ڈاکٹرعمرفاروق احرار
ایک وقت تھاکہ سیاست شرافت کی علامت تھی اور اب نشانِ عبرت ونکبت ہے ۔کبھی خدمت تھی۔اب کاروبار ہے ۔کبھی آداب و مروت سے عبارت تھی اور اب سراسر تحقیروتذلیل کا ڈھیر ہے۔لحاظ ومروّت کبھی سیاست کے جوہرگنے جاتے تھے اوراب یہ عزت وعصمت کی نیلامی کی آماج گاہ ہے ۔وقت نہیں بدلا،بعض نابالغ و نیم پخت سیاسی فرزندوں نے اخلاقیات کو منڈی کی جنس اور اِختلاف کو گالی بنا دیا گیا ہے ۔نتیجہ عائشہ گلالئی کی اُبکائیوں کی صورت میں سامنے ہے۔ الزامات نے شرم وحیا کا سر جھکا دیا ہے ۔ابھی کل کی بات ہے کہ ایسے ہی شرمناک الزامات عائشہ احد نامی خاتون نے مسلم لیگ ن کے شریفوں پر بھی عائد کیے تھے ۔اﷲ کے آخری رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد کیا تھا کہ جب حیا اُٹھ جائے تو پھر جو جی میں آئے کرو۔نہ اُنہیں کچھ پرواہ ہے کہ جنہیں الزام دیا گیا اور نہ اُن کی پیشانی پر کوئی بل ہے کہ جو مظلومیت کا واویلا کیے جارہی ہیں۔دُکھ تو یہ ہے کہ طرفین میں کوئی ایک بھی ایسا شریف النفس آمادۂ عمل نہیں کہ جو اِس طوفانِ بد تمیزی کے آگے بند باندھ سکے !
قیام پاکستان کے فوراً بعدملکی سیاست میں اخلاقیات زوال پذیرہوتی گئیں۔لیاقت علی خا ن نے مسلم لیگ کے تقدس کا وَاویلاکرکے حزب اختلاف کوغدارکہہ ڈالا۔یہ سلسلہ ایسا چلاکہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔لیاقت علی خان کی شہادت کے بعداَیوب خان کا دورآیا۔انتخابات میں فاطمہ جناح ایوب خان کے مقابل ہوئیں توسرکاری مشینری فاطمہ جناح کی کردار کشی پرصرف کردی گئی۔اخلاقی قدروں کی رُسوائی اوربہتان تراشی کے سیلاب میں فاطمہ جناح کو شکست سے دو چار کر دیا گیا۔یہ بنیادی واقعات تھے کہ جن پر ہمارے مستقبل کی طرزِسیاست کی بنیادپڑی۔ آج جو موجودہ سیاسی ماحول میں عزت واِحترام، اخلاق وکرداراَوراَدب ولحاظ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے تو اس کا آغاز پاکستان کے ابتدائی سیاست دانوں کے ہاتھوں ہی ہو چکا تھا۔ شرافت ودِیانت جب عنقاہوجائے توبدعنوانی، حرام خوری اوربداَخلاقی کا رَاج ہوجاتا ہے اورصادق واَمین کی ڈُھنڈیاپڑجاتی ہے۔
چالیس کی دہائی میں قائداعظم نے مولاناابوالکلام آزادکو کانگریس کا ’’شو بوائے‘‘ کہہ ڈالا۔کوئی اورہوتاتو لوہاگرم دیکھ کرتُرت جوابی جملہ چست کرتا،مگر مجال ہے کہ مولانا آزادنے پلٹ کرجواب میں ایک لفظ بھی کہا ہو۔بلکہ اگر کسی نے دریافت کیابھی توبس یہی کہا کہ ’’میرے بھائی !موسمی ہوائیں ہیں،گزرجائیں گی۔‘‘اتنے قیامت آسا صبروتحمل کے لیے فولادی جگرچاہیے۔ مخالف کی تندوتیزی کے جواب میں تہذیب وشائستگی ملحوظ رکھناہی عظمت کی دلیل ہے ،کیونکہ اعترافِ عظمت کے لیے بھی صاحبِ عظمت ہونا ضروری ہوتاہے۔تحریک پاکستان کے دوران ممتازدیوبندی بزرگوں مولانا حسین احمدمدنی اورمولانا اشرف علی تھانوی میں شدید سیاسی اختلاف تھا۔مولانا مدنی کانگریس اورمولانا تھانوی مسلم لیگ کے مؤقف کے حامی تھے۔ مفتی محمد شفیع رحمہ اﷲ فرماتے ہیں: کہ اگرچہ حضرت مدنی کو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اﷲ کے سیاسی مسلک سے اختلاف تھا، لیکن ان کے قلب میں نہ صرف حضرت تھانوی کی قدر و منزلت کم نہ تھی ،بلکہ وہ حضرت تھانوی کے ساتھ اپنے بڑوں جیسا معاملہ ہی فرماتے تھے، چنانچہ مجھے یاد ہے کہ عین اس زمانے میں جبکہ حضرت تھانوی اور حضرت مدنی کا سیاسی اختلاف الم نشرح ہوچکا تھا،۔ایک مرتبہ حضرت مدنی نے دیوبند کے بعض اساتذہ سے کہا کہ عرصہ ہوا ہمارا تھانہ بھون جانا نہیں ہو،اور حضرت تھانوی کی زیارت کو دل چاہتا ہے،چنانچہ حضرت مدنی اور دارالعلوم دیوبند کے بعض دوسرے اساتذہ تھانہ بھون کے لیے روانہ ہوئے ۔اتفاق سے گاڑی رات گئے تھانہ بھون پہنچی،اور یہ حضرات ایسے وقت خانقاہ کے دروازے پر پہنچے کہ خانقاہ بند ہوچکی تھی۔ ان حضرات کو یہ معلوم تھا کہ خانقاہ کا نظام الاوقات مقرر ہے ، اس لیے نہ اِس نظام کی خلاف ورزی مناسب سمجھی اور نہ حضرت تھانوی کو رات گئے تکلیف دینا پسند کیا، چنانچہ حضرت مدنی اپنے ساتھیوں سمیت خانقاہ کے دروازے کے سامنے چبوترے ہی پر لیٹ کر سوگئے ۔حضرت تھانوی فجر کی اذان کے وقت جب اپنے مکان سے خانقاہ کی طرف تشریف لائے تو دیکھا کہ کچھ لوگ باہر چبوترے پر لیٹے ہیں۔ اندھیرے میں صورتیں نظر نہ آئیں۔چوکیدار سے پوچھا تواُس نے بھی لا علمی کا اظہار کیا۔قریب پہنچ کر دیکھا تو حضرت مدنی اور حضرت مولانا اعزاز علی جیسے حضرات تھے۔ حضرت تھانوی نے اچانک انہیں دیکھا تو مسرور بھی ہوئے اور اِس بات کا صدمہ بھی ہوا کہ یہاں پہنچ کر اِس حالت میں اُنہوں نے رات گزاری،چنانچہ اُن سے پوچھا کہ حضرت!آپ یہاں کیوں سو گئے ؟ تو حضرت مدنی نے فرمایا کہ ہمیں معلوم تھا کہ آپ کے یہاں ہر چیز کا نظم مقرر ہے۔ خانقاہ اپنے مخصوص وقت پر بند ہوجاتی ہے ، اور پھر نہیں کھلتی۔حضرت تھانوی نے فرمایا کہ خانقاہ کا تو نظم بلاشبہ یہی ہے ، لیکن غریب خانہ تو حاضر تھا، اور اِس پر توآپ جیسے حضرات کے لیے کوئی پابندی نہ تھی۔حضرت مدنی نے فرمایا کہ ہم نے رات گئے آپ کو تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا۔غرض اس طرح یہ حضرات تھانہ بھون گئے ، اور ایک دو روز رہ کر واپس تشریف لائے ۔‘‘
اِسی طرح کا سیاسی اختلاف مولاناحسین احمدمدنی اورعلامہ شبیراحمدعثمانی کے مابین بھی تھا۔دونوں حضرات کا قیام دیوبندہی میں تھا۔ایک دن دارالعلوم دیوبند میں مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اﷲ کی رہائش گاہ کے پاس حضرت مدنی رحمہ اﷲ کے حامی طلباء نے چند پرچیاں پھینکیں،جن میں نامناسب اور ناشائستہ جملے لکھے گئے تھے ۔حضرت مدنی کو جب اِس کا علم ہوا تو تمام طلباء کو مسجد میں جمع کرکے حضرت عثمانی کے مقام ومرتبہ سے انہیں آگاہ کرتے ہوئے خطاب فرمایا اور آخر میں فرمایاکہ:’’ جن طلباء نے یہ پرچیاں پھینکیں،میں اور تو کچھ نہیں کرسکتا،البتہ رات کے آخری حصے میں اُٹھ کر اُن کے لیے بد دعا کروں گا۔‘‘اب ایسی عظمتوں کے مالک کہاں ہیں؟
زندگی کے ہرشعبے کے لیے اخلاقی اقدارکی اہمیت ہے،مگرسیاست کے بازی گراَپنے آپ کو اَخلاقیات کے دائرے میں پابندرکھناہی نہیں چاہتے ۔ٹی وی چینلزپربھی اُنہی تیس مارخان سیاست دانوں کو بلایا جاتاہے جوزُبان کی قینچی سے مقابل کے حصے بخرے کرنے اورکھردرے الفاظ کی نوک سے مخالف کے بخیے اُدھیڑنے کے گُرجانتے ہوں۔ پارلیمنٹ میں بدزبانی،گالم گلوچ اورغلاظت میں لتھڑے ہوئے الزامات روٹین کا حصہ ہیں۔جنہیں عموماً غیرپارلیمانی الفاظ قرار دے کر پارلیمانی کارروائی سے حذف کرنا پڑتاہے۔ایسی عامیانہ زبان نہ تو چوک کے تھڑوں پر اورنہ دیہات کی چوپالوں میں اِستعمال کی جاتی ہے۔یہ تھوہرکے زہریلے اورنیم جیسے تلخ پھول صرف اُنہی کے منہ سے جھڑتے ہیں جواَعلیٰ تعلیم یافتہ اور مہذب ہونے کے دعوے دارہیں اورجن کے نزدیک علماء اوردِینی طبقہ بنیادپرست،جاہل اوراُجڈہے۔ شنید ہے کہ فرانسیسی حکومت ملکی سیاست میں بہتر اَخلاقیات کے لیے قانونی اصلاحات کاایک منصوبہ متعارف کرا رہی ہے ، جس کے بعد سیاستدانوں اور وُزرا کے لیے اقربا پروری مشکل ہو جائے گی اورقانوناً سیاست میں اخلاقیات کی اہمیت بڑھ جائے گی۔کاش ہمارے سیاست دانوں کے لیے بھی کوئی ایساکوڈآف کنڈکٹ نافذکیاجاتا!تاکہ اُن کے اخلاقی رویّے اورکردارمیں تبدیلی کے آثارنمودارہوسکتے!ہمارے سیاسی رہنما ؤں کو بھی علم ہوتاکہ ذاتی کرداراوراِجتماعی معاملات دونوں میں آدمی کو بے عیب اورشفافیت کاحامل ہونا چاہیے اوروہ یہ کہنے کی جسارت کبھی نہ کرسکتے کہ’’ میں شراب پیتا ہوں، غریبوں کا لہوتو نہیں پیتا۔‘‘