مکتوب نمبر:۴
ڈاکٹر محمدآصف
عزیز احمدی دوستو!
احمدی دوستوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ جو شخص کلمہ گو ہو، اور اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کر رہا ہو، کسی بھی شخص کو اسے کافر قرار دینے کا حق نہیں پہنچتا۔
اس سلسلہ میں بعض ان احادیث سے استدلال کی کوشش کی جاتی ہے جن میں حضور خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمان کی علامتیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’جو ہماری طرح نماز پڑھے، ہمارے قبلے کی طرف رخ کرے اور ہمار ذبح کیا ہوا جانور کھائے وہ مسلمان ہے۔‘‘
لیکن جس شخص کو بات سمجھنے کا سلیقہ ہو وہ حدیث کے اسلوب و انداز سے یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہاں کوئی قانونی اور جامع و مانع تعریف نہیں کی جا رہی بلکہ مسلمانوں کی وہ معاشرتی علامتیں بیان کی جا رہی ہیں جن کے ذریعے مسلم معاشرہ دوسرے مذاہب اور معاشروں سے ممتاز ہوتا ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ جس شخص کی ظاہری علامتیں اس کے مسلمان ہونے کی گواہی دیتی ہوں اس پر خواہ مخواہ بدگمانی کرنا یا بلاوجہ اس کی عیب جوئی کرنا درست نہیں۔ درحقیقت اس حدیث میں مسلمان کی تعریف نہیں بلکہ اس کی ظاہری علامتیں بیان کی گئی ہیں۔ مسلمان کی تعریف درحقیقت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں بیان کی گئی ہے:
اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حتیٰ یَشْھَدُوْاَنْ لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ وَیْؤمِنُوْابِی وَبِمَا جِئتُ بِہٖ؟ (صحیح مسلم، جلد نمبر 1)
ترجمہ: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جہاد کروں یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور مجھ پر ایمان لائیں اور ہر اس بات پر جو میں لے کر آیا ہوں۔
اس حدیث میں مسلمان کی پوری حقیقت بیان کر دی گئی ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہر تعلیم کو ماننا اشہدان محمد رسول اللّٰہ کا لازمی جزو ہے اور آپ کا یہ ارشاد قرآن کریم کی اس آیت سے ماخوذ ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
ترجمہ: بس تیرے رب کی قسم ہے کہ جب تک وہ (ہر) اس بات میں جس کے متعلق ان میں جھگڑا ہو جائے تجھے حَکَمْ نہ بنائیں (اور) پھر جو فیصلہ تو کرے اس سے اپنے نفوس میں کسی قسم کی تنگی نہ پائیں اور پورے طور پر فرمانبردار (نہ) ہو جائیں ہرگز ایمان دار نہ ہوں گے۔ (النسآء آیت نمبر 66 ترجمہ تفسیر صغیر)
یہ ہے کلمہ گو کی حقیقت اور اس کے برخلاف محض کلمہ پڑھ لینے کے بعد ہمیشہ کے لیے کفر سے محفوظ ہو جانے کا تصور اسلامی نہیں ہے بلکہ یہ تو دشمنان اسلام کا ہے کہ اسلام اور کفر کی درمیانی حدِ فاصل کو مٹا کر اسے ایسا معجون مرکب بنا دیا جائے جس میں اپنے سیاسی اور مذہبی مفادات کے مطابق ہر بُرے سے بُرے عقیدے کی ملاوٹ کی جاسکے۔
جو لوگ ہر کلمہ گو کو مسلمان کہنے پر اصرار کرتے ہیں، کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کلمہ (معاذ اﷲ) کوئی منتر یا ٹونا ٹوٹکا ہے جسے ایک مرتبہ پڑھ لینے کے بعد انسان ہمیشہ کے لیے ’’کفر پروف‘‘ ہو جاتا ہے اور اس کے بعد بُرے سے بُرا عقیدہ بھی اسے اسلام سے خارج نہیں کرسکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ کلمہ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ایک معاہدہ اور اقرار نامہ ہے اور اس میں اﷲ تعالیٰ کو ایک معبود قرار دینے اور حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ کا رسول ماننے کا مطلب یہ معاہدہ کرنا ہے کہ میں اﷲ اور اس کے رسول کی ہر بات کی تصدیق کروں گا۔ لہٰذا اﷲ اور اس کے رسول کی بتائی ہوئی جتنی باتیں ہم تک تواتر اور مستند ذرائع کے ساتھ پہنچی ہیں ان سب کو درست تسلیم کرنا لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ پر ایمان کا لازمی جز اور اس کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اگر کوئی شخص مستند ذرائع سے متواتر پہنچنے والی کسی ایک چیز کو درست ماننے سے انکار کر دے تو درحقیقت وہ کلمۂ توحید پر ایمان نہیں رکھتا، خواہ زبان سے لا الہ الا اللّٰہ پڑھتا ہو اس لیے اس کو مسلمان نہیں کہا جاسکتا۔ مرزا صاحب خود بھی ایک جگہ لکھتے ہیں۔
’’کسی اجماعی عقیدہ سے انکار و انحراف موجب لعنت کلی ہے۔‘‘ (روحانی خزائن جلد 11 ص 144)
میرے محترم آپ اپنے جماعتی نظام کو دیکھ لیں، کیا جماعت احمدیہ میں کسی احمدی کا صرف کسی ایک جماعتی فیصلہ کو نہ ماننے کی وجہ سے اخراج نہیں کردیا جاتا جبکہ 99باتیں اس میں جماعت کی کتاب والی پائی جاتی ہوں۔
والسلام علیٰ من التبع الھدیٰ
آپ کا ایک خیر خواہ
ڈاکٹر محمد آصف