عبداللطیف خالد چیمہ
محض اﷲ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ کم و بیش تین عشروں سے زائد عرصہ پہلے ہم نے 7ستمبر یومِ تحفظ ختم نبوت(یوم قراردادِ اقلیت) کو مجلس احرار اسلام اور تحریک تحفظ ختم نبوت کے نظم میں مخابرات اور چھوٹے موٹے اجلاس و تقریبات سے شروع کیا تھا آج چارو سو اس کا چرچہ ہے اور اس کی خوشبو متعدد یورپی ممالک تک بھی جا پہنچی ہے،مجلس احرار اسلام کے علاوہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، جمعیت علماء اسلام، انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ،جمعیت علماء پاکستان،جمعیت اہلحدیث اور کئی دیگر تنظیموں اور اداروں نے اس مرتبہ جس تزک و احتشام کے ساتھ 7ستمبر کے یاد گار اور تاریخی دن کی مناسبت سے اجتماعات منعقد کئے اور 8 ستمبر کو جمعۃالمبارک کے خطبات میں تحریک ختم نبوت کا تذکرہ کیا، قبل ازیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ حتیٰ کہ پیپلز پارٹی نے گھکھڑ منڈی میں یوم ختم نبوت کا بھر پور انعقاد کیا ،جس میں پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر الزماں کائرہ ،پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی اور دیگر کئی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت وخطاب کیا ،راقم الحروف نے7ستمبرصبح8بجے دفتر احرار چیچہ وطنی ،12 بجے دوپہر جامع مسجد صدیقیہ کمالیہ ،بعد نماز عصر جامع مسجد معاویہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پھر بعد نمازِ عشاء جا معہ عثمانیہ ختم نبوت مسلم کالونی چناب نگر،8ستمبر کومرکزاحرار جامع مسجد مدنی چنیوٹ ،19 ستمبر کو جامع رشیدیہ نمبر 2 ساہیوال ،21 ستمبر کو سالانہ ختم نبوت کانفرنس مرکزی دفتر احرار لاہورمیں جو معروضات پیش کیں ان کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔۔۔!
عقیدۂ ختم نبوت پر قرآن کریم کی ایک سو آیات ،تقریباً دو سو احادیث گواہی دیتی ہیں یہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے ،انکار ختم نبوت کے فتنے کا آغاز جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ہو گیا تھا،نوجوان صحابی سیدناحبیب ابن زید انصاری رضی اﷲ عنہ تحریک ختم نبوت کے پہلے شہیدہیں جن کو مسیلمہ کذاب کے کارندوں نے پکڑلیا اور کہا کہ محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کا انکار کر کے مسیلمہ کی نبوت کا اقرار کر لو! انہوں نے نفرت کے اظہار کے لئے فرمایا۔۔۔!’’میرے کان تمہاری آواز سننے سے عاجز ہیں‘‘اُن کو گرفتار کر کے مسیلمہ کے پاس لے جایا گیا اور سمجھایا کہ مسیلمہ پر ایمان لے آؤ! وہ نہ مانے تو ان کا ایک بازو ،دوسرا بازو اور دونوں ٹانگیں کاٹ دی گئیں مگر وہ یہی فرماتے رہے کہ ’’میرے کان تمھاری آواز سننے سے عاجز ہیں‘‘۔آج کا کفر بھی امریکہ کی قیادت میں دنیا کے مسلمانوں سے یہی مطالبہ کر رہا ہے جبکہ دنیا بھر میں صرف مذہبی طبقات اور دینی قوتیں ڈٹی ہوئی ہیں اور سرنڈر ہونے کے لئے تیار نہیں ۔۔۔۔۔۔!
1974ء کی تحریک ختم نبوت کی کامیابی کے پیچھے جنگ یمامہ اور تحریک ختم نبوت 1953 کے شھداء کا مقدس خون پنہاں ہے۔ہمارے اکابر نے 1974ء کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ہمہ پہلو اورہمہ جہت کس طرح محنت کی اس کے لئے دو واقعات کا حوالہ دینا چا ہوں گا:
جمعیت علماء اسلام کے بانی رہنماء مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمتہ اﷲ علیہ کے داماد اور جامعہ مُعارف الاسلامیہ اسلام آباد کے مدیر ڈاکٹر محمد ادریس مفتی کی روایت کے مطابق:۔’’مولانا غلام غوث ہزاروی ) مرحوم ( نے فرمایا جب قومی اسمبلی میں قادیانیوں کے بارے میں بحث ہو رہی تھی اور انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لئے ایوان اور ایوان سے باہر مطالبات زوروں پر تھے اسی دوران چند قادیانی خواتین بیگم نصرت بھٹو سے ملنے آئیں اور سفارشات کا انبار لگا دیا۔ بھٹو صاحب کو روکیں کہ مولویوں کی بات سن کر ہمیں غیر مسلم اقلیت قرار نہ دیں ۔ہم کلمہ پڑھتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، ملک کے لیے ہماری خدمات واضح ہیں، دیکھیں پرائم منسٹر صاحب سے سفارش کریں کہ وہ علماء کی باتوں میں نہ آئیں،یہ اقدام ان کے لیے اچھا ہے نہ ملک و قوم کے لیے۔ بیگم نصرت بھٹو نے انکی یہ گفتگو سنی اور پھر وزیر اعظم صاحب سے الجھ پڑیں کہ یہ آپ کیا کرتے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہے ۔ بس ایسام کام نہ کریں کہ کل کو دنیا میں رسوائی اور جگ ہنسائی کا باعث بنے ۔میں یہ کام ہرگز آپ کونہیں کرنے دوں گی۔ یہ تو ان لوگوں پر بڑا ظلم ہو گا ۔حتیٰ کہ رات بھر دونوں میاں بیوی کی یہ تکرار ہوئی ۔صبح کو ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے حضرت مولانا ہزاروی کو فون کیا اور کہاکہ آپ سے ایک ضروری کام ہے جلد تشریف لائیں۔مولانا مرحوم نے مدرسہ فرقانیہ کوہاٹی بازار راولپنڈی میں علماء کا اجلاس بلایا ہواتھا ۔آپ نے فرمایا کہ بھٹو صاحب میں مصروف ہوں علماء کرام آئے ہیں ۔یہاں ایک ضروری میٹنگ ہو رہی ہے ۔اس لیے میں آنے سے معذرت خواہ ہوں ۔بھٹو مرحوم نے کہاکہ مولانا صاحب یہاں اس سے بھی (Important Meeting) ہے ۔آپ جلد تشریف لائیں۔ میں انتظار کررہاہوں ۔اس پر مولانا ہزاروی بھٹو مرحوم کے ہاں پرائم منسٹر ہاؤس پہنچے ۔دیکھا تو بھٹو صاحب انتظار میں تھے ۔ملاقات ہوئی تو کہنے لگے: مولانا صاحب ! کل بیگم صاحبہ کے پاس قادیانی عورتیں آئیں تھیں۔ انہوں نے آکر اسے بڑا ورغلایا ہے کہ دیکھیں بھٹو صاحب ہمیں مولویوں کے کہنے پر غیر مسلم اقلیت قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ ہم مسلمان ہیں۔ کلمہ پڑھتے ہیں ۔نماز پڑھتے ہیں۔روزہ رکھتے ہیں اور ملک و قوم کے لیے ہماری خدمات سب کو معلوم ہیں،اس لیے بھٹو صاحب کو روکیں کہ وہ مولویوں کے جھانسے میں نہ آئیں۔ورنہ ان کی خیر نہیں ہوگی۔اب یہ رات بھر سے میرے پیچھے پڑی ہوئی ہے ۔ نہ خود سوئی ہے نہ مجھے سونے دیا ۔اس لیے میں نے آپ کو زحمت دی ہے کہ آ پ بیگم صاحبہ کو ختم ِنبوت اور قادیانیت کے حوالے سے کچھ بتائیں ۔کیونکہ میں آپ کو نیک دل اور خدا پرست عالم سمجھتا ہوں ۔کوئی لالچ یا بغض آپ کے دل میں نہیں ہوتا۔اس لیے آپ بیگم صاحبہ کو اس مسئلہ کی حقیقت سمجھائیں۔مولانا غلام غوث ہزاروی نے کہاکہ میں جناب بھٹو اور بیگم بھٹو صاحبہ تینوں اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے ۔تو میں نے عقیدۂ ختم ِنبوت ،قرآن حکیم ،حدیث ،اجماع اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے ارشادات کی روشنی میں پوری طرح واضح کیا اور مرزا قادیانی کی تاریخ ،اس کے دعاوی باطلہ ،اس کی اسلام دشمنی ،انگریز سے وفاداری کی تاریخ ،اس کا مکرو فریب ،سب کچھ بتایا ۔مولانا نے فرمایا کہ میری بعض باتیں بھٹو بیگم صاحبہ کو سمجھاتے رہے ۔جب ساری گفتگو ختم ہو چکی تو بیگم بھٹو نے کہاکہ یہ تو بہت گندے ہیں۔مجھے تو ان کے بارے میں علم نہیں تھا ۔مگر مولانا دیکھیں اسلام میں پردے کا کیا حکم ہے اور میں پردہ سے نہیں ہوں تو کیا میں بھی کافر ہوں ؟ اس پر مولانا نے فرمایا ! محترمہ جب تک آپ اسلام کے بنیادی عقائد کا انکار نہ کریں یا پھر ان کا مذاق نہ اُڑائیں تو صرف گناہ کرنے سے کوئی کافر نہیں ہوتا ۔گناہ سے انسان صرف گناہ گار ہوتاہے ۔اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ ۔اگر آپ پر دے کا انکار کریں کہ میں اس کو نہیں مانتی یا اس حکم کا مذاق اڑائیں ۔تو تب آپ کافر ہو جائیں گی۔بہر حال کفر اور ایمان کا مسئلہ جدا ہے اور فِسق و فجور گناہ کا معاملہ علیحدہ ہے ۔بیگم بھٹو نے کہامولانا توبہ ،آخر مرنا ہے ۔میں اپنے آپ کو گناہ گار سمجھتی ہوں ۔اﷲ معاف کرے ۔اس کے بعد بیگم بھٹو نے بھٹو مرحوم سے اسی نشست میں کہاکہ بھٹو صاحب مجھے قادیانیوں کے بارے میں اب پتہ چلا ہے کہ ان کی اصلیت کیا ہے۔اس لیے اس مسئلے کو لٹکائے بغیر فی الفور حل کریں اور فتنے کا جلد تدارک کریں۔ اس پر وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹونے مولانا ہزاروی کا بہت شکریہ ادا کیا اور یوں یہ نشست اپنے اختتام کو پہنچی ۔‘‘
دوسرے واقعے کے راوی کہنہ مشق صحافی جناب جلیس سلاسل ہیں جنہوں نے 1975 ء میں ’’ جنگ ‘‘گروپ میں محمود شام کی زیر صدارت شائع ہونے والے ہفت روزہ ’’ اخبار جہاں‘‘ کراچی کے لئے آغا شورش کاشمیری مرحوم سے انٹر ویو لیا جو ٹائٹل سٹوری کے طور پر شائع ہوا، یہ انٹرویو شورش مرحوم کی زندگی کا آخری انٹر ویو تھا، اس انٹر ویو کا ایک اہم اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’انہی دنوں آغا شورش کاشمیری نے وزیر اعظم بھٹو سے طویل ملاقات کی تو ایسی اثر انگیز انداز میں تقریر کی کہ بھٹو کو کہنا پڑا کہ ’’ شورش کاشمیری نے میرا دو ٹوک جواب سننے کے باوجود قادیانیوں کے مذہبی معتقدات میرے سامنے اس طرح رکھے جن کے مطابق امت کا ہر فرد حتیٰ کہ خود میں اور میرے ماں باپ بھی کافر نظر آنے لگے تھے ‘‘۔
مجھے قادیانیوں کی کتابیں دیکھ کر بڑا غصہ آیا۔۔۔کم ازکم میں تو یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ قادیانی امام حسن، امام حسین، حضرت علی ) رضی اﷲ عنہم ( اور میرے ماں باپ کو کافر سمجھیں ۔لیکن جب میں نے اپنے غصہ پر قابو پاکر شورش کا شمیری سے کہایہ تو درست ہے کہ قادیانی امت کے ہر چھوٹے بڑے رکن کو کافر سمجھتے ہیں لیکن ان کے عقائد کے بارے میں کیا کر سکتا ہوں یہ توعلماء کرام کاکام ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی تبلیغ کے ذریعہ ان عقائد سے تائب کریں اور جو وقت وہ تحریکیں چلانے میں صرف کرتے ہیں قادیانیوں کے خلاف تبلیغ میں صرف کریں۔ حکومت ان کی ہر طرح مدد کرنے کو تیار ہے ۔شورش کاشمیری نے میرے اس جواب کے بعد مجھ پر قادیانیوں کی جماعت کی سیاسی حیثیت واضح کی اور 4 گھنٹہ کی گفتگو میں انہوں نے ثابت کیا کہ قادیانی پاکستان کے ازلی دشمن ہیں ۔وہ پاکستان میں بیٹھ کر اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان کی پیشین گوئیاں اور الہامات پاکستان کے خلاف ہیں ۔وہ ربوہ میں اپنے مردے امانت کے طور پر دفن کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک متوازی حکومت قائم کررکھی ہے ۔ جس کی فوج، اپنی پولیس، اپنا سیکرٹریٹ اور اپنی ہی وزارت خارجہ و داخلہ ہے ۔شورش کاشمیری نے جو کچھ کہا اس پر باحوالہ دلائل دیے سب سے آخرمیں اس نے بھی مفتی محمود کی طرح ایک جذباتی مطالبہ کیا۔اس کے مطالبے کو قبول کرنے کے لیے میرے سامنے دالائل کا انبار تھااور میں نے دل ہی دل میں یہ مسئلہ حل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ لیکن اس موقع پر شورش نے ایسی حرکت کی جس سے میں لرز گیا۔ مولوی تاج محمود جو ان کے ہمراہ تھے وہ بھی بڑے حیران ہوئے ۔ شورش نے گفتگو کرتے ہوئے یکایک اٹھ کر بڑے جذباتی انداز میں میرے پاؤں پکڑ لیے ۔میں نے شورش کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہوئے اٹھا کر گلے سے لگالیا۔ مگر شورش ہاتھ ملا کر پیچھے ہٹ گیا۔ بھٹو صاحب ہمارے پاس کون سی عظمت ہے ایک سو سال سے ہم اپنے آقا و مولیٰ کی عزت و عظمت بحال نہیں کراسکے ۔ہم سے زیادہ ذلیل قوم کسی ملک نے آج تک پیدا نہیں کی ہو گی، ہم ا س وقت عزت و عظمت کا تاج سر پر رکھ سکتے ہیں جب قادیانیوں سے محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کا تاج چھین کر سرورِ کونین صلی اﷲ علیہ وسلم کو راضی کر لیں ۔ پھر شورش نے روتے ہوئے میرے سامنے اپنی جھولی پھیلا کر کہا۔ میں آپ سے اپنے اور آپ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم ِ المرسلین کی بھیک مانگتا ہوں ۔آپ میری زندگی کی تمام نیکیاں اور خدمات لے لیں ۔میں اﷲ کے حضور خالی ہاتھ چلا جاؤں گا ۔ مگر اﷲ کے لیے اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کی حفاظت کر دیجئے۔ یہ میری جھولی نہیں، فاطمہ بنت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی جھولی ہے جس کی جھولی پر قادیانی حملہ آور ہیں‘‘۔اب اس سے زیادہ مجھے سننے کی تاب نہ تھی ۔ میرے بدن میں ایک جھرجھری سی آئی، میں بھی آخر مسلمان تھا اور اسی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتا تھا ۔اس موقع پر شورش نے بات چیت کا رخ جذبات کی طرف موڑ دیا تھا اور میں اپنے مسلمان ہونے کی حیثیت کے سوا سب کچھ بھول گیا تھا ،میں نے شورش سے وعدہ کرلیا تھا ۔میں قادیانی مسئلہ ضرور بالضرور حل کروں گا۔ شورش مجھ سے وعدہ لے کر چلا گیا اور میں سوچتا رہا کہ شاید اس شخص نے مجھ پر جادو کیاہے۔لیکن مجھ جیسے شخص کو قائل کرنے کے لیے ایک جذباتی ماحول پیدا کرنا صرف شورش کاکام تھا ۔میں اس شخص کی بہت قدر کرتا ہوں ‘‘۔ اِس مرتبہ ) 7 ۔ستمبر ( یوم ِ ختم ِنبوت کے اجتماعات و تقریبات اخبارات نے جس اہتمام سے خصوصی ایڈیشنز اور مضامین کا اہتمام کیا، اِس سے لگتا ہے کہ ان شاء اﷲ تعالیٰ 7؍ ستمبر دینی حوالے کے ساتھ ساتھ قومی دن کے طور پر منایا جانے لگے گا ،آنے والے دنوں میں ہمیں اس پر مزید محنت کے لیے اپنے آپ کو تیار کرلینا چاہیے ،تعلیم و تربیت ، میڈیا اور لابنگ جیسے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر آگے بڑ ھنا چاہیے، اﷲ تعالیٰ قبولیت سے نوازیں، آمین، یا رب العالمین۔
الجزائر میں قادیانی جماعت کے سربراہ کو توہین اسلام کے الزام کے جرم میں سزا :
قادیانی گروہ کو 7 ۔ ستمبر 1974ء میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیاتو دنیا بھر میں انہیں کو ربوہ برانڈ ارتداد کو اسلام کے نام پر پھیلانے میں دشواری پیش آنے لگی ،گو کہ’’ احمدی اسلام‘‘ کے نام پر وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ،اور آئین وقانون کو ماننے سے انکاری ہیں اور دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف مسلسل لابنگ اور شرانگیزی میں مصروف ہیں ۔امریکہ ،انڈیا اور اسرائیل ان کی پشت پر ہیں ،آزاد بلوچستان اور علیحدگی کی تحریکوں کے پس منظر میں طارق فتح نامی مشہور قادیانی اپنی لابی کے ساتھ پوری طرح سرگرم عمل ہے ،اس سب کچھ کے باوجود قادیانیت پوری دنیا میں بے نقاب ہورہی ہے ،درج ذیل خبر پیش خدمت ہے:
الجیریا(خبر ایجنسیاں) شمالی افریقہ کی عرب مسلم ریاست الجزا ئر کی ایک عدالت نے ملک میں قادیانی جماعت کے سربراہ کو توہین اسلام کے جرم میں 6 ماہ کی سزائے قید سنا دی ہے ۔الجزائر میں احمدیہ برادری کے ارکان کی تعداد قریب 2 ہزار ہے ،میڈیا رپورٹس کے مطابق اس عرب ریاست میں قادیانی جماعت کے سربراہ کا نام محمد فالی ہے ،اس کے وکیل صلاح دبوز نے تصدیق کردی کہ محمد فالی کو ایک ملکی عدالت نے غیر قانونی طور پر مالی وسائل جمع کرنے اور ایک مذہب کے طور پر اسلام اور پیغمبر اسلام کی توہین کرنے کے جرم میں مجرم قرار دیتے ہوئے 6 ماہ کی سزائے قید سنا دی ہے ۔الجزائر میں قادیانیوں کے خلاف کریک ڈاؤن پچھلے سال سے جاری ہے ۔جس مقدمے میں محمد فالی کو سزا سنائی گئی ،اس کی سماعت الجزائر کے ایک مغربی ساحلی شہر مستغانم میں ہوئی ،اس مقدمے سے پہلے محمد فالی نے اپنے خلاف اسی نوعیت کے الزامات کے بعد سنائے جانے والے ایک دوسرے مقدمے پر اعتراض کیا تھا ،پہلی بار اس طرح کے مقدمے میں فالی کو تین ماہ کی معطل سزا سنائی گئی تھی اور فالی اس دوران عدالت میں پیش بھی نہیں ہوئے تھے ۔(روزنامہ اسلام ملتان،15 ستمبر 2017ء ،صفحہ اوّل)
شراب خانہ خراب:
شراب خانہ خراب اُم الخبائث ہے، حرام تو ہے ہی حکومت پاکستان کے قانون میں بھی آخری اطلاعات کے آنے تک ممنوع ہی ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ اشرافیہ کا مشروب ہے ،کون ہے جو بلند وبالا عمارتوں میں اس کاداخلہ روک سکے ،لیکن حد ہوگئی ہے کہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد جیسے بڑے تعلیمی ادارے میں جہاں علم کو انتہائی مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے اس کا داخلہ مفت ہونے کاانکشاف بھی سامنے آیا ہے ،خبر ملاحظہ فرمائیے :
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک ) قائد اعظم یونیورسٹی میں طلباء کو مفت شراب فراہم کی جاتی ہے ،یونیورسٹی کے پروفیسر نے تہلکہ خیز انکشاف کردیا ،وائس چانسلر نے بھی منشیات فروشوں کے سامنے ہاتھ کھڑے کردئیے ،پاکستان کی نمبر ون قائد اعظم یونیورسٹی کے طلباء مفت میں شراب پینے لگے ،یونیورسٹی کے اندر مفت شراب ملتی ہے ،یونیورسٹی کے ڈاکٹر وقار شاہ نے تہلکہ خیز انکشاف کردیا ،وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی ڈاکٹر جاوید اشرف نے جامعہ میں منشیات کا استعمال نہ روکنے کی وجہ بھی بتادی ،انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کی دیواریں نہیں ہیں ،جس کی وجہ سے منشیات فروشوں کو روکنا ممکن نہیں ہے ۔ڈا کٹر جاوید اشرف نے کہا کہ جامعہ کراچی کے واقعہ کے بعد انتظامیہ نے طلباء پر نظر رکھی ہوئی ہے ،اور ہوسٹلز میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر طلباء کو نکال دیا گیا ہے ‘‘۔ (روزنامہ اسلام ملتان،15 ستمبر 2017 ء، صفحہ اوّل )
پورے ملک میں کوئی ہے جس نے اس خبر کا نوٹس لیا ہے ۔
تہذیب نو کے منہ پر وہ تھپڑ رسید کر
?جو اس حرام زادی کا حلیہ بگاڑ دے