سید شہاب الدین شاہ
عالمی منظر نامے پر بغور نگاہ دوڑائی جائے تو یہ افسوس ناک حقیقت واضح ہوتی چلی جاتی ہے کہ مسلم ممالک کی کثیر تعداد ہونے کے باوجود مسلمانوں کی حالت قابل رحم ہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ گزارش ہے کہ لفظ رحم لکھا جا سکتا ہے پڑھا جاسکتاہے۔ لیکن رحم کرنا مکاری و عیاری اور درندگی کے پیکروں کی فطرت سے کو سوں دورنظر آتا ہے۔ جس کا عملی ثبوت آپ کو برما کے صوبہ ارکان میں دیکھنے کو ملے گا۔ جہاں گزشتہ کم و بیش پانچ دھائیوں سے روہنگیا نسل کے ساتھ تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی تیزی کے ساتھ نسل کشی کی جارہی ہے۔ اور اسرائیلی آباد کاریوں کی طرز پر منظم انداز میں مسلم اکثریتی صوبے میں بڈھسٹ خاندانوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ بیشتر انتخابات کے موقع پر روہنگیا مسلمانوں کی قومی شناخت ختم کرتے ہوئے انھیں انتخابی دھارے سے نکال باہر کردیا۔ شہری علاقوں میں آباد مسلمانوں سے میونسپلٹی سہولیات تک چھین لی گئیں، مسلم جائیدادوں پر حکومتی سرپرستی میں قبضے کیے گئے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ شروع سے ہی ارکانی مسلمانوں کا قلبی تعلق طبعی میلان اور دینی جھکاؤ پاکستان کی طرف رہا ہے اور ہے۔ اسی طرح پاکستانی عوام و حکام کی غیر مشروط حمایت و مدد بھی روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۴۶ء میں ارکانی مسلم لیڈروں کا ایک وفد بانیٔ پاکستان محمدعلی جناح سے ملا اور درخواست کی کہ تقسیم برصغیر کے طے شدہ اصول و ضوابط کے مطابق مسلم ریاست ارکان کو بھی برما کے بجائے پاکستان کا حصہ بنا دیا جائے اس پر قائداعظم نے کہا کہ آپ لوگ میرے پاس لاش لے کرآئیں، آپ کو مسئلہ ارکان کے حل کے لیے رنگون (برما کا دارالحکومت) جانا پڑے گا، یعنی انگریز کی پالیسی کے مطابق ارکان کو برما میں ضم کردیا گیا ہے۔
پاکستانی صدر جنرل محمد ایوب خان کے دور میں جب برمی حکومت نے ارکانی مسلمانوں کو ستانا اور تنگ کرنا شروع کردیا تو پاکستانی صدر نے یہ بیان جاری کیا کہ ’’کیا برمی حکومت یہ پسند کرے گی کہ پاکستانی فوج صبح ڈھاکہ سے روانہ ہو اور شام تک رنگون (برما کا دارالحکومت) پہنچ جائے‘‘ اس بیان کی وجہ سے جب تک ایوب خان صدارت پر رہے تب تک ارکانی مسلمان برما کے مظالم سے محفوظ رہے اس لیے آج بھی ارکانی مسلمان جنرل محمد ایوب خان کے لیے دعائیں کرتے ہیں۔
۳جون ۲۰۱۲ء میں پھر ارکانی مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوا جس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے پاکستان صدر آصف علی زرداری نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں اس کا تذکرہ کیاا ور ساتھ بتایا کہ ہم عرصہ دراز سے لاکھوں ارکانی مسلمانوں کو نہ صرف پناہ دے رہے ہیں بلکہ شہری حقوق بھی دیے، اس لیے عالمی طور پر مسئلہ ارکان کا حل نکالنا ضروری ہے۔
حکومت برما نے اکیاب و دیگر علاقوں میں درجنوں سے زائد کیمپ بنائے، جن میں سے بعض مگھ افراد اور اکثر میں روہنگیا مسلمان پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یہ کیمپ برمی حکومت کے زیر تسلط وزیر نگرانی ہیں۔ ان کیمپوں میں حکومت کی اجازت اور پرمٹ کے بغیر کوئی آجا نہیں سکتا اور حکومت ان کیمپوں سے درجنوں فوائد حاصل کر رہی ہے مثلاً بین الاقوامی وفود کو اپنی نگرانی میں ان کیمپوں کا دورہ کرایا جاتا ہے یہ وفود دونوں قسم کے کیمپوں میں جا کر انٹرویو لیتے ہیں، مسلمان کہتے ہیں کہ حکومت اور مگھ کے مظالم سے ہم یہاں آگئے اور مگھ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے مظالم سے ہم یہاں آگئے جبکہ حکومت یہ تاثر دیتی ہے کہ یہ ان کی آپس کی لڑائی ہے اور حکومت دونوں قسم کے مظلوموں کو یکساں مدد فراہم کر رہی ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کے لیے جو امدادی سامان آتے ہیں وہ حکومت اپنے کنٹرول میں لیتی ہے وہ دو تہائی حصے خود رکھ لیتی ہے اورایک تہائی مگھ و مسلم دونوں کیمپوں میں برائے نام تقسیم کرتی ہے۔
کیمپوں میں پناہ گزین مسلمانوں کو دوبارہ اپنے علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی وہ دوبارہ سابقہ علاقوں میں بسنے کے قابل رہتے ہیں کیونکہ ان کی زمینوں اور گھروں و علاقوں کا قبضہ ہو چکا ہوتا ہے، یہاں ان پر جو مظالم کیے جاتے ہیں ان کی کہانی بھی بے حد المناک ہے میڈیا عینی شاہدین اور ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ کے مطابق برمی حکومت نے وحشیانہ مظالم ڈھانے کے بعد مزید ایک لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو نئے رہائشی کیمپوں میں منتقل کردیا ہے جہاں وہ بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کیمپوں میں مسلمانوں کو طبی سہولتوں سمیت زندگی کی بنیادی ضروریات میسر نہیں ہیں۔ جبکہ نئی جاری ہونے والی سٹیلائٹ تصاویر میں روہنگیا مسلمانوں کے ۱۵۰۰؍ مزید گھر دکھائے گئے جنہیں برمی افواج نے نذر آتش کردیا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’’ایمنٹی انٹرنیشنل‘‘ نے کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر برمی فوج کے مظالم انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، اپنی تازہ رپورٹ میں کہا کہ برمی فوج مسلمانوں کے قتل، زیادتی، تشدد اور لوٹ مارمیں ملوث ہے، جبکہ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے، برٹش روہنگیا کمیونٹی کے جنرل سیکرٹری محمد نظام الدین نے کہا کہ برمی فوج مسلمانوں کی نسل کشی اور عصمت دری میں ملوث ہے ایسے واقعات بھی پیش آئے کہ ماں کے سامنے بیٹی سے زیادتی کی گئی۔
جہاں تک بنگلہ دیشی عوام و افواج کا تعلق ہے وہ شروع سے ہی ارکانی مسلمانوں کی حمایت و مدد میں پیش پیش ہیں۔ البتہ بنگلہ دیشی حکومت خصوصاً حسینہ واجد (جو مکمل بھارت نوازدین دشمن ہیں) کی حکومت شروع سے ہی بھارت کے ماتحت ہے بلکہ بھارت کا ایک صوبہ ہے اس لیے بنگلہ دیشی حکومت بھارت کی مرضی و منشاء کے خلاف ارکانی مسلمان کے متعلق کچھ کرنے اور عسکری اعتبار سے بے حد کمزور ہونے کی وجہ سے حکومت برما کو للکارنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔
دوسری طرف برما اور بھارت کے درمیان دوستی پرانی ہے خود برما کی موجودہ سربراہ وزیراعظم ’’آن سان سوچی‘‘ بھارت میں برما کی طرف سے سفیر رہی، پر اس وقت بنگلہ دیش میں کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں را کے ایجنٹ نہ ہوں اس لیے بنگلہ دیشی حکومت کو ارکانی مسلمانوں کے ساتھ بادل نخواستہ دشمنی کرنی پڑ رہی ہے۔
۱۸؍نومبر ۲۰۱۶ء میں دس گاؤں کے ارکانی مسلمان کشتیوں میں سوار ہو کر سرحدی دریا عبور کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ برمی فوج نے اندھا دھند فائرنگ کردی جس سے عورتوں اور بچوں سمیت ۱۷۲؍افراد شہید ہوگئے اور باقی ماندہ افراد جب دریا عبور کر کے بنگلہ دیشی سرحد تک پہنچے تو بنگلہ دیشی سیکورٹی فورسز نے ۲۵ بچوں اور ۴۰ عورتوں کو واپس دھکیل دیا جبکہ مزید ۵۰۰ مہاجرین بے سروسامانی کے عالم میں پڑے ہوئے ہیں۔
اس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کو برمی فوج کے مظالم سے بچانے کے لیے اپنی سرحد کھول دے اور ان کو انسانی سہولیات فراہم کرے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے سینئر اہلکار ’’جان مک کسک‘‘ کیمطابق بنگلہ دیش حکام سینکڑوں روہنگیا مسلمان مردوں کو شہید، بچوں کو ذبح، خواتین کی عصمت دری اور مسلمانوں کے گھر لوٹ کرا نہیں جلا رہی ہے۔ دو ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش داخل ہوگئے جن میں سے ۷۰ روہنگیاؤں کو گرفتار کر کے انھیں واپس ارکان بھیج رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مسلمانوں کو خوراک اور دوائیں نہ ملنے سے حالات مزید سنگین ہوگئے، بنگلہ دیشی حکومت نے بڑی تعداد میں آنے والے روہنگیا مسلمانوں کی امداد سے انکار کرتے ہوئے برمی حکومت سے کہا ہے کہ وہ مسلمانوں کو بنگلہ دیش آنے سے روکے، بنگلہ دیشی حکومت نے امدادی کارکنوں کو بھی روکتے ہوئے ان افراد کی گرفتاریاں شروع کر دی ہیں اور مسلمانوں کو واپس دھکیل رہی ہے۔
بی بی سی لندن کے مطابق برمی فوج سے اپنی زندگیاں بچانے کی خاطر بنگلہ دیش آنیوالے روہنگیا مسلمانوں کی حکومت بنگلہ دیش کی طرف سے ادویات، پانی اور کسی قسم کی مدد نہیں مل رہی ہے وہ بدترین حالات کے شکار ہیں انھیں بنیادی سہولتیں میسر نہیں، بنگلہ دیش میں ان کی زندگی اجیرن ہے ۹۰ فیصد سے زیادہ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے میں خستہ حال جھونپڑیوں میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
۱۶۸؍اسلامی ممالک میں ملائیشیا کے وزیراعظم ’’نجیب رزاق‘‘ اور ترکی کے وزیراعظم ’’طیب اردگان‘‘ نے ارکانی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر پرتاثیر بیان دے کر اور اپنی پوری کوشش کو بروئے کار لا کر اپنا فریضہ ادا کردیا ہے یہ حضرات واقعۃً قابل تعریف و تحسین ہیں۔
جب روہنگیا مسلمانوں پر برمی حکومت کے مظالم حد سے بڑھے اور قتل عام ، ملک بدری و عصمت دری نا قابل بیان حد تک اضافہ ہوا تو ’’ملائیشیا‘‘ اور عوام حرکت میں آئے، دسمبر ۲۰۱۶ء میں ملائیشی وزارت خارجہ نے برما کے سفیر کو خارجہ آفس میں بلا کر باضابطہ احتجاج کیا ہے اور میانمار کی قومی فٹ بال ٹیم کے ساتھ ملائیشی ٹیم کی سیریز روک دی ہے۔ ۴؍ دسمبر ۲۰۱۶ء کو ملائشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق نے دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کے ملک گیر احتجاجی سلسلے میں ریلی کی قیادت کی اور پر سوزو پرتاثیر خطاب کیا جس کے اہم نکات اور اقتباسات یہ ہیں۔
بس بہت ہو چکا میانمار کی وزیراعظم ہونے کے ناطے ’’آن سان سوچی‘‘ کو روہنگیاؤں کا قتل عام اور دیس نکا لا دینے کا سلسلہ بند کردینا چاہیے ورنہ ملائشیا اس معاملے پر شدید رد عمل ظاہر کرے گا او رمیانمار کے ساتھ سفارتی تعلقات کو منقطع اور تجارتی پابندیاں عائد کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔
ایشیائی ممالک کو برما کے خلاف سخت ایکشن لینا ناگزیر ہو چکا ہے اور ملائیشیا سفارتی و تجارتی چینلوں کی مدد سے میانمار کا ناطقہ بند کردینے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس سلسلے میں اہم اسلامی ممالک سے گفت و شنید و مشاورت کا سلسلہ جاری ہے ایشیائی ممالک اور اقوام متحدہ مل کر روہنگیا مسلمان کی نسل کشی رو کے۔
روہنگیاؤں کے ساتھ ایذا رسانی کا عمل اسلام کی توہین کے مترادف ہے روہنگیا مسلمان ہمارے بھائی ہیں ان کی مدد ہمارا فریضہ ہے اور برمی حکومت کو جان لینا چاہیے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کا نام و نشان نہیں مٹا سکتی، اس کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنی ہوں گی۔
ملائشی وزیراعظم نے انڈونیشی صدر ’’جوکوودودو‘‘ کو ایک ارجنٹ پیغام ایلچی کی مدد سے ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ بھی ’’جکارتہ‘‘ میں ’’کوالالمپور‘‘ کی طرح ایک ملین مارچ منعقد کریں اور برما پر واضح کردیں کہ روہنگیاؤں کو مزید کچلا اور دبایا نہیں جاسکتا۔
ہم کسی بھی موقع پر مسلمان بھائیوں (روہنگیاؤں)پر ہونے والے مظالم اور ان کی نسل کشی پر آنکھیں نہیں موند سکتے نہ ہی زبان بند کرسکتے ہیں وقت آگیا ہے کہ برما پر دباؤ ڈالا جائے اعداد و شمار کی رو سے اس وقت ملائیشیا میں ہجرت کرنے والے روہنگیاؤں کی رجسٹرڈ تعداد ساٹھ ہزار ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ تھیں ملائیشی وزیراعظم نجیب رزاق کے مفصل خطاب کی چند سرخیاں اور اقتباسات ملائیشیا عسکری لحاظ سے ایک کمزور اسلامی ملک ہے اس کے باوجود جس پر سوز اور پر اثر انداز میں ملائیشیا نے روہنگیا مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی اور سخت احتجاج کیا ہے وہ واقعۃً قابل صد لائق تحسین ہے جبکہ اس ریلی کی قیادت سے قبل ملائیشیا وزیراعظم نے برما کی وزیراعظم ’’آن سان سوچی‘‘ سے ملاقات کر کے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی لیکن برمی وزیراعظم نے ملاقات سے انکار کردیا۔ جس سے برما کی درندگی وسفا کی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اس وقت ملائیشیا میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد برمی کام کر رہے ہیں اس واقعہ کے بعد حکومت برما نے مزید افرادی قوت ملائیشیا بھیجنے پر پابندی عائد کردی ہے۔
ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں کہ امریکہ اور مغربی اقوام نے وحشی جانوروں (Wild life)، انواع و اقسام کی حیاتیاتی مخلوق اور آثار قدیمہ کے تحفظ کیلیے باقاعدہ ادارے قائم کر رکھے ہیں لیکن مظلوم انسانیت کی چیخوں اور فریادوں کا سننے والا اور ان پر کان دھرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ہمارے ملک میں سعودی عرب کی حمایت میں اور تحفظ حرمین شریفین کے نام پر کانفرنسز، سیمیناروں اور ریلیوں کانہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا اور یہ سب مساعی قابل تحسین ہیں لیکن روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کے لیے وہ ہمدردی دیکھنے میں نہیں آئی جبکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے
(1) ’’کائنات کے اس پورے نظام کی بساط کو لپیٹ دینا اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ایک (مظلوم) مسلمان کے قتل ناحق کے مقابلے میں معمولی بات ہے‘‘(سنن ترمذی :۱۳۹۶)
(2) ’’عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کعبہ کے طواف کے دوران یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ (اے کعبۃ اﷲ) تو کتنا پاکیز ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے اور تیری حرمت کس قدر عظیم المرتبت ہے (مگر) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی جان ہے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک (بے قصور مومن کی جان و مال کی حرمت تجھ سے بھی زیادہ ہے اور یہ کہ ہم مومن کے بارے میں (ہمیشہ) اچھا گمان رکھیں‘‘ (سنن ابن ماجہ:۳۹۳۱)
پاکستان میں تو صرف احتجاجی ریلیاں نکالی جاسکتی ہیں جن میں محض اپنے جذبات کا اظہار مقصود ہوتا ہے کیونکہ ہماری بے توقیری کی وجہ سے عالمی سطح پر اس کے اثرات مرتب نہیں ہوتے یعنی نوٹس تک نہیں لیا جاتا لیکن امت مسلمہ کے وہ باشعور اور تعلیم یافتہ افراد جو امریکہ اور یورپ میں باعزت اور محفوظ زندگی گزار رہے ہیں، انھیں چاہیے کہ روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کی طرف عالمی برادری، اقوام متحدہ اور حقوق انسانی کی تنظیموں کو متوجہ کرنے کے لیے کوئی منظم تحریک برپا کریں، شاید ان کی کوئی اشک شوئی ہو سکے۔ انھیں چاہیے کہ ان کی بد حالی اور حالت زار کے مشاہدے کے لیے ایک حقائق نامہ جمع کرنے والا وفد (Fact Finding Group) بنا کر بھیجیں تاکہ مصدقہ حقائق دنیا کے سامنے آسکیں۔ ان مظلوم مسلمانوں کی اخلاقی اور علامتی حمایت بھی ہوسکے اور کسی حد تک میانمار کی ظالم حکومت کو رحم پر آمادہ کیا جاسکے۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے لیے عالمی سطح پر ایک فنڈ قائم کیا جائے اور حکومت پاکستان کو چاہیے کہ کم از کم اس سلسلے میں پہل کرے اور دوسرے مسلم ممالک کو بھی اس کار خیر پر آمادہ کرنے کے لیے سفارتی سطح پر اقدامات کرے۔
لیکن مقام شرم ہے کہ گلے کٹ رہے ہیں زندہ مسلمانوں کو سمندر میں پھینکا جا رہا ہے غریب مسلمانوں کے گھر اور ان کی مساجد جل رہی ہیں مگر پورے عالم اسلام میں کوئی بھی ایسا نہیں جو ان دہشت گردوں کا ہاتھ روک سکے۔ برما کی فوج پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی بلوائیوں کے ساتھ اس قتل عام میں پیش پیش ہیں اور ان کی طرف سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو اس لیے مسلم اکثریتی آبادی میں نہیں آنے دیا جاتا تاکہ دنیا حقائق سے لاعلم رہے۔ عالم کفر کی لونڈی اقوام متحدہ سے تو شکوہ و فریاد ہی فضول ہے۔ اس کی ڈھٹائی دیکھئے کہ مظلوم مسلمانوں کے قتل عام کو مسلم بدھ فسادات قرار دیا جارہا ہے، سوال یہ ہے کہ اوآئی سی کو کیوں سانپ سونگھ گیا ہے؟ رابطہ عالم اسلامی اور اس جیسی دیگر اسلامی تنظیمیں کیوں مہر بلب ہیں؟ آخر انھیں برما کے مسلمانوں کا لرزہ خیز قتل عام کیوں نظر نہیں آرہا؟ کیا دنیا کے نقشے پر کوئی ایک بھی مسلم ریاست ہے جو برما کے ہزاروں مسلمانوں کی قاتل دہشت گرد بدھ تنظیم ’’مگھ ملیشیا‘‘ کو لگام دے اور برما حکومت پر بھی واضح کردے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کا قتل عامل بند کروائے۔
شاید ظلم و ستم کا کوئی حربہ اور طریقہ ایسا نہیں رہا جو روہنگیا مسلمانوں پر آزمایا نہ گیا ہو، ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۶ء سے جو مظالم شروع ہوئے اور ظلم کے جو نرالے حربے استعمال کیے گئے ان میں سے چند حربے و طریقے یہ ہیں۔
۱۔ ارکان کے اکثرو بیشتر علاقوں کے گھروں اور گھونسلہ نما جھونپڑیوں کی چار دیواری ہٹادی گئی اور کہا گیا کہ ان چار دیواریوں میں دہشت گرد چھپے رہنے کا امکان ہے اس سے نظام پر دہ ختم ہوگیا۔
۲۔ ارکان کے اکثر و بیشتر علاقوں میں موجود مسلمانوں کے دو منزلہ مکانوں کو مسمار کردیا جائے ورنہ ان کو جلا دیا جائے گا، دو منزلہ مکانوں کو اس لیے توڑنا ہے کہ دوسری منزل کو دہشت گرد بطور چوکی استعمال کرسکتے ہیں، چنانچہ اکثر لوگوں نے اپنے دو منزلہ مکان اپنے ہاتھوں سے مسمار کیے، جلانے کی صورت میں نقصان زیادہ ہوگا۔
۳۔ مسلمانوں کی زمین چھین کر مگھوں کو دے دی گئی، پھر وہی مگھ یہی زمین کاشت کاری کے لیے بطور کرایہ مسلمانوں کو دیتے ہیں مسلمان دھان و چاول کی فصلیں تیار کرتے ہیں، جب فصلیں تیار ہوتی ہیں تو مگھ لوگ دہشت گردی کرتے ہوئے فصلیں کاٹ کر لے جاتے ہیں اس کے بعد مگھ مالکان آکر کہتے ہیں کہ جن مگھ دہشت گردوں نے فصل کاٹی ہے ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے لہٰذا ہمیں اپنا حصہ دو، یوں ان لوگوں کو چارونا چار جیب سے مگھ مالکان کو ان کا حصہ دینا پڑتا ہے۔ مگھ دہشت گردوں کے نزدیک مسلم عورتوں سے اجتماعی و انفرادی زیادتی کرنا کار ثواب ہے اس لیے اس مرتبہ ارکان میں کثیر انداز میں مسلم عورتوں سے اجتماعی و انفرادی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔
۴۔ ارکان کے بہت سے مسلم علاقوں میں حفاظتی اور شناختی انجکشن کے نام پر لگوائے گئے جس سے وہ شخص دو تین دن کے بعد مرجاتا ہے۔
۵۔ بعض مسلم قیدیوں کو زبردستی غلاظت اور گندگی کھلائی گئی۔
۶۔ بعض عورتوں کو قتل کر کے خون کپ میں ڈالا گیا پھر کہا گیا اگر میں یہ حرکت نہ کرتا تو پاگل ہوجاتا۔
۷۔ مسلم ارکانی قیدیوں سے گڑھے کھدوائے گئے اور انھیں کو کہا گیا کہ دوسرے ارکانی قیدیوں کو پکڑ کر ان گڑھوں میں ڈالیں اور زندہ دفن کردیں، اس طرح ارکانی مسلم قیدیوں نے خندقیں تیار کیں اور اپنے ہاتھوں سے اپنے بھائی کو پکڑ کر ان میں زندہ دفن کیا۔
بربریت اور ہر لمحہ موت کے خوف کی قدم قدم پر آہٹ روہنگیا مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہے اور اسی پر بس نہیں بلکہ اذیت ناک مراحل سے گزرتے ہوئے ہجرت کرنے والے مظلوم روہنگیا مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو تھائی لینڈ اور بھارت پہنچے۔ ان کے اعضاء کی وسیع پیمانے پر فروخت شروع ہوگئی اور پاک دامن وعفیفہ بچیوں کے ساتھ شرمناک سلوک روا رکھا جارہا ہے۔
کہیں کھلے سمندر کی گہرائیاں ان بے آسرا مظلوم مسلمانوں کی قبریں بن رہی ہیں۔ حتیٰ کہ لاشیں سطح سمندر پر عرصہ دراز نظر آتی رہیں۔ جن کے دودھ پیتے بچوں کو آگ کے شعلوں پر بھون دیا گیا۔ پیچھے بچ جانیوالے مسلمانوں کی پیدائش و افزائش پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ اور جو بنگلہ دیش کے بارڈر پر بے بسی کی تصویر بنے قید خانے نما کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں وہ سکھ کا سانس لینے کے لیے ترس رہے ہیں جو بھوک افلاس اور پیاس میں مبتلا ہیں جن کی کفالت وہ این جی اوز کر رہی ہیں جو مستقل عیسائیت اور دھریت کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر ان پر مسلط ہوئی ہیں۔ درجنوں خاندان انھی این جی اوز کے نرغے میں آکر مرتد ہوچکے ہیں۔
لیکن یہ قابل اطمینان صورت واضح ہو رہی ہے کہ گزشتہ کم و بیش ۳۱ سال سے علماء و مشائخ کے مشورے سے بننے والے ’’خالد بن ولید ٹرسٹ‘‘ارکان برما کی خدمات ناصرف لائق تحسین ہیں بلکہ تمام تر داخلی و خارجی مشکلات درپیش ہونے کے باوجود اور مالی مسائل آڑے آنے کے باوجود پوری تندہی اور ایمانداری کے ساتھ مکمل فلاحی اور تعلیمی سطح پر خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان کی متعدد سیاسی و مذہبی جماعتوں کا بھر پور اعتماد شامل حال ہے۔
جس کے مرکزی امیرمولانا عبدالقدوس برمی:0336-7048341 ہیں۔ جن کی قائدانہ اور درد مندانہ کوششوں نے روہنگیا مسلمانوں میں ایک نیا حوصلہ پیدا کیا ہے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ اپنے عطیات، زکوٰۃ، صدقات وغیرہ کے ذریعے مظلوم روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ تعاون کو یقینی بنایا جائے رابطہ کے لیے فون نمبرز درج ذیل ہیں۔
0321-2268094 0322-2580221