی کمپنیوں‘‘کے مالک تھے۔ جب کہ دیگر دواُمیدواروں اِس لیے نااہل پائے کہ وہ ملائی نسل سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔یوں حلیمہ یعقوب مطلوبہ اہلیت کی حامل صدارتی انتخابات کی واحداُمیدواررہ گئیں۔جس پر13؍ستمبرکو اِلیکشن کمیشن نے حکمران جماعت پیپلز ایکشن پارٹی کی رہنما حلیمہ یعقوب کو صدارتی انتخابات میں بلامقابلہ فاتح قرار دے دیا اوراِس طرح اُنہیں سنگاپورکی آٹھویں،مگرپہلی باحجاب مسلم خاتون صدر بننے کا اعزازحاصل ہوچکاہے۔سنگاپور میں پچھلے پچاس سالوں میں پہلی مرتبہ کوئی مالائی نژاد ملک کی صدر بنی ہے ۔
یادرہے کہ سنگاپورکے منصبِ صدارت پر پہلے مسلمان مرد یوسف اسحاق 1965 براجمان ہوئے تھے۔جن کی تصویر ملک کے نوٹوں شائع ہوتی ہے ۔ میڈیامیں حلیمہ یعقوب کو سنگاپورکی پہلی منتخب مسلمان صدر لکھاجارہاہے جو کہ درست نہیں ہے۔پہلے مسلمان صدریوسف اسحاق ہی تھے۔جبکہ حلیمہ یعقوب ملک کی دوسری مسلمان صدرہیں،مگروہ اِس منصب پرپہلی مسلمان خاتون صدرہونے کا منفرداِعزازضروررکھتی ہیں۔صدر منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں حلیمہ یعقوب نے سنگاپورکے عوام کی حمایت ،نیک خواہشات کے اظہار اور حمایت کرنے کیلئے شکریہ اداکیا اور کہاکہ ’’وہ سنگاپور کے ہر آدمی کی صدر ہیں ،وہ محنت سے کام کریں گی اور ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیں گی ۔‘‘سنگاپورکے صدرکا عہدہ رسمی ہوتا ہے، کیونکہ آئین کے مطابق صدرکو زیادہ اختیارات حاصل نہیں ہوتے ۔اختیارات کی حقیقی قوت وزیراعظم کے پاس ہوتی ہے۔ سنگاپور میں عشروں سے ایک ہی جماعت پیپلزاَیکشن پارٹی کی حکومت ہے جوگزشتہ 51 برسوں سے بلا شرکتِ غیر ے پارلیمانی سطح پر واضح اکثریت کی حامل رہی ہے ۔جب کہ میڈیاپر حکومتی کنٹرول ہے اور محدودسیاسی آزادی میسرہے۔
مسلمان سنگاپورکی آبادی کا چودہ فی صد ہیں۔انہیں نومنتخب مسلمان صدرکے ساتھ زیادہ توقعات وابستہ نہیں ہیں ۔پیپلزاَیکشن پارٹی کے ذرائع کے مطابق حلیمہ یعقوب’’اسلامی انتہاپسندی‘‘ بالخصوص داعش کے خلاف مضبوط نظریات اورمؤقف رکھتی ہیں۔سنگاپورمیں مسلمان امتیازی سلوک کا شکارہیں۔ سنگاپورکے قانون کے تحت سکولوں میں مسلمان طالبات کے لیے سر پر سکارف باندھنا ممنوع ہے۔جبکہ سکھ طلباء کے لیے پگڑ ی کی اجازت ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں سنگاپور کے بانی رہنما آنجہانی لی کو آن یو نے یہ متنازع بیان دیاتھاکہ مسلمانوں کی پارسائی معاشرے میں اُن کے مکمل انضمام کی راہ میں حائل ہے ۔ مسٹر لی نے اپنی کتاب ’’ہارڈ ٹُرتھ ٹو کیپ سنگاپور گواِنگ‘‘میں لکھاہے کہ:’’اسلام کا اثر بڑھنے سے پہلے تک ہم بہت اچھی طرح ترقی کر رہے تھے ۔دیگر کمیونٹیز مسلمانوں کے مقابلے میں معاشرے میں بہت آسانی سے ضم ہو رہی ہیں۔آج اسلام کے علاوہ ہم تمام مذاہب اور نسلوں کو اپنے معاشرے کا حصہ بنا سکتے ہیں۔ سماجی لحاظ سے مسلمان کوئی مسئلہ توکھڑا نہیں کرتے، لیکن وہ بہت مختلف اور علیٰحدہ ہیں۔‘‘مسٹرلِی کے اِن ریمارکس پرسنگاپور میں ایسوسی ایشن آف مسلمز نے اپنے ایک بیان میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا کہ اس سے مسلم کمیونٹی کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔‘‘
1965میں آزادہونے والا، کراچی کے ایک ضلع کے برابررقبہ پرمشتمل سنگاپور،اَپنے بانی لی کو آن یو کی دُوررَس اصلاحات کے نتیجے میں صرف تیس سال میں دنیا کا نواں امیر ترین ملک بنا۔56 لاکھ آبادی پر مشتمل یہ جزیرہ جو کبھی کیچڑ کا دَریاکہلاتاتھا ،اب اُ س کاشماردُنیاکے مہنگے ترین شہرمیں ہوتاہے۔جس کی برآمدات 513اَرب ڈالرسالانہ اور فی کس آمدنی 90 ہزار ڈالرسالانہ ہے۔جبکہ ہمارے لٹیرے حکمرانوں کی بدولت ایٹمی قوت پاکستان کی سالانہ برآمدات صرف 23اَرب ڈالراورفی کس آمدنی 1512ڈالرسالانہ ہے۔حلیمہ یعقوب کے شوہرمحمد عبد اﷲ الحبشی یمنی نژادہیں اور اُن کے 5 بچے ہیں،یہ خاندان سنگاپور کے علاقے یشون میں آٹھ کمروں کے فلیٹ میں رہتا ہے ۔حلیمہ نے صدر بننے کے بعد صدارتی محل میں رہنے کی بجائے اِسی فلیٹ میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اُن کا یہ فیصلہ ہمارے حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم ہاؤس کا یومیہ خرچہ 2 لاکھ 30 ہزار روپے سے تجاوز کر چکا ہے ۔ اس طرح اوسطاًسالانہ 8 کروڑ 42 لاکھ روپے وزیراعظم ہاؤس پر خرچ ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دورمیں سرکاری خزانے سے اِسی وزیراعظم ہاؤس میں گھوڑوں کو مُربّے بھی کھلائے جاتے رہے ہیں۔ ایک چوکیدارکی بیٹی صدارت تک پہنچ کر اَپنی اوقات نہیں بھولتی ،لیکن ہمارے حکمران مسندِ اقتدارکواَپنا پیدائشی حق تصورکرتے ہیں اورخیال کرتے ہیں کہ رعایا اُن کی غلام ہے اوروہ اپنی زندگی کا خراج دے کر ،اُن کے لیے تعیشات فراہم کرتی رہے گی۔