حضرت مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اﷲ
مولانا ابوالکلام آزاد رحمتہ اﷲ علیہ نے صحابہ رضی اﷲ عنہم کی تاریخ کا نقشہ کس ایجاز سے کھینچا ہے اسے دیکھئے۔ ’’محبت ایمان کی اس آزمائش میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم جس طرح پورے اترے اس کی شہادت تاریخ نے محفوظ کر لی اور وہ محتاج بیان نہیں، بلاشائبہ و مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح سے ایسا عشق سے نہیں کیا ہوگا جیسا صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے راہ حق میں کیا، انھوں نے اس محبت کی راہ میں وہ سب کچھ قربان کردیا جو انسان کرسکتا ہے اور پھر اسی کی راہ سے سب کچھ پایا جو انسانوں کی کوئی جماعت پاسکتی ہے۔‘‘
شرح مقام ……وَرَضُوْاعَنْہُ: رَضَیِ اللّٰہُ عَنُھُمْ وَرَضُوْاعَنْہ ’’ اﷲ ان سے راضی ہوا اور وہ اﷲ سے‘‘ اس مقام کا ایک پہلو قابل غور ہے جس پر لوگوں کی نظریں نہیں پڑیں یعنی وَرَضُوْاعَنْہُ پر کیوں زور دیا گیا اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ اﷲ ان سے خوشنود ہوا کیونکہ ان کے اعمال اﷲ کی خوشنودی ہی کے لیے تھے۔ یہ بات خصوصیت کے ساتھ کیوں کہی گئی کہ وہ بھی اﷲ سے خوشنود ہوئے۔ اس واسطے کہ ایمان و اخلاص کا اصلی مقام بغیر اس کے نمایاں نہیں تھا۔
انسان جب کبھی کسی مقصد کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے اور مصیبتوں سے دو چار ہوتا ہے تو دو طرح کی حالتیں پیش آتی ہیں کچھ لوگ جو انمرد اور باہمت ہوتے ہیں وہ بلاتأمل ہر طرح کی مصیبتیں جھیلتے ہیں لیکن ان کو جھیلنا جھیل لینا ہی ہوتا ہے یہ بات نہیں ہوتی کہ مصیبتیں نہ رہی ہوں عیش و راحت ہوگئی ہوں کیونکہ مصیبت پھر مصیبت ہے، باہمت کڑوا گھونٹ بغیر کسی جھجک کے پی لے گا لیکن اس کی کڑواہٹ کی بدمزگی محسوس کرے گا لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنھیں صرف باہمت ہی نہیں کہنا چاہیے بلکہ اس سے بھی زیادہ کچھ کہنا چاہیے۔ ان میں صرف ہمت و جوانمردی ہی نہیں بلکہ عشق و شیفتگی کی حالت پیدا ہوتی ہے وہ مصیبتوں کو مصیبتوں کی طرح نہیں جھیلتے بلکہ عیش و راحت کی طرح ان سے لذت و سرور حاصل کرتے ہیں۔ راہ محبت کی ہر مصیبت ان کی عیش و راحت کی ایک نئی لذت بن جاتی ہے۔ اگر اس راہ پر کانٹوں پر لوٹنا پڑے تو کانٹوں کی چبھن میں انھیں ایسی راحت ملتی ہے جو کسی کو پھولوں کی سیج پر لوٹ کر نہیں مل سکتی حتی کہ اس راہ کی مصیبتیں جس قدر بڑھتی جاتی ہیں اتنی ہی زیادہ ان کے دل کی خوشحالیاں بھی بڑھتی جاتی ہیں۔ ان کے لیے صرف اس بات کا تصور کہ یہ سب کچھ کسی کی راہ میں پیش آرہا ہے اور اس کی نگاہیں ہمارے حال سے بے خبر نہیں عیش و سرور کا ایک ایسا بے پایاں جذبہ پیدا کردیتا ہے کہ اس سرشاری میں جسم کی کوئی کلفت اور ذہن کی کوئی اذیت محسوس ہی نہیں ہوتی۔
یہ بات سننے میں عجب معلوم ہوتی ہوگی لیکن فی الحقیقت اتنی عجیب حالت نہیں بلکہ انسانی زندگی کے معمولی واردات میں سے ہے اور عشق و محبت کا مقام تو بہت بلند ہے۔ بوالہوسی کا عالم بھی ان واردات سے خالی نہیں۔
حریف کاوش مژدگان خونریزش نہ ناصح
Kبہ دست آور رگِ جان و نشتر راتماشا کن
˜ سابقون الاولون کی محبت ایمانی کا یہی حال تھا ہر شخص جو ان کی زندگی کے سوانح کا مطالعہ کرے گا بے اختیار تصدیق کرے گا کہ انھوں نے راہِ حق کی مصیبتیں صرف جھیلی ہی نہیں بلکہ دل کی پوری خوشحالی اور روح کے کامل سرور کے ساتھ اپنی پوری زندگیاں ان میں بسر کرڈالیں۔ ان میں سے جو لوگ اول دعوت میں ایمان لائے تھے ان پر شب وروز کی جانکاہیوں اور قربانیوں کے پورے ۲۳؍برس گزر گئے لیکن اس تمام مدت میں کہیں سے بھی یہ بات دکھائی نہیں دیتی کہ مصیبتوں کی کڑواہٹ ان کے چہروں پر کبھی کھلی ہوں۔ انھوں نے مال و علائق کی ہر قربانی اس جوش و مسرت کے ساتھ کی گویا دنیا جہان کی خوشیاں اور راحتیں ان کے لیے فراہم ہوگئی ہیں اور جان کی قربانیوں کا وقت آیا تو اس طرح خوشی خوشی گردنیں کٹوادیں گویا زندگی کی سب سے بڑی خوشی زندگی میں نہیں موت میں تھی۔
(ترجمان القرآن حصہ دوم، ص:۱۴۳)