مولانا محمد سعید الرحمن علوی رحمہ اﷲ
سلسلہ نبوت و رسالت کے گل سرسبد حضرت ابراہیم ؑ ان انبیاء میں شامل ہیں جن کا بہت تفصیلی تذکرہ قرآن مجید میں آیا ہے ایک مستقل سورۃ ان کے نام سے موسوم ہے اور بہت سی سورتوں میں بڑے بسط و تفصیل سے ان کا تذکرہ آیا ہے۔ وہ تنہا پیغمبر ہیں جن کے اسوۂ حسنہ کی تابعداری کے لیے قرآن مجید کی سورۃ الممتحنہ میں قریب قریب وہی الفاظ آئے ہیں جو پیغمبر آخر ومعصوم مکرم حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے سورۃ الاحزاب میں آئے ہیں ۔قرآن مجید کی سورۃ البقرہ میں مختلف امتحانات میں ان کی آزمائش کا تذکرہ آیا ہے اور رب العزت نے خود ہی ان کی مکمل کامیابی کا اعلان کرکے ان کو منصب امامت سے نوازنے کا ارشاد فرما یا ہے ۔اس موقع پر ان کی ایک درخواست کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ آیا یہ سلسلہ امامت ان کی اولاد میں بھی جاری رہے گا؟اس کا جواب اﷲ تعالیٰ نے اس طرح دیا کہ اولاد میں منصب کو اہلیت و صلاحیت سے مشروط کر دیا گویا محض “صاحبزادگی”کی بنیاد نہیں اہلیت کی بنیاد پر کسی بھی بڑے کی اولاد کو وہ منصب مل سکتا ہے ،چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے ہر دو فرزند حضرت اسمٰعیل ؑ اور حضرت اسحٰق ؑ،ان کے بھتیجے حضرت لوط ؑ کے علاوہ ان کے پوتے حضرت یعقوب ؑ اور پڑپوتے حضرت یوسف ؑ کے علاوہ ان کی اولاد میں لا تعداد نبی ،رسول ،بادشاہ و حکمران گزرے ہیں ،جن کی آخری کڑی حضور خاتم المعصومین صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں جو تمام کمالات انسا نی کے جامع اور ہر خوبی سے متصف ہیں ۔امام ولی اﷲ دہلویؒ کے جواں عزم و صاحب علم پوتے مولانا محمد اسمٰعیل شہید بالاکوٹ کا کہنا ہے کہ
“انسانی کمالات کی جہاں تکمیل ہوتی ہے وہاں سے انبیاء کی بشریت کی ابتدا ء ہوتی ہے “۔
حضرت ابراہیم ؑ اﷲ تعالیٰ کے رسول ونبی ہی نہ تھے ،اﷲ تعالیٰ نے انہیں اپنا خلیل اور دوست بھی بنایا تھا جیسا کہ سورۃ النساء میں تذکرہ ہے ان کے جن امتحانات کا اوپر اشارہ ہوا ان میں سے ایک امتحان اس قربانی کی شکل میں سامنے آیا جس کا تفصیلی تذکرہ سورۃ صافات میں آیا ہے ۔ویسے قربانی کا تذکرہ اور مقامات پر بھی ہے جن میں سورۃ الحج کو نمایا ں حیثیت حاصل ہے ۔اس سورہ میں فرمایا گیا کہ قربانی کا عمل ہر امت و قوم میں موجود تھا اور ہر ملت کی تعلیمات کا لازمی حصہ تھا ساتھ ہی مزید فرمایا گیا کہ قربانی کے نتیجہ میں اﷲ تعالیٰ کے یہاں نہ تو بندوں کی قربانیوں کے گوشت قرب کا مقام حاصل کرتے ہیں نہ ہی خون ،بلکہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں جو چیز پہنچ کر قرب الہیٰ اور رفع حاجات کا سبب بنتی ہے وہ انسان کی نیت اور اسکے دل کی کیفیت ہے ۔قرآن کریم نے سیدنا آدم ؑ کے دو فرزندوں اور ان کی قربانی کا ذکر کرکے ایک قربانی کی مقبولیت اور دوسری قربانی کے مردود ہونے کا ذکر کیااور بتلایا کہ جس کی قربانی مردود ہوئی وہ قتل جیسے بھیانک جرم کا مرتکب ہی نہیں ہوا بلکہ وہ اس گناہ کا بانی قرار پایا ۔قربانی ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعہ انسان اﷲ تعالیٰ کے حضور اپنی ہر خواہش سے دستبردار ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو اﷲ تعالیٰ کی مرضی و منشاء کا تابع بنا لیتا ہے ۔قرآن مجید سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ پر بڑھاپا طاری ہو گیا تھا اور وہ ہنوز اولاد سے محروم تھے ۔ظاہر ہے کہ اولاددینا یا نہ دینا اﷲ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے اگر اولاد پر کسی ولی ،پیغمبر،ڈاکٹر یا سائنس دان کا کنٹرول ہوتا اور یہ معاملہ ان کے تصرف و اختیار میں ہوتا تو دنیا میں کوئی بے اولاد نہ ہوتا لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا کہ یہ محکمہ اﷲ تعالیٰ کے تصرف و اختیار میں ہے ،قدرت مہربان ہوتی ہے تو سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں ۔بڑھاپے میں اولاد کے عطیہ کے حوالے سے حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت زکریا ؑ کے واقعات قرآن نے محفوظ کردیے ہیں ۔قرآن نے بتلایا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے حضرت لوط ؑ کی ناہنجار قوم کی ہلاکت اور حضرت ابراہیم ؑ کے لیے بیٹے کی خوشخبری فرشتوں کی ایک ہی جماعت ایک ہی وقت میں لیکر آئی۔حضرت ابراہیم ؑ کی اہلیہ نے تعجب کا اظہار کیا کہ میں بوڑھی عورت اولاد کیسے ہو گی؟اﷲ تعالیٰ کے فرشتوں نے کہا کہ یہ رحمت خداوندی کا معاملہ ہے ،اس میں حیرت کی کیا بات ہے،اﷲ تعالیٰ نے بیٹا دیا تو ایک نئی آزمائش سامنے آگئی بیٹے اور اس کی والدہ کو بے آب و گیاہ سرزمین میں تن تنہا چھوڑنے کا حکم سرزد ہو گیا ،حضرت ابراہیم ؑ سراپا تسلیم و رضا تھے اس لیے بلا چوں وچراں اس حکم کی تعمیل کی ،ان کی اہلیہ پیغمبر کی اہلیہ تھیں اس لیے اس نے بھی دم نہ مارا ،اس ماں اور بچے کی برکت سے اس وادی میں ایک ایسا کنواں ظاہر ہوا کہ آج صدیوں کے بعد بھی ایک دنیا اس سے سیراب ہورہی ہے اور اﷲ تعالیٰ کے آخری رسول ﷺ نے اس پانی کو باعث برکت و شفا قراردیا اسے ماں باپ کی برکت ہی کہیے کہ اجڑا ہو خانہ کعبہ دوبارہ تعمیر ہو ا وہاں انسانی آبادی کی بنیاد پڑی اور اور اس سر زمین سے خدا کا سب سے بڑا نبی اٹھا جس پر سب سے اہم کتاب نازل ہوئی ۔
حضرت ابراہیم ؑ کے یہی فرزند اسمٰعیل جب اینٹ روڑا اٹھانے کے قابل ہوئے تو مشیت الہیٰ سے باپ کے ساتھ ملکر کعبہ بنایا اس مرحلہ پر ابراہیمی دعائیں قرآن کی مختلف سورتوں میں دیکھی جاسکتی ہیں ان دعاؤں میں جذبہ عبدیت تواضع و انکساری کا رنگ کیسے کیسے بھرا ہوا ہے اور اﷲ تعالیٰ سے اس کی مخلوق کی بہتری کے لیے کیا کچھ نہیں مانگا گیا؟
مادی رزق اور روحانی رزق ہردعا کی درخواست ہے قدرت نے ان کی ہر دعا کو شرف قبولیت سے نوازا ۔پانی کا ایک کنواں ہے لیکن ساری دنیا اس سے سیراب ہو رہی ہے ۔موسم حج اور عمرہ کے مختلف مواقع پر لاکھوں لوگ جمع ہوجاتے ہیں لیکن نہ رہائش کی تکلیف ہوتی ہے اور نہ ہی خوراک کی ۔ابراہیمی دعائیں اس طرح رنگ لاتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔یہی اسمعیل تھے جب ذرا بڑے ہوئے تو اﷲ تعالیٰ نے ان کی قربانی کا حکم دیا سوچیں کتنا کڑا امتحان تھا ؟بڑھاپے کی اکلوتی اولاد اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنا لیکن جن کے رتبے بلند ہوتے ہیں ان کے حوصلے بھی بلند ہوتے ہیں ،باپ نے قرآن کے مطابق بیٹے کو حکم ربانی سے جو گویا تیاری کرنے کی ہدایت تھی ،بیٹا پیغمبر کا بیٹا ہی نہیں مستقبل کا پیغمبر تھا اور اس کی نسل سے دنیا کے سب سے بڑے پیغمبر نے مبعوث ہونا تھا اس نے کسی قسم کے شش و پنج کے بغیر سر تسلیم خم کر دیا ،اﷲ تعالیٰ نے عجیب شان دلربائی سے انقیاد و تسلیم اور صبر و رضا کی اس داستان کو دہرایا ہے سورۃ صافات کے تیسرے رکوع کا بڑا حصہ اسی داستان پر مشتمل ہے ۔
ابراہیم ؑ والد کے رویہ کی وجہ سے اور قوم کی کوڑھ مغز ی کی وجہ سے ہجرت کی صعوبت سے دو چار ہوئے ۔وقت کے بادشاہ سے ٹکر لی آج زندگی کا سب سے بڑا امتحان ہے کہ بڑھاپا ہے اور اولاد اکلوتی لیکن کسی قسم کے اعراض و انکا کا سوال ہی نہیں،اﷲ تعالیٰ نے باپ بیٹے ہر دو طرز عمل کے لیے لفظ ’’اسلما‘‘ارشاد فرمایا جس کا صاف ستھرا مفہوم تسلیم ورضا ہے ،مالک کی چوکھٹ پر جھک جانا ،خدا کی منشا کو پورا کرنا اور بلا چوں چرا اس کے حکم کی تعمیل کرنا…یہی اسلام ہے ایسا کرنے والا ہی ’’مسلم ‘‘ہے ۔آج کا بر خود غلط ،نسلی نمائشی اور فریب کار مسلمان اس داستان کی روح کو نہیں پاسکتا ا س کے لیے قلب ونظر کی اصلاح لازم ہے اس کے لیے ہر قسم کی خود غرضی سے ماورا ہونے کی ضرورت ہے اس کے لیے اﷲ تعالیٰ کو معبود حقیقی سمجھنے کی ضرورت ہے ،اس کے لیے پیغمبروں کی تعلیما ت کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔
ابراہیم ؑ اور اسمعیل ؑ نے تسلیم و رضا کا حق ادا کیا ،ایک قربان ہونے پر تیار ہے تو دوسرا اپنی متاع عزیز قربان کرکے قرب الہیٰ کا مقام حاصل کرنے کی سعی کر رہا ہے ۔قدرت نے ان دونوں کے جذبہ عمل کو دیکھا اور ان کے تسلیم و رضا کے جذبہ کی قدر کرتے ہوئے …کیونکہ اﷲ تعالیٰ سب سے بڑھ کر قدر کرنے والے ہیں …متبادل انتظام کردیا یعنی ایک جانور ،جس کو ذبح کرکے قرب الہیٰ کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے،لطف یہ ہے کہ ذبح شدہ جانور کے گوشت تک کے لیے پابندی نہیں کہ اس کا گوشت غرباء کو کھلایا جائے یا ضرورت کے تحت سارا خود ہی کھا لیا جائے تو بھی حرج نہیں بس جذبہ درست اور نیت صاف ہونی چاہیے مقصد یہ ہو کہ میں اس طرح ایک پیغمبرانہ عمل کی اقتداء کررہا ہوں ،میرا نام جس پیغمبر نے مسلم تجویز کیا جس نے ’’دین حنیف‘‘کی راہ دکھلائی جسنے وقت کے ظالم اقتدار سے لڑنے کا حوصلہ بخشا جس نے اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے ماں باپ قوم اور وطن کی محبت کو قربان کر دیا جو’’معراج‘‘کی بلندی پر چڑھنے کے لیے آگ میں کود گیا جس نے اﷲ تعالیٰ کے سوا ہر ایک کی محبت کو نظر انداز کر دیا اور ہر ایک کے خوف کو پاؤں کی ٹھوکر سے ٹھکرا دیا اسی کا طریقہ اسی کی راہ اسی کا طرز عمل اسی کی سنت …یہی قربانی ہے…
عصر حاضر میں نام نہاد دانشوروں کے ایک طبقہ کو بے چارے جانوروں پر رحم آتا ہے کہ خواہ مخواہ اتنی بڑی تعداد میں ذبح کیے جا رہے ہیں اگر چہ دوسرے ایام میں روز ہی اس سے بڑھ کر جانور ذبح ہوتے ہیں اور اہل سرمایہ ان کی رانیں اور بہت کچھ لے اڑتے ہیں ۔آج کا روح دین سے نا آشنا تاجر ،سرمایہ دار اور صنعت کار بیش قیمت جانور خرید کر اس کی نمائش کرکے خود کھا کر اور پیٹ بھرے رشتہ داروں اور دوستوں کو کھلا کر قربانی کے نام پر دھوکہ اور فریب کرتا ہے ، اس کے خیال میں سود ،سٹے بازی،اور جوئے کی کمائی ،مزدور ،کسان اور غریب کے استحصال کر کے لوٹ مار کی کمائی سے دس بیس ہزار کا بکرا لے کر قربانی سے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے اور ہر جرم بخشا جائے گا ،یہ وہ دھوکہ ہے جو شیطان نے اپنے دوستوں اور اولیا کو دے رکھا ہے ان دوستوں اور اولیا ء میں معاشرے کے ہر طبقہ کے افراد شامل ہیں وہ ہر عمل خیر کی طرح قربانی کے نام پر بھی فراڈ کرتے ہیں اور اپنی منافقت کا بھر پور اظہار کرتے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ کے ڈر سے بے نیاز اور سیرت پیغمبر و صحابہ سے محروم حرام خوروں اور ان کے مذہبی سر پرستوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ قربانی نام ہے اصلاح باطن ،قلب کی صفائی اور اﷲ تعالیٰ کی عظمت کے لیے مر مٹنے کا ،اس کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا اور اس کی ہر نا فرمانی سے اپنے آپ کو بچانے کا اگر ایسا ہے تو ہزار پانچ سو کا واجبی بکرا بہت قیمتی ہے ورنہ دس بیس ہزار کا قیمتی بکرا دو ٹکے کا نہیں اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ دولت کو نہیں نیت کو دیکھتے ہیں ۔