(قسط:۱۷)
حافظ عبیداﷲ
تمنائی تلبیس
تمنا عمادی صاحب نے اس روایت کے ایک راوی مؤثر بن عفازۃ کے بارے میں یوں مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے: ۔
’’جبلہ بن سحیم اور موثر بن عفازہ یہ دونوں کوفی تھے اور انہیں دونوں سے یہ حدیث چلتی ہے، موثر کا سال وفات ہماری کتابوں میں مذکور نہیں۔ شیعوں کی کتاب رجال الرجال الکبیر میں ان کا نام ہے اور سال وفات 122 ھ ہے اور جبلہ کا سال وفات تہذیب التہذیب میں 125ھ لکھا ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی وفات 32 ھ یا 33ھ میں ہے یعنی موثر کی وفات سے تقریباً نوے برس پہلے۔ معلوم نہیں کس عمر میں موثر بن عفازہ نے یہ حدیث حضرت عبداﷲ بن مسعود سے سنی تھی۔ غالباً انہیں وجوہ کی بنا پر صحاح کے دوسرے جامعین نے اس حدیث کو اپنی کتاب میں داخل نہیں کیا‘‘۔
(انتظارِ مہدی ومسیح، صفحہ 281)
عمادی صاحب کو جب موثر بن عفازہ پر کسی قسم کی کوئی جرح نہ ملی تو انہوں نے پہلے ان کے اور جبلہ بن سحیم دونوں کے کوفی ہونے کی طرف اشارہ کرکے نہ جانے کیا بتانے کی کوشش کی، کیونکہ جب حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کوفہ میں تھے تو ظاہر ہے کوفہ والوں نے اُن سے حدیث نہیں سماعت کرنی تھی تو کس نے سننی تھی؟ پھر عمادی صاحب شیعہ کی کسی کتاب کے حوالے سے موثر بن عفازہ کا سن وفات 122ہجری بتاتے ہیں (واضح رہے کہ ہم نے بہت سی شیعہ اسماء الرجال کی کتب میں تلاش کیا لیکن ہمیں ان کا تذکرہ کہیں نہیں ملا، معروف شیعہ ابوالقاسم خوئی نے معجم رجال الحدیث کے نام سے ایک ضخیم کتاب ترتیب دی ہے اس میں بھی موثر بن عفازہ کا تذکرہ نہیں ملا) یوں تو عمادی صاحب ایسی ہر روایت اور ایسے ہر راوی کا نام بھی سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے جن کے بارے میں ہلکا سا اشارہ بھی مل جائے کہ ان میں ’’تشیع‘‘ تھا ، لیکن یہاں شیعہ کتاب کے حوالے سے موثر بن عفازہ کا سن وفات 122ھ فرض کرکے شک پیدا کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ اور موثر بن عفازہ کی وفات کے درمیان تقریباً نوے برس کا فاصلہ ہے ، لیکن امام احمد بن عبداﷲ العِجلی (182 ھ – 261ھ) نے موثر بن عفازہ کے بارے میں جو صراحت کی کہ ’’یہ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کے اصحاب میں سے ہیں اور ثقہ ہیں‘‘ (حوالہ پہلے گزرا) عمادی صاحب کو اس پر یقین نہ آیا، نیز ابن حِبان، ذہبی اور حافظ ابن حجر کو اس بات میں شک نہ ہوا کہ موثر بن عفازہ نے حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے احادیث سنی ہیں یا نہیں ۔
اس کے بعد تمنا عمادی صاحب نے اپنی کتاب میں مندرجہ بالا روایت کا سنن ابن ماجہ کے حوالے سے تذکرہ کیا ہے جو امام ابن ماجہؒ نے محمد بن بشارالبُندار کے واسطے سے نقل کی ہے (جب کہ ہم نے مسند احمد کے حوالے سے جو حدیث پیش کی ہے اس کی سند میں محمد بن بشار نہیں) ،پھر عمادی صاحب نے محمد بن بشار کے بارے میں جمہور ائمہ جرح وتعدیل کے تعریفی وتوثیقی اقوال کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے فن تلبیس کا یوں مظاہرہ کیا ہے:۔
’’تہذیب التہذیب میں ابن حجر لکھتے ہیں کہ عمرو بن علی الباہلی (جو بخاری ومسلم کے متفق علیہ شیخ ہیں) قسم کھاکر کہتے تھے کہ بندار (یہ محمد بن بشار کا لقب تھا)کاذب ہیں، ان حدیثوں میں جن کو وہ یحییٰ سے روایت کرتے ہیں۔ تو جب ایک شیخ کی حدیث میں ان کا کذب ثابت ہوچکا تو دوسرے شیوخ کی حدیثیوں کے متعلق ان کا کیا اعتبار رہا؟ پھر علی بن المدینی نے بھی ان کی ایک حدیث کو جسے یہ عبدالرحمن بن مہدی سے روایت کرتے تھے سن کر کہا کہ ہذا کذب اور نہایت سختی کے ساتھ اس روایت سے انکار کیا۔ اور یحییٰ بن معین اور قواریری بھی ان کو ضعیف قرار دیتے تھے اور انہیں قابل اعتنا نہیں سمجھتے تھے‘‘۔ (انتظارِ مہدی ومسیح، صفحہ 281)
ہم محمد بن بشار البُندار کا تعارف کرانے سے قبل ایک وضاحت کردینا چاہتے ہیں کہ جیسے عمادی صاحب نے عمرو بن علی الباہلی کے نام کے ساتھ یہ لکھنا ضروری خیال کیا کہ ’’یہ بخاری ومسلم کے متفق علیہ شیخ ہیں‘‘ ہم بھی محمد بن بشار البُندار کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ نہ صرف بخاری ومسلم بلکہ ترمذی، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ کے بھی متفق علیہ شیخ ہیں‘‘۔
اب آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں محمد بن بشار کے بارے میں علماء جرح وتعدیل کے اُن اقوال پر جو عمادی صاحب نے حسبِ عادت عمداً ذکر نہیں کیے، اس کے بعد ہم ائمہ جرح وتعدیل کا فیصلہ اُس جرح کے بارے میں ذکر کریں گے جو عمادی صاحب نے ذکر کی ہے ۔
محمد بن بشّار بن عُثمان بن داؤدبن کیسان العبدي البصري البُندار
امام ذہبی نے ان کا تعارف یوں کرایا ہے : ’’الاِمام الحافظ ، راویۃ الاِسلام‘‘ (امام، حدیث کے حافظ اور اسلام کے راوی)۔ ابن خزیمہ کہتے ہیں کہ مجھ سے بُندار (محمد بن بشار) نے بیان کیا کہ ’’میرا بیس سال سے زیادہ عرصہ یحییٰ بن سعید القطّان کے پاس آنا جانا رہا(یعنی اُن سے احادیث سنتا رہا) اور اگر یحییٰ القطّان مزید زندہ رہتے تو میں اُن سے اور بھی بہت کچھ سُن لیتا۔ امام ابوداؤد کہتے ہیں : ’’میں نے بُندار سے پچاس ہزار کے قریب احادیث لکھی ہیں…… اگر اُن میں سلامتی نہ ہوتی (یعنی ان کی حدیث قابل اعتبار نہ ہوتی) تو اُن کی حدیث ترک کردی جاتی‘‘۔ برقانی نے امام ابن خُزیمہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ آپ نے محمد بن بشار سے حدیث روایت کرتے ہوئے یوں فرمایا: ’’حدّثنا الاِمام محمد بن بشار‘‘ (ہم سے بیان کیا امام محمد بن بشار نے)۔اور کبھی ابن خزیمہ یوں فرماتے : ’’حدّثنا امام أہل زمانہ محمد بن بشار‘‘ (ہم سے اپنے زمانے کے امام محمد بن بشار نے بیان کیا)۔ محمد بن سیّار نے محمد بن بشار کو ’’ثقہ‘‘ کہا۔ امام عِجلی نے ان کے بارے میں کہا: ’’بصري ثقۃ کثیر الحدیث‘‘ (ثقہ بصری ہیں اور بہت زیادہ حدیثوں والے ہیں)۔ ابوحاتم نے انہیں ’’صدوق‘‘ (سچا) کہا۔ امام نسائی نے کہا : ’’صالح لا بأس بہ‘‘ (وہ درست ہیں، ان کی حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں)۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں کہا: ’’محمد بن بشار نے مجھے لکھا‘‘ (یعنی محمد بن بشار نے حدیث لکھ کر مجھے بھیجی) اور پھر امام بخاری نے مع سند وہ حدیث نقل کی ہے، تو اگر امام بخاری کو محمد بن بشّار پر اعتماد نہ ہوتا تو آپ اُن کی طرف سے لکھ کر بھیجی جانے والی حدیث کبھی بیان نہ کرتے۔ امام دار قطنی نے محمد بن بشار کے بارے میں کہا کہ وہ ’’مضبوط حفاظ حدیث‘‘ میں سے ہیں۔ابن حِبان نے انہیں ’’ثقہ‘‘ لوگوں میں شمار کیا ہے۔ امام ذہبی نے ’’الکاشف‘‘ میں لکھا ہے کہ : ’’بہت سے لوگوں نے ان کی توثیق کی ہے‘‘۔ حافظ ابن حجر نے ’’تقریب التہذیب‘‘ میں انہیں ’’ثقہ‘‘ لکھاہے۔ اور ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ امام بخاری نے محمد بن بشار سے 205 احادیث اور امام مسلم نے 460 احادیث روایت کی ہیں۔
(تہذیب التہذیب، ج9 ص70 /معرفۃ الثقات للعجلي، ج1 ص 49 /ثقات ابن حِبان، ج9 ص111 /التاریخ الکبیر، ج1 ص49 / تہذیب الکمال، ج24 ص511 /تقریب التہذیب، ص469 / الجرح والتعدیل، ج7 ص214 /الکاشف، ج2 ص159 /تاریخ الاسلام، ج6 ص165 /تذکرۃ الحفاظ، ج2 ص72 /سیر أعلام النبلاء، ج12 ص144 )۔
قارئین محترم! علمی امانت کا تقاضا تھا کہ عمادی صاحب اگر محمد بن بشار کا تعارف کرانا چاہتے تھے تو مندرجہ بالا اقوال بھی ذکر کرتے ، لیکن انہوں نے صرف یہ نقل کیا کہ عمرو بن علی الفلاس الباہلی نے قسم کھاکر کہا کہ بُندار (یہ محمد بن بشار کا لقب ہے) اُن حدیثوں میں کاذب ہیں جو وہ یحییٰ سے روایت کرتے ہیں۔ پھر عمادی صاحب نے یہ بیان کیا ہے کہ علی بن المدینی کے سامنے ایک حدیث بیان کی گئی (وہ حدیث یہ تھی کہ نبی کریم e نے فرمایا: تسحروا فان في السحور برکۃ۔ سحری کیا کرو، بے شک سحری کرنے میں برکت ہے) تو علی بن المدینی نے کہا : یہ جھوٹ ہے اور انہوں نے نہایت سختی سے اس کا انکار کیا۔ نیز عمادی صاحب نے یحییٰ بن معین اور قواریری کے بارے میں نقل کیا کہ وہ محمد بشار کو ضعیف سمجھتے تھے۔
افسوس عمادی صاحب نے عمرو بن علی الفلاس وغیرہ کی جرح تو ذکر کردی لیکن اس جرح کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کا تبصرہ نقل نہ کیا۔ امام ذہبی میزان الاعتدال میں محمد بن بشار کے بارے میں لکھتے ہیں : ۔
’’ثقۃ صدوق۔ کذّبہ الفلاس، فما أصغی أحد الی تکذیبہ لتیقّنہم أن بُنداراً صادق أمین‘‘ وہ ثقہ اور سچے ہیں۔ (عمرو بن علی) الفلاس نے انہیں کاذب کہا ہے لیکن کسی نے بھی فلاس کی بات پر کان نہیں دھرے کیونکہ سب کو یقین ہے کہ ُبندار سچے اور امانت دار ہیں۔ (میزان الاعتدال، ج3 ص490 ، دار الفکر بیروت)
پھر یہیں امام ذہبی نے یحییٰ بن معین اور قواریری کا ذکر کیا ہے کہ وہ محمد بن بشار کو ضعیف سمجھتے تھے ، اور پھر اپنا تبصرہ یوں کیا ہے۔
’’قلتُ: قد احتج بہ أصحاب الصحاح کلہم، وہو حجۃ بلا ریب‘‘ میں (یعنی امام ذہبی) کہتا ہوں کہ محمد بن بشار سے حدیث کی تمام صحیح کتابوں والوں نے بطور حجت قبول کیا ہے اور وہ بلا شک حجت ہیں (لہٰذا یحییٰ بن معین اور قواریری کی غیر مفسر جرح کی کوئی حیثیت نہیں۔ناقل)۔
حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں عمرو بن علی الفلاس کی جرح کے بارے میں لکھا: ۔
’’وضعّفہ عمرو بن علی الفلاس ولم یذکر سبب ذلک ، فما عرجوا علی تجریحہ‘‘ ۔ عمرو بن علی الفلاس نے ان کی تضعیف کی ہے، لیکن اس کا کوئی سبب ذکر نہیں کیا، لہٰذا اُن کی جرح کو کسی نے بھی قابل اعتناء نہیں سمجھا۔ (ہدی الساري مقدمۃ فتح الباری، ص437 )
پھر حافظ ابن حجر نے یحییٰ بن معین اور قواریری کی جرح ذکر کرنے کے بعد لکھا: ۔
’’قال الازدي: وبندار قد کتب عنہ الناس وقبلوہ ولیس قول یحییٰ والقواریري مما یجرحہ وما رأیتُ احداً ذکرہ اِلا بخیر وصدق‘‘ ازدی نے کہا : بُندار (یعنی محمد بن بشار) سے لوگوں نے احادیث لکھی ہیں اور انہیں قبول کیا ہے، لہٰذا یحییٰ اور قواریری کی جرح انہیں مجروح نہیں کرسکتی، میں نے جسے بھی دیکھا اُس نے اُن کا ذکر خیر اور سچائی کے ساتھ ہی کیا۔ (تہذیب التہذیب، ج9 ص72)
لیجیے! علماء رجال تو فلاس، یحییٰ بن معین اور قواریری کی محمد بن بشار پر کی گئی جرح کو ’’غیر مفسر اور بلا سبب ‘‘ ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کرتے ، لیکن عمادی صاحب جنہوں نے اپنی کتاب کے سرورق پر ’’فن رجال کی روشنی میں‘‘ کا عنوان لکھا ہے وہ اس کی بنیاد پر محمد بن بشار کو جھوٹا ثابت کررہے ہیں۔
اب رہی یہ بات کہ علی بن المدینی کے سامنے حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ سے مروی ایک حدیث پیش کی گئی کہ ’’سحری کیا کرو ، سحری میں برکت ہے‘‘ جس کی سند میں محمد بن بشار بھی تھے تو انہوں نے کہا یہ ’’جھوٹ ہے‘‘ ، تو عرض ہے کہ علی بن المدینی نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ ’’چونکہ اس کی سند میں محمد بن بشار ہے اس لئے یہ جھوٹ ہے‘‘، جو لفظ علی بن المدینی سے نقل کیے جاتے ہیں وہ ہیں ’’ہذا کذب‘‘ یہ جھوٹ ہے یعنی یہ حدیث جھوٹ ہے ۔ اب کیوں جھوٹ ہے؟ اس کی کوئی وجہ علی بن المدینی سے ذکر نہیں کی جاتی، واضح رہے کہ یہ حدیث شریف صحیح ہے اور نہ صرف حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ سے بلکہ حضرت انس بن مالک ؓسے بھی مروی ہے ( دیکھیں صحیح البخاری، حدیث نمبر 1923 /صحیح مسلم، حدیث نمبر 1095 /سنن ترمذی، حدیث نمبر 708 /سنن ابن ماجۃ، حدیث نمبر 1692 وغیرہا من الکتب) تو علی بن المدینی کا اس حدیث کو جھوٹ کہنا ناقابل فہم ہے اور جن لوگوں نے اُن سے یہ قول نقل کیا ہے انہوں نے اس کا کوئی سبب یا علت ذکر نہیں کہ ہمیں معلوم ہو انہوں نے اس حدیث کو جھوٹ کیوں کہا؟۔ (جاری ہے)