پروفیسر محمدحمزہ نعیم
’’ اگرتو عمروبن العاص کی پٹائی بھی کرتا تو میں تجھے منع نہ کرتا ‘‘اس جملے کے پس منظر کی کہانی یہ ہے کہ امیر المومنین حضرت عمربن خطاب ؓ نے مار کھانے والے قبطی لڑکے کو اپناکوڑا پکڑایا اور حکم دیاکہ ’’ امیرِ مصر(عمر وبن العاصؓ) کے بیٹے کو مار اور اُس سے اپنا بدلہ لے ۔‘‘ یہ ایک مشہوروایت ہے مگر آیا یہ سچا واقعہ ہے یا نبی کی زبان سے کئی بار مرد مومن، مرد صالح کاخطاب پانے والے تین میں سے ایک مشہور ذہین و فطین سیاستدان فاتح مصراورخلیفہ راشد حضرت عمر ؓ کی طرف سے گورنر مصر اور خلیفہ راشد حضرت علی ؓ اور قصاص عثمان ؓ کا مطالبہ کرنے والے حضرت امیر معاویہؓ کے درمیان جنگ بندی کرانے والے دو میں سے ایک حضر ت عمر وبن العاصؓ پر تبرأ اور اُن کے بارے میں بدگوئی ہے؟
کئی دن سے یہ روایت ذہن میں کھٹک رہی تھی ، تنتیس سال کی تدریسی کالج ملازمت کے دوران عربی نصاب میں شامل یہ کہانی بلاشبہ سیکڑوں سے زائد بار کالج طلباء کو پڑھائی ۔ آج بھی یہ کہانی پاکستان کے سکول ، کالج اور یونیورسٹی کتابوں میں دھڑلے سے پڑھائی جارہی ہے۔ موجودہ نصاب میں آٹھویں جماعت کی عربی کتاب میں بھی موجود ہے۔۔۔مگر نصاب میں موجودہر رطب و یابس پڑھانااُستاد کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔عقل اور درایت سے کوئی کام نہیں لیتا، نہ پڑھانے والے، نہ نصاب بنانے والے اور نہ حکومت کے ذمہ داران۔فالی اللّٰہ المشتکیٰ!
واقعہ یوں لکھاگیا ہے کہ امیرالمومنین عمربن خطاب ؓ کی خلافت کے دوران جب عمروبن العاصؓ مصر کے گورنر تھے تو گورنر کے ایک بیٹے نے ایک قبطی (مصری) لڑکے سے گھڑ دوڑمیں شرط لگائی۔ قبطی لڑکا جیت گیا تو گورنر کے بیٹے نے اُس کی پٹائی کردی اور کہا تو بڑے لوگوں کے بیٹے (ابن الاکرمین) سے کیسے جیت سکتاہے ؟اُسے یقین تھاکہ وہ غریب قبطی لڑکا اُس سے بدلہ نہیں لے سکتا۔۔۔۔۔
قبطی لڑکے کا والد اپنے مضروب بیٹے کو لے کر مدینہ منورہ پہنچااورحضرت عمر ؓ کی خدمت میں یہ تمام واقعہ بیان کیا۔۔۔۔ حضرت عمرؓ نے عمروبن العاص کو بیٹے سمیت مدینہ حاضر ہونے کا حکم دیاپھر جب سب لوگ حاضر ہوگئے تو امیر المومنین نے قبطی لڑکے کو کوڑا پکڑایا اور اُسے حکم دیاکہ وہ عمروبن العاص کے بیٹے سے اپنی جان کا بدلہ لے ۔ تو اُس نے اُسے خوب مارا یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ نے دیکھا کہ اُس نے اپنا حق پالیاہے اور اپنے دل کی بھڑاس نکال لی ہے توفرمایا اگر تو عمروبن العاص کی پٹائی بھی کرتاتومیں تجھے منع نہ کرتا۔(لوضربت عمروابن العاص مامنعتک)کیونکہ اُس لڑکے نے اپنے باپ کی طاقت کے گھمنڈ میں تجھے ماراہے ۔ پھر حضرت امیرالمومنین ؓ ، گورنر مصر حضر ت عمروبن العاص کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم نے کب سے لوگوں کو اپناغلام سمجھاہے جب کہ اُن کی ماؤں نے تو اُنہیں آزاد جناہے۔ (متیٰ استعبد تم الناس و قدولدتہم امہاتہم احراراً)( ابن عبدالحکم فتوح مصرص ۲۹۰) یہ روایت کنزالعمال۱۲/۶۶ میں ہے اور مولانامحمدیوسف دہلوی نے بھی اسے حیاۃ الصحابہ ج ۲ ، ص ۱۱۴ میں نقل کیاہے)
قرآن کریم ایک ابدی اور لاریب کتاب ہے ۔ قرآن اور اسلام کا نظام عدل کہتاہے ’’ کسی کے جرم میں کوئی دوسرا نہیں پکڑاجائے گانہ دنیامیں نہ آخرت میں‘‘ ( لا تز رُوازرۃ وزراُخری) تو پھر عادل عمرؓ جیسے خلیفہ راشد ، خلیفہ حق کیسے کہہ سکتے ہیں ’’ لوضربت عمروابن العاص مامنعتک‘‘( اگر تو عمروبن العاص کی پٹائی بھی کرتاتومیں تجھے منع نہ کرتا۔)
بظاہر یہ قصہ عدل عمر کے خوبصورت نام سے ہے مولانا محمدیوسف دہلوی ؒ نے بھی عدل النبی و اصحابہ کے خوبصورت عنوان سے لکھاہے ۔۔۔۔ دل میں بات آئی کہ ذرااس روایت کی تحقیق کرلی جائے کیونکہ سرکار دوجہاں ﷺ نے فرمایا : عمرو بن العاص اور ہشام بن العاص دونوں بھائی مومن ہیں۔ دوسرے موقع پر فرمایا کہ یہ پوراخاندان مومن ہے۔ ایک اور موقع پر فرمایا کہ یہ صالح قریشی لوگوں میں سے ہے۔ایک اور موقع پر فرمایا کہ یہ امرؤصالح ( نیک مرد) ہے۔ایک اور موقع پر مدینہ کے لوگوں سے فرمایا 🙁 ایسی پریشانی کے وقت میں) تم لوگوں نے اِس طرح کیوں نہ کیا جس طرح اِن دومومن مردوں نے کیا(کہ تیغ بکف مسجد نبوی میں آکر بیٹھ گئے۔۔۔ اِن دو صحابہ میں سے ایک حضرت عمروبن العاص تھے۔) ایک اور موقع پراُن کو جہاد پر روانہ فرماتے ہوئے جہاد کی فضیلت اور مال غنیمت کاذکر ہوا تو عرض کیا یارسول اﷲ!میں تو اﷲ کی رضاکے لیے جہاد کروں گا مال غنیمت کے لیے نہیں۔ ارشاد نبوی ہوا ’’ اے عمرو! عمدہ مال (یعنی مال غنیمت )مرد صالح کے لیے لائق تعریف ہوتا ہے ۔ ‘‘( نعم المال الصالح للرجل الصالح)۔(مسند امام احمد، مشکوٰۃ)
بیسیوں مواقع پر نبی مکرم ؐ نے اُن کو جہاد میں بھیجا۔ جنگ ذات السلاسل کے موقع پر حضرات صدیق و فاروق ؓ بھی اُن کی ماتحتی میں تھے جب فاتحانہ واپسی پر خود نبی مکرم ﷺ نے مدینہ سے باہر تشریف لا کر ان کا استقبال کیا تھا۔پھر خلافت صدیق و فاروق و غنی میں اُ ن کو جہاد کی اہم ذمہ داریاں دی گئیں۔فراست فاروقی مشہورعالم ہے اورخود حضرت عمروبن العاص کے بیٹے عبداﷲ بن عمرو’’ السابقون الاولون ‘‘صحابہ میں سے ہیں اور چھے مشہور و معرو ف عبادلہ میں سے ہیں ، کہیں ایساتو نہیں کہ بغیرنام لیے انہی عبداﷲ بن عمرو کو نشانہ بنانا مقصودہو؟ اگر کسی اور بیٹے کا بھی ذکر ہو توپھربھی وہ خو د تین دہاۃ العرب ( عرب کے چوٹی کے تین ذہین و فطین بے مقابلہ رہنماؤں اورداناؤں)میں شامل ہیں۔(وہ تینوں ہیں امیر معاویہؓ، مغیرہ بن شعبہؓاور عمروبن العاص رضی اﷲ عنہم)۔ لسانِ وحی ترجمان سے اتنے بے شمار فضائل کے علاوہ شہادت عثمان ذی النورین ؓ کے بعد جب امیر المومنین حضرت علیؓ اور طالبین قصاص عثمان ؓ، سید نا امیر معاویہ ؓ اور اُن کے ساتھیوں کے مابین منافقو ں کی بھڑکائی ہوئی جنگ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کا موقع آیا تو حکمین کے طورپر حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓکے ساتھ یہی عمروبن العاصؓ صلح کراتے نظر آتے ہیں اورپھر انہی حکمین کی کوششوں سے حضرت علی ؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے درمیان جنگ بندہو گئی اور اہل اسلام نے حضرت علی ؓ کی سربراہی میں منافقین خارجیوں وغیرہ کے خلاف قدم اُٹھایا ۔۔۔
اسی کا تدبر ہی کام آگیا تھا کہ اسلام دنیا پہ پھر چھا گیا تھا
مذکوربالا روایت میں دیگر سقم اور انقطاع کے علاوہ ایک سقم یہ بھی ہے کہ حضرت عمرؓ سے کہلوایا جارہاہے کہ’’ تو اگر حضرت عمروبن العاص کی پٹائی بھی کرتا تو میں نہ روکتا ‘‘حیاۃ الصحابہ کے حوالۂ مذکورہ کے مطابق فرمایا:’’اب تو عمرو بن عاص کی چندیا پر مار‘‘لیکن آگے سے قبطی لڑکے نے کہا’’امیر المؤمنین ! مجھے تو اس کے لڑکے نے مارا تھا اور میں نے اس سے بدلہ لے لیا ہے ‘‘ اہل عقل وفہم سوچیں، قصور بیٹے کا ہے، اس سے بدلہ لیا جاچکا ہے اور مظلوم نے جی بھر کے کوڑے برسائے ہیں۔اس بدلہ لئے جانے کے بعد حضرت عمر ؓ اس کے باپ کی چندیا پر مارنے کا حکم فرمارہے ہیں۔کیا یہ عدلِ عمر کی نشاندہی ہے یا عدلِ عمر پر سب و تبرأ؟
ع ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو؟
اعدائے اسلام اور معاندین صحابہ نے ایسی ایسی روایتیں گھڑی ہیں کہ منقش خوبصورت سانپ کی طر ح اُن کا ظاہر بے حد خوبصورت لیکن اُن کے اندر زہر ہی زہر ہے ۔مثال کے طور پر یہی روایت ہے جسے ابن الحدید نے شرح نھج البلاغہ میں یوں لکھا ہے کہ حضرت عمرو بن العاص نے قبطی کو قید میں ڈال دیا تاکہ وہ امیر المؤمنین حضرت عمر ؓ تک شکایت نہ پہنچا سکے لیکن وہ کسی طرح قید سے نکل بھاگا اور حضرت عمرؓ تک جاپہنچا۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ دوسری روایات میں حضرت عمرو بن عاصؓ نے حضرت عمر ؓ کے سامنے کہا کہ نہ مجھے اس واقعے کا علم ہوا ، نہ میرے پاس شکایت پہنچی (ورنہ میں اس کو بدلہ دلواتا) ۔
تحقیق القصہ: اِس روایت کی سند منقطع اور بیہودہ ہے اور یہ انقطاع ابتداء ہی میں ابن عبدالحکم کے نام کے متصل بعد ساتھ ہی موجودہے۔
درج ذیل ایڈریس پر اس روایت سے متعلق مزید تحقیقات دیکھی جاسکتی ہیں:
hhtp://www.ahlalhadeeth.com/vb/showthread.php?t=373085
hhtp://www.khaledabdelalim.com/home/play-2008.html
اے فاتحِ مصرو افریقہ! اے صاحبِ رسول!
مصر میں زندہ ہے تیرے نام کی خوشبو ابھی
نیل کے دونوں کناروں پر کھڑا ہے تو ابھی
تیرے دم سے جو ہوئے تھے آشنااسلام سے
مصرو افریقہ کے وہ باسی ہیں قبلہ رو ابھی