ابومروان معاویہ واجد علی ہاشمی
گورنمنٹ برطانیہ نے ۱۸۶۹ء کے شروع میں برٹش پارلیمنٹ کے ممبروں برطانوی اخبارات کے ایڈیٹروں اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد سرولیم کی زیر قیادت ہندوستان میں بھیجا تاکہ اس بات کا کھوج لگایا جاسکے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو کس طرح رام کیا جاسکتا ہے۔ یہ برطانوی وفد ایک سال ہندوستان میں رہا اور حالات کا جائزہ لیتا رہا اس وفد نے “The Arrival of British Empire in India” ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی آمد کے عنوان سے دو رپورٹس لکھیں جس میں انھوں نے لکھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی اور مذہبی پیشواؤں کی اندھا دھند پیروکار ہے۔ اگر کوئی ایسا شخص مل جائے جو الہامی سند پیش کرے تو ایسے شخص کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر اس سے برطانوی مفادات کے لیے مفید کام لیا جاسکتا ہے۔ (رپورٹ انڈیا آفس لائبریری لندن) چنانچہ رپورٹ کو سامنے رکھتے ہوئے تاج برطانیہ کے حکم پر ایسے موزوں اور با اعتبار شخص کی تلاش شروع ہوئی جو برطانوی حکومت کے استحکام اور مفادات کے لیے الہامات کا ڈھونگ رچا سکے برطانوی حکومت کی قصیدہ گوئی اور مدح سرائی جس کی نبوت کا دیباچہ ہو۔ جو ملکہ وکٹوریہ کے لیے رطب اللسان ہو۔ چنانچہ برطانوی تھنک ٹینک نے ہندوستان میں ایسے شخص کے انتخاب کے لیے ہدایات جاری کیں پنجاب کے گورنر نے اس کام کی ڈیوٹی ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے ذمہ لگائی برطانوی جاسوس انگریزی نبی کی تلاش میں مصروف ہوگئے۔ آخر کار قرعہ فال منشی غلام احمد قادیانی کے نام نکلا۔
برطانوی ہند کی سنٹرل انٹیلی جنس کی روایت کے مطابق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے چار اشخاص کو انٹرویو کے لیے طلب کیا نبوت کے لیے مرزا قادیانی کو نامزد کیا۔انگریزی اطاعت کی خاندانی گھٹی مرزا قادیانی کے ر گ و ریشہ میں رچی بسی ہوئی تھی۔ منشی غلام احمد قادیانی جو کہ سیالکوٹ کی ایک کچہری میں ایک اہلمد تھا۔ ہر لحاظ سے انگریز حکومت کی خدمت اور برطانوی مفادات کے تحفظ کے لیے موزوں اور قابل اعماد شخص تھا کیونکہ اسکا خاندان شروع ہی سے برطانوی سامراج کی خدمت اور کاسہ لیسی میں مشہور تھا مرزا کے والد غلام مرتضیٰ نے جنگ آزادی ۱۸۵۷ء میں ۵۰ گھوڑے بمعہ سواروں کے انگریزوں کی مدد کے لیے دیے تھے۔ اس کے بھائی غلام قادر مشہور سفاک او رظالم جنرل نکلسن کی فوج میں شامل رہا تھااور اس نے مسلمانوں کے خون میں ہاتھ رنگے تھے۔
یہاں پر ایک واقعہ جسے مرزا قادیانی کی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔ وہ پادری بٹلر ایم اے کی لندن واپسی ہے۔ یہ پادری برطانوی انٹیلی جنس کا ایک رکن تھا اور مبلغ کے روپ میں کام کررہا تھا۔ مرزا نے مذہبی بحث کی آڑ میں ان سے طویل ملاقاتیں کیں اور برطانوی راج کے قیام کے لیے اپنی ہر قسم کی خدمات پیش کیں۔ ۱۸۶۸ء میں بٹلر واپس لندن جانے سے پہلے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا خفیہ بات سیالکوٹ کچہری میں ہوئی جس کا ڈپٹی کمشنر ایک یہودی پارکنسن (parkinson) تھا۔ معاملات کو حتمی صورت دی گئی۔ اس ملاقات کاذکر (حوالہ نمبر۱:مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا محمود احمد نے سیرت مسیح موعود ربوہ صفحہ: ۱۵) پر بھی کیا ہے) (حوالہ نمبر۲:اخبار الفضل قادیان ۲۴؍اپریل ۱۹۳۴ء) میں بھی یہ تفصیل قدرے موجود ہے۔ اسی سال ۱۸۶۸ء میں مرزا قادیانی بغیر کسی معقول ظاہری وجہ کے اہلمد کی نوکری سے استعفیٰ دے کر قادیان چلے گئے کچھ ہی دنوں کے بعد مرزا قادیانی کو گمنام منی آرڈر ملنے شروع ہوگئے جن پر نام اور پتہ نہیں تھا۔ لیکن حقیقت میں پادری بٹلر لندن سے یہ بھیج رہاتھا۔ اس کے بعد مرزا قادیانی نے برطانوی حکومت کے ایجنڈے پر کام کرنا شروع کردیا۔ ایک غدار خاندان کے فرد مرزا قادیانی کا یہودی افسروں اور جاسوس مشتری اداروں کے سربراہوں سے ربط ضبط اور ان کا یہودی ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ پار کنسن کی شہ بٹلر پادری کی ترغیب پر نوکری چھوڑ کر نام نہاد اصلاحی تحریک کا آغاز کرنا یہ سب واقعات اس عظیم سیاسی سازش کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مذہبی روپ دھار کر احمدیت کی صورت میں منظر عام پر آئی۔
۱۸۸۰ء سے مرزا قادیانی نے اپنے دعوؤں کا آغاز کیااور کہا کہ میں ملہم من اﷲ ہوں۔ ۱۸۸۲ء میں مجدد ہونے کا ۱۸۹۱ میں مسیح موعود ہونے کا ۱۸۹۹ء میں ظلی بروزی نبی ہونے کا اور ۱۹۰۱ء میں مستقل صاحب شریعت نبی ہونے کا دعویٰ کیا ان دعوؤں کے علاوہ بھی اِس نے بیسوؤں دعوے کیے۔
مرزا قادیانی کے ان ملحدانہ اور زندیقانہ و کافرانہ عقائد کو دیکھتے ہوئے سب سے پہلے علمائے لدھیانہ نے اس کے کفر کا فتویٰ صادر فرمایا۔ اگر قادیانیوں کی وجوہ تکفیر پر غور کریں تو یہ مندرجہ ذیل نظر آتیں ہیں۔
۱۔ مرزا قادیانی کا دعویٰ نبوت
۲۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بغیر باپ ولادت کا انکار
۳۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی اور قرب قیامت میں ان کے دوبارہ آنے کا انکار
۴۔ حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور سیدہ مریم سلام اﷲ علیہا کی شان میں ناقابل بیان گستاخیاں
۵۔ حضرت مسیح کے علاوہ دیگر انبیاء کی اہانت خصوصاً حضور پرنور صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان میں بے ادبی و گستاخی
۶۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا انکار
۷۔ مرزا کو نہ ماننے والے مسلمانوں کی تکفیر
۸۔ اسلامی فریضہ جہادکا انکار
ان کے علاوہ اور بھی تکفیر کی وجوہ ہیں۔ مثلاً امہات المؤ منین رضی اﷲ عنہن، بنات رسول، خاندان رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور اہل بیت رسول کی توہین و گستاخی قادیانیت کے خمیر میں رچی بسی ہوئی ہے ۔ یعنی اسلامی مقدس شخصیات شعائر اسلام کی توہین و استہزا کے علاوہ دین اسلام کے مقابلہ میں قادیانیت کو کھڑا کرنا ااور اپنے ملحدانہ و زندیقانہ عقائد کو اسلام کے نام پر پیش کرنا پوری ملت اسلامیہ کو کافر کہنا، ان کے پیچھے نماز نہ پڑھنا، عبادات سے لے کر معاملات قادیانی مسلمانوں سے ایک الگ وجود رکھتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں اس بات کے کئی ثبوت پوشیدہ ہیں۔ تقسیم کے وقت گورداسپور میں ۵۱فیصد مسلمان تھے ۴۹ فیصد ہندو تھے۔ اور ۲فیصد قادیانی تھے۔ طے یہ تھا کہ اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا اس موقع پر قادیانیوں نے ہندوؤں کا ساتھ دیا جب یہ مسلمانوں سے علیحدہ ہوگئے تو مسلمان ۴۹ فیصد رہ گئے او رہندو۵۱ فیصد ہوگئے اس سے گورداسپور جاتا رہا جس سے کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوگیا کیونکہ زمینی واحد راستہ کشمیر کی طرف صرف گورداسپور ہی سے جاتا تھا بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر کے قبضہ کر لیا۔ دراصل تقسیم کے وقت انگریزوں، ہندوؤں اور قادیانیوں نے پاکستان کے خلاف کئی سازشیں کیں جو ابھی تک پاکستان کے مسائل میں اضافہ کر رہی ہیں۔ ان کا ہیڈ کواٹر قادیان سے سابقہ ربوہ چناب نگر منتقل ہوگیا اور انگریزکا یہ ٹوڈی گروہ آج تک عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کے خلاف گھناؤنی سازشوں میں مصروف ہے۔ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو جب دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی ملک اپنی فکر اور نظریے کی بنیاد پر نمودار ہوا تو اس نوزائیدہ کے لیے قادیانی گماشتوں نے کیا کیا سازشیں کیں، کیا منصوبے بنائے اور اس کی سلامتی کے خلاف کیا کچھ کیا اور کیا ابتک کر رہے ہیں یہ بھی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔
قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں محمد علی جناح کو جن بے پناہ مسائل اور مشکلات کا سامنا تھا ایک موقع پر محمد علی نے فرمایا میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ وہ ان کھوٹے سکوں سے کام چلا رہے تھے یہ حقائق بڑے تفصیل طلب ہیں کہ محمد علی جناح نے بعض محبوریوں کے تحت جنرل سرڈگلس گریسی کو آزاد و خود مختار ریاست پاکستان کی فوج کا کمانڈر انچیف، سردار جو گندر ناتھ مینڈل کو وزیر قانون اور ظفر اﷲ خان قادیانی کو وزیر خارجہ لینے کا فیصلہ بادل نخواستہ قبول کیا۔ پاکستان کی پہلی کا بینہ اور پاکستان کیوں ٹوٹا، کے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریز وائسرائے کے دباؤ کے تحت یہ فیصلے تسلیم کیے تھے ان تاریخی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز وائسرائے نے ظر اﷲ خان قادیانی کی تقرری پر بہت اصرار کیا اور یہاں تک دھمکی دی کہ جب تک یہ اعلان نہیں کیا جاتا اختیارات کی منتقلی نہ ہوسکے گی۔ (پاکستان کی پہلی کابینہ) اس ملعون وزیر خارجہ نے اپنے غیر ملکی آقاؤں کے حکم اور اپنی جماعت احمدیہ کے زاویہ نگاہ سے خارجی پالیسی وضع کی۔ غیر ممالک میں ہمارے خارجہ دفاتر کو قادیانیت کی تبلیغ اور جاسوسی اڈوں میں تبدیل کیا۔ سامراجی یورپی ممالک خصوصاً امریکہ و برطانیہ سے تعلقات مضبوط کیے۔ عربوں کی جاسوسی کے لیے مختلف ممالک میں قادیانی مشن قائم کیے۔ پوری دنیا میں بین الاقوامی سطح پر قادیانیت کو مضبوط کیا۔ یہی وہ وقت ہے جب قادیانیت کو پاکستان کے کلیدی عہدوں پر متمکن ہونے کا موقع ملا۔ اور قادیانیت کو پاکستان کی سیاست اور اسٹیبلشمنٹ میں (اور بیوروکریسی میں داخل ہونے کا موقع مل گیا)۔ اس وقت سے لے کر آج تک قادیانی بڑے بڑے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں قادیانیت کا اثر رسوخ اس قدر بڑھ گیا کہ قائد ملت لیاقت علی خان جو پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے اور احرار رہنماؤں کی محنت کوشش سے قادیانی سازش کو کافی حد تک سمجھ چکے تھے (قادیانیوں نے اس وقت کی مسلم لیگی حکومت پنجاب کے وزیراعلیٰ مسٹر دولتانہ اور گورنر عبدالرب نشتر، وزیر داخلہ مشتاق احمد گورمانی اور قادیانی وزیر خارجہ ظفر اﷲ نے ایک سازش کے ذریعے ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۵۱ء کو گولی مار کر قتل کروایا۔ قتل کی یہ سازش قادیانیوں نے تیار کی اور مسلم لیگی حکومت کے یہ افراد اس سازش کا باقاعدہ حصے بنے تھے۔
روزنامہ جنگ نے ہفت روزہ تکبیر ۱۹۸۶ء کراچی کے حوالہ سے مضمون شائع کیا، جس میں پاکستان کے سراغ رساں جیمز سالومن ونسنٹ کی یادوں کے حوالے سے بتایا گیا کہ پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو سیدا کبرنے نہیں بلکہ کنزے نامی جرمن قادیانی نے قتل کیا تھا۔ کنزے کی پرورش قادیانی لیڈر سر ظفر اﷲ نے کی تھی۔ کنزے پہلے عیسائی تھا پھر اس نے قادیانیت اختیار کی قادیانی گھرانے میں شادی کے بعد وہ پاکستان مقیم ہوگیا کنزے سرظفر اﷲ خان قادیانی وزیرخارجہ کے بھائی چوہدری عبداﷲ کے پاس باقاعدگی سے آیا کرتا تھا۔جب کنزے نے لیاقت علی خان کو گولی ماری تو پولیس سے جو پوری طرح ملوث تھی اور وقت کے سازشی سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی ہدایت پر سیداکبر کو گولی ماردی اور اسے ہی قاتل کی حیثیت سے مشہور کردیا گیا۔ وزیراعظم کو راولپنڈی میں قتل کرنے کے بعد کنزے سیدھا ربوہ (چناب نگر) پہنچا اور پھر وہاں سے اسے باہر بھیج دیا گیا (روزنامہ جنگ لاہور ۹؍مارچ ۱۹۸۶ء)
اس قتل کے محرکات معلوم کرنے کے لیے کچھ بیرونی ماہرین بھی پاکستان آئے اور اس بارے میں ایک رپورٹ تیار کی اور اس رپورٹ کی دستاویزات راولپنڈی سے کراچی بذریعہ طیارہ لے جائی جارہی تھی چو آسیدن شاہ کی پہاڑیوں میں وہ طیارہ گراکر تباہ کر دیا گیا اس طیارے کا پائیلٹ قادیانی تھا جو اسے چلا رہا تھا۔ (روزنامہ آزاد لاہور ۱۹۵۱ء)
۱۹۶۵ء کی جنگ میں سارے ملک میں بلیک آؤٹ ہوتا تھا۔ لیکن پاکستان کے اندر ایک چھوٹا ساپُراسرار شہر ایسا بھی تھا جہاں بلیک آؤٹ کی صریحاً خلاف ورزی ہوتی تھی وہ شہر قادیانیوں کا ہیڈ کواٹر ربوہ تھا۔ ربوہ کے اندر بلیک آؤٹ کی خلاف ورزی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ربوہ کی یہ روشنیاں بھارتی فضائیہ کے طیاروں کو سرگودھا کے اہم فضائی مرکز کا محل وقع بتانے کے لیے تھیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سرگودھا اندھیرے میں بھی دشمن کے نشانوں کا شکار بنا رہا۔ کیونکہ بھارتی فضائیہ کو سرگودھا چھاؤنی کے اہم ہدف بتانے والے اور مخبری کرنے والے قادیانی تھے۔ جبکہ ربوہ (چناب نگر) اپنی فضاؤں میں بکھرتی ہوئی روشنیوں کے باوجود بھی محفوظ رہا بالآخر پاک ایئر فورس کی شکایت پر واپڈا کو ربوہ کی برقی رو بھی بجلی کا کنکشن کاٹنا پڑا کیونکہ ربوہ کے ایک طرف سرگودھا کا اور دوسری طرف فیصل آباد کا ہوائی اڈا تھا۔ آفس ریکارڈ میں اس کا اندراج چٹھی نمبر ۱۱۳۵؍ مجریہ ۱۴؍ستمبر ۱۹۶۵ء ہے جب اس بات کا چرچا ہوا تو قادیانی جماعت نے روایتی عیاری ومکاری سے واپڈا کے ریکارڈ سے اس تاریخی غداری کے دستاویزی ثبوت کو غائب کروادیا۔
پاک فوج میں موجود قادیانی جرنیلوں نے ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگوں میں جو بھیانک کردار ادا کیا ہے وہ بھی آن دی ریکارڈ ہے۔ ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھی قادیانی جماعت کا رول اسرائیل میں قادیانی مشن ہو یا یہود و ہنود کے ساتھ قادیانی گٹھ جوڑ ہو یہ وہ قرین واقعات ہیں جو تاریخ کے سینے میں آج بھی مدفون ہیں۔
۷؍ستمبر کا ذکر کرنے سے پہلے تحریک قادیانیت کے پس منظر کا ذکر کرنا ضروری تھا۔ جب پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ ایک قادیانی چودھری ظفر اﷲ خان کو بنایا گیا تو اس نے اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانیوں کو کلیدی عہدوں پر تعینات کیا۔ ملک کی انتظامی مشینری میں قادیانی اثر ونفوذ میں روز بروز اضافہ ہونے لگا۔ ۱۹۵۳ء میں قادیانی وزیرخارجہ کو ہٹانے اور قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کے لیے پورے ملک میں تحریک چلائی گئی۔ تحریک میں امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ ان کے احرار رفقاء حضرت مولانا سید ابوالحسنات قادری جو کہ قائد تحریک تھے۔ مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمتہ اﷲ علیہ سمیت تمام دینی اکابر موجود تھے۔ اس وقت کی حکومت نے گورنر جنرل ناظم الدین کی ہدایت پر تحریک ختم نبوت کے قائدین کو جیل میں ڈال دیا کرفیو لگا دیا گیا۔ ریاستی تشدد کے شرم ناک استعمال سے وقتی طور پر تحریک دبادی گئی مولانا عبدالستار نیازی اور مولانا مودودی رحمہما اﷲ کو سزائے موت سنائی گئی۔
۱۹۷۳ء میں آزاد کشمیر اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے دیا۔ ۲۲؍مئی ۱۹۷۴ء کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ کا ایک گروپ شمالی علاقہ جات میں سیر وتفریح کی غرض سے ملتان سے پشاور جانے والی گاڑی چناب ایکسپریس کے ذریعے روانہ ہوا جب گاڑی ربوہ (موجودہ چناب نگر) ریلوے اسٹیشن پہنچی تو مرزائیوں نے گاڑی میں اپنا کفرو ارتداد پر مبنی لٹریچر گاڑی میں تقسیم کرنا شروع کیا۔ جس سے ان طلبا اور قادیانیوں میں جھڑپ ہوتے ہوتے رہ گئی قادیانیوں نے ان طلباء کو سبق سکھانے کے لیے واپسی پر ان کو مارنے اور تشد کرنے کامنصوبہ بنایا۔ چنانچہ واپسی پر طلباء کو مارنے کے لیے (مرزا طاہر جو کہ بعد میں خلیفہ بھی بنا) کی قیادت میں ایک جم غفیر تھا جو ربوہ اسٹیشن پر جمع تھا ان طلباء پر ٹوٹ پڑا اور ان طلباء پر قادیانی گماشتوں نے بے پناہ تشدد کیا، زدو کوب کیا اور ان طلباء کو مار مار کر لہولہان کردیا۔ آناً فاناً یہ خبر ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ پورے ملک میں احتجاجی ریلیوں، جلسوں اور جلوسوں کا سیلاب امڈ آیا تحریک آہستہ آہستہ زور پکڑتی جارہی تھی۔ ۹؍جون ۱۹۷۴ء کے اجلاس میں مولانا محمد یوسف بنوری رحمتہ اﷲ علیہ کی صدارت میں مجلس عمل کا اجلاس ہوا جسمیں ملک کی نمائندہ دینی وقومی شخصیات نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں مولانا محمد یوسف بنوری رحمتہ اﷲ علیہ کو مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا کنوینئر مقرر کیا گیا۔۱۷؍جون کو فیصل آبادکے اجلاس میں ملک کی سیاسی و مذہبی جماعتیں شامل تھیں۔ علامہ بنوری کو صدر، علامہ محمود احمد رضوی رحمہما اﷲ کو سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا چنانچہ ۳۰؍جون ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے حزب اختلاف نے تاریخی قرار داد پیش کی جس پر ۳۷ کے قریب ارکان اسمبلی نے دستخط کیے تھے۔ مولانا مفتی محمود ، مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمد، سید محمد علی رضوی، چودھری ظہور الٰہی، مولانا ظفر احمد انصاری، مولانا نعمت اﷲ، مولانا محمد ذاکر (جامعہ آباد جھنگ) اور دیگر کئی ارکان اس قرار داد کے محرکین تھے۔ اﷲ ان سب کی قبروں کو منور فرمائے۔ اسمبلی میں معاملہ چلایا گیا بحث شروع ہوئی اس وقت کے اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے جس طرح مرزا ناصر اور لاہوری گروپ کے محمد علی پر جو جرح کی، سوالات کیے، وہ اپنی مثال آپ تھے۔ مرزا ناصر کی مومنانہ شکل صورت داڑھی پگڑی اور جبہ قبہ میں چھپی ہوئی پارسائی اور روحانیت کا پول جب کھلا تو ارکان اسمبلی حیرت زدہ ہوگئے جب قادیانی پٹاری کا منہ پارلیمنٹ میں کھلا تو اس کے تعفن زدہ عقائد و نظریات سے پوری اسمبلی ششدر رہ گئی۔ تیرہ دن اسمبلی میں بحث ہوئی اور بالآخر ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء ۴ بج کر۳۵منٹ پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ ۶؍ستمبر یوم دفاع پاکستان کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ۱۹۶۵ء میں جب پوری قوم دفاع وطن کیلیے اکٹھی اور متحد تھی۔ اور ۷؍ستمبر یوم دفاع ختم نبوت کے طور پر ہے جب ۱۹۷۴ء میں تمام مکاتب فکر کے علماء عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور دفاع کے لیے متحد ہو کر ایک طویل جدوجہد اور بے مثال قربانیاں دینے کے بعد سرخرو ہوئے تھے۔ ۷؍ستمبر کا دن یوم حساب قادیانیت کا دن ہے۔امت مسلمہ اور اہلیان پاکستان کے لیے یہ دن مسرتوں خوشیوں کا دن ہے۔
پون صدی کی انتھک محنت اور لازوال قربانیوں کے بعد یہ دن امت کو نصیب ہوا۔ ۷؍ستمبر یوم تحفظ ختم نبوت کا دن ہے۔ ۷؍ستمبر یوم لشکر و امتنان منانے کا دن ہے۔ ۷؍ستمبر تجدید عہد عزم وہمت واستقال کا دن ہے۔ ۷؍ستمبر یوم نجات کا دن ہے۔
ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والی جماعتوں اور افراد کو مبارک باد قبول ہو جو صبح و شام رات دن ماہ و سال اس عظیم مشن کو حرزجاں بنائے ہوئے ہیں۔ عقیدہ ختم نبوت دین کی اساس و بنیاد ہے اس عقیدے کی حفاظت ہر دور کے مسلمان اپنی جانوں پر کھیل کر کرتے آئے ہیں۔ انشاء اﷲ امت قیامت تک اس عقیدہ ختم نبوت کا دفاع کرتی رہے گی۔
حوالہ جات
۱:قادیانیت کا سیاسی تجزیہ۔ ۲:تحریک ختم نبوت شورش کاشمیری۔ ۳:قادیان سے اسرائیل تک۔ ۴:کتاب البریہ از مرزا قادیانی۔۵:ستارہ قیصریہ۔ ۷:سیرت مسیح موعودص:۱۵۔ ۸:تاریخ احمدیت جلد اول دوست محمد شاہد قادیانی۔ ۹:Our Foreign Missions ۔ ۱۰: تحریک احمدیت، ۱۱: روزنامہ جنگ لاہور۹؍مارچ ۱۹۸۶ء، ۱۲: نوائے وقت لاہور یکم جنوری ۱۹۸۶ء، ۱۳: روزنامہ آزاد لاہور ۱۹۵۱ء، ۱۴ـ: نقیب ختم نبوت شمارہ ستمبر ۲۰۰۲ء
سلام
مندرجہ بالا کا حوالہ مطلوب ہے اگر پی ڈی ایف میں دستیاب ہو جائے تو